2
0
Sunday 28 Jul 2013 21:13

ولایت فقہاء یا ولایت فقیہ؟

ولایت فقہاء یا ولایت فقیہ؟
تحریر: حسن عسکری

آج جب ولایتِ فقیہ کے سسٹم اور نظام نے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ اندرونی و بیرونی دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرکے ان کے غیر دینی عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے۔ دنیا کے ظالموں اور مستکبروں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار اور مظلوموں اور مستضعفوں کا حامی و مددگار ہونے کے حوالے سے یکتا و بےمثال نظر آتا ہے۔ حق و باطل کے درمیان کسوٹی و میزان بن چکا ہے، پوری دنیا میں اسلام و مسلمانوں کی متاعِ مسروقہ کو واپس دلوانے کا خواہش مند ہے۔ مستضعفین و محرومین جہاں کی آخری امید حضرت بقیہ اللہ کی عالمی حکومت کی زمینہ سازی کرنے میں مشغول ہے ۔ ایسے میں کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ولایت فقیہ کہنا غلط ہے بلکہ ولایت فقہاء صحیح اور درست ہے، یہ حضرات دلیل یہ دیتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سلسلہ امامت و ولایت بارہ اماموں میں منحصر ہے جو سب کے سب معصوم ہیں۔ عصرِحضور میں محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نائبین اور جانشینوں کو نام لے کر معین کرتے تھے۔ یہ سلسلہ غیبت صغریٰ تک جاری رہا۔ غیبت کبری میں امام زمان عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف نے تمام جامع الشرائط علماء و فقہاء کو نام لیے بغیر مساوی طور پر اپنا نائب و جانشین بنایا ہے، کیونکہ علماء و فقہاء معصوم نہیں ہیں ان سے غلطی سرزد ہو سکتی ہے لہذا ان میں سے کسی ایک کو ہم ولی و رہبر نہیں مان سکتے۔ پس ہر زمانے میں ایک ولی فقیہ نہیں ہوگا بلکہ جتنے علماء و مجتہدین ہوں گے وہ سب کے سب ولی فقیہ کہلائیں گے۔ خواہ وہ ایک ملک کے اندر ہی کیوں نہ ہوں چہ جائیکہ دو ملکوں میں ہوں۔ پس اگر ایران میں ولی فقیہ حاکم ہیں تو ان کی اطاعت دیگر ممالک پر واجب نہیں چونکہ ان کے انتخاب میں بھی غیر ایرانی شامل نہیں ہیں۔ 

یہ استدلال چند جہات سے ناپختہ ہے۔ اول تو یہ کہ تمام آئمہ اطہار علیھم السلام حتی خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف نام لے کر علماء کو نائب نہیں بنایا بلکہ تمام معصومین نے جامع الشرائط فقہاء و مجتہدین کو اپنی نیابت میں ولایت و رہبری کا حق دیا ہے۔ احادیث کو دیکھا جائے تو بہت سی جگہوں پر ملتا ہے کہ تمام مجتہدین خواہ وہ عصرِ غیبت میں ہوں یا عصر حضور میں سب کو نام لئے بغیر عوام پر حاکم و سرپرست نصب کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ جس سبب سے ایک مجتہد کو رہبر و ولی نہیں مان رہے وہ سبب تو سب میں موجود ہے یعنی سب سے خطا ہو سکتی ہے تو کیا پھر سب کو رہبر نہ مانا جائے؟ اور اس سے بڑھ کر اگر غلطی کے خوف سے ان کی ولایت کا انکار کیا جا رہا ہے تو مراجع عظام کی تقلید کیوں کی جاتی ہے؟ کیونکہ ان میں بھی تو غلطی کا احتمال موجود ہے جبکہ مراجع کرام کی تقلید پر شیعہ سنی علماء و عوام کا اتحاد و اتفاق ہے باوجود اس کے کہ ان کا یقین ہے کہ مراجع سے غلطی ہو سکتی ہے۔ تیسرا یہ مطلب درست ہے کہ آئمہ کی طرف سے تمام علماء کو مساوی طور پر حقِ ولایت ملا ہے لیکن دوسری کئی قرآنی، روائی، عقلی اور سیرت کی دلیلیں تقاضا کرتی ہیں کہ رہبر و حاکم سارے نہیں ہیں بلکہ ایک ہے۔ 

1۔انبیاء اور آئمہ علیھم السلام کی سیرت و سنت:
ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور ان کے اوصیاء و جانشین گزرے ہیں کسی جگہ سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دو یا چند نبیوں، رسولوں، اماموں یا وصیوں نے مل کر عوام پر حکومت کی ہو بلکہ ہمیشہ ایک الٰہی نمائندہ حاکم و رہبر ہوتا تھا جبکہ دوسرے اس کے معاون و مددگار۔ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امیرالمومنین، امام حسن اور امام حسین علیھم السلام دس سال سے زیادہ اس ظاہری زندگی میں اکٹھے رہے لیکن امام و رہبر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتے تھے اور ان کی وفات کے بعد امیرالمومنین۔ حتی ٰ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن و حسین علیھم السلام دونوں بھائی تھے دونوں بیک وقت امام و رہبرِ مسلمین نہیں تھے بلکہ سید الشہداء کی ظاہری امامت امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد شروع ہوئی۔ 

2۔ امام  معصوم کا واضح و صریح حکم:
 امام علی رضا علیہ السلام سے پوچھا گیا امام و رہبر ایک کیوں ہوتا ہے؟ فرمایا، اول تو یہ ہے کہ ایک رہبر کی تدابیر اور فیصلوں میں اختلاف نہیں ہوتا لیکن اگر دو یا دو سے زیادہ افراد امام ہوں تو ان کا ایک رائے پر متفق ہونا مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں آج تک کوئی ایسے دو آدمی نہیں ملے کہ جن کی تمام موارد میں ایک ہی فکر اور رائے ہو ۔ پس اگر دونوں کی اطاعت واجب ہو اور دونوں کی فکر و رائے بھی مختلف ہو تو معاشرے میں حرج و مرج پیش آئے گا اور اگر صرف ایک کی اطاعت کی جائے تو دوسرے کی نافرمانی کا باعث بنے گی، اگر آدھی عوام ایک کی اور آدھی دوسرے کی اطاعت کرے تو اجتماعی اختلاف کے ساتھ ساتھ پوری عوام نافرمان اور معصیت کار ثابت ہوگی۔
دوسرا یہ کہ دونوں کے واجب الاطاعت ہونا الہی حدود، احکام اور حقوق کے ضیاع کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ اس لئے کہ عوام ان رہبروں میں سے اپنی مرضی کے رہبر کی طرف جائیں گے اور رہبروں میں سے بھی ہر ایک دوسرے کے خلاف فیصلہ کرے گا۔ تیسرا یہ کہ اگر کہا جائے کہ اس کا امر و نہی مقدم ہو گا جو پہل کر جائے تو پھر ہم کہیں گے کہ دونوں ذاتی و صفاتی طور پر صلاحیت رکھتے ہیں تو پہلے کو کیوں حکومت و رہبری ملے؟ اور دوسرا پہلے کے حکم صادر کرنے کے بعد کیوں نہیں مخالفت کر سکتا؟ اس بات کو بھی قبول کرنے سے الٰہی حقوق و حدود پامال ہوں گی۔ (عیون اخبار الرضاؑ ، ج2۔)
 
3۔ ایک رہبر دوسری شخصیات سے مشورہ لے سکتا ہے اور تمام علماء و ماہرین اپنی اپنی رائے رہبر تک پہنچا سکتے ہیں البتہ مسلط نہیں کر سکتے کیونکہ فیصلہ رہبر اور حاکم کرے گا اور پھر سب کے مشوروں پر عمل کرنا ناممکن بھی ہے اور غیر عقلی بھی۔ جس طرح خداوند متعال قرآن مجید میں رسول اللہ کو لوگوں سے مشورے لینے کے بعد کام کرنے کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے۔
وشاور ھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ۔ آلِ عمران، 159۔ یعنی اجتماعی امور میں لوگوں سے مشورہ کرو اور پھر جب کسی کام کا عزم کر لیا تو خدا پر توکل کریں۔ اگر تمام مجتہدین کو ولایت و حکومت دے دی جائے تو معاشرے یا امت میں اختلاف و خلل ایجاد ہو جائے گا۔ کسی مہم مسئلے میں ان رہبروں کے درمیان اختلاف اس نظام اور معاشرے کے مختل ہونے کیلئے کافی ہو گا۔ مثلا ایک امت کے تین رہبر ہوں اور اس امت کو کوئی مشکل پیش آئے اور تینوں الگ الگ راہِ حل پیش کریں تو اس حالت میں اس امت کا کیا حشر ہو گا۔ (وہی حشر ہوگا جو آج عراقی و پاکستانی قوم کا ہے۔) امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں، رہبروں کا شریک قرار دینا اضطراب اور بےنظمی کا باعث ہے لیکن رہبر کا مشورہ لینا حق کے زیادہ قریب ہے۔
5۔ امام معصوم علیہ السلام کا مشہور فرمان ہے کہ سفر کے دوران اگر چند افراد ہیں تو ان میں ایک کو سفری امور میں رہبر بنا لو۔ یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے کہ جب امام معصوم علیہ السلام چند گھنٹوں کیلئے بغیر امامتِ واحدہ کے نہیں رہنے دیتے تو پوری زندگی بشر کو کیسے شترِ بےمہار کی طر ح چھوڑنے کے قائل یا مختلف رہبروں کے حوالے کر سکتے ہیں؟
6۔ بعض چیزوں کا وجود خود ہی اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ وہ واحد و یکتا ہوں اور ان کے ساتھ کوئی شریک نہ ہو۔ سب سے پہلے ذاتِ باری تعالیٰ عزوجل ہے کہ جس کا وجود خود اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کا کوئی شریک و ثانی نہ ہو اور اس کی دوسری مثال رہبر و امام کی ہے، اگر کسی کی امامت و خلافت اور رہبری و حکومت ثابت کی جائے تو عقل بلافاصلہ فرمان جاری کرتی ہے کہ اس امام کا کوئی ثانی و شریک کار نہ ہو۔
لو کان فیہما آلہۃ الا اللہ لفسدتا۔انبیاء ،22۔
اگر زمین و آسمان میں خدا کے علاوہ کوئی اور بھی خدا ہوتا تو یہ زمین و آسمان تباہ و برباد ہو جاتے۔ یہ آیہ کریمہ بھی مذکورہ عقلی فیصلے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ دراصل یہ آیہ توحیدِ ربوبیت و خالقیت کو بیان کر رہی ہے لیکن اسی کے ذیل میں یہ واضح ہوتا ہے کہ جس قاعدے و کلیے کے تحت خدا کی توحید ثابت ہوتی ہے اسی سے امام و رہبر کی وحدت بھی ثابت ہوتی ہے ۔ (شمیم ِولایت، ص 180)
۷۔ بعض لوگ جو اس بہانے سے ولایت فقیہ کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ ولی فقیہ کے انتخاب میں مثلا ہم شامل نہیں ہیں اور ولی فقیہ کو چونکہ فقط ایرانی علماء منتخب کرتے ہیں اور دیگر ممالک والوں نے اسے ووٹ نہیں دیا لہذا اس کی اطاعت بھی صرف ایرانیوں پر ہی واجب ہے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ کا یہ اعتراض صرف ولایت فقیہ پر ہی نہیں رہتا بلکہ چودہ سو سالہ مرجعیت کے ساتھ ساتھ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر بھی ہوتا ہے بلکہ یہ وہی اعتراض ہے جو معاویہ نے کتنی بار حضرت علی علیہ السلام کی طرف لکھے گئے خطوط میں کیا تھا اور وہ یہ تھا کہ میں نے تو آپ کی بیعت نہیں کی تو پھر کیوں مجھے اپنی اطاعت پہ مجبور کرتے ہو تو حضرت نے فرمایا، تو نے تو سابقہ خلفاء کی بیعت بھی نہیں کی تھی بلکہ اب کی طرح اس وقت بھی صرف اہل مدینہ نے بیعت کی پھر بھی تو ان کی اطاعت واجب سمجھتا تھا تو اب تجھے کیا ہوا؟ یہی جواب آج بھی ولایت پر اعتراض کرنے والوں کو دیا جائے گا کہ سابقہ کئی سو سالہ مرجعیت کے چناو میں کتنے ہندی و پاکستانی ہوتے تھے کہ آج تک بحمدِاللہ جہانِ تشیّع ایرانی و عراقی علماء کے منتخب شدہ مراجعِ عظام کی تقلید کرتی آ رہی ہے۔ تو جو دین مراجع کی تقلید کا حکم دیتا ہے وہی دین ولایت و امامت کے نظام میں زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے اور طاغوتیت کے منحوس سائے سے نہی اور منع کرتا ہے۔
پس خدارا!! اس ستم دیدہ اور مظلوم امت کو راہِ امامت و ولایت سے روکا نہ جائے اور امت و امام کے درمیان جو تحجر، بےشعوری، ظلم و ظالم پر خاموشی، خواب غفلت و جہالت کے ڈیم اور بند باندھے گئے ہیں ان کو دور کیا جائے یعنی اسلام ناب محمدی، اسلامی انقلاب اور نظامِ ولایت فقیہ کو تشنگان حق و حقیقت تک پہنچایا جائے تاکہ یہ امت جامِ ولایت نوش جان کر سکے اور اس کی روحانی و جسمانی آفات کا خاتمہ ہو سکے۔
خبر کا کوڈ : 287693
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

welll don
رضا
Pakistan
جن جغرافیائی حدود میں ولی فقیہ کے لئے اجرائے احکام ممکن نہیں، ان میں اطاعت کیسے ممکن ہے، مثلاً پاکستان میں ان کی حکومت نہیں تو اطاعت کیسے؟
ہماری پیشکش