0
Sunday 13 Jun 2010 10:45

ایران کو تنہا کرنے کا جنون

ایران کو تنہا کرنے کا جنون
عارف بہار
 عالمی سیاست کے گزشتہ کئی برسوں میں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ کسی بات کو شوق اور جنون میں بدل کر کیے جانے والے فیصلے کرہ ارض کو امن کی سوغات نہیں دے سکے۔افغانستان کو اُدھیڑ کر رکھ دینے کا شوق جنون میں ڈھلا تو کیا ہوا؟ ایک عشرہ ہونے کو ہے،نہ اسامہ بن لادن ہاتھ آیا نہ ملاّعمر تک رسائی ہوئی اور نہ ہی افغانستان امن و آشتی کے نئے ادوار سے آشنا ہو سکا۔برسوں کی کوچہ نوردی کے بعد افغانستان میں ناٹو دستوں کے سربراہ کہتے ہیں کہ فتح کی منزل تو ابھی بہت دور ہے۔کتنی دور؟ شاید ستاروں سے بھی آگے،کیونکہ جو منزل دس برس کی کوشش کے باوجود نہ آسکی،اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ سو برس بعد بھی آسکے!
 عراق کو تنہا کر دینے کا شوق جنون میں ڈھلا تو کیا ہوا؟ صدام حسین زیر ہو گیا،امریکی فاتح قرار پائے،لیکن ایک مستحکم ملک کا سوشل اسٹرکچر تباہ ہو گیا۔اور آمر سے نجات دلانے کا صلہ کیا ملا؟ منتظرالزیدی کا ڈرون کی طرح لہراتا اور رقص کرتا ہوا جُوتا،جس کا نشانہ بھی ڈرون کی طرح چُوک نہ جاتا تو انسانی تاریخ نو آبادیاتی رویوں کے اس انجام کو ایک عبرت آموز باب کے طور پر محفوظ رکھتی۔ پاکستان کو زیر کرنے کا شوق جنون میں ڈھلا تو اچھا بھلا مستحکم ملک بدامنی کا چلتا پھرتا اشتہار بن کر رہ گیا۔اس کے بعد گو کہ پاکستان پاکستانیوں کے لیے بھی اچھی حالت میں نہ رہا،لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں کی چوکڑیاں بھرنے کی خواہش بھی ادھوری رہ گئی،جس کا ایک ثبوت اسلام آباد کے پہلو میں نیٹو کے اڈے پر حملہ اور پچاس مال بردار ٹرکوں کی تباہی ہے۔ماضی کی اس جنوں خیزی کے آثار بغداد سے کابل اور اسلام آباد تک بکھرے پڑے ہیں۔ترنول میں جلے ہوئے ٹرکوں کی تصویر کیپشن کے بغیر ہو تو اندازہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کابل و قندھار کا کوئی منظر ہے یا بصرہ و بغداد کا.... لیکن جنون ہے کہ کسی طور کم ہونے میں نہیں آ رہا۔
اب یوں لگتا ہے کہ اس شوق و جنون نے ایک نئی راہ اور نئی منزل ڈھونڈ لی ہے،جس کا نام ایران ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما پچھلے کئی ماہ سے مسلسل ایران کو تنہا کرنے کی اصطلاح کا استعمال کر رہے ہیں۔اوباما کا گمان ہے کہ ان کی کامیاب پالیسیوں کی بدولت اسلامی جمہوریہ ایران دنیا میں تنہا ہوتا جا رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ تنہائی بڑھتی جا رہی ہے۔ایران کے خلاف فوجی سازوسامان کی خریداری اور تجارتی اور مالیاتی لین دین پر پابندیوں کی حالیہ قرارداد تنہائی کے اس سفر کا ایک اہم سنگ ِمیل ہے۔امریکا کے معروف اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار چارلس کروتھیمر نے ایران کو تنہا کر دینے کے شوق کا دلچسپ انداز میں مذاق اُڑایا ہے۔ 11جون کو واشنگٹن پوسٹ میں ”ایران کی تنہائی کا مفروضہ“ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں انہوں نے کہا: ”جارج بش کے دور میں جب ایران پر پابندیوں کی قرارداد سلامتی کونسل میں آئی تو ایک ووٹ بھی مخالفت میں نہیں پڑا۔سولہ ماہ بعد جب اوباما کے دور میں پابندیوں کی قرارداد سلامتی کونسل میں پیش ہوئی تو پندرہ میں سے بارہ ووٹ اس کے حق میں آئے۔ترکی اور برازیل نے قرارداد کی اعلانیہ مخالفت کی،جبکہ لبنان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس ”تنہائی“ کے باوجود ایران روس اور نیٹو ملک ترکی سے گرم جوش تعلقات کے مزے لوٹ رہا ہے۔چھ ماہ قبل ایران کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے خواتین کا سربراہ منتخب کیا گیا۔عالمی ادارے میں ایران کا اہم ذمہ داری کے لیے منتخب ہونا ”تنہائی“ کا ایک اور ثبوت ہے۔جبکہ استنبول،کابل،کوپن ہیگن، برازیل،لاپرر،کراکس،سینی گال،گیمبیا،اور یوگینڈا احمدی نژاد کی میزبانی کر چکے ہیں۔پابندیوں سے ایک ماہ پہلے احمدی نژاد تہران میں ترکی اور برازیل کے سربراہانِ مملکت کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑے تھے۔اسی دوران تینوں ملکوں نے یورینیم کی منتقلی کا معاہدہ بھی کیا۔“ 
چارلس نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ ایران کو تنہا کر دینے کا منصوبہ ناکام ہو چکا ہے۔سلامتی کونسل کی حالیہ پابندیوں سے پہلے کم از کم تین بار امریکی لیڈر ایران کو تنہا کر دینے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔چند ماہ قبل یونین خطاب میں صدر اوباما نے اعلان کیا کہ ایران کو دنیا میں تنہا کیا جا چکا ہے۔اس کے دو ماہ بعد امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے اس موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو اندرونی اور بیرونی طور پر تنہا کیا جا چکا ہے۔اس سال اپریل میں صدر اوباما نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ جو قومیں ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاﺅ کے معاہدوں کی پابندی نہیں کریں گی،مزید تنہا ہو جائیں گی۔ان کا واضح اشارہ ایران کی جانب تھا۔اب سلامتی کونسل کی پابندیوں کی قرارداد کی منظوری کے موقع پر صدر بارک اوباما نے ایران کے بارے میں اپنا پسندیدہ جملہ یوں ادا کیا کہ ایران کو مزید تنہا کر دیا گیا ہے۔سلامتی کونسل کی قرارداد کی منظوری کے بعد ایران کے صدر احمدی نژاد نے عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کیا،جہاں ان کا پُرتپاک خیرمقدم کیا گیا۔واضح رہے کہ چین اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت کرنے والے ملکوں میں شامل تھا۔اس کے باوجود احمدی نژاد نے چین کا دورہ کیا اور چین نے احمدی نژاد کا استقبال کرنے میں کوئی کمی نہیں دکھائی۔ محمود احمدی نژاد چین میں ان پابندیوں کے خلاف نہ صرف کھل کر بولے بلکہ انہوں نے مسلمانوں کو درپیش اہم مسائل پر سخت اور مقبول موقف اختیار کیا۔ 
انہوں نے عراق اور افغانستان کی جنگ کی مذمت کی اور پاکستان پر امریکی حملوں کو انسانی المیوں کو جنم دینے کا باعث قرار دیا۔انہوں نے فلسطین کے بارے میں امریکی رویّے پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ویٹو پاور کا حق ختم کیا جانا چاہئے کیونکہ اس اختیار کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے ممالک خود تو تباہی کے لیے ایٹم بم بناتے ہیں لیکن دوسروں کو پُرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل نہیں کرنے دیتے۔احمدی نژاد کی یہ وہ لائن ہے جو ایران کو مسلم رائے عامہ میں تنہا ہونے سے بچا لے گی،کیونکہ انہوں نے چین میں خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے جن مسائل پر رائے زنی کی،وہ اِس وقت مسلم رائے عامہ کے مقبول اور جذباتی نعرے بھی ہیں اور سلگتے ہوئے مسائل بھی۔اگر امریکا نے ایران کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھانے کی کوشش کی تو مسلم رائے عا مہ مچھلی کی طرح اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں سے اسی طرح پھسل جائے گی جیسا کہ خلیجی جنگ میں انڈونیشا سے مراکش تک صدام حسین کو ملنے والی مقبول حمایت کی صورت میں ہوا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب مسلم حکمران ایک جانب اور ان کی رائے عامہ دوسری سمت میں کھڑی تھی۔کئی حکومتیں عوامی سیلاب اور انقلاب کی رو میں بہہ جانے سے بال بال بچ گئی تھیں۔ ایران کے خلاف عملی قدم امریکا کو ایک نئی دلدل میں پھنسادے گا،کیونکہ امریکی بہت کامیابی سے برسوں سے شیعہ اسلام،سنی اسلام،وہابی اسلام، صوفیائی اسلام،ملی ٹینٹ اسلام اور پُرامن اسلام کے کارڈز کھیل رہے ہیں۔ایران عراق جنگ انہوں نے شیعہ اسلام کے مقابلے میں سنی اسلام کی حمایت کے مفروضے کے تحت لڑی۔افغانستان میں ان کا خیال تھا کہ وہابی اسلام کا کارڈ کارگر ہو گا اور انہوں نے اس کا بے دریغ استعمال کیا۔صدام کے خلاف انہیں ایک بار پھر شیعہ اسلام سے مدد طلب کرنا پڑی۔سنی اسلام کو انہوں نے ناراض کر دیا۔پاکستان،عراق اور افغانستان میں لڑنے کے باوجود انہیں چین کے لیے ملی ٹینٹ اسلام کی تلاش ہے۔یوں لگتا ہے وقت اب بہت آگے نکل چکا ہے، وہ دن گئے جب امریکا کو ایران کے شیعہ اسلام کے خلاف سنی اسلام سے مدد ملتی تھی،کیونکہ امریکا نے عراق،افغانستان اور پاکستان میں سنی اسلام کو مار مار کر ادھ مُوا کر دیا ہے۔اب شاید امریکا کو فلسطین کی طرح اس نئے کھیل میں اسلام اور صرف اسلام سے واسطہ پڑے۔
خبر کا کوڈ : 28195
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش