0
Saturday 20 Jul 2013 03:34

ملیکۃ العرب کا ایثار یا احسان

ملیکۃ العرب کا ایثار یا احسان
ملیکۃ العرب کا ایثار یا احسان 
تحریر: فرحت حسین
 Hussainfarhat604@gmail.com
 

دس رمضان سنہ 10 بعثت کو رسول اکرم (ص) کی شریک حیات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے مکہ میں وفات پائی۔ آپ قریش کی دولت مند اور نامور خاتون تھیں اور بعثت سے 15 سال قبل رسول اکرم (ص) کی زوجیت میں آئیں۔ حضرت خدیجہ (س) پہلی خاتون تھیں جو رسول اکرم (ص) پر ایمان لائیں اور ایمان لانے کے بعد پوری قوت کے ساتھ دین اسلام کی ترویج میں لگ گئیں۔ آپ نے اپنی تمام دولت و ثروت دین الٰہی کی ترویج و اشاعت کے لئے رسول اکرم (ص) کے حوالے کر دی اور ہمیشہ آپ (ص) کی مونس و مددگار رہیں۔ حضرت خدیجہ (س) کی ذات گرامی رسول اکرم (ص) کے لئے اتنی زيادہ اہم تھیں کہ اس عظیم خاتون کی رحلت کو رسول اکرم (ص) نے بڑی مصیبت قرار دیا۔ 

حضرت خدیجہ (س) کی رحلت پر رسول اکرم (ص) نے فرمایا تھا کہ: خدا کی قسم خدیجہ (س) سے بہتر خدا نے مجھے کوئی چیز عطا نہیں کی، وہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ کفر میں مبتلا تھے، اس وقت میری آواز پر لبیک کہا جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے اور اس وقت اپنے مال و ثروت میں برابر کا شریک قرار دیا، جب لوگوں نے مجھ سے رشتہ توڑ لیا تھا۔ واضح رہے کہ اسی سال رسول اکرم (ص) کے چچا حضرت ابوطالب کی بھی وفات ہوئی تھی اور ان دونوں کے شدید غم کے سبب رسول اکرم (ص) نے اس سال کو غم کا سال قرار دیا تھا۔ 

محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم اتنے شفیق مہربان اور معصوم تھے کہ ان کے چچا ابوطالب انہیں اپنے بیٹوں سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ جب ان کی عمر مبارک چوبیس سال کی ہوئی تو اگرچہ جناب ابو طالب کے لئے اپنے بھتیجے کی مالی مدد کرنا ممکن نہیں تھا لیکن انہیں شب و روز انہی کی فکر لاحق رہتی تھی۔ ایک دن انہوں نے سنا کہ مکہ کی تاجر خاتون خدیجہ کو ایک ایسے دیانتدار شخص کی تلاش ہے جسے وہ اپنے مال و اسباب کے ساتھ تجارتی سفر پر بھیج سکیں۔ یہ بات سنتے ہی انہیں فوراً اپنے بھتیجے کا خیال آگیا۔ رات کو جب ان سے ملاقات ہوئی تو ان سے کہا: اے بھتیجے تم تو میری مالی حالت اچھی طرح جانتے ہو، میں تمہاری مالی مدد کرنے سے قاصر ہوں۔ کچھ دنوں کے بعد مکہ کا تجارتی قافلہ شام کی طرف جانے والا ہے اور خدیجہ کو اپنے مال تجارت کی سرپرستی اور نگرانی کے لئے ایک ایسے دیانت دار شخص کی تلاش ہے جسے وہ اپنا مال تجارت سونپ سکیں، اس کے بدلے میں وہ انہیں مناسب اجرت دیں گی۔
 
اگر تم اس کے پاس جاؤ تو وہ یقیناً تمہیں دوسروں پر ترجیح دیںگی، کیونکہ تمہاری دیانتداری اور راستگوئی کی خبر مکہ کے دوسرے لوگوں کی طرح ان تک پہنچ چکی ہے۔ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی جھکی ہوئی نظریں اٹھائیں اور اپنے چچا کو دیکھا، چچا نے اپنے بھتیجے کی آنکھوں میں عزت نفس اور بے نیازی کی روشنی دیکھی پھر اپنے بھتیجے کو یہ کہتے ہو‏ئے سنا: کاش وہ کسی کو میرے پاس بھیج دیتیں۔ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ کہنے کے بعد دوبارہ نظریں جھکالیں اور خاموش ہوگئے۔ ابو طالب اپنے جوان بھتیجے کی بات سن کر گہری سوچ میں پڑگئے۔ جی ہاں محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ سے ایسے ہی تھے، وہ ہر موقع پر محتاجوں کی مدد کرتے تھے، لیکن اپنا دست نیاز کسی کے سامنے دراز نہیں کرتے تھے۔
 
تاریخ نے اس بات کو واضح طور پر ذکر نہیں کیا ہے کہ خدیجہ کو کس طرح ابو طالب اور ان کے بھتیجے کے درمیان ہونے والی اس گفتگو کی خبر ہوئی۔؟ کیا ابو طالب کی زوجہ فاطمہ بنت اسد نے جو محمد کو اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتی تھیں، ملیکۃ العرب کو اس کی خبر دی۔؟ بہرحال یہ بات مسلّم ہے کہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے چچا سے جو بات کہی تھی وہ خدیجہ تک پہنچ گئی تھی۔ انہوں نے دل ہی دل میں ان کی تعریف کی اور کہا: امین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ میرے پاس آنے سے گریز کرے، کیونکہ اس کی خود داری اور عزت نفس اسے اس بات کی اجازت نہیں دے رہی۔ پھر فوراً ایک آدمی انکے پاس بھیجا اور انہیں اپنے پاس آنے کی دعوت دی۔ خدیجہ کا دل گواہی دے رہا تھا کہ محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم وہی امین اور دیانتدار شخص ہے، جن کی انہیں تلاش تھی۔
 
خدیجہ ایک دولتمند اور پاکدامن خاتون تھیں۔ جب کہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم مکہ میں صادق اور امین کے نام سے مشہور تھے۔ خدیجہ بھی عفت و پاکدامنی کے حوالے سے مشہور تھیں اور اسی بنا پر انہیں طاہرہ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا، ان کی تجارت کا یہ عالم تھا کہ ان کے تجارتی قافلے ہمیشہ سفر میں رہتے تھے۔ ان باتوں کے باوجود انہیں مال و دولت جمع کرنے کی کوئی ہوس نہ تھی اور وہ ضرورت مندوں اور محتاجوں، خاص طور پر یتیموں کی ہمیشہ مدد کرتی تھیں۔ لاحاصل قبائلی جنگوں میں مرنے والوں کے یتیم بچوں کا آخری سہارا جناب خدیجہ کا گھر تھا، جہاں ان کی بھوک مٹانے کا انتظام ہوتا تھا۔ جناب خدیجہ یتیموں سے اس قدر مہر و محبت سے پیش آتی تھیں کہ بعض لوگ انہیں یتیموں کی ماں کے نام سے پکارتے تھے۔ 

انہوں نے سچا‏‏ئی اور ایمان داری کے سلسلے میں پیغمبر کی شہرت سن رکھی تھی، لہذا وہ اپنا مال تجارت ان کے حوالے کرنا چاہتی تھیں، جب انہیں پتہ چلا کہ وہ ان کا تجارتی قافلہ لے جانے کے لئے تیار ہیں، تو انہوں نے تاخیر کو جائز نہ سمجھا اور انہیں بلوا بھیجا۔ جب جناب خدیجہ نے محمد امین کو اپنے سامنے دیکھا کہ شرم سے ان کی نگاہیں زمین میں گڑھی ہوئی ہیں تو محسوس کیا کہ انہیں کسی بھی اور شخص سے زیادہ ان پر یقین ہے، وہ مکہ کے دوسرے لوگوں کی طرح جانتی تھیں کہ محمد کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی دوسروں کے مال پر ان کی نظر ہوتی ہے۔ لہذا جناب خدیجہ نے اپنا مال تجارت پیغمبر کے سپرد کر دیا اور اپنے غلام میسرہ کو آپ کے ساتھ اس تجارتی سفر پر شام بھیج دیا۔ 

راستے میں میسرہ نے حضور کے اخلاق اور عادات و خصائل دیکھے تو آپ کا گرویدہ ہوگیا۔ واپس آکر اس نے حضرت خدیجہ کو تفصیل کے ساتھ آپ کے بارے میں بتایا۔ تجارت میں بھی حضور نہایت کامیاب رہے اور ماضی کی نسبت جناب خدیجہ کو زیادہ منافع حاصل ہوا۔ اس سفر میں بحیریٰ کی آپ سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور اس مو‍‍قع پر اس نے کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ اللّہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللّہ کے رسول ہیں۔ وہ نبی امی جن کی بشارت عیسٰی بن مریم نے دی تھی۔ اسی سفر کے دوران حضور بصریٰ میں ایک درخت کے نیچے ٹھہرے جو نسطورا راہب کی خانقاہ کے پاس تھا۔ حضور کو دیکھ کر نسطورا باہر نکل آیا اور اس نے میسرہ غلام سے دریافت کیا کہ اس درخت کے نیچے کون کھڑا ہے؟ اس نے کہا قریش اہل حرم میں سے ایک شخص محمد۔ اس پر نسطورا بولا کہ اس درخت کے نیچے عیسٰی علیہ السلام کے بعد آج تک یعنی تقریباً چھ سو برس تک نبی کے سوا کوئی نہیں ٹھہرا۔ 

پھر نسطورا آپ کے پاس آیا آپ کا سر اور آپ کے قدم چومے اور کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللّہ کے رسول وہ نبی امّی ہیں جن کی بشارت عیسٰی نے دی تھی اور کہا تھا کہ میرے بعد اس درخت کے نیچے نبی امّی ہاشمی عربی مکی صاحب الحوض و الشفاعۃ و صاحب لواء الحمد کے سوا کوئی نہیں ٹھہرے گا۔ جناب خدیجہ کو پیغمبر اسلام کے تجارتی سفر سے ماضی کی نسبت کافی زیادہ منافع حاصل ہوا۔ جناب خدیجہ نے پیغمبر اکرم کو طے شدہ معاوضے سے زیادہ معاوضہ دینا چاہا لیکن پیغمبر نے صرف وہی چار اونٹ معاوضے کے طور پر وصول کئے جو انہوں نے طے کئے تھے۔ جناب خدیجہ کو ان کے غلام میسرہ نے بھی شام میں پیش آنے والے واقعات سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا۔ وہ پہلے ہی پیغمبر اکرم کے اخلاق اور رفتار و کردار سے بے حد متاثر تھیں، یہ واقعات سننے کے بعد ان کی نظر میں پیغمبر کی قدر و منزلت اور بڑھ گئی۔
 
اس وقت جناب خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی، وہ اپنی عفت و پاک دامنی کی بنا پر طاہرہ کے لقب سے معروف تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اللّہ تعالٰی نے ان کو حسن و جمال کی دولت سے بھی نوازا تھا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار اور دولت مند ان سے شادی کے خواہش مند تھے، جن میں ابو سفیان، ابو جہل اور عقبہ بن ابی معیط و غیرہ شامل تھے۔ ان افراد نے کئی بار جناب خدیجہ کو شادی کا پیغام بھیجا، لیکن انہوں نے سب کو سختی سے انکار کر دیا۔ ان کا ضمیر ہمیشہ انہیں گناہ اور انحراف سے روکتا تھا اور نیکی و اچھائی کی ترغیب دلاتا تھا۔ ان کے ضمیر نے انہیں اس بات کا یقین دلا دیا تھا کہ ان بت پرست سود خوروں کے ساتھ شادی ان کی شان کے خلاف ہے۔ 

اب جب محمد کی خوبیوں، اخلاق اور گفتار و کردار کے جوہر کھل کر ان کے سامنے آنے لگے تو وہ ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگئیں۔ حضرت خدیجہ نے بخوبی جان لیا کہ روئے زمین پر شریف ترین اور برترین مرد کون۔ انہیں ایک عرصے سے اس بات کا علم ہوچکا تھا کہ محمد کی شخصیت بے نظیر اور لاثانی ہے۔ لیکن وہ اپنی اور پیغمبر کی عمر کے فرق اور اپنے بہت زیادہ مال دار ہونے کو پیش نظر رکھتے ہوئے شادی کے بارے میں پیغمبر سے اپنی خواہش کے اظہار کے بارے میں تذبذب کا شکار تھیں۔ اپنی اس مشکل کو حل کرنے کے لئے انہوں نے مکہ کی ایک محترم خاتون کو پیغمبر کے پاس بھیجا، تاکہ وہ ان کی مرضی معلوم کرسکیں۔ خاتون نے آنحضرت سے کہا کہ اے محمد آپ کی سچائی، امانت داری اور پاک دامنی کے ہر طرف چرچے ہیں، مکہ میں ہر لڑکی آپ سے شادی کرنے کی آرزو رکھتی ہے۔ اب تو آپ پچیس برس کے ہوگئے ہیں آپ شادی کیوں نہیں کرلیتے۔ 

پیغمبر نے اپنا سر جھکا لیا اور فرمایا میرے پاس کیا رکھا ہے کہ میں شادی کروں؟ خاتون نے کہا کہ اس کا انتظام ہوگیا ہے اور آپ کو ایک ایسی جگہ شادی کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے جہاں حسن و جمال بھی ہے اور مال بھی، شرافت و پاک دامنی بھی ہے اور ثروت و قابلیت بھی۔ کیا آپ اسے قبول کریں گے۔ فرمایا وہ کون ہے؟ خاتون نے کہا خدیجہ۔ آپ نے فرمایا کیا وہ اس شادی پر راضی ہوجائیں گی، جبکہ میرے اور ان کے رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خاتون نے کہا اسے آپ میرے اوپر چھوڑ دیں، میں انہیں راضی کر لوں گی۔ آپ نے فرمایا اگر یہ بات ہے تو میں تیار ہوں۔ خاتون یہ سنتے ہی خوشی سے نہال ہوگئیں اور خدیجہ کو یہ خوش خبری سنانے کے لئے جلدی سے ان کے گھر کی طرف روانہ ہوگئیں۔
 
پیغمبر اسلام جناب خدیجہ کے اخلاق و کردار سے بخوبی واقف تھے۔ دولت کی ہوس، جہالت اور بت پرستی کے دور میں خدیجہ کی پاک دامنی، شرافت، عطا و بخشش اور یتیم نوازی زباں زد خاص و عام تھی۔ ایک ایسے شہر میں کہ جہاں تقریباً سب لوگ اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے پتھر اور لکڑی کے بتوں کے سامنے سر جھکاتے اور ماتھا ٹیکتے تھے، خدیجہ اور ان کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل اس کام کو باطل سمجھ رہے تھے اور حقیقت کی تلاش و جستجو میں تھے، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو بچپن سے ہی بت پرستی سے نفرت کرتے تھے، کس طرح مکہ کی کسی ایسی لڑکی یا عورت سے شادی کرسکتے تھے جو بتوں پر گہرا اور پکا عقیدہ اور ایمان رکھتی تھی۔ صرف خدیجہ ہی وہ خاتون تھیں کہ جنھیں خدا نے ظہور اسلام سے قبل اپنے آخری پیغمبر کے ساتھ شادی کی اہلیت و قابلیت عطا فرمائی تھی۔ 

یہ کوئی معمولی شادی نہیں ہوگی بلکہ آسمانی اور ملکوتی رشتہ قائم ہونے جا رہا ہے، مکہ کی پاک دامن خاتون نے اپنی بات ایک جملے میں خلاصہ کر دی۔ خدیجہ آپ کی سچائی، امانت داری، نیک فطرت، بہترین اخلاق کہ جس کی ہر جگہ شہرت ہے اور آپ کی عظمت و برتری کہ جو تمام لوگوں میں بے مثال ہے، کی بنا پر آپ سے شادی کی خواہش مند تھیں۔ شادی کی تاریخ طے ہوگئی اور پھر شادی کے دن پیغمبر اسلام اپنے چچاؤں کے ساتھ حضرت خدیجہ کے گھر تشریف لے گئے۔ مہمانوں کی آؤ بھگت کی گئی۔ اس کے بعد پیغمبر کے چچا ابو طالب نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا اور خداوند متعال کی حمد و ثنا کرنے کے بعد اپنے بھتیجے کا تعارف کراتے ہوئے کہا میرے بھتیجے محمد عبداللّہ کا قریش کے کسی بھی مرد سے موازنہ کیا جائے تو بلاشبہ وہ اس پر برتری اور شرف رکھتا ہے۔ اگرچہ مالی لحاظ سے وہ تنگ دست ہے، لیکن دولت آنے جانے والی چیز ہے اور یہ ہمیشہ ساتھ نہیں رہتی، جبکہ تقویٰ اور شرافت ایسی چیز ہے جو پائیدار اور باقی رہنے والی ہے اور کوئی بھی دولت اس کا مقابلہ اور برابری نہیں کرسکتی۔ حضرت ابو طالب نے محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کا تعارف کرانے کے بعد اپنی بات ختم کی۔ 

ان کے بعد حضرت خدیجہ کے چچا زاد ورقہ بن نوفل نے بات کرنا شروع کی۔ وہ چونکہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتی خصوصیات اور حیرت انگیز مستقبل سے کسی حد تک واقف تھے، ورقہ بن نوفل نے کہا مکہ میں کوئی بھی آپ کے فضائل اور شرافت کا منکر نہیں ہے۔ ہم بھی صمیم قلب سے آپ کے ساتھ رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں۔ حضرت خدیجہ کا نکاح حضرت ابو طالب نے پڑھایا، حضرت خدیجہ نے اپنا جھکا ہوا چہرہ اوپر اٹھایا اور محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کے خوبصورت اور پرکشش چہرے کو دیکھا اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ کس طرح ان کی زندگی اس خورشید عالمتاب کے آنے سے روشن و منور ہوگئی ہے اور ان کا حیرت انگیز خواب حقیقت کا روپ دھار گیا ہے۔ 

پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت خدیجہ کی شادی کی تقریب خدیجہ کے گھر میں منعقد ہوئی۔ یہ گھر اس شادی سے قبل غریبوں اور محتاجوں کی جائے پناہ تھا، اس شادی کے بعد وہ ان کے لئے مزید اہمیت اختیار کر گیا، کیونکہ ان کی آنکھوں نے محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ بااخلاق اور مہربان کسی اور کو نہیں دیکھا تھا اور حضرت خدیجہ سے زیادہ عطا و بخشش کی حامل کوئی اور شخصیت نہیں دیکھی تھی اور اب وہ دیکھ رہے تھے کہ ان دو عظیم ہستیوں کی شادی ہو رہی ہے۔ لہذا ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس مبارک موقع پر جناب خدیجہ کے گھر کے قریب جمع ہونے والے فقیروں، غریبوں اور نادار افراد کی اونٹ کے گوشت سے تواضع کی جا رہی تھی اور ان کی زبانیں شکر کے کلمات ادا کر رہی تھیں۔ 

حضرت خدیجہ اپنے شوہر کے روحانی مقام و مرتبے اور حیرت انگیز مستقبل سے بخوبی واقف تھیں اور اسی بنا پر وہ محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم میں گہری دلچسپی لے رہی تھیں۔ شادی کے بعد انہوں نے اپنی ساری دولت پیغمبر کے اختیار میں دے دی کہ وہ جہاں اور جیسے چاہیں خرچ کریں۔ پیغمبر اکرم نے شادی کے بعد اسی راستے کو جاری رکھا جو حضرت خدیجہ نے شادی سے قبل اختیار کیا تھا یعنی یتیموں، غریبوں اور ناداروں کی مدد کرنے کا راستہ۔ یہ بےمثال جوڑا دنیا کی تمام عورتوں اور مردوں کے لئے مکمل نمونۂ عمل ہے۔ شادی کے بعد پیغمبر اسلام اپنے چچا ابو طالب کے گھر سے حضرت خدیجہ کے گھر منتقل ہوگئے اور حضرت خدیجہ نے اپنا گھر اور تمام دولت و ثروت پیغمبر اکرم کے اختیار میں دے دی۔
 
حضرت ابو طالب کے ہاں غریبانہ زندگی گزارنے کے بعد پیغمبر خدیجہ کے مال و دولت سے بھرے گھر میں منتقل ہوگئے، لیکن پیغمبر کے طرز زندگی میں ذرہ برابر تبدیلی نہ آئی۔ ان کی زندگی اسی طرح سادہ رہی۔ انہوں نے غریبوں اور محتاجوں کی مدد نہ صرف جاری رکھی بلکہ اپنے پروردگار سے راز و نیاز کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور اس کے لئے وہ بدستور شہر سے باہر پہاڑوں اور غاروں میں جاتے تھے۔ بلاشبہ اس عظیم خاتون کی عالم اسلام کے لئے خدمات ناقابل فراموش ہیں، خدیجہ کا جان و مال کا عطیہ بانی اسلام کو دینا ایثار کہے یا احسان ان دونوں کی تعریفیں کم ہیں اور خدیجة الکبریٰ کی خدمات زیادہ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 282996
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش