QR CodeQR Code

شام میں موجود ڈیتھ اسکواڈز مزید قتل و غارت کے خواہاں

برهان , 9 Jun 2013 22:36

اسلام ٹائمز: شام میں وسیع پیمانے پر قتل و غارت پھیلانے کیلئے مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کے انٹیلی جنس اداروں کی بھاری موجودگی کی واضح علامات موجود ہیں اور ہاتھ لگنے والے شواہد و مدارک سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور نیٹو فورسز شام میں بشار اسد کی حکومت کو کو سرنگوں کرنے کیلئے سلواڈور طرز کا "ڈیتھ اسکواڈ ماڈل" تکرار کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔


اسلام ٹائمز- 27 اکتوبر شام کے صوبے حمص کے شمال مغربی حصے میں واقع شہر "الحولہ" میں انجام پانے والے وحشیانہ قتل عام کی پہلی برسی تھی جس میں 108 بیگناہ شہریوں کو انتہائی ظالمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا تھا۔ قتل ہونے والے افراد میں 34 خواتین اور 49 بچے بھی شامل تھے۔ یہ افراد ان دو دیہاتوں میں قتل کر دیئے گئے جو شام کے حکومت مخالف دہشت گرد مسلح گروہوں کے زیرتسلط تھے۔ 

وسیع پیمانے پر قتل عام، بچوں، خواتین اور مردوں کی مسخ شدہ لاشوں پر مبنی دل کو دہلا دینے والے تصاویر کی اشاعت اور پھر انتہائی منظم انداز میں بڑے پیمانے پر اس ملک کی حکومت کے خلاف شدید منفی پروپیگنڈے کا آغاز اور کئی ممالک کی جانب سے ایک جیسے موقف کا تکرار، وہ مخصوص ہتھکنڈہ ہے جو شام کی حکومت اور بالخصوص صدر بشار اسد کے خلاف اپنایا گیا ہے۔ یہ وہ ہتھکنڈہ ہے جس میں ابتدائی طور پر انسانی حقوق کی بنیاد پر مداخلت یا دوسرے الفاظ میں R2P کا راستہ ہموار کیا جاتا ہے، اسکے بعد عوامی مزاحمت کو کم ترین سطح تک لایا جاتا ہے اور پھر اگلے مرحلے میں فوجی حملے کے ذریعے اس ملک پر فوجی قبضہ جما لیا جاتا ہے۔

تاریخ کا مختصر جائزہ لینے سے اس شیطانی ہتھکنڈے کے کئی نمونے آسانی سے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں "ال سلواڈور" اور 1990ء کے عشرے میں "ہونڈراس" جیسے ممالک اس شیطانی ہتھکنڈے کا نشانہ بنے جس کے نتیجے میں ال سلواڈور میں 75 ہزار اور ہونڈراس میں 50 ہزار عام شہریوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ "الحولہ" کا قتل عام بھی اسی تناظر میں انجام پایا ہے۔ 

امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر اور "گلوبل ریسرچ" نامی مجلے کے تجزیہ نگار پروفیسر مائیکل چوسوڈووسکی نے الحولہ قتل عام کے بارے میں "شام کیلئے ال سلواڈور ماڈل" کے عنوان سے ایک تجزیہ شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے:

"شام میں وسیع پیمانے پر قتل عام انجام دینے کی خاطر مغربی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز کی بھاری موجودگی کی واضح علامات موجود ہیں۔ امریکی اور نیٹو فورسز "ال سلواڈور میں ڈیتھ اسکواڈز" کی طرز پر شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ال سلواڈور ماڈل این دہشت گردانہ ہتھکنڈہ ہے جس کے ذریعے امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد افراد نے اس ملک میں بڑے پیمانے پر عام شہریوں کو قتل کیا اور پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت اس کا الزام ال سلواڈور حکومت پر لگا دیا گیا۔ یہ ہتھکنڈہ پہلی بار ال سلواڈور میں اس وقت اپنایا گیا جب وہاں کے فوجی آمر کے خلاف عوامی جدوجہد اور اعتراضات اپنے عروج پر پہنچ چکے تھے۔ اس شیطانی منصوبے کے تحت ال سلواڈور کے 75 ہزار بیگناہ عام شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ 

اس وقت ہونڈراس میں جان نگروپونٹے (1981ء سے 1985ء تک( امریکی سفیر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ اس نے ٹگوسگالیا میں بھی امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں اور ہونڈراس میں نکاراگوئے کے مزدوروں کی حمایت اور ان پر نظارت میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ جان نگروپونٹے کو 2004ء میں بغداد میں امریکی سفیر کے طور پر بھیجا گیا۔ اس نے جرج بش کی حکومت میں نیشنل انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام بھی کیا جس کے دوران جرج بش کے انتہائی خفیہ اور مخصوص حکم کے تحت عراق میں "ال سلواڈور ماڈل" کے اجراء کیلئے ضروری اقدامات فراہم کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔ 

شام میں امریکی سفیر رابرٹ فورڈ (جسے جنوری 2011ء میں اس مقام پر متعین کیا گیا) اس سے قبل بغداد میں امریکی سفارتخانے میں جان نگروپونٹے کے ساتھ کام کر چکا تھا۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ عراق میں ال سلواڈور ماڈل کے اجرا کے فیصلے نے مارچ 2011ء میں شام میں مسلح جھڑپوں کا زمینہ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ شام میں انجام پانے والے تازہ واقعات کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ شام کے سرحدی قصبے "الحولہ" میں 108 بیگناہ شہریوں کا قتل عام جن میں 35 بچے بھی شامل ہیں، امریکہ کے حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈز کا کام ہو سکتا ہے جو دراصل "شام کیلئے ال سلواڈور ماڈل" کے اجراء کے ہدف سے انجام پایا ہے۔

دمشق سے امریکی سفیر کی واپسی اور اسکی جگہ رابرٹ اسٹیفن فورڈ کو نئے امریکی سفیر کے طور پر تعیین کئے جانا، مارچ 2012ء کے وسط میں شام کے جنوب میں واقع سرحدی گاوں "دارا" میں دہشت گرد مسلح افراد کی جانب سے صدر بشار اسد کی حکومت کے خلاف منظم انداز میں مسلح بغاوت کے آغاز کے ساتھ براہ راست مربوط ہے۔ 

رابرٹ اسٹیفن فورڈ شام میں منظم انداز میں ہنگامے شروع کروانے کیلئے بہترین انتخاب تھا۔ وہ 2004ء اور 2005ء کے دوران جان نگروپونٹے کی نگرانی میں بغداد میں امریکی سفارتخانے کا "نمبر 2 پرسن" ہونے کے ناطے پنٹاگون کی جانب سے عراق میں ال سلواڈور ماڈل کو اجراء کرنے کے منصوبے میں مرکزی کردار کا حامل رہا ہے۔ رابرٹ فورڈ نے جنوری 2011ء میں امریکی سفیر کے طور پر دمشق میں داخل ہونے سے لے کر واشنگٹن کی جانب سے اپنی معزولی تک شام مخالف گروپس کے ساتھ رابطہ قائم کرنے، شام کے ہمسایہ عرب ممالک سے دہشت گرد افراد کو بھرتی کرنے اور انہیں شام کے حکومت مخالف گروہوں میں ضم کرنے میں انتہائی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ رابرٹ فورڈ نے دمشق سے نکل جانے کے بعد بھی شام میں حکومت مخالف مسلح دہشت گروہوں کی نگرانی کا کام جاری رکھا ہوا ہے"۔ 

لہذا یہ بات انتہائی واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ نے شام میں اپنے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر بڑے پیمانے پر قتل و غارت شروع کر رکھی ہے تاکہ اس طریقے سے ایک ہی وقت میں ڈرانے دھمکانے اور لالچ دینے والی سیاست پر گامزن ہو سکے۔ امریکہ کی جانب سے اس دوغلی سیاست اپنانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ شام میں مسلح دہشت گردوں کو شکست کی صورت میں امریکہ کے پاس صورتحال سے باہر نکلنے کا راستہ موجود رہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے رقباء جن میں بنیادی طور پر ایران اور روس شامل ہیں کے خلاف ایک جارحانہ موقف بھی اپنانے کی پوزیشن میں رہے۔ 

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام میں ال سلواڈور ماڈل کے انتخاب کا ایک اہم محرک خطے میں ایران کی سربراہی میں پائی جانے والی اسلامی مزاحمت کی تحریک کا مقابلہ کرنا ہے۔ امریکہ درحقیقت چاہتا ہے کہ خطے میں اسلامی مزاحمت کی فرنٹ لائن، جو اسلامی جمہوریہ ایران سے شروع ہوتے ہوئے عراق، شام، حزب اللہ لبنان اور فلسطین تک جا پہنچتی ہے، کو قطع کر دے۔ امریکہ کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس کا یہ شیطانی ہتھکنڈہ اگرچہ تاریخ کے کچھ حصوں میں کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے لیکن اب جب اقوام عالم بیدار ہو چکی ہیں اور میڈیا کا ایک حصہ اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں کو پوری امانتداری اور دیانت سے نبھانے میں مصروف ہے، وہ ہر گز اپنے شیطانی عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ 

امریکہ نے عراق کی جنگ میں اربوں ڈالر خرچ کئے اور ہزاروں افراد کو موت کی نیند سلا دیا تاکہ اپنی حامی حکومت تشکیل دے سکے لیکن جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اس وقت عراق میں ایک شیعہ حکومت برسراقتدار ہے جو مکمل طور پر امریکی مفادات کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ اسی طرح امریکہ اور اسرائیل نے 33 روزہ جنگ میں کوشش کی کہ حزب اللہ لبنان کی طاقت کو ختم کر دے لیکن انہیں وہاں عبرت ناک شکست کا سامنا ہوا۔ امریکہ اور اسکے حامی گذشتہ 30 سالوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف نت نئی سازشوں میں مصروف ہیں لیکن انہیں نہ صرف کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی بلکہ شدید اقتصادی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ 

ال سلواڈور ماڈل ایک دہشت گردانہ ہتھکنڈہ ہے جس کے تحت امریکہ کے حمایت یافتہ دہشت گرد بڑے پیمانے پر عام شہریوں کا قتل عام کر چکے ہیں۔ اگلے مرحلے میں اس قتل عام کا الزام امریکہ مخالف حکومت پر تھونپ دیا جاتا ہے اور اس طرح امریکہ کو اس ملک میں مداخلت کرنے کا اچھا بہانہ میسر آ جاتا ہے۔ یہ ہتھکنڈہ سب سے پہلی بار ال سلواڈور میں استعمال ہوا جس کے دوران تقریبا 75 ہزار بیگناہ عام شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ 

اور اب شام کی باری ہے۔ امریکہ اب تک شام میں نہ صرف صدر بشار اسد کی سرنگونی سمیت اپنا کوئی سیاسی ہدف حاصل نہیں کر پایا بلکہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر بھی مجبور ہوا ہے اور اب صرف کوفی عنان کی جانب سے پیش کردہ 6 نکاتی پروجیکٹ کے اجراء پر تاکید کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ البتہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ شام میں نیا کھیل شروع کرنے جا رہا ہے جس کے تحت مزید قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کیونکہ امریکی منطق کی رو سے جس قدر قتل و غارت وسیع پیمانے پر ہو اور مجرمانہ اقدام زیادہ سنگین اور بھیانک ہو وہ اسی قدر آسانی سے اپنے سیاسی اہداف کو حاصل کر سکتا ہے۔ مگر یہ کہ عوام امریکہ کے شیطانی ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف اور آگاہ ہوں۔ 

شام میں امریکہ کی جانب سے دشمنانہ سیاست اپنائے جانے کی دوسری بڑی وجہ مشرق وسطی میں شام کی پالیسیوں کا مقابلہ کرنا ہو سکتی ہے۔ جناب پوٹن کا دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد روس نے اپنی امریکہ مخالف پالیسیوں میں تیزی لائی ہے۔ صدر پوٹن نے اس سمت میں پہلے قدم کے طور پر جی ایٹ اور شکاگو کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ روس جو خود کو لیبیا اور تیونس میں ایک طرح سے شکست خوردہ تصور کر رہا ہے اب نہیں چاہتا کہ شام میں بھی مغرب کی جانب سے دباو اور لالچ کا شکار ہو جائے لہذا صدر بشار اسد کو برسراقتدار رکھنے پر مصر نظر آتا ہے۔ 
 


خبر کا کوڈ: 268247

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/268247/شام-میں-موجود-ڈیتھ-اسکواڈز-مزید-قتل-غارت-کے-خواہاں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org