0
Friday 11 Oct 2013 22:49

طالبان سے مذاکرات کی منہج کیا ہو؟ (1)

طالبان سے مذاکرات کی منہج کیا ہو؟ (1)
تحریر: سید اسد عباس تقوی
 
جنگ کسی بھی معاملے کا حل نہیں ہے۔ کوئی بھی معرکہ وقتی طور پر تو شاید دو فریقوں کے مابین فیصلہ کر دے، تاہم یہ توقع رکھنا کے پسپا ہونے والا فریق موقع پا کر دوبارہ حملہ آور نہیں ہوگا، تاریخی لحاظ سے غلط ہے۔ تاریخ اسلام میں بہت مرتبہ ایسا ہوا کہ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا گیا بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پہلی ترجیح مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہی تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زندگی میں مشرکین، نصرانیوں اور یہودیوں سے بہت سے معاہدے کیے۔ رسول اکرم (ص) نہ صرف یہ کہ معاہدے کرتے بلکہ ان کی پاسداری کا بھی مکمل اہتمام کرتے، بلکہ بعض معاہدے ایسے بھی تھے جو رسول اکرم (ص) سے قبل ہوئے، تاہم ان کی افادیت کے مدنظر آپ ان کو پسند فرماتے تھے۔ حلف الفضول اسی قسم کا معاہدہ ہے۔ میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ، خیبر کے یہودی قبیلے بنو نظیر سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ حیات طیبہ کے چند ایک درخشاں باب ہیں۔
 
جنگ کے دوران بھی آپ کبھی پہل نہ کرتے تھے بلکہ اپنے تمام اصحاب سے فرماتے کہ اپنے مدمقابل کو پہلے اسلام کی دعوت دو، اگر قبول کرلے تو وہ تمہارا دینی بھائی ہے۔ اسی طرح اعلان فرماتے کہ جو شخص بھی اسلام کے پرچم تلے آجائے گا اس سے ہماری جنگ نہیں۔ آپ کا واضح منشور تھا کہ جو ہتھیار پھینک دے، اس سے تعارض نہ کرو۔ جو پناہ کا طلبگار ہو، اسے پناہ دو۔ آپ نے فی الحقیقت دین اسلام کو امن و آشتی کے دین کے طور پر متعارف کرایا۔ آپ کے دشمن پر واضح ہوتا تھا کہ اگر میں جنگ کا ارادہ ترک کر دوں اور ہتھیار پھینک دوں تو مسلمان مجھ پر حملہ آور نہیں ہوں گے اور مجھے نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
 
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام دوسری تہذیبوں کا دشمن نہیں، نہ ہی وہ ان کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ تو اپنا مخاطب سارے انسانوں کو قرار دیتا ہے۔ مسلم و غیر مسلم سبھی کو اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ سب کی اصل ایک ہے۔ سب کا رب اور خالق و مالک ایک ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ سب انسان، سب تہذیبیں اور تمام انسانی جماعتیں ایک دوسرے کو جانیں:
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنائیں تاکہ تم ایک دوسرے سے متعارف ہو سکو۔‘‘1        
امت مسلمہ میں پیدا ہونے والے داخلی فتنوں کے حوالے سے بھی تاریخ میں ہمیں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں ہمارے اکابرین نے مذاکرات کو جنگ پر ترجیح دی۔ خوارج کا معاملہ جب حد سے تجاوز کر گیا اور انھوں نے ریاست کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان کر دیا نیز عامۃ الناس کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں تیزی لائی تو امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے عبداللہ ابن عباس، قیس بن سعد بن عبادہ اور ابو ایوب انصاری رضوان اللہ علیھم اجمعین کو مختلف اوقات میں خوارج کے پاس قاصد بنا کر بھیجا۔ ان تمام قاصدوں کا ایک ہی مطالبہ ہوتا تھا کہ امن سے زندگی گزاریں اور دوسروں کے امن کو برباد نہ کریں۔ جب حضرت علی علیہ السلام کو حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ اور ان کی حاملہ بیوی کی خوارج کے ہاتھوں کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے حارث بن مرہ العبدی کو خوارج کے پاس درست حالات کی جانچ پڑتال کے لیے بھیجا کہ معلوم کریں کیا ماجرا ہے؟ خوارج نے انہیں بھی شہید کر دیا۔
 
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم نے ایک مرتبہ خوارج سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
"اگر تم اس خیال سے باز آنے والے نہیں ہو کہ میں نے غلطی کی اور گمراہ ہوگیا ہوں تو میری گمراہی کی وجہ سے امت محمد (ص) کے عام افراد کو کیوں گمراہ سمجھتے ہو اور میری غلطی کی پاداش انھیں کیوں دیتے ہو، میرے گناہوں کے سبب انہیں کافر کیوں کہتے ہو۔ تلواریں کندھوں پر اٹھائے ہر موقع و بے موقع جگہ پر وار کئے جا رہے ہو اور بے خطاؤں کو خطاکاروں کے ساتھ ملا دیتے ہو، حالانکہ تم جانتے ہو کہ رسول اللہ (ص) نے جب زانی کو سنگسار کیا تو اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی اور اس کے وارثوں کو ورثہ بھی دیا۔۔۔۔۔۔ اس طرح رسول اللہ (ص) نے ان کے گناہوں کی سزا ان کو دی اور جو ان کے بارے میں اللہ کا حق تھا اسے جاری کیا مگر انہیں اسلام کے حق سے محروم نہیں کیا اور نہ اہل اسلام سے ان کے نام خارج کئے۔

جناب امیر علیہ السلام کا مذکورہ بالا خطاب بھی جنگ سے بچنے کی ایک سعی ہے کہ مبادا ان میں سے کچھ افراد اپنے طرز عمل پر غور کریں اور شدت پسندی سے باز آجائیں۔ جناب امیر کی مسلسل کوششوں کے سبب بہت سے افراد اس گروہ کو چھوڑ کر دوبارہ امن پسند شہریوں کی مانند زندگی گزارنے لگے اور وہ جو ہٹ دھرمی پر قائم رہے، نہروان کے میدان میں جناب امیر کے مدمقابل آگئے۔ میدان جنگ میں بھی جناب امیر (ع) نے واپسی کی راہ کو مسدود نہ کیا بلکہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو امان کا پرچم اٹھانے کا حکم دیا اور یہ اعلان کرنیکا حکم دیا کہ جو اس جھنڈے تلے آ جائے وہ امن یافتہ ہے، علاوہ ازیں جو کوفہ اور مدائن چلا جائے وہ بھی مامون ہے۔ مصالحت کی ان تمام کوششوں اور پیشکشوں کے باوجود جو لوگ میدان جنگ میں موجود رہے، وہ لشکر اسلام کی تلواروں کا نشانہ بنے۔ 

قارئین کرام ہم نے دیکھا کہ جناب امیر نے لوگوں کو کوفہ اور مدائن کی جانب چلے جانے کو کہا۔ انھوں نے یہ نہ فرمایا کہ آؤ اور میری بیعت کرو۔ میری خلافت کو تسلیم کرو بلکہ ان کا مقصد فقط یہ تھا کہ دیار اسلام میں امن و امان قائم ہو اور عوام کو اس فتنے سے نجات ملے۔ آج امت مسلمہ کے بعض ممالک بالعموم اور پاکستان بالخصوص دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کو کسی ایک گروہ کا کام قرار دینا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں طالبان اور ان کے ذیلی گروہ بعض واقعات کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔ بعض دفعہ ذرائع ابلاغ پر ان کی جانب سے کوئی بیان آتا ہے جس کی بعد میں تردید ہو جاتی ہے۔ بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پاکستان میں متعدد گروہ ریاست، مخصوص مسالک اور افواج پاکستان کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ پہلے درجے پر ضرورت اسی امر کی ہے کہ شدت پسندانہ اور دہشت گردی پر مبنی کارروائیاں کرنے والے گروہوں کی پہچان کی جائے۔ ہر کارروائی کو طالبان کے سر تھونپنا آسان ضرور ہے، تاہم اس طرح ہم ملک میں ہونے والے درجنوں غیر مشخص واقعات کے اصل مجرموں تک کبھی نہیں پہنچ سکتے۔
 
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
حوالہ جات

1۔ سورہ حجرات 13
2۔ نہج البلاغہ، سید رضی، خطبہ نمبر123
خبر کا کوڈ : 310152
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش