1
0
Wednesday 21 Aug 2013 00:17

عالمی حالات اور ولایت فقیہ کا کردار

عالمی حالات اور ولایت فقیہ کا کردار
تحریر: سید میثم ہمدانی
mhamadani@ymail.com
 

خداوند تبارک و تعالٰی نے انسان کی ہدایت کیلئے نبوت کے سلسلے کو جاری کیا۔ جہاں نبی خدا کی ذمہ داری وحی کے ذریعے مخلوق اور خالق میں رابطہ استوار کرنا تھا وہیں بنی نوع انسان کی ہدایت بھی انبیاء کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل تھی۔ ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے ذریعے سیاست اور دین میں جدائی کے باطل نظریہ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محو کر دیا۔ خداوند تبارک و تعالٰی سورہ جمعہ میں فرماتا ہے:
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأمِّيِّينَ رَسُولا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ (سوره جمعه/ آیت ٢)
وہ ہے کہ جس نے ان پڑھ لوگوں میں ان میں سے رسول کو مبعوث کیا جو ان کیلئے آیات کو تلاوت کرتا اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا اور وہ اس سے پہلے واضع گمراہی میں تھے۔ 

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اگرچہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا لیکن آیا خدا کی جانب سے ہدایت کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا؟ نہیں بلکہ رسول خدا کے جانشینوں اور خلفائے برحق کے ذریعے یہ اہم ذمہ داری باقی رہی، تاکہ ملت کو صحیح رہنمائی اور ہدایت کے ذریعے حق کی طرف دعوت دی جائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم جاری رہے۔ یہ سلسلہ رسول خدا (ص) کے بعد ان کے خلفائے برحق کے ذریعے جاری رہا اور پھر یہ اہم ذمہ داری علمائے حق کو سونپی گئی۔ دور حاضر میں بھی خدائی ہدایت کا سلسلہ منقطع نہیں ہے بلکہ ولایت فقیہ کی شکل میں یہ ہدایت اور انسانی رہنمائی کتاب و حکمت کی تعلیم کی صورت میں جاری و ساری ہے۔
 
آج کل عالم اسلام خصوصاً عرب دنیا عالمی اداروں اور ذرائع ابلاغ کا مرکز بنا ہوا ہے اور اسکی وجہ بھی عرب ممالک میں آنے والی تبدیلی کی موج ہے۔ اس موج کو کسی نے عربی بہار کا نام دیا اور کسی نے رنگین انقلاب کے نام سے پکارا۔ اسی طرح بعض مفکرین نے عرب ممالک میں وقوع پذیر ہونے والی بیداری کو انسانی بیداری کا نام بھی دیا۔ ان تمام نظریات میں جو نام ولایت فقیہ کی جانب سے اس تبدیلی کے لئے انتخاب کیا گیا وہ "اسلامی بیداری" کا نام تھا۔ درحقیقت اس نام کے انتخاب میں بھی امت کی راہنمائی اور ہدایت پوشیدہ ہے۔ ولایت فقیہ کے الہی نظام کی طرف سے امت کی اس بیداری کو اسلامی بیداری کہنا درحقیقت اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ اگر انسانیت اپنی ہدایت اور نجات چاہتی ہے تو وہ صرف اسلامی بیداری کے ذریعے ہی ممکن ہے اور پھر خصوصاً اگر امت اسلامی اپنی نجات کی کوشش کرے اور اسکو عربی بہار، یا کوئی رنگین نام دیا جائے تو یہ قطعاً نجات کا ذریعہ نہیں ہوسکتی۔ 

یہ نام بھی کوئی نیا نام نہیں تھا، کئی دہائیاں پہلے ملت اسلامی کی اسلامی بیداری کی پیشین گوئی کی جاچکی تھی۔ قائد انقلاب اسلامی ولی فقیہ امام خامنہ ای 2004ء میں حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اپنے پیغام میں صیہونزم کے اسلام کے سیاسی نظرئیے سے خوف کے بارے میں فرماتے ہیں:
"صہیونی فلسطین میں بچوں اور بڑوں، جوانوں اور بوڑھوں، عورتوں اور مردوں سب کا خون بہار ہے ہیں۔ ان کے گھروں کو ویران اور تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ امریکہ اور انگلستان عراق میں نہتے مظاہرین پر بارود برسا رہے ہیں، ان کے گھروں میں داخل ہوکر ان کی عزت و ناموس کو پائمال کرتے ہیں۔ چادر و چار دیواری کی بے احترامی کرتے ہیں۔ اب جبکہ ان کی لگائی ہوئی پہلی آگ کے شعلے ابھی تک نہیں بجھے وہ اسلامی دنیا کو نئی جنگوں کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ دشمن کی یہ نفسیاتی اور شرارت آمیز حرکات طاقت اور خود اعتمادی سے بڑھ کر ان کے خوف و وحشت اور بوکھلاہٹ کی وجہ سے ہیں۔ وہ اسلامی بیداری کو دیکھ رہے ہیں۔ اسلام کے سیاسی نظریہ اور اس کی حاکمیت کے فروغ سے شدید خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ دشمنان اسلام امت مسلمہ کے آپس میں متحد اور امیدوار ہوکر قیام کرنے سے بھی ڈرتے اور لرزتے ہیں۔" 

اسی طرح آپ 1991ء میں ماہ مبارک رمضان کے مہینے میں پورے ملک سے آئے ہوئے آئمہ جمعہ و جماعت کے اجتماع میں یوں فرماتے ہیں:
"آج اقوام عالم، اسلامی احکام کی پیاسی ہیں۔ مسلمان ملتیں تو اپنی جگہ غیر اسلامی اقوام بھی اسلامی احکام اور اسلامی نظریہ سے آشنائی کی ضرورت کا احساس کر رہی ہیں۔ آج آپ بہت سی ایسی ملتوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ جو بڑی طاقتوں کے بوجھ تلے دب کر ناتوان ہوچکی ہیں، ان کی کمر جھک چکی ہے، وہ طرح طرح کی مشکلات اور سختیوں کا شکار ہیں۔ ان کی یہ حالت اسلام سے دوری کی بنا پر ہے۔ اسلامی بیداری ملتوں کو نجات عطا کرے گی۔ آج مختلف ممالک کے ذہین ترین افراد قرآن کریم کی بتائی ہوئی اسلامی راہ پر گامزن ہوچکے ہیں۔ کیونکہ عزت اور نجات کا راستہ یہی راستہ ہے۔ آج اس دور میں اسلامی دنیا کو شدید ضرورت ہے کہ علماء، واعظین، خطباء، ذاکرین، دانشور حضرات، دینی طلاب، امام جمعہ و جماعت اور تمام مبلغین دعوت دین اور تبلیغ میں اپنا مکمل حق ادا کریں۔" 

امام خامنہ ای 1995ء میں بین الاقوامی وحدت کانفرنس تہران میں شریک غیر ملکی مندوبین اور انقلاب اسلامی ایران کے مسئولین سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہوئے طاقتور سیاسی اسلام کو جاگیردارانہ نظام کیلئے عظیم چیلنج کے طور پر پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"تمام تر وسائل حرب سے لیس یہ گروہ اسلام کی جانب سے لاحق خطرات اور اسلامی بیداری کی وجہ سے ایجاد شدہ خطرات کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہے۔ اس حساسیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام صرف اخلاقی نصیحتوں سے بڑھ کر ایک ایسے فکری موقف کی صورت میں ظاہر ہوا جو ایک نظام کی تشکیل کا باعث بنا ہے۔ دشمنان اسلام نے دیکھا کہ اسلام نے ایک انقلاب بپا کیا، انہوں نے دیکھا کہ اسلام نے ایک پائیدار نظام تشکیل دیا، انہوں نے دیکھا کہ اسلام نے ایک ملت کو اپنے متعلق شناخت اور خود آگاہی عطا کی۔ انہیں نفسیاتی شکست اور احساس کمتری سے نکال کر خود اعتمادی، اپنی اور اپنے دین کی عطا کردہ عزت اور اعلٰی مقام تک پہنچایا۔ دشمنوں نے دیکھا کہ اسلام ایک ملت کو اتنا قوی اور طاقتور بنا دیتا ہے کہ تمام سازشیں ایسی ملت کیلئے بے اثر اور کُند ہوجاتی ہیں۔" 

ولی فقیہ امام خامنہ ای اس دور میں اپنی ہدایت کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہوئے ان عالمی مسائل میں مسلمان اقوام کی راہنمائی کو دینی علماء کا فریضہ جانتے ہیں اور 1992ء میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے موقع پر غیر ملکی نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"خوش قسمتی سے دنیا میں بڑے وسیع پیمانے پر بیداری آچکی ہے۔ جس کی صحیح رہنمائی کرنا انتہائی ضروری ہے۔ جو عالم اسلام کے علماء، دانشوروں اور متفکرین کا فریضہ ہے۔ انہیں اپنا یہ خطیر فریضہ اس طرح انجام دینا چاہیے کہ اس اسلامی بیداری کا نتیجہ اسلامی حاکمیت کی صورت میں ظاہر ہو۔ البتہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ اس کی واضح مثال آپ نے الجزائر میں دیکھی۔ وہاں آزادانہ انتخابات ہوئے جس میں حکومت سے ہٹ کر ایک علیحدہ دوسری جماعت کامیاب ہوئی۔ جو جماعت انتخابات کروا رہی تھی وہ ہار گئی۔ ان انتخابات کے درست ہونے کی سب سے بڑی دلیل خود یہی ہے۔ لیکن دشمن نے ان انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا۔ البتہ انہوں نے اپنے لیے ایک دلیل بھی پیش کی اور کہا کہ یہ ایک ایسی ڈیموکریسی ہے جس کا نتیجہ استبداد کی صورت میں نکلتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے اپنے دوسرے ہم پیمان ممالک میں استبدادی نظام کو مکمل طور پر قبول کر رکھا ہے۔ شاید انہیں اس بات کا بھی علم ہے کہ اسلامی حکومت، استبدادی حکومت نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی بہانہ تراشی ہونی چاہیے، یہی وہ بہانہ تھا۔ وہ اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ کہیں دوسرے اسلامی ممالک میں بھی یہی بات تکرار نہ ہوجائے۔ لہذا ان ممالک میں انتخابات کے وقت اقوام متحدہ کی نگرانی کی باتیں کرتے ہیں، اقوام متحدہ یعنی امریکہ۔ یعنی وہ حکومتیں جنہیں ''ویٹو'' کا حق حاصل ہے اور ان سب کا سربراہ امریکہ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی بھی ملک میں انتخابات کے ذریعہ اسلام کی کامیابی کا احتمال ہو تو امریکہ کسی نہ کسی ذریعہ قانونی طریقے سے وہاں مداخلت کرکے اسلام کو کامیاب نہ ہونے دے۔ مسلمانوں کو اسلام مخالف ایسی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔"
 
اس کے ساتھ ساتھ رہبر معظم انقلاب اسلامی امریکہ کی شکست کے بنیادی اصولوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"امریکہ جیسی ستمگر اور ظالم حکومت جس کے پاس مال و دولت کی کثرت ہے، جدید اسلحہ ہے، ٹیکنالوجی، علم اور وسائل کی بھی فراوانی ہے لیکن یہی ظالم اور متجاوز شیطان جو اپنی طاقت کے بل بوتے پر دنیا کی ملتوں کی تحقیر اور انہیں ذلیل و رسوا کرتا ہے، آج بڑی آسانی سے ہمارے اسلامی خطے میں قابلِ شکست ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ مسلمان ملتیں اپنے مستقبل کے بارے میں امیدوار ہوں۔ پورے شوق اور امید کے ساتھ اقدام کریں، قیام کریں اور حرکت کریں۔ الحمدللہ خوش قسمتی سے اب ملتیں کافی حدتک بیدار ہوچکی ہیں۔ لیکن صرف بیدار ہونا کافی نہیں ہے بلکہ بیداری کے بعد حرکت کرنا چاہیے اور اس حرکت کیلئے امیدوار رہنا ضروری ہے۔" (۱۹۹۱/ ملکی و غیر ملکی مندوبین سے خطاب) 

یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ امت اسلامی کی بیداری کو اسلامی بیداری کا یہ نام اس زمانے میں دیا جا رہا ہے کہ جب شاید کوئی اس بیداری کی جانب متوجہ ہی نہ ہو۔ عالمی رہبر اور عالمی رہنمائ کا یہی طرہ امتیاز ہے کہ وہ کسی بڑی تبدیلی کو اتنا عرصہ پہلے درک کرلیتا ہے کہ شاید عام عوام ابھی اس کے بارے میں سوچتے بھی نہ ہوں۔ لہذا گذشتہ بیان کئے گئے خطبات، اس بات کو کہ موجودہ حالات کو اسلامی بیداری کا نام دینا ایک عجلت آمیز اقدام ہے یا اس تحریک کو فوری طور پر اسلامی بیداری کا کوئی فرضی نام دے دیا گیا ہے، بھی غلط ثابت کرتے ہیں بلکہ اس بات کو ثابت کرتے ہیں ایک عظیم الہی قائد دسیوں سال پہلے اس عظیم بیداری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس کی پپشگوئی کر رہے ہیں اور امت سے اپنے آپ کو اس عظیم تبدیلی کیلئے تیار ہونے کی راہنمائی فرما رہے ہیں۔ 

ولایت فقیہ عالمی حالات کی نبض کو اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے اور ان کی صحیح سمت میں راہنمائی کو اپنا فریضہ سمجھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس عظیم تبدیلی کے نزدیک ہوتے ہی اس کی صحیح راہنمائی بھی انجام دی گئی۔ امام خامنہ ای 2009ء میں حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اپنے پیغام میں اسلامی ممالک میں فتنہ پردازی کو استکبار کی سازش قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
"پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس بارے میں غور و فکر کرنا چاہیے کہ پچھلے کئی سالوں سے عراق، افغانستان اور پاکستان میں جو فرقہ واریت، باہمی خانہ جنگی، بم دہماکے، قتل و غارت اور لاقانونیت کا بازار گرم ہے، اس کی پلاننگ اور منصوبہ بندی کیسے اور کہاں کی جاتی ہے؟ امریکہ کی سرکردگی میں مغربی فوجوں کے اس خطے میں غاصبانہ اور آمرانہ طور پر داخلے سے پہلے یہاں پر آباد ملتوں کو آج تک ایسی مصیبت اور ذلت کا سامنا نہیں تھا؟ ایک طرف تو غاصب طاقتیں، فلسطین، لبنان اور بعض دوسرے ممالک میں عوامی مقاومت کی تحریکوں پر دہشت گردی کا لیبل لگاتے ہیں تو دوسری طرف خود اس خطے میں قومیت اور فرقہ واریت کی وحشیانہ دہشت گردی کی منصوبہ بندی، پشت پناہی اور رہنمائی کرتے ہیں۔ جب ملتوں نے اسلامی بیداری اور تحریک مقاومت کی شکل میں بین الاقوامی ظالموں کیلئے ایسی صورتحال کو ایجاد کرنا ناممکن بنا دیا، جہاد اسلامی کے میدان میں اللہ کی جانب اور اللہ کی راہ میں معراج اور شہادت کا مسئلہ دوبارہ ایک بے نظیر عنصر بن کر ظاہر ہوا تو غاصب دشمن نے پرانے طریقے کو چھوڑ کر جدید استعمار کو اپنا لیا اور نت نئی چالیں چلنے لگا۔ لیکن آج یہ مختلف چہروں والا استعماری جن اسلام کو ختم کرنے کیلئے اپنی بھرپور طاقت اور وسائل کا استعمال کر رہا ہے۔ ان میں فوجی مداخلت، قتل و غارت، خون کی ہولی کھیلنا، اور سرعام ظالمانہ اور غاصبانہ قبضوں سے لیکر نہ صرف تبلیغات اور میڈیا کے مضبوط نیٹ ورک، جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانے والے ہزاروں چینلز کا اجرا اور آدم کشی کے بےرحم دستوں کی تیاری کا سلسلہ بلکہ اخلاقی فساد کا موجب بننے والے ذرائع کا وسیع پیمانے پر پھیلاو، منشیات کی پروڈکشن اور ترسیل، جوانوں کے عزم و ارادہ اور روح و جذبہ کی تخریب، اور مقاومت کے مراکز پر ہر طرف سے سیاسی حملات اور یہاں تک کہ بھائیوں کے درمیان قومیت اور فرقہ واریت کی آگ لگانا اور دشمنی ایجاد کرنا ہے۔"
 
بالاخر قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای آیندہ کے بارے میں پرامید رہنے کا درس دیتے ہوئے اپنی دینی رہبری میں ہدایت کی ذمہ داری انجام دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
"الحمدللہ ہمارا مستقبل بہت پُرامید اور بہت بہتر ہے۔ آج جو ہم اپنی دوررس نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے پوری دنیا میں دشمن کا محاصرہ ہوجائے گا۔ اگرچہ دشمن کی تمام تر کوشش یہی تھی کہ اس خطے میں کسی نہ کسی طرح ہمارا محاصرہ کرلے، لیکن خداوند متعال خود اُن کا ہرطرف سے محاصرہ کرلے گا:
يَوْمَ يَغْشَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ وَيَقُولُ ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (آیت ٥٥/ سورہ عنکبوت)
اوپر، نیچے ہر طرف سے عذاب انہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔
 
اب آپ اس کی مثالیں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، جن میں سے ایک یہی اسلامی بیداری ہے۔ سابقہ سوویت یونین کا ٹوٹنا اور اس کی نابودی بھی انہی میں سے ایک ہے۔ مغرب میں نسل پرست قومی اور داخلی اختلافات کی مثال بھی آپ کے سامنے ہے۔ ہم کسی کیلئے بھی جنگ کی آرزو نہیں کرتے لیکن خدا کا کام قابلِ دید ہے" (۱۹۹۲/ بوشہر میں دینی طلاب سے خطاب) 

ایک اور جگہ 1999ء میں ایران کے مسئولین سے خطاب کے دوران آیندہ کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" الحمدللہ آج اسلامی معاشرے، اسلامی نظام کی اہمیت جان چکے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے عظیم اسکالرز، مصنفین، خطباء اور بہت سارے لوگوں کے دل اس طرف متوجہ ہوچکے تھے۔ اسلامی بیداری شروع ہوچکی ہے۔ اسلامی معاشرے اپنے پاس اس گرانقدر اثاثے کی قدر و قیمت سے آگاہ ہوچکے ہیں۔ ہاں اسی طرح دشمن کی سازشوں میں بھی روز بروز اضافہ ہوا ہے۔ دشمن مسلمان ملتوں کے اندر مسلسل اختلافات اور تفرقہ پھیلانے میں مصروف ہے، تاکہ قومیت، ملیت اور تعصبات کو ہوا دے کر ہر گروہ کو اپنے منحوس اہداف کی سمت لے جائے، جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ دشمن یہ بخوبی جان چکا ہے کہ دنیا کے مسلمان نشین خطے میں اسلامی آگاہی اور اسلامی بیداری اپنا کام کر دکھائے گی اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے۔ یقیناً یہی احساس مسلمان ملتوں کو اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی امت واحدہ کی تشکیل کی جانب لے جائے گا۔ انشاءاللہ مستقبل میں حتماً ایسا ہی ہونا ہے۔ ان دشمنیوں اور سازشوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا، کیونکہ اسلامی طاقت ان سب سے بالاتر ہے۔ جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور وہ یہ تھا کہ عظیم اسلامی طاقت نے لوگوں کو متحد کر دیا اور ان کے دلوں کو آپس میں قریب کیا۔ اسلامی ایمان کے ذریعے اس تحریک کی مضبوط مدد فراہم کی اور یہاں پر اسلامی نظام قائم ہوا۔"

آپ 2011ء میں پورے ملک کے ہزاروں اساتید کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"صرف شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا یعنی مشرق وسطٰی کے ممالک میں ہی بیداری کی تحریکیں نہیں اٹھیں بلکہ یہ تحریکِ بیداری مغرب کے مرکزی نقطہ تک پہنچے گی۔ وہ دن ضرور آئے گا کہ جب یہی مغربی ملتیں اپنے سیاستدانوں، حکمرانوں اور طاغوتوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوں اور قیام کریں۔ جنہوں نے ان ملتوں کو امریکہ اور صیہونی اقتصادی اور فرہنگی سیاست کے تابع کیا ہوا ہے، یہ بیداری یقینی ہے۔ یہ سب ملت ایران ہی کی عظیم تحریک کے نتائج اور ثمرات ہیں۔
بارالہا! مسلمان ملتوں اور خصوصاً مظلوم فلسطینی قوم کو اپنی عنایات کے زیرسایہ مکمل کامیابی عطا فرما۔
خبر کا کوڈ : 294074
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
mbt swiss shoes اسلام ٹائمز - عالمی حالات اور ولایت فقیہ کا کردار
mbt shoes dubai http://www.networkinnovationsllc.com/mbt-shoes-website.asp
ہماری پیشکش