0
Saturday 8 Jun 2013 19:37

امام خمینی (رہ)، فقیہ عصر

امام خمینی (رہ)، فقیہ عصر
تحریر: ثاقب اکبر
 
عام طور پر دنیا نے امام خمینی (رہ) کو سیاسی میدان میں استعماری قوتوں کے خلاف رزم آرا رہبر کی حیثیت سے پہچانا ہے۔ آپ کے بارے میں زیادہ تر لوگ یہی جانتے ہیں کہ آپ نے ایران میں قائم شاہی استبداد کے خلاف قیام کیا اور ایرانی قوم کو استعماری مقاصد کے آلۂ کار بادشاہی نظام سے نجات دلائی۔ یا پھر کچھ لوگ آپ کے بارے میں یہ جانتے ہیں کہ آپ ایک عالم، فقیہ اور مجتہد تھے لیکن یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ ان حیثیتوں سے بھی امام خمینی (رہ) کو درست طور پر کم ہی پہچانا گیا ہے چہ جائیکہ آپ کی زندگی کے دیگر پہلوؤں کے ساتھ آپ کی شخصیت کی جامع شناخت اور معرفت عام ہوئی ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امام خمینی (رہ) کی زندگی کی تمام جہات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر ہمارے دور کے دانشوروں اور اہل علم کو علمی مجلسیں تشکیل دینی چاہئیں، جن میں امام خمینی (رہ) کے افکار اور ان کی شخصیت کو زیر مطالعہ لایا جائے۔ امام خمینی کی عرفانی شخصیت بھی ہمارے معاشرے میں بہت ناشناختہ ہے۔
 
حقیقت یہ ہے کہ بڑے لوگوں کا ہمیشہ یہ المیہ رہا ہے کہ ان کی شناخت صحیح طرح سے عام لوگوں کو نہیں ہو پاتی۔ عبقری شخصیات دنیا میں ظہور کرتی رہتی ہیں اور انسانی معاشروں میں تحول و تبدل ایجاد کرکے یا اس کی بنیاد رکھ کر چل بستی ہیں اور پھر ان کا نام لے کر لوگ یا واقعاً خلوص کے ساتھ کام کرتے رہتے ہیں یا پھر اپنے محدود مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) بھی ایسی ہی شخصیات میں سے ہیں۔ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اسے بجا طور پر امام خمینی (رہ) کا دور کہا جاسکتا ہے کیونکہ بہت سے دانشور ایک لحاظ سے دنیا کا مطالعہ ’’امام خمینی سے پہلے اور امام خمینی کے بعد کی دنیا‘‘ کے عنوان سے کرتے ہیں۔ اس درجے کے لوگ دنیا کے مختلف خطوں میں گاہے گاہے ظہور کرتے رہتے ہیں اور ایسا صرف مسلمانوں میں نہیں ہوتا بلکہ غیر مسلموں میں بھی بڑی شخصیات منصہ شہود پر آتی ہیں اور تاریخ پر اپنا نقش جما کر چلی جاتی ہیں۔
 
پیش نظر تحریر میں ہم امام خمینی (رہ) کی اجتہادی شخصیت کے حوالے سے مختصر سی بات کرنا چاہیں گے، البتہ اس موضوع پر ایران اور بعض دیگر ممالک میں خاصا پرمغز کام ہوچکا ہے، اگرچہ اردو دان طبقہ اس سے بہت حد تک ناآشنا ہے۔ امام خمینی (رہ) نے جہاں سیاست کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا وہاں فقاہت کی دنیا میں بھی ایک بہت بڑے ارتقائی تغیر کی بنیاد رکھی۔ یہ بات بھی حقیقت رکھتی ہے کہ خود سیاسی دنیا میں آپ کے ذریعے سے وجود میں آنے والا انقلاب آپ کی اعلٰی درجے کی فقہی بصیرت ہی کا ایک کرشمہ ہے۔ امام خمینی (رہ) کو بجا طور پر اپنے زمانے کا عظیم مجتہد اور فقیہ کہا جاسکتا ہے، ایک ایسا فقیہ جس نے فقہ کے جامع اور کامل اَبعاد سے دنیا کو روشناس کروایا۔ آپ نے خاص طور پر زمان و مکان (Time and Space) کے تقاضوں کی روشنی میں اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا۔ 

اجتہاد جسے حکیم الامت علامہ اقبال (رہ) نے بجا طور پر اسلامی وجود کے لیے حرکت کے اصول (The principle of movement in the structure of Islam) سے تعبیر کیا ہے، کو امام خمینی (رہ) نے عملی طور پر اسلام کی کمال آفریں روح حرکت کے طور پر ثابت کر دیا۔ انھوں نے اپنی فقہی بصیرت اور تصور ہی کی بنیاد پر ایک نئے سیاسی نظام کی تشکیل کی۔ انھوں نے علماء کو دعوت دی کہ وہ اپنے حجروں سے نکلیں اور عصری تقاضوں کی روشنی میں مسلمانوں اور انسانوں کی راہنمائی کریں۔ انھوں نے اپنے زمانے اور حالات کی شناخت پر بہت زور دیا۔ اسلام کی زندگی کے لیے انھوں نے عصری معارف کی گہری شناخت کا بار بار ذکر کیا۔ ان کا نظریہ تھا کہ اس کے بغیر اسلام کو عالمی سطح پر ساری انسانیت کے سامنے پیش نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مقام پر وہ علماء پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں:
مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مسائل کا احاطہ رکھتا ہو۔ لوگوں، جوانوں یہاں تک کہ عام لوگوں کے لیے بھی یہ بات قابل قبول نہیں کہ ان کا مرجع اور مجتہد کہے کہ میں سیاسی مسائل میں رائے نہیں دیتا۔ ایک جامع مجتہد کی خصوصیات میں یہ بات شامل ہے کہ وہ حیلوں اور فریب کاریوں کے مقابلے کا طریقہ جانتا ہو، دنیا پر حکم فرما ثقافت سے آشنائی رکھتا ہو، اقتصادی مسائل میں بصیرت اور نقطہ نظر رکھتا ہو۔ اسے خبر ہو کہ دنیا پر حاکم اقتصادی نظام کے مقابلے کا طریقہ کیا ہے۔ اسے سیاسی طریقوں اور سیاست دانوں تک کو جاننا چاہیے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ انھیں کیا طریقہ ڈکٹیٹ کیا گیا ہے ۔مجتہد کو سرمایہ داری نظام کی حیثیت اور اس کے قوت و ضعف کے نقاط کو بھی جاننا چاہیے کیونکہ درحقیقت یہی نظام دنیا پر حکمرانی کی اسٹرٹیجی تشکیل دیتا ہے۔ ایک مجتہد میں ایسی سمجھ بوجھ اور فراست ہونا چاہیے کہ وہ ایک عظیم اسلامی بلکہ غیر اسلامی معاشرے کی بھی راہنمائی کرسکے۔ اسے خلوص، تقویٰ اور زہد کا حامل تو ہونا ہی چاہیے جو ایک مجتہد کے شایان شان ہے اس کے ساتھ ساتھ اسے واقعاً مدیر اورمدبر بھی ہونا چاہیے۔
 
امام خمینی (رہ) کی یہ باتیں جہاں ان کی اپنی بصیرت اور فراست کی حکایت کرتی ہیں وہاں ان کے دل میں موجود اس جذبے کو بھی بیان کرتی ہیں جو وہ اسلام کو پوری دنیا کے سامنے ایک ایسے نظام کے طور پر پیش کرنے کے لیے رکھتے تھے جو آج کی انسانیت کی ہمہ پہلو مشکلات کا ازالہ کر سکے۔ آپ کے یہ افکار اس بات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ دنیا کے وسائل لوٹنے والی استعماری قوتیں امام خمینی (رہ) سے کیوں خوفزدہ تھیں اور آج بھی وہ امام خمینی (رہ) کے نام سے کیوں بیر رکھتی ہیں۔ کہنے کو تو دنیا میں بہت سے مجتہد، فقیہ اور علماء موجود ہیں لیکن انسانیت کے اقتصادی اور معنوی وسائل کے لٹیرے فقط ان کے درپئے آزار ہیں جو انسانی درد کا مداوا کرنے کے لیے حقیقی اسلام کا پرچم لے کر اٹھتے ہیں۔
 
انھوں نے بار بار متوجہ کیا کہ انسان دشمن قوتیں ان علماء سے ہرگز خوفزدہ نہیں ہوتیں جو اپنی درسگاہوں میں بیٹھے رہیں اور دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے حوادث و واقعات سے بے خبر رہیں اور زمان ومکان کی تبدیلی کے ساتھ نئے افکار کا اظہار نہ کریں۔ چنانچہ ایک مقام پر کہتے ہیں:
جب تک فقہ کتابوں اور علما کے سینوں میں مستور ہے عالمی لٹیروں کو اس سے کوئی نقصان نہیں۔ علماء جب تک تمام مسائل اور مشکلات کا فعالیت سے سامنا نہ کریں گے، یہ نہیں سمجھ سکیں گے کہ علمی مراکز میں موجود اصطلاحی اجتہاد معاشرے کو چلانے کے لیے کافی نہیں۔ دینی مراکز اور علماء کو چاہیے کہ ہمیشہ ان کا ہاتھ معاشرے کی فکر اور ضرورت کی نبض پر ہو۔ بہت ممکن ہے کہ لوگوں کے امور کو چلانے کے لیے رائج طریقہ آئندہ برسوں میں تبدیل ہو جائے اور انسانی معاشروں کو اپنی مشکلات کو حل کرنے کے لیے اسلام کے جدید مسائل کی ضرورت پڑ جائے۔ اسلام کے علمائے کرام کو چاہیے کہ ابھی سے اس مسئلے کی فکر کریں۔ 

امام خمینی (رہ) کے نزدیک زمان ومکان کی تبدیلی حکومتی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ان تبدیلیوں کے پیش نظر ایک اسلامی حاکم کو خصوصی اختیارات بھی حاصل ہونے چاہئیں، تاکہ وہ حسب ضرورت اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں نئے احکام جاری کرسکے۔ چنانچہ امام خمینی (رہ) ارشاد فرماتے ہیں:
حاکم جہاں ضروری سمجھیں مساجد کو بند کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔۔۔ اسی طرح وہ ہر ایسا امر جس کا جاری رہنا ’’غیر اسلامی‘‘ ہو چاہے وہ امر عبادی ہو یا غیر عبادی، جب تک ایسا ہو، اسے روک سکتا ہے۔ حج کہ جو اہم الٰہی فرائض میں سے ہے، اسے بھی حکومت جب اسلامی ملک کے مفاد میں دیکھے تو عارضی طور پر روک سکتی ہے۔
اجتہاد کی وسعت اور معاشرے کو ہر لحاظ سے اور ہر صورت حال میں راہنمائی پہنچانے کے لیے اس کا دائرہ کار کتنا وسیع ہے، امام خمینی کے فرامین کی روشنی میں بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے دور کے فقہاء گہری نظر سے امام خمینی (رہ) کے اجتہادی نظریات کا مطالعہ کریں، تاکہ وہ اسلام کو ایک آفاقی اور حلاّل مشکلات دین کے طور پر انسانیت کے سامنے اعتماد سے پیش کرسکیں۔
خبر کا کوڈ : 271687
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش