0
Saturday 3 Aug 2013 16:14

علی کا اقتدار، مظلومیت اور سرخروئی (2)

علی کا اقتدار، مظلومیت اور سرخروئی (2)
ترتیب: سید حسن بخاری
رہبر معظم کی کتاب انسان ۲۵۰ سالہ سے اقتباس 

علی ابن ابی طالب (ع) کی اقتدار اور مظلومیت سے آمیختہ زندگی جو امیرالمومنین کی سرخروئی پر منتج ہوئی میں آپ (ع) کو تین محاذوں پر نبرد ہونا پڑا، قاسطین، ناکثین اور مارقین۔ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو سنی اور شیعہ کتابوں میں خود حضرت علی (ع) سے نقل ہوئی ہیں۔ امیرالمومنین (ع) فرماتے ہیں (امرت ان اقاتل الناکثین و القاسطین والمارقین)۔ قاسطین یعنی ستمگران (ستم کرنے والے) امیرالمومنین (ع) نے ان کو ستم گر کہہ کر پکارا ہے۔ یہ لوگ کون تھے ؟ یہ وہ گروہ تھا جنہوں نے ظاہری طور پر اسلام کو قبول کیا ہوا تھا لیکن حکومت علوی کے سرے سے مخالف تھے۔ حضرت علی (ع) نے ان کو سمجھانے کی جو بھی کوشش کی ثمر آور ثابت نہ ہو سکی۔ البتہ یہ لوگ بنی امیہ کی حکومت کے گرد جمع تھے۔ اس گروہ کے معروف افراد میں سے خود معاویہ، مروان اور ولید بن عقبہ جیسے افراد تھے۔ یہ لوگ حضرت علی (ع) کی حکومت کے آغاز سے ہی محاذ آرائی پر ڈٹ گئے۔ شروع میں مغیرہ بن شعبہ اور عبداللہ بن عباس اور کچھ اور افراد نے حضرت (ع) کو مشورہ دیا کہ حکومت مضبوط ہونے تک ان لوگوں کو ساتھ رکھا جائے مگر حضرت علی (ع) نے قبول نہ کیا۔ یہ لوگ خیال کرنے لگے کہ حضرت علی (ع) کو سیاست کے داوو پیچ نہیں آتے مگر بعد کے حوادث نے ثابت کیا کہ ان لوگوں کا یہ گمان غلط تھا۔ حضرت علی (ع) نے جتنی بھی کوشش کی معاویہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ثمر بار نہ ہو سکی۔ 

اس طرز فکر کے لوگوں کو سرے سے علوی حکومت قبول ہی نہ تھی۔ معاویہ کے مسلمان ہونے سے اس دن تک جب اس نے علی (ع) کے ساتھ جنگ کا ارادہ کیا ابھی تیس سال نہیں گزرے تھے۔ معاویہ اور اس کے ساتھیوں نے سالوں شام میں حکومت کی، وہ لوگ وہاں نفوذ پیدا کر چکے تھے، فوجی چھاونی بنا چکے تھے اب یہ ان ابتدائی دنوں کی طرح نہیں تھے کہ کوئی ان کو کہے تم لوگ تازہ مسلمان ہو بلکہ یہ لوگ اب بہت اثر و رسوخ پیدا کر چکے تھے۔ لہذا یہ لوگ اب علوی حکومت کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔ یہ لوگ چاہتے تھے حکومت ان کے پاس ہو اور پھر حکومت ان لوگوں کو ملی بھی، اور تاریخ کے اوراق ان کے طرز حکومت کے گواہ ہیں۔ وہی معاویہ جو علی (ع) سے رقابت کے دوران بعض اصحاب سے محبت اور الفت ظاہر کرتا ہے جب حکومت اس کے ہاتھ لگ جاتی ہے تو بدترین سلوک روا کرتا ہے، اور پھر نوبت یزید کے دور اور حادثہ کربلا تک جا پہنچتی ہے، پھر مروان، عبدالملک، حجاج بن یوسف ثقفی اور یوسف بن عمر ثقفی کے بدترین دور حکومت تک جا پہنچتی ہے۔ یہ سب ان لوگوں کی حکومت کا ثمر ہے۔ یعنی وہ حکومت کہ جس کے جرائم نقل کرتے ہوئے تاریخ کا قلم بھی لرز جائے وہی حکومتیں ہیں کہ جن کی بنیاد معاویہ نے رکھی اور اسی چیز پر علی ابن ابی طالب (ع) سے جنگ کی۔ آغاز سے ہی معلوم تھا کہ یہ لوگ جس چیز کے پیچھے ہیں وہ ایک دنیاوی حکومت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں، ایسی حکومت جس کی بنیاد خود پرستی اور ذاتی خواہشات پر ہو، وہی چیزیں جو بنی امیہ کی حکومت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہاں ہمارا مقصود کلامی اور عقیدتی بحث نہیں ہے بلکہ یہ وہ مسلمات ہیں جو سنی شیعہ کتب میں نقل ہوئی ہیں۔ 

دوسرا محاذ جس پر علی ابن ابی طالب (ع) کو نبرد ہونا پڑا ناکثین کا محاذ تھا۔ ناکثین یعنی توڑنے والے، یہاں ناکثین سے مراد بیعت توڑنے والے ہیں۔ اس گروہ نے پہلے علی ابن ابی طالب (ع) کی بیعت کی اور بعد میں بیعت توڑ دی۔ یہ لوگ مسلمان تھے اور پہلے گروہ کے برعکس مستقل حیثیت کے حامل تھے۔ یہ لوگ صرف اس حد تک حکومت علوی کو قبول کرتے تھے کہ حکومت میں ان کا قابل قدر حصہ ہو، یہ چاہتے حکومتی امور میں ان سے مشورہ لیا جائے، انہیں حکومتی عہدے دئیے جائیں ، حکومت میں شریک ہوں اور وہ مال و ثروت جو ان کے پاس ہے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا جائے۔ یہ گروہ حکومت علوی کو قبول کرتا تھا مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان سے اس مال و ثروت کے بارے جو ان کے پاس ہے کو ئی سوال نہ کیا جائے، نہ پوچھا جائے یہ مال و ثروت کہاں سے ؟ کیسے اور کیوں اکھٹا ہوا؟ یہ مال و ثروت کیوں کھا رہے ہو ؟ کیوں لے جا رہے ہو؟ اس کا اصل مالک کون ہے؟ اور اس طرح کے دوسرے سوال نہ کئے جائیں۔ لہذا یہ لوگ حضرت علی (ع) کی حکومت کے ابتدا میں آتے اور بیعت کر لیتے ہیں، البتہ ان میں سے بھی بعض افراد شروع سے ہی بیعت نہیں کرتے جیسا کہ سعدابن ابی وقاص وغیرہ۔ اس گروہ میں سے جو لوگ آغاز میں بیعت کرتے ہیں ان میں سے طلحہ، زبیر اور کچھ اور سرداران عرب شامل تھے لیکن جب حکومت علوی کو تین چار ماہ گزرے تو ان کو محسوس ہونے لگا کہ کہ جن اہداف اور مقاصد کے لیے یہ لوگ آئے تھے وہ اس حکومت سے حاصل نہیں ہو سکتے، چونکہ علی ابن ابی طالب (ع) کی حکومت ایسی حکومت ہے جو دوست و رفیق کو نہیں جانتی، اپنے لیے کسی حق کی قائل نہیں ہے، اپنے خاندان کے لیے کسی امتیاز کی قائل نہیں ہے، وہ لوگ جنہوں نے اسلام لانے میں سبقت حاصل کی ان کے لیے کسی امتیاز کی قائل نہیں ہے، اس حکومت کے لیےاحکام الہی کا اجرا سب سے اہم ہے اور اس اجرا میں لچک نہیں ہے۔ جب اس گروہ نے یہ سب کچھ دیکھا تو سمجھ گئے کہ ان کے مقاصد اس حکومت میں ممکن نہیں، لہذا یہ لوگ بیعت توڑ دیتے اور جنگ جمل کا سا فتنہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ جمل حقیقت میں اسلام کے لیے ایک بڑا فتنہ تھا۔ یہ لوگ ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کو ساتھ ملاتے اور جنگ جمل کا فتنہ کھڑا کر دیتے ہیں جس میں ہزاروں مسلمانوں کا خون بہہ جاتا ہے۔ البتہ امیر المومنین ع سرخرو رہتے ہیں اور اس قضیہ کو صاف کر دیتے ہیں۔ یہ وہ دوسرا محاذ تھا جس نے علی ابن ابی طالب ع کو کچھ عرصہ کے لیے مصروف رکھا۔ 
(جاری ہے)۔
خبر کا کوڈ : 289427
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش