0
Monday 26 Apr 2010 12:17

صہیونیوں کی ندامت اور پشیمانی

صہیونیوں کی ندامت اور پشیمانی
 آر اے سید
صہیونی حکومت کی طرف سے لبنان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی اس قدر زيادہ ہو گئی ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے سلامتی کونسل میں پیش کردہ اپنی رپورٹ میں اس بات سے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی ان جارحانہ سرگرمیوں سے لبنان اور اسرائیل میں دوبارہ جنگ چھڑ سکتی ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اسرائیل کی طرف سے لبنان کی فضائي حدود کی مسلسل خلاف ورزی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے یہ اقدامات لبنان کی ارضی سالمیت کے خلاف اور سلامتی کونسل کی قراردادوں ایک ہزار پانچ سو انسٹھ اور ایک ہزار سات سو ایک کی واضح خلاف ورزي ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائيلی حکومت عالمی اداروں کے فیصلوں پر عمل کرے اور لبنان کی فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی سے باز آئے۔
لبنان کے وزير اعظم سعد حریری نے بھی صیہونی حکومت کے حالیہ اقدامات کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی دھمکیوں کا بنیادی ہدف لبنان میں عراق جیسی صورتحال پیدا کرنا ہے۔سعد حریری نے یہ بات زور دیکر کہی ہے کہ اسرائيل حزب اللہ کے دور مار اسکڈ میزائلوں کو بہانہ بنا کر اسی طرح کی فضا بنانا چاہتا ہے،جس طرح امریکہ اور اسکے حواریوں نے عراق میں عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگي کا جھوٹا الزام لگا کر عراق میں امریکی حملے کی فضا بنائی تھی۔عراق میں عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے نام پر ہی امریکہ نے عالمی برادری کے لئے عراق پر حملہ کرنے کا جواز گھڑا تھا۔لبنان کے وزير ا‏عظم نے لبنان کے خلاف صیہونی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائيل ہر سال موسم گرما کے آغاز میں جنگی دھمکیوں کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔تاکہ لبنان پورا سال سیاسی اور سلامتی کے بحران سے دوچار رہے۔سعد حریری نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل جتنا چاہے لبنان کو دھمکیاں اور فوجی حملے سے ڈراتا رہے۔بالآخر اسے علاقائی مسائل کو فوجی طریقے کی بجائے سیاسی طریقے سے حل کرنا پڑیں گے۔
لبنان کے وزیر ا‏عظم کی طرح لبنان فریڈم پارٹی کے سربراہ میشل عون نے بھی صیہونی حکومت کی طرف سے لگائے جانے والے اس الزام کو کہ شام نے لبنان کو دور مار اسکڈ میزائل دیئے ہیں کہا ہے کہ اسرائیل حکومت لبنان اور حزب اللہ پر اسکڈ میزائلوں کی موجودگی کا الزام لگا رہا ہے حالانکہ ان میزائلوں کی موجودگی کسی پر ثابت نہیں جبکہ دوسری طرف اسرائیل کے پاس سینکڑوں ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں جو سب پر ثابت شدہ ہیں اور انکا اسکڈ میزائلوں سے کسی صورت میں موازنہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔میشل عون نے لبنان پر اسرائیلی حملے کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو یہ اسکی بہت بڑی غلطی ہو گئی،کیونکہ اسرائيل نہ تو اس جنگ کو ختم کرنے پر قادر ہے اور نہ ہی اسے مطلوبہ اہداف حاصل ہو سکتے ہیں۔البتہ اس حملے کے بعد حکومت لبنان بالخصوص حزب اللہ کی عالمی اور عرب برادری میں مقبولیت میں مزيد اضافہ ہو گا اور اسرائیل اور اسکے حواریوں کے خلاف عالمی نفرت انتہا کو پہنچ جائیگي۔
حزب اللہ لبنان نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ وہ لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کی ہر ممکنہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔لبنان میں ایک سفارتی ذریعے نے کہا ہے کہ حزب اللہ مکمل طور پر آمادہ ہے اور وہ صیہونی حکومت کی ہر طرح کی جارحيت کا مقابلہ کرنے کو اپنا حق مانتی ہے،اور صیہونی حکومت بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ حزب اللہ تینتیس روزہ جنگ کے بعد سے بہت زیادہ طاقتور بن چکی ہے۔اس ذریعے نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ کہا کہ اگر لبنان پر صیہونی حکومت نے حملہ کیا تو تمام عرب ممالک کے لۓ اس کے منفی اثرات برآمد ہوں گے چونکہ صیہونی حکومت حزب اللہ کی اعلی جنگی صلاحیت سے آگاہ ہے اس لۓ لبنان کے خلاف کسی بھی طرح کی جارحیت کے ارتکاب سے قبل اس کو ہزار بار اپنے منصوبے پر غور کرنا ہو گا۔
حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم کا یہ کہنا ہے کہ حزب اللہ وہ تنظیم ہے جو صیہونی حکومت کی کسی بھی طرح کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح آمادہ ہے اور ماضی میں وہ اپنے کردار سے یہ واضح کر چکی ہے کہ حملے کی صورت میں صہیونیوں کو ندامت اور پشیمانی کے سوا اور کچھ نصیب نہیں ہو گا۔حزب اللہ کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے اپنے ایک تازہ بیان میں میں کہا کہ اگر صیہونی حکومت لبنان اور شام پر حملہ کرنے کی توانائي رکھتی تو وہ کب کی حملہ کر چکی ہوتی۔لیکن عملی طور پر حزب اللہ کی دفاعی اور ڈیٹرینٹ صلاحیتوں نے صیہونی حکومت کو روک رکھا ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ اس سے قبل کھل کر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ کہ اگر صیہونی حکومت نے جنوبی لبنان پر میزائل داغے تو حزب اللہ تل ابیب کو اپنے حملوں کا نشانہ بناۓ گی۔سید حسن نصراللہ نے مزید کہا کہ صیہونی حکومت مختلف بہانوں سے ایک بار پھر لبنان پر حملہ کرنا چاہتی ہے اور اس کے ذریعے وہ تینتیس روزہ جنگ میں اپنی شکست کے آثار مٹانا چاہتی ہے،لیکن اسے اس مرتبہ بھی کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔غاصب صیہونی حکومت کے بمبار طیارے اوسطا" ہر روز سات بار لبنان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور بعض اوقات ساونڈ بیریر توڑ کر لبنانی عوام میں خوف و ہراس پیدا کرتے ہیں۔غاصب صیہونی کی ان حرکات کا اگرچہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے سخت نوٹس لیا ہے لیکن کیا اقوام متحدہ کی رپورٹیں اور سلامتی کونسل کی قرار دادیں،غاصب صیہونی حکومت کو اسکے جارحانہ اقدامات سے روک سکتی ہیں؟یہ وہ سوال ہے جو لبنان اور فلسطین سمیت عالمی برادری کے ہر باشعور انسان کے ذہن میں موجود ہے،جبکہ دوسری طرف امریکہ اور برطانیہ نے اس غاصب اور جارح حکومت کی مسلسل پشت پناہی کر کے اسے اس قدر گستاخ بنا دیا ہے کہ وہ کسی عالمی ادارے کے فیصلے اور قرارداد پر عمل درآمد کرنے کو تیار نہیں۔
بہرحال امر مسلم یہ کہ صیہونی حکومت کو اگر علاقے کی بعض عرب اور اسلامی ملکوں کی در پردہ حمایت حاصل نہ تو وہ ہزاروں میل دور بیٹھے امریکیوں کے بل بوتے پر ہرگز فلسطین اور لبنان پر جارحیت کی مرتکب نہیں ہو سکتی۔
خبر کا کوڈ : 24516
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش