0
Tuesday 28 May 2013 12:41

شام کے مسئلے میں حزب اللہ کا کردار

شام کے مسئلے میں حزب اللہ کا کردار
تحریر: ثاقب اکبر
 
شام کے معاملے میں جہاں پہلے ہی بہت سی علاقائی اور بین الاقوامی قوتیں ملوث چلی آرہی ہیں، وہاں اب لبنان کی حزب اللہ ملیشیا نے بھی عملی طور پر حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا اظہار شام کے وسطی قصبے القصیر میں شامی فوج کے ساتھ مل کر قصبے کی آزادی میں حزب اللہ کے سینکڑوں سپاہیوں کی شرکت سے ہوا۔ شامی فوج کا ساتھ دینے کا اعلان حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے گذشتہ دنوں اپنے خطاب میں کیا۔ حزب اللہ کی طرف سے شامی صدر بشار الاسد کی وفادار فوجوں کا ساتھ دینے اور مخالف جنگجوؤں کے لیے مختلف قوتوں کی حمایت میں ایک بنیادی فرق یہی اعلان ہے، چونکہ مخالف قوتیں جو جنگجوؤں کی تربیت کرکے اور بھاری اسلحہ اور وسائل مہیا کرکے دو برس سے شام میں لڑنے کے لیے بھجوا رہی ہیں، وہ کھلے بندوں اپنا کردار تسلیم کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہیں۔
 
سید حسن نصراللہ نے ہفتہ 25 مئی 2013ء کو اپنے خطاب میں شامی فوج کا ساتھ دینے کی وجوہات تفصیل سے بیان کیں، انھوں نے کہا کہ اگر شام سقوط کر گیا تو بیت المقدس بھی سقوط کر جائے گا، ایسا ہونے کے صورت میں ہمارا علاقہ اور یہاں کے عوام ایک سخت اور سیاہ دور میں مبتلا ہو جائیں گے۔ ان کی اس بات کے پیچھے یہ حقیقت کارفرما ہے کہ خطے کے تمام عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا چکے ہیں۔ فلسطینی حقوق کے دفاع کے لیے فقط شام واحد ملک ہے جو ابھی تک اسرائیل کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہے اور جس نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور فلسطینی تنظیموں کی عملی حمایت جاری رکھی ہے۔ اسرائیل کے خلاف معرکہ آرا تحریکِ مزاحمت جس کی قیادت لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھ میں ہے، کے لیے بھی شام پشت پناہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اپنی تقریر کے دوران میں شام میں جاری لڑائی کو امریکہ کی طرف سے علاقے میں طاقت کے توازن کو اسرائیل کے حق میں تبدیل کرنے کی سازش کا حصہ قرار دیا۔ سید حسن نصراللہ نے لبنان کے عوام کو شام میں انتہا پسند گروہوں کے خلاف کامیابی اور فتح کا پیغام دیا اور کہا کہ کامیابیوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ وہ شروع سے مذاکرات کے ذریعے شام کے مسائل حل کرنے کے حامی رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ شام کے راہنماؤں نے بھی ہمیشہ مذاکرات کے ذریعے اصلاحات کی حمایت کی ہے لیکن شام میں سرگرم عمل غیر ملکی حمایت یافتہ باغیوں نے شروع سے اس کی مخالفت کی ہے کیونکہ انھیں امید تھی کہ شامی حکومت ختم ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یو این او کے شام کے لیے نمائندوں نے بھی ہمیشہ حکومت اور باغیوں کے مابین مذاکرات کی تجاویز پیش کی ہیں، جنھیں ہمیشہ شام کی حکومت تسلیم کرتی رہی ہے لیکن باغیوں نے ایسی ہر تجویز کو ٹھکرا دیا۔ 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اس پورے قضیے کے پیچھے امریکہ ہے اور باقی ممالک امریکہ کے خدمت گزار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ القاعدہ اور تکفیری دہشت گرد بھی اس کھیل میں شامل ہوچکے ہیں۔ اس تکفیری فکر نے عراق، پاکستان اور افغانستان میں دیگر اقوام کی نسبت اہل تسنن کو زیادہ قتل کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی فکر جو گفتگو کو قبول نہ کرے، گفتگو نام کی کسی چیز اور مشترکات پر یقین نہ رکھے، انتہائی خطرناک ہے۔ سید حسن نصراللہ نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ شام کے بحران کے ابتدا ہی میں یہ تکفیری کہتے تھے کہ شام کی سرنگونی کے بعد وہ لبنان کی طرف بھی آئیں گے۔ اس امر کی انھوں نے امریکہ کو یقین دہانی کروا رکھی تھی، انھوں نے شام کے بحران کے آغاز میں ہی اعزاز کے مقام پر لبنانی زائرین کو اغوا کر لیا تھا۔
 
شام میں حکومتی مخالفین نے اپنی کارروائیوں کا آغاز مارچ 2011ء میں کیا، جب کہ جون 2011ء میں انھوں نے باقاعدہ جنگ شروع کر دی۔ ان دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو توقع تھی کہ وہ بہت جلد شام پر قبضہ کر لیں گے، لیکن دو برس گزر جانے کے باوجود وہ اب تک اس میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ اپنی اس خوش فہمی ہی کی بنیاد پر اب تک مخالفین مذاکرات کی ہر تجویز کو مسترد کرتے چلے آئے ہیں، لیکن شامی افواج کی استقامت اور اب حزب اللہ کے تعاون سے القصیر جیسے اہم قصبے میں مخالفین کی عبرت ناک شکست نے ان کے حوصلوں کو مزید پسپا کر دیا ہے۔ اسی پس منظر میں جنیوا میں نئی امن کانفرنس کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اس کانفرنس کا فیصلہ امریکی وزیر خارجہ کے روس کے دورے کے موقع پر کیا گیا۔ متوقع طور پر دو سال میں پہلی مرتبہ مخالفین بشار الاسد کی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ اس کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ مخالفین اور ان کے سرپرستوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ کانفرنس سے پہلے اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط بنا لیں، لیکن یوں لگتا ہے کہ
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا 

یہی وجہ ہے کہ اب حزب اللہ کے خلاف مخالفین کا پراپیگنڈا زیادہ تیز ہوگیا ہے۔ دو برس سے مسلسل ترکی اور اردن میں قائم تربیتی کیمپوں میں شامی اور غیر ملکی جنگجوؤں کی تربیت کا سلسلہ جاری ہے۔ شام کے اندر سرگرم عمل جنگجو صرف علاقے کے ممالک سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ وہ یورپ اور دیگر ممالک سے بھی مسلسل شام میں پہنچ رہے ہیں۔ ایسے میں اگر حزب اللہ نے اپنی بقا اور فلسطینی کاز کی حفاظت کے لیے شامی حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر امریکہ و اسرائیل کے حامیوں کا شور شرابا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہم شام کے حوالے سے اپنے مختلف مضامین میں شام کے اندر سرگرم عمل گروہوں کے امریکہ، اسرائیل اور ان کے عالمی و علاقائی حامیوں کے روابط کا باقاعدہ ریکارڈ پیش کرچکے ہیں۔ بطور نمونہ یہاں ہم کچھ تازہ اطلاعات بھی اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ 

یورپی یونین کے طاقتور اراکین جن میں برطانیہ اور فرانس شامل ہیں، یورپی یونین کو مسلسل آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شام مخالف جنگجوؤں کو اسلحہ فراہم کرنے کی تجویز کی حمایت کی جائے۔ یاد رہے کہ یورپی یونین شام کو اسلحے کی ترسیل کی بندش کا فیصلہ کرچکی ہے جبکہ شام مخالف گروہوں پر مبنی عبوری حکومت کے قیام کے بعد اب اس حکومت کے حامی کھلے بندوں انھیں اسلحہ فراہم کرنے کے لیے اپنے اپنے اداروں سے اجازت لینے کے لیے کوشاں ہیں، تاکہ انھیں اپنی سرگرمیوں کے لیے ظاہراً ایک قانونی چھتری میسر آسکے۔ 
عالمی مبصرین کو توقع ہے کہ برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ ولیم ہیگ برسلز میں ہونے والے یورپی یونین کے اجلاس میں دلائل دیں گے کہ شام کے خلاف یورپی یونین کی طرف سے اسلحے کی پابندی کو نرم کرکے شامی باغیوں کو ہتھیار مہیا کرنے کی اجازت دی جائے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح باغی شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ مذاکرات میں ایک بہتر پوزیشن میں آجائیں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جمہوریہ چیک، فن لینڈ، سویڈن، نیدر لینڈ اور آسٹریا جیسے ممالک شام کے خلاف اسلحے کی پابندی ختم کرنے کے خلاف ہیں۔ بعض یورپی ممالک کو خوف ہے کہ شامی گروہوں کو اعتدال پسند سمجھ کر اگر جہاز شکن اور ٹینک شکن جیسا اسلحہ دیا گیا تو یہ کہیں النصرۃ فرنٹ جیسے جہادیوں کے ہاتھوں نہ لگ جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ النصرۃ فرنٹ القاعدہ کی حامی ہے۔
 
شامی باغیوں کے حامی معروف سعودی ٹی وی چینل العربیہ نے بھی بات تسلیم کی ہے کہ شامی فوج کے خلاف لڑنے والے گروہوں میں القاعدہ کے جنگجو سب سے نمایاں ہیں۔ العربیہ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ عراق میں سرگرم القاعدہ شام کی خانہ جنگی میں بھی شریک ہے۔ اسی پس منظر میں حال ہی میں شامی وزیر خارجہ ولید المعلم نے بغداد کا دورہ کیا ہے۔ ولید المعلم عراق کی جانب سے ملک کی مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے صحرائی علاقے میں ایک بڑی فوجی کارروائی کے آغاز کے ایک روز بعد عراق پہنچے تھے۔ یہ خبر العربیہ نے اتوار 26 مئی 2013ء کو نشر کی ہے۔
دریں اثنا معروف فرانسیسی اخبار لی موند نے ملک کی داخلی اور خارجی ایجنسیوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ گذشتہ برس کے دوران میں 180 تا 200 فرانسیسی شہری مسلح گروہوں کے ساتھ مل کر شامی حکومت کے خلاف جنگ میں شرکت کے لیے شام روانہ ہوچکے ہیں۔ 

قبل ازیں فرانسیسی ذرائع کا کہنا تھا کہ 50 فرانسیسی اس مقصد کے لیے شام گئے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد چار گنا زیادہ ہے۔ یہ فرانسیسی شہری النصرۃ فرنٹ کا حصہ بن چکے ہیں۔ جرمن رسالے دیراشپیگل نے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذمہ داران کی اس تشویش کا ذکر کیا ہے جو انھیں شام سے متوقع طور پر واپس لوٹنے والے جرمن شہریوں کے حوالے سے لاحق ہے۔ جریدے کے مطابق جرمن شہری بغیر ویزے کے ترکی جاسکتے ہیں اور ترکی کے بارڈر سے پھر وہ شام میں داخل ہو جاتے ہیں۔ 

سعودی عرب اور قطر کی طرف سے کھلے بندوں شام مخالف جنگجوؤں کی حمایت کا سلسلہ اب کسی سے مخفی نہیں رہا۔ گذشتہ دنوں سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل کا یہ بیان عالمی ذرائع ابلاغ نے شائع کیا کہ شام کی آئندہ حکومت میں بشار الاسد کا کوئی کردار نہیں۔ اس کے جواب میں شام نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ شکست خوردہ حکومتیں اور ممالک غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور سعودی وزیر خارجہ کی حیثیت اس سے کہیں کم تر ہے کہ وہ شام اور اس کے عوام کے بارے میں بات کرے۔ شامی ردعمل میں کہا گیا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ عالم عرب یا اسلام کی نمائندگی کرے۔ 

دوسری طرف شام مخالف گروہوں کے مابین جنیوا میں متوقع امن کانفرنس میں نمائندگی کے حوالے سے وسیع اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ اختلافات اس وقت زیادہ واضح طور پر سامنے آئے، جب سعودی عرب اور قطر نے اپنی مرضی کے مزید 30 افراد کو وفد میں شامل کرنے کے لیے زور دینا شروع کیا۔ سعودی اور قطری حکام کی خواہش یہ ہے کہ اخوان المسلمین کا کردار وفد میں اور آئندہ کسی متوقع حکومتی حصے میں کم سے کم ہو۔ اخوان المسلمین کو یہ مشکلات اس وقت مصر میں بھی درپیش ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اخوان المسلمین انتہا پسند، تکفیری اور القاعدہ گروہوں اور دوسری طرف حقیقی انقلابیوں کے مابین پھنس کر رہ گئی ہے۔ مصر میں بھی اسے اس دباؤ کی تلخیوں کا سامنا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اخوان المسلمین کو آئندہ انتہا پسند گروہوں کا یرغمال رہنے یا حقیقی اسلامی تحریک کا پرچم بردار بننے میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ یہ بھی امکان ہے کہ اخوان المسلمین دو گروہوں میں منقسم ہو جائے۔ شام میں حکومت مخالف جنگجوؤں میں اخوان المسلمین کا اثر و رسوخ کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ 

شام سے آنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حزب اللہ کی حمایت سے شامی فوج نئے محاذ کھول رہی ہے اور انتہا پسند باغی گروہوں کو اس وقت سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جنیوا کے مذاکرات میں امریکہ اور اس کے حامی شام مخالف گروہوں کی عزت بچانے کے لیے کیا مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اب بھی تمام گروہوں کو جنگ کا راستہ ترک کرکے حقیقی مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور شام کی قسمت کا فیصلہ شامی عوام کی رائے کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 268199
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش