0
Thursday 1 Aug 2013 19:31

حسن روحانی اور کابینہ سے متعلق قائم کردہ تصورات و توقعات اور اعتدال پسندی کی حقیقت

حسن روحانی اور کابینہ سے متعلق قائم کردہ تصورات و توقعات اور اعتدال پسندی کی حقیقت
تحریر: سید راشد احد

جناب حسن روحانی ۱۴ جون ۲۰۱۳ کے صدارتی انتخاب میں ،کہ جس میں ۷ء۷۲ فیصد ووٹرز نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا، ۷ء۵۰ فیصد ووٹز حاصل کرکے کامیاب ہوئے۔ جناب حسن روحانی کی تقریبِ حلف برداری ۴ اگست کو منعقد ہونی ہے اور اس سے ایک دن قبل رہبرِ معظمِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای جناب حسن روحانی کے بطور صدر جمہوری ایران منتخب ہونے اور اس منصبِ جلیل پر فائز ہونے کی رسمی تائید فرمائیں گے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ دنیا کے تمام سربراہانِ مملکت اور حکام کو اس دن حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے تاہم اس تقریب میں شرکت کے حوالے سے ترجیح علاقائی ممالک کو دی گئی ہے۔ منتخب صدر جناب حسن روحانی فی الحال ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے نمائندے ہیں نیز تشخیصِ مصلحتِ نظام اسلامی اور مجلسِ خبرگان کے رکن ہیں۔ آپ تشخیصِ مصلحت نظامِ اسلامی کے مرکز برائے اسٹراٹیجک تحقیقات کے سربراہ بھی ہیں۔

جناب حسن روحانی کو اعتدل پسند گروہ کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے تو ساتھ ہی آپ کی رہبرِ معظم سے نزدیکی و قربت بھی عوام و خواص میں مشہور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مغربی و امریکی مبصرین و سیاست مدار حضرات اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ روحانی کے منصبِ صدارت پر فائز ہونے سے مغرب کے لیے ایران سے گفتگو کی راہ از سرنو ہموار ہوسکتی ہے چنانچہ ان کے خیال میں یورپ و امریکہ کو یہ موقع ہرگز ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ چنانچہ برطانوی وزیر خارجہ ویلیم ہیگ جیسے سامراجی افسر، کہ جو ایران کے خلاف انتہائی سخت گیر موقف کا حامل ہے، کی طرف سے اس امید کا اظہار کہ روحانی کے انتخاب سے ایران کے ساتھ کشیدگی اور محاذ آرائی میں کچھ کمی آسکتی ہے دراصل اسی سوچ کی ترجمانی ہے۔ لیکن اس حوالے سے رہبرِ معظم کا بیان مبنی بر حقیقت و صداقت ہے کہ ’’ مغربی حکام باالخصوص کہنہ مشق اور تجربہ کار حکام خائن اور ناقابل اعتبار ہیں ‘‘۔ لہذا کسی بھی مجوزہ تفاہم و آہنگی کے لیے ایران کے ساتھ گفتگو کے نئے دور کا آغاز کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے ایسے اقدامات کیے جائیں جس کے نتیجے میں ایران کے عوام کے خلاف مجرمانہ پابندیوں کا متواتر سلسلہ فوری طور سے ختم ہو۔ اس کے علاوہ ایران کی جوہری میدان میں پیش رفت کو جوہری اسلحہ سازی قرار دینے کی بے بنیاد پروپیگنڈہ مہم سے مغرب کو بلا تاخیر باز آجانا چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی یورپ و امریکہ کو پر امن جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کے تعلق سے ایران کے مسلمہ حق کو بے چوں و چرا تسلیم کرلینا چاہیے۔ مغرب اور مغرب نواز سیاست مداروں کو کسی قدر یہ خوش گمانی لاحق ہے کہ حسن روحانی کا اعتدال پسند گروہ سے تعلق ہونے کی بناء پر ایران کی خارجہ پالیسی میں ممکن ہے امریکہ اسرائیل اور مغرب کے حوالے سے کوئی لچک پیدا ہو۔ لیکن یہ ان کا خیالِ خام ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ایران میں خارجہ پالیسی صدرِ جمہوریہ کا دردِ سر نہیں ہے بلکہ اس کی جہت اور سمت کا تعین مقامِ معظمِ رہبری کی صوابدید پر ہے۔ دوسری بات یہ کہ امام خمینیؒ نے ایران کی اسلامی ریاست کی بنیاد ہی اسلامِ ناب پر رکھی ہے اور یہ اسلامِ ناب رہبرِ معظم حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی فرزانہ قیادت کے سبب ایران کے نظامِ حکومت و معاشرت میں روز افزوں گہرائی سے پیوست ہوتا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں ایران کی خارجہ پالیسی میں اگر کوئی مداہنت اور ضعف کی بو محسوس کررہا ہے تو لازم ہے کہ اسے اپنی قوتِ شامہ میں نقص تلاش کرنا چاہیے نہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں۔

اسلام دشمن طاقتوں نے اپنے مزموم مقاصد کے حصول کے لیے اسلام اور اعتدال کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا ہے۔ جب کہ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اسلام ایک دینِ اعتدال ہے۔ اسی لیے اس دین کی حامل امت کو قرآن نے امتِ وسط قرار دیا ہے۔ لہذا دین کے اساسی تقاضے اور روشِ اعتدال باہم متصادم ہرگز نہیں ہوسکتے۔ مغرب اور مغرب نواز لوگ اعتدال کو غلط مفہوم دے کر اس سے سوئے استفادہ کرتے ہیں۔ لہذا اس پس منظر میں علمائے اسلام نے اعتدال کے تعلق سے عقل و نقل کی روشنی میں جو گرہ کشائی کی ہے اس کے بعض اہم نکات کا ذکریہاں خالی از دلچسپی اور افادیت نہیں ہوگا:

اعتدال کے لغوی معنی میانہ روی کے ہیں۔ ہر معاملے میں دو انتہاؤں کے بیچ حدِ وسط کا انتخاب کرنا، دو انتہائی حدوں کے مابین محاسن کا انتخاب یا دائیں و بائیں کے مابین تناسب کی برقراری اور ابعادِ زندگی میں افراط و تفریط سے پرہیز ہے۔ اعتدال کے اصطلاحی معنی میں یہ ظریف نکتہ ملحوظ خاطر رہناچاہیے کہ لفظ اعتدال کا مادہ (root) دو ہے ایک عَدل اور دوسرا عِدل، عَدل عدالت سے ہے اور عِدل تعادل سے ہے جس کے معنی توازن کے ہیں اگر اعتدال عَدل کے مادہ سے مشتق ہے تو پھر اس کے معنی چیزوں کا اپنی صحیح جگہ پر ہونا ہے لیکن ایک لفظ عِدل بھی ہے جو اعتدال کا مادہ ہے اور اس کے معنی میانہ روی اور توازن کے ہیں۔ اس بناء پر اعتدال کی دو تعبیریں ہیں ایک عدالت کے معنی میں اور دوسری تعبیر توازن، یکسانیت اور برابری کے معنی میں۔ چنانچہ اعتدال تعادل کے معنی میں عِدل سے ماخوذ ہے۔ آیت اللہ جوادی آملی اعتدال کے بہ معنی تعادل و یکسانیت کو ناپسندیدہ شمار کرتے ہیں اور اعتدال کے مفہوم کو عَدل کے مادہ سے اخذ کرنے پر اصرار کو پسندیدہ قرار دیتے ہیں۔ اگر ان دونوں مفاہیم کو جمع کرنا چاہیں تو صورت یہ بنتی ہے کہ روشِ عملی میں اعتدال بہ معنی توازن سے استفادہ کرنا چاہیے اور اصول میں اعتدال بہ معنی عدالت سے مستفید ہونا چاہیے۔

روایت میں اعتدال کا ذکر:
قرآن کی سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۴۳میں وَکَذالِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُونُوْا۔۔۔ کا ذکر ہے جس کی طرف اوپر بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ امام علی ؑ نے پیغمبر گرامیؐ کے تعلق سے ’’ سیرۃ القصد ‘‘ کا ذکر کیا ہے یعنیِ رسول ؐخدا اپنی سیرت اور رفتار میں معتدل تھے (نہج البلاغہ،کلمات قصار ۔ ۶۷)۔ ایک موقع پر رسولؐ خدا نے ۳ بار فرمایا کہ’’ علیکم بالقصد ‘‘ تم اعتدال کی روش پر رہو۔ روایت میں اعتدال کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے یہ چند باتیں بہت حد تک معاون ہیں۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ہمیں اعتدال کا درست مفہوم مشخص کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر یہ نہیں ہوگا تو ہر شخص اعتدال کی اپنی خود ساختہ تعریف کے ساتھ بحث میں وارد ہوجائے گا اور کنفیوژن کا موجب ہوگا۔

اعتدال اور قدامت پسندی:
اعتدال و میانہ روی اور قدامت پسندی کے مابین فرق ہے یعنی یہ کہ معتدل اور قدامت پسند شخص باہم جدائی رکھتے ہیں۔ قدامت پسندی ایک ناپسندیدہ امر ہے جب کہ اعتدال پسندی ایک پسندیدہ صفت ہے۔ لہٰذا ان دونوں کے مابین حدِ فاصل مشخص ہونا چاہیے۔ شجاعت و اقتدار کے پہلو بہ پہلو اعتدا ل کی تفسیر ہونی چاہیے۔ اعتدال کو قدامت پسندی کے قلمرو میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ بعض اوقات ہم کہتے ہیں کہ اعتدال یہ ہے کہ دوسروں سے اس طرح بات کی جائے کہ تصادم کی نوبت نہ آئے یہ اعتدال نہیں ہے اور نہ ہی اعتدال کی یہ معنی ہیں کہ ہم قدامت پسندی کے شکار ہوجائیں اور اپنے اصول کو ہاتھ سے جانے دیں اس بنا پر قدامت پسندی اور اعتدال دونوں کلی طور سے ایک دوسرے سے متفاوت و مختلف ہیں۔ بہت سے معتدل انسان اپنے اعتقادی، اجتماعی اور سیاسی اصولوں میں ممکن ہے تند رو یا شدت پسند کی طرح ہوں تاہم ان میں اور تند رو افراد میں جو فرق ہوگا وہ دوسروں کے ساتھ ارتباط و تعلق کی نوعیت میں ہوگا۔ اس لئے کہ معتدل فرد دوسروں کے عقائد اور نقاطِ نظر کا احترام کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی فکر سے بھی مطابقت و اتفاق رکھتا ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو دائرہ اعتدال سے خارج ہیں۔ اس پہلو سے درج ذیل نکات اہم ہیں:

*جہل: 
وہ انسان جو جاہل ہیں ہمیشہ افراط و تفریط پر مبنی اقدامات اٹھاتے ہیں جیسا کہ امام علی ؑ نے نہج البلاغہ( حکمت۔۷۰) میں ارشاد فرمایا ہے۔
*ہوائے نفس کی پیروی: 
جو لوگ بھی خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتے ہیں وہ لازماً افراط و تفریط سے دوچار ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن میں سورۂ کہف آیت ۲۸ میں ارشاد ہوا ہے۔ خواہشِ نفس فقط ذاتی خواہش نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ حزبی، گروہی اور قبائلی عصبیت پر بھی محیط ہے۔ افراطی میلان و محبت حقائق سے انسان کو آنکھیں بند کرلینے پر مجبور کردیتی ہے۔ اگر کوئی معتدل ہونا چاہتا ہے تو اُسے لازماً پارٹی بندی، گروہی مفادات اور نفسانی خواہشات سے آزاد ہونا چاہیے۔
*خدا کی یاد سے غفلت:
 خود غفلت اس بات کا سبب بنتی ہے کہ انسان اعتدال سے خارج ہوجائے۔ اعتدال کے مختلف قلمرو اور مصادیق ہیں:

1۔ انفرادی اعتدال:
 مثلاً عبادت میں اعتدال، گفتگو میں اعتدال، چلنے پھرنے اور کھانے پینے میں اعتدال۔ دنیا طلبی اور غیظ و غضب کو ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ انسان کو اعتدال کی روش سے ہٹا دے۔ اُسی طرح جنسی مسائل میں اعتدال، معیشت میں اعتدال حتیٰ کہ فقہ میں اعتدال کی روش اپنانا پسندیدہ ہے جیسا کہ فقہاء بیان کرتے ہیں کہ وضو کے پانی کو خشک نہیں ہونا چاہیے جس سے مراد فضا کا معتدل ہونا ہے یا یہ کہ معتدل فضا میں حد جاری کیا جانا چاہیے جس کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے شعبے میں بھی اعتدال کی رعایت کی جانی چاہیے۔ حتیٰ کہ اپنے لئے کوئی پروگرام ترتیب دینے میں بھی اعتدال کا خیال رکھا جانا چاہیے جیسا کہ امام علی ؑ نے مالکِ اشتر کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’’ جن کاموں کے انجام پانے کا ابھی وقت نہیں پہنچا ہے انھیں انجام دینے میں جلدی یا ان کاموں میں سستی کہ جن پر عمل کرنے کے لئے امکانات فراہم ہوچکے ہیں یا ایسے کاموں پر اصرار کہ جو مبہم ہیں یا اُن کاموں میں سستی کہ جن کے لئے ہنگامی اقدامات کرنا واضح اور روشن ہے، سے پرہیز کیا کرو۔ ہر امر کو اپنی جگہ پر اور ہر کام کو اپنے موقع پر انجام دو‘‘۔

2۔ داخلی و خارجی سیاست میں اعتدال:
 داخلی سیاست میں معتدل شخص کو چاہیے کہ وہ ماہرین کی آراء اور اُن کے مختلف النوع تجربات سے استفادہ کرے۔ معتدل فرد معاشرہ دوست اور اجتماع دوست ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی معتدل فرد اپنے نقطۂ نظر پر ثابت قدم ہوتا ہے جب کہ دوسروں کے عقائد اور نقاطِ نظر پر بھی اُس کی نگاہ گہری ہوتی ہے۔ اعتدال عزت طلبی کے مفہوم سے مربوط ہے۔ اعتدال کا معنی دشمن کے سامنے تسلیم ہوجانا نہیں ہے بلکہ اعتدال عقلانی و میانہ روی کی روشوں سے استفادہ کرتے ہوئے عزتِ نفس کے حصول میں کامیاب ہونے کا وسیلہ ہے۔ اعتدال کے معنی تند روی اور سست روی کے نہیں ہیں ہم اس کی مثال یوں دے سکتے ہیں کہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے راستے میں یکساں رفتار سے چلنا اعتدال نہیں کہلائے گا بلکہ اعتدال کی روش یہ ہوگی کہ ٹرننگ پر گاڑ ی کی رفتار کم ہو اور شاہراہ پر زیادہ ہو پس اعتدال کے معنی یہ ہیں کہ ہر راہ پر اُس کی اپنی نوعیت کی بناء پر حرکت کی جائے۔ چنانچہ خارجی سیاست میں بھی اخلاق و احترام کو ملوظ خاطر رکھاجانا چاہیے۔

3۔ سیاسی دھڑہ بندیوں میں اعتدال (رہبر کی نظر میں):
 اس حوالے سے رہبرِ معظم فرماتے ہیں کہ بعض افراد اور مختلف گروہ کہتے ہیں کہ ہمارا اصل دشمن ہمارا مقابل سیاسی گروہ ہے جوکہ بہت ہی افسوسناک بات ہے۔ اس روش کو سیاسی تحرک میں ایک افراطی روش کہا جائے گا اس لئے کہ دو گروہ ایک پرندے کے دو پروں کی مانند ہیں کہ اگر ایک پرندے کے دونوں پر اچھی طرح حرکت کریں گے تو پرندے کی پرواز شاندار ہوگی۔ لہٰذا سیاسی گروہ کو اپنے مقابل سیاسی گروہ کو ہرگز دشمن تصور نہیں کرنا چاہیے۔ نگاہِ اعتدال یہ ہے کہ حریف مقابل کو اپنی اصلاح اور اپنے احتساب کا ایک موقع یا ایک عنوان تصور کرنا چاہیے۔ لہٰذا رقیب کو رفیق تصور کرنا چاہیے نہ کہ دشمن۔ تخریب کاری اور تنگ نظری شدت پسندی کے مصادیق ہیں جو مواقع کو بحران میں تبدیل کردیتی ہیں۔

4۔ حوزوی ثقافت میں اعتدال:
 حوزوی ثقافت میں احکاماتِ دینی کے تعلق سے شہریوں کو کم سے کم نصیحت کرنی چاہیے اور عوام پر دینی احکامات کو جبراً تھوپنے سے گریز کرنا چاہیے لیکن سرخ خطوط کی رعایت ضروری ہے۔ اسی طرح مسلّمات دینی کا پابند بنانے پر اکتفا کرنا چاہیے اور غیر مسلّمات کے حوالے سے عوام پر جبر کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ معاشرے کو ہمہ پہلو جہت سے کمال یافتہ بنانا حوزوی ثقافت میں اعتدال کا اہم مصداق ہے۔

5۔ قضاوت میں اعتدال:
 عدالت کے اجراء کی راہ میں اعتدال کا خاص طور سے خیال رکھا جانا چاہیے۔ یعنی اجراء عدالت میں افراط و تفریط کی روش سے گریز کرنا چاہیے۔ اصولاً اجرائے عدالت ایک اعتدال آمیز جذبہ کا نیاز مند ہے اور اعتدال کی روش سے ہٹنا ہمارے لیے عدالت کی روش سے ہٹنا ہوگا۔ بہتر الفاظ میں عدالت کو قضاوت کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔ یعنی عدالت کو قضاوت کا victim نہیں ہونا چاہیے۔ اعتدال کے حوالے سے یہ علمی توضیح جو کہ مختلف دینی علمی شخصیات نیز اسلامی روایات سے ماخوذ ہے کا سطورِ بالا میں ذکر اس لیے ضروری تھا کہ مشہور ہے کہ جناب حسن روحانی کا تعلق اعتدال پسند گروہ سے ہے اور اعتدال پسندی کی گو ناگوں منحرف تعبیروں کی موجودگی میں بہت سارے لوگوں کی اعتدال پسند صدر سے غلط توقعات بھی وابستہ ہو سکتی ہیں۔

اگرچہ صحیح دینی فہم کے حامل اعتدال پسندی سے غلط مفہوم نہیں لیتے ہیں اور ایسے لوگوں نے بجا طور سے منتخب صدر روحانی سے یہ توقع کی ہے کہ وہ ملک کے اقتصادی مسائل کو حل کریں گے، عوام کے معیار زندگی میں بہتری لائیں گے نیز ان اہداف کے حصول کے لیے با صلاحیت، تجربہ کار، فہم و فراست کے حامل، تعلیم یافتہ اور متعہد افراد پر مشتمل اپنی کابینہ تشکیل دیں گے۔ ایران کے بعض سیاسی مبصرین نے ایسے وقت میں جبکہ منتخب صدر کی حلف برداری کی تقریب جلد منعقد ہونے والی ہے اپنی توقعات ظاہر کی ہیں کہ کابینہ میں شامل کیے جانے والے وزراء کے حوالے سے درج ذیل اوصاف کو مدنظر رکھا جائے گا۔

1۔ مومن اور اہلِ دین ہو، اخلاقِ حسنہ اور نیک نامی میں اپنی شہرت رکھتا ہو، نیک نیتی سے وطن اور نظام کی خدمت کا خواہش مند ہو۔
2۔ ولایت مداری میں مشہور ہو، قانون پر عمل کیلیے اس کی آمادگی واضح اور روشن ہو، قوی استدلال سے کام لینے والا ہو، نئی راہوں کی تلاش میں رہنمائی کرسکتا ہو۔
3۔ اس کی اساسی و بنیادی جہت و سمت ملک کے بڑے بڑے منصوبوں سے اچھی طرح ہم آہنگ ہو۔
4۔ کام اختراع کرنے والا ہو، پر تحرک اور شجاع ہو اور کم سے کم مدت میں رہبر عزیز اور عوام کی رضا مندی اور خوشنودی حاصل کرسکتا ہو۔
5۔ اپنے متعلقہ شعبہ کے حوالے سے ماہرین اور متخصصان کو اپنی جانب جذب کرنے اور ملک میں پائے جانے والے امکانات و وسائل سے پوری طرح استفادہ کرنے پرقادر ہو۔

6۔ تخصص و تجربہ کے حامل افراد کی شناخت رکھتا ہو اور اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ ایسے افراد کو مسؤل نہیں بنانا چاہیے جو اپنے شعبہ میں مہارت نہ رکھتے ہوں۔
7۔ ترتیب شدہ پروگرام اور قابلِ اجراء مکتوب نیز وزارت کی کارکردگی کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے کا پیمانہ رکھتا ہو اور ترقی کی جہت میں ملک کو مہمیز دے سکتا ہو۔ اس بات پر اسے یقین ہو کہ اس کا ترتیب شدہ پروگرام معجزہ پیدا کرسکتا ہے۔
8۔ توانا اور سالم جسم کا حامل ہو نیز پیہم جدوجہد اور کوشش کا سلسلہ شب و روز بغیر کسی توقف کے جاری رکھ سکتا ہو۔
9۔ معتبر دانشگاہی تحصیلات سے آراستہ ہو اور اس کا سابقہ علمی کیریئر درخشاں ہو محض تعلیمی اسناد اور موضوعات ہی اہم نہیں ہیں بلکہ جن دانشگاہوں اور جن اساتذہ سے اس نے تعلیم حاصل کی ہو وہ بھی بہت اہم ہیں نیز اس کی تعلیمی اسناد کسی سے مستعار نہ ہوں۔

10۔ اس کی حسن کارکردگی صنعتی، اجتماعی، ثقافتی، تحقیقی اور ہنری سرگرمیوں سے عبارت ہو۔
11۔ انتظامی امور کے حوالے سے کم از کم پانچ سال کا تجربہ رکھتا ہو اور حتی کہ رئیسِ امورِ انتظامی کی سطح کا کام انجام دے چکا ہو۔
12۔ مفاہیمِ علم پر مسلط ہو، اہلِ فن و ہنر ہو اور جدت طراز ہو اور اپنے علم و ہنر کو دولت و ثروت میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
13۔ موجودہ صورتحال میں اپنے معاشرے کی شناسائی رکھتا ہو۔ معاشرے کی ضروریات و ترجیحات کا ادراک رکھتا ہو اور اپنے تجزیے و تحلیل سے ماضی حال اور مستقبل کو روشن اور مشخص کرسکتا ہو۔ دشمن شناس ہو اور دشمنانِ اسلام اور ملت سے پیہم حالتِ جنگ میں محسوس کرتا ہو۔
14۔ اپنی مدتِ وزارت میں خود اپنے لیے یا اپنے وابستگان کے لیے اقتصادی مواقع سے فائدہ اٹھانا حرام سمجھتا ہو اور اپنے آپ کو عوام اور ملک کی خدمت کے لیے وقف کرنے کا عزم رکھتا ہو۔
15۔ مشخص ہو کہ اس نے اپنے قبل کی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں حسنِ کارگردگی اور خلاقیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

16۔ اشرافیت گری کی نفی کا جذبہ رکھتا ہو اور اقتصادی مفاسد کے خلاف جدوجہد کرنے والا ہو نیز مغرب کے سامنے مرعوب نہ ہونے والا ہو اور اپنی سادہ زندگی پر افتخار کرنے والا ہو۔
17۔ افراط و تفریط سے دور ہو، سال ۱۳۸۸ ھ ش کے فتنہ اور اہلِ فتنہ سے واضح فاصلہ رکھتا ہو۔
18۔ کسی کا باج گزار نہ ہو، پرجوش و سرگرم ہو لیکن اس کا جوش و ولولہ ظاہر نہ ہوتا ہو، عوام کے ساتھ خوش اخلاق اور زیادہ طلب لوگوں کے ساتھ ترش رو ہو۔
19۔ نگرانی اور دیکھ بھال کی صلاحیت رکھتا ہو اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو کھلی چھوٹ نہ دے رکھی ہونیز فساد کو برداشت کرنے والا نہ ہو۔
20۔ اپنی زوجہ کو اپنا مشیر نہیں بنایا ہو اور معاشرے میں عفت و حجاب کا قائل ہو اور اس کو مفید جانتا ہو۔ حکام کے تعلق سے یہ عوام کے آئیڈیلز اور توقعات ہیں، جو ان پر جتنا پورا اترے گا اتنا ہی زیادہ وہ انقلابِ اسلامی اور وطن کی خدمت میں موثر ثابت ہوگا نیز اپنے عوام اور رہبر کی نظر میں محبوب قرار پائے گا۔
خبر کا کوڈ : 288878
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش