2
0
Friday 8 Mar 2013 18:28

دشمن شناسی میں دشمنی کا مفہوم(1)

دشمن شناسی میں دشمنی کا مفہوم(1)
تحریر: سید میثم ہمدانی
mhamadani@ymail.com 

انسان ہمیشہ سے دشمن کے ساتھ نبرد آزما رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ خصوصاً موجودہ زمانے میں اگر ہم اپنی ملت کے مسائل کو مدنظر رکھیں تو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ دشمن شناسی ہے، یعنی حقیقی دشمن کی پہچان، دشمن سے مقابلہ کے طریقہ کار اور اسی طرح کے دیگر مسائل۔ اس سے پہلے اس باب میں چند ایک معروضات پیش کی گئی ہیں اور کوشش ہے کہ اس سلسلے میں چند ایک سلسلے مزید پیش کئے جائیں، تاکہ دشمن شناسی کے موضوع پر کسی حد تک سیرحاصل بحث ہوسکے۔ امید ہے کہ یہ تمام باتیں مفید اور بارگاہ الہی میں مورد قبول واقع ہوں۔ 

دشمن کی شناخت سے متعلق پیغمبر اکرم (ص) اور آئمہ طاہرین (ع) سے بے شمار احادیث نقل ہوئی ہیں کہ جن میں سے بعض کی طرف یہاں اشارہ کیا جا رہا ہے: رسول خدا (ص) دشمن کی شناخت کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں
إلا و ان إعقل الناس عبد عرف ربه فإطاعه و عرف عدوه فعصاه (بحارالانوار، ج 77، ص 179، و الحياه ج 1، ص 36)
ترجمہ: آگاہ ہو جاؤ، لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند وہ ہے جو اپنے رب کو پہچان لے اور اسکی اطاعت کرے اور اپنے دشمن کو پہچان لے اور اسکی نافرمانی کرے۔ حضرت علی (علیہ السلام) دشمنان اسلام کے بارے میں فرماتے ہیں: "وہ اپنے سے بڑوں کے نافرمان اور اپنے سے چھوٹوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور ہمیشہ ظالموں کے دوست ہیں۔" امیر المومنین دشمن کے مکر و فریب کے بارے میں فرماتے ہیں
كن للعدو المكاتم إشد حذرا منك للعدو المبارز
"اپنے پوشیدہ دشمن سے اپنے آشکار اور ظاہر دشمن کی نسبت زیادہ ہوشیار رہو۔" ایک اور جگہ پر دشمن سے غافل رہنے اور اس کو کمزور تصور کرنے سے منع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 لاتستصغرن عدوا و ان ضعف 
ہرگز اپنے دشمن کو چھوٹا مت جاننا، اگرچہ وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
 آفه القوى استضعاف الخصم
 قدرتمند کی آفت (نقصان کا سبب) دشمن کو کمزور سمجھنا ہے۔ 
امام محمد تقی جواد (علیہ السلام) دفاع کی بنیادی شرط کو دشمن کی پہچان قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: 
من لم يعرف الموارد اعتيه المصادر
"جو اپنے دشمن کی سازشوں اور منصوبوں سے آگاہ نہ ہو، وہ ہدف تک پہنچنے سے عاجز ہے۔"

ان احادیث کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کامیابی کی ایک بنیادی شرط دشمن کی پہچان ہے۔ دشمن کی پہچان کروانا آئمہ اہل البیت (علیہم السلام) کی زندگی کا ایک بنیادی ہدف رہا ہے۔ آئمہ (علیہم السلام) نے شروع ہی سے یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کو ان کے اصلی دشمن سے آگاہ کیا جائے اور دشمن کے چہرے پر پڑی نقاب کو الٹ دیا جائے۔ امام علی (علیہ السلام) سے لیکر آخری امام تک سب اپنی زندگی میں دشمن سے نبرد آزما رہے اور قوم کو اس کے حقیقی دشمن کی طرف متوجہ کرتے رہے۔ امام حسن (علیہ السلام) کا دور ہو یا امام حسین (علیہ السلام) کا انہوں نے اپنی صلح کے ذریعے اور قیام کے ذریعے دشمن کے چہرے سے نقاب الٹا کر مسلمانوں کو دشمن کی چالوں سے محفوظ رکھا۔

دشمنی کا مفہوم 
دشمنی کی تعریف یہ ہے کہ دشمن وہ ہوتا ہے کہ جو شعور کے ساتھ اپنے مدمقابل سے اس انداز میں پیش آئے کہ اگر مدمقابل کو کوئی نقصان پہنچے تو اس کو اس بات کا کوئی خیال نہ ہو۔ یہ موجود انسان بھی ہوسکتا ہے اور غیر انسانی مخلوق مثلاً جن یا شیطان بھی۔ وہ ہر اس کام کو انجام دیتا ہے کہ جس کے ذریعے دوسرے کو نقصان پہنچا سکے، جبکہ دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں طرف ایک دوسرے کی نسبت یہ نہ چاہتے ہوں کہ ان میں سے کسی کو کسی قسم کا نقصان پہنچے، بلکہ وہ اپنے دوست کیلئے ہمیشہ فائدے کے ہی طالب رہتے ہیں اور اس دوستی میں کمال یہ ہے کہ دوست اس حد تک ایثار کا مالک ہو کہ اپنے دوست کو نقصان سے بچانے کی خاطر خود نقصان کو برداشت کرلے اور اپنے دوست تک نقصان کو نہ پہنچنے دے۔
 
انسان جب بھی کسی کو چاہتا ہو تو وہ اس کی خدمت کرتا ہے، اس کیلئے بھلائی کا طلبگار ہوتا ہے اور اس کو نقصان سے بچانے کی کوشش کرتا ہے، مثلاً اگر کوئی حیوان یا کوئی دشمن اس کے دوست پر حملہ آور ہو جائے تو وہ اس کا دفاع کرتا ہے۔ لیکن دشمن ایسا نہیں ہوتا، بلکہ وہ تو اس کو نقصان پہنچانے کا طلبگار ہوتا ہے، یا پھر کم از کم اس کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ مدمقابل کو کوئی نقصان پہنچے یا نہ پہنچے۔ دشمنی کی شرط یہ ہے کہ مدمقابل کی نسبت کینہ اور نفرت رکھتا ہو۔ حضرت آدم (ع) نے تو شیطان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا، لیکن وہ حسد کی بنا پر آپ سے دشمنی رکھتا تھا۔ 

پس ممکن ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی نسبت حسد کی بنا پر دشمنی رکھتا ہو۔ ممکن ہے کہ جس سے دشمنی کی جا رہی ہو، اس نے دشمنی کی نیت بھی نہ کی ہو، لیکن دشمن اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوتا ہے۔ ہم اگر انبیاء اور آئمہ (علیہم السلام) کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ بات بہت واضح انداز میں نظر آئے گی۔ انبیاء کرام اور آئمہ کسی کا نقصان نہیں چاہتے تھے، وہ کسی سے حسد نہیں کرتے تھے، یا ابتدائی طور پر کسی سے دشمنی کی نیت نہیں رکھتے تھے، لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کس طرح ان کے ساتھ دشمنی کی گئی۔ اولیاء خدا کے ساتھ جس طرح دشمنی کی گئی، اس کی تو کہیں اور مثال بھی نہیں ملتی۔ واقعہ کربلا اس بات کی روشن دلیل ہے۔ ان تمام دشمنیوں کی بنیاد حسد تھا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسد کس طرح وجود پاتا ہے۔ حسد ایک ایسی بری صفت ہے جو حاسد کو مدمقابل کے خلاف ہر قسم کے کام پر اکساتا ہے، حتی حاسد اپنا نقصان کرکے بھی اپنے مخالف کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ تاریخ کی کتب میں ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی سے حسد کرتا تھا، ایک دن اس نے اپنے غلام کو بلایا اور اس کو کہا کہ مجھے قتل کر دو اور میری میت کو میرے پڑوسی کے گھر میں پھینک دو، تاکہ وہ میرے قتل کے جرم میں سزا پا سکے۔ یعنی حاسد شخص اپنے نقصان کو بھی صرف اس وجہ سے برداشت کرلیتا ہے کہ کسی طرح مخالف کا نقصان ہوسکے۔ 

حسد کے پیدا ہونے کی بنیادی وجہ "حاسد" میں اس شے کی کمی یا اس صفت اور کمال کا فقدان ہوتا ہے، جو مخالف کے پاس موجود ہو۔ حاسد کہتا ہے کہ وہ مجھ سے بہتر کیوں ہے۔ اس کے بارے میں بہت سی مثالیں بیان کی جاسکتی ہیں۔ ممکن ہے حسد مادی امور میں ہو؛ مثلاً ممکن ہے کوئی شخص دوسرے کے مقابلے میں زیادہ دولت کا مالک ہو اور دوسرا اس سے حسد کرنے لگے، یا مثلاً دو ہم جماعت ہوں اور ایک زیادہ لائق ہو اور اساتید اس کو زیادہ مورد احترام قرار دیتے ہوں تو ممکن ہے باقی کلاس فیلو اس سے حسد کرنے لگیں یا پھر ممکن ہے یہ حسد معنوی امور میں ہو۔
 
قرآن مجید فرماتا ہے: 
وَدُّواْ لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُواْ فَتَكُونُونَ سَوَاءً فَلَا تَتَّخِذُواْ مِنهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتىَ‏ يُهاجِرُواْ فىِ سَبِيلِ اللَّهِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَخُذُوهُمْ وَ اقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَ لَا تَتَّخِذُواْ مِنهُمْ وَلِيًّا وَ لَا نَصِيرًا (نساء، آیت۸۹)
ترجمہ: وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہو جاؤ، جیسے کافر وہ خود ہیں، تاکہ تم سب یکساں ہو جاؤ، لہٰذا ان میں سے کسی کو اپنا حامی نہ بناؤ، جب تک وہ راہ خدا میں ہجرت نہ کریں، اگر وہ ہجرت سے منہ موڑ لیں تو انہیں جہاں پاؤ پکڑ لو اور قتل کر دو اور ان میں سے کسی کو اپنا حامی اور مددگارنہ بناؤ۔ کافر یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی مانند کافر ہو جاؤ، وہ اس بات سے حسد کرتے ہیں کہ آپ نے ایک ایسا کمال حاصل کرلیا ہے کہ جو ان کے پاس نہیں ہے۔ ان کی دشمنی کی وجہ ہی یہ ہے کہ آپ اہل ایمان کیوں ہیں۔
 
وہ چاہتے ہیں کہ آپ لوگ بھی کافر ہو جائیں اور ان کی طرح ہوجائیں۔ آج اگر بعض عالمی طاقتیں یا بعض جاہل گروہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتی ہیں تو اس کہ وجہ بھی یہی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ آپ بھی ان کی طرح کافر ہوجائیں۔ بہرحال دشمن کی دو حالتیں ہیں؛ پہلی ایسی حالت ہے کہ جس میں وہ نقصان پہنچانے کے درپے ہوتا ہے اور دوسری یہ کہ وہ فی الحال نقصان نہیں پہنچانا چاہتا، صرف اپنے مفاد اور مقاصد کے درپے ہوتا ہے لیکن اس کو اس بات کی بھی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ مدمقابل کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے یا نہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 245144
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

mashahAllah behooth zeberdasth leika hai
bus ager dushmun ko pehchan lia os k bad kia kerna hai wo b betha do plz.
ابوبکر
Pakistan
ہمیں آپس میں لڑائی جھگڑا نہیں کرنا چاہیے،
ہمیں اپنے دشمن کے بارے میں بھی اچھا سوچنا چاہیے۔
ہماری پیشکش