0
Friday 18 Oct 2013 21:07

امریکی خارجہ سیاست میں یہودی لابیز اور پریشر گروپس کا کردار

امریکی خارجہ سیاست میں یہودی لابیز اور پریشر گروپس کا کردار
ہر ملک کی خارجہ پالیسیاں بعض اندرونی، قومی اور بین الاقوامی عوامل کے تابع ہوتی ہیں جن کے مجموعی اثرات اور عمل و ردعمل کا حاصل "خارجہ سیاست" کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ امریکہ کی خارجہ سیاست بھی کئی عوامل کے تابع ہے اور مذکورہ بالا تین سطح پر موجود مختلف موثر قوتوں کے عمل اور ردعمل کا نتیجہ ہے۔ انٹرنیشنل ریلیشنز کے علم میں پائے جانے والے نظریات کے مطابق امریکی سیاست خارجہ کا مطالعہ کرنے میں ایک اہم سطح اس ملک کی اندرونی سطح ہے۔ اندرونی سطح پر امریکی خارجہ سیاست پر اثرانداز ہونے والے مختلف قسم کے عوامل اور قوتیں پائی جاتی ہیں جن میں دو بڑی امریکی سیاسی جماعتیں ریپبلیکن پارٹی اور ڈیمو کریٹک پارٹی، معروف سیاست دان اور لیڈرز، کانگریس، رائے عامہ، بڑے بڑے کارخانوں کے مالکین، تھنک ٹینکس اور پریشر گروپس کا نام قابل ذکر ہے لیکن جب مشرق وسطی میں امریکہ کی خارجہ پالیسیوں کا ذکر آتا ہے تو اس زمرے میں سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والی اندرونی قوتیں یہودی لابیز ہیں جو دوسرے عوامل سے زیادہ واضح اور برجستہ دکھائی دیتی ہیں۔
 
آیا امریکہ صہیونیوں کے قبضے میں ایک حکومت کا نام ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل گذشتہ نصف صدی سے شدید سکیورٹی مسائل سے دوچار رہا ہے لیکن اب 11 ستمبر 2001ء (نائن الیون) کے بعد معرض وجود میں آنے والی انتہائی شدت پسندانہ اور غبارآلود فضا میں انتہائی اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں لگا ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کے مفادات کا حصول صرف اور صرف شدید کشمکش اور بحران والی فضا میں ہی ممکن ہے۔ امریکہ میں نائن الیون کے نام نھاد دہشت گردانہ اقدامات رونما ہونے کے بعد عالمی سطح پر آغاز ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ (War against Terror) نے اسرائیل کی غاصب صیہونیستی رژیم کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں کو کچلنے اور ان کے مسلمہ انسانی حقوق کی پامالی کیلئے انتہائی مناسب فضا مہیا کر رکھی ہے۔ 
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کی تقدیر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور آج اس ناجائز ریاست کی بقا یا سقوط براہ راست امریکہ کو متاثر کر سکتا ہے لیکن جو چیز کچھ حد تک غیر معمولی اور عجیب دکھائی دیتی ہے وہ اسرائیلی حکومت اور اس سے وابستہ سیاسی حلقوں کی جانب سے امریکی پالیسیوں اور سیاسی فیصلوں پر حد درجہ اثرانداز ہونا ہے۔ اس گہرے اور شدید اثرورسوخ کو دیکھ کر انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس عام تاثر کے برعکس جس کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل امریکہ کی ناجائز اولاد ہے، امریکہ اسرائیل کا پٹھو اور مطیع ہے۔ 
 
اسرائیل کے پاس امریکی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کے کئی ذریعے موجود ہیں جن میں سے سب سے اہم اور طاقتور ذریعہ امریکہ میں موجود یہودی لابیز ہیں۔ یہ صہیونیستی لابیز دو طرح کی ہیں، ایک رسمی اور دوسری غیررسمی۔ رسمی لابیز کی مثال وہ منظم یہودی اور صہیونیستی تنظیمیں ہیں جو امریکی پارلیمنٹ کے فیصلوں اور امریکی حکام پر براہ راست دباو ڈال کر ان پر راست اثرانداز ہوتی ہیں جن میں سے سب سے زیادہ دو اہم تنظیمیں AIPAC یا America Israel Public Affairs Committee اور یہودیوں کی عالمی کانگریس ہے۔ غیررسمی یہودی لابیز ان یہودی ووٹرز یا اہم حکومتی مناصب پر موجود اعلٰی سطحی یہودی عہدیداروں پر مشتمل ہے جو امریکی سیاست میں اہم کردار کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ 

ایران کے خلاف امریکی دباو میں آیپک کا کردار:
اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں امریکی پالیسیوں کے پیش نظر اکثر امریکی اور اسرائیلی اہم ذرائع صہیونیستی لابی آیپک کو اس بارے میں انتہائی موثر اور اہم کردار کی حامل تنظیم قرار دیتے ہیں۔ چونکہ اسرائیل نے ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دے رکھا ہے لہذا اس یہودی تنظیم نے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے کی ضرورت پر تاکید کے پیش نظر گذشتہ چند سالوں میں وائٹ ہاوس کی جانب سے ایران کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات میں انتہائی بنیادی اور اہم کردار ادا کیا ہے۔ 
 
آیپک یا امریکہ اور اسرائیل کی تعلقات عامہ کمیٹی اسرائیل کے قیام کے 6 سال بعد 1948ء میں معرض وجود میں آئی۔ آج اس کمیٹی کے 85 ہزار رکن ہیں اور اس یہودی تنظیم نے امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ دنیا کے 10 دوسرے ممالک میں بھی اپنے دفاتر قائم کر رکھے ہیں۔ اس تنظیم کا بجٹ 33.4 میلین ڈالر پر مشتمل ہے جو اس کے 165 اراکین کی جانب سے مہیا کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو بہبود بخشنا ہے۔ یہاں یہ نکتہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ اس یہودی لابی نے امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ریپبلیکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلقات استوار کر رکھے ہیں اور ان کی انتخابی مہم میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ آیپک کے 50 اصلی اراکین ہیں جو ان دونوں امریکی سیاسی جماعتوں میں گہرے اثرورسوخ کے حامل ہیں۔ امریکی کانگریس میں دونوں سیاسی جماعتوں کے لیڈران اس یہودی لابی کی اہمیت اور اثرورسوخ کے گن گاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ 
 
 ایران کے خلاف دباو ڈالنے کیلئے آیپک کے ہتھکنڈے:
امریکہ میں موجود اسرائیلی لابی تنظیم آیپک ایران کے خلاف سیاسی اور اقتصادی دباو بڑھانے کیلئے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ان میں سے ایک ہتھکنڈہ پیکس (PACs) نامی یہودی گروہوں کی جانب سے امریکی حکام اور سیاستدانوں پر بالواسطہ دباو ڈال کر انہیں ایران کے خلاف فیصلے کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ اگر کوئی امریکی رکن پارلیمنٹ ایران مخالف پالیسیوں کے خلاف موقف اختیار کرے تو یہ یہودی گروہ وسیع پیمانے پر اس کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں اور امریکہ میں مقیم بااثر یہودیوں کو اس کے خلاف دباو بڑھانے پر اکساتے ہیں۔ 
 
آیپک کی جانب سے بروئے کار لائے جانے والے ہتھکنڈوں میں سے ایک اور ہتھکنڈہ یہودیوں کے جذبات ابھار کر انہیں اپنے مخالف سیاستدانوں کے خلاف اکسانا اور اسے نفسیاتی دباو کا شکار کرنا ہے۔ صیہونیستی تنظیم آیپک کے تربیت یافتہ افراد ایک خاص ایشو کو یہودیوں کیلئے انتہائی خطرناک ظاہر کرتے ہوئے یہودی شہریوں کو اس کے خلاف متحد کر کے عوامی کمپین شروع کر دیتے ہیں۔ آیپک نے امریکی کانگریس کے تمام اراکین کے بارے میں اہم اور خفیہ معلومات جمع کر رکھی ہیں جنہیں ضرورت پڑنے پر انہیں بلیک میل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور سیاسی اثرورسوخ ہونے کے ناطے انہیں یہ خوف بھی رہتا ہے کہ اگر یہودیوں کی بات نہ مانی گئی تو ہو سکتا ہے ان کے ووٹ سے محروم ہو جائیں۔ 
 
امریکہ کے حکومتی نظام میں بھی یہودیوں نے ایک خاص قسم کی آمریت اور ڈکٹیٹرشپ قائم کر رکھی ہے جس کے باعث ہر وہ حکومتی عہدیدار جو اسرائیلی لابیز کی من پسند پالیسیوں کی مخالفت یا ان کے مقابلے میں اعتراض کرتا ہے فورا اپنے عہدے سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔ ایسے افراد یا گروپس جو آیپک کی جانب سے دی گئی ہدایات پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہیں بتدریج گوشہ نشینی کا شکار کر دیئے جاتے ہیں اور آخرکار سیاسی میدان سے ہی باہر نکال دیئے جاتے ہیں۔ آیپک کا اثرورسوخ درحقیقت کانگریس کے اراکین پر امریکی حکام سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکی حکومت نے خارجہ پالیسیوں کی تیاری کیلئے ایک وسیع و عریض سیٹ اپ تشکیل دیا ہوا ہے جو اتنا پیچیدہ ہے کہ اس پر اثرانداز ہونا بہت مشکل کام ہے۔ جبکہ دوسری طرف کانگریس کے اراکین پر آسانی سے اثرانداز ہوا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ملک کے اندرونی حالات، ملکی سطح پر جاری پروپیگنڈے اور رائے عامہ کے دباو سے بہت جلدی اور زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ 
 
اسی وجہ سے آیپک نے اپنی تمامتر توانائیوں کو کانگریس کے اراکین پر مرکوز کر رکھا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ امریکی حکام یہودی لابیز کے دباو سے بچے ہوئے ہیں۔ لہذا اس بات کا انکار ممکن نہیں کہ عالمی سطح پر خاص طور پر مشرق وسطی اور عالم اسلام میں امریکہ کی ڈپلومیسی صہیونیستوں کے قبضے میں ہے اور اس بارے میں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جاتا جو صہیونیستوں کی مرضی کے مطابق نہ ہو کیونکہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی بے چون و چرا حمایت وہ امر ہے جس پر گذشتہ 60 سال کے دوران برسراقتدار آنے والی تمام امریکی حکومتوں کا مکمل اتفاق رائے رہا ہے۔ 
 
آیپک کی جانب سے مشرق وسطی کو امریکہ کا اندرونی مسئلہ قرار دینے کی کوشش:
امریکہ میں سرگرم عمل یہودی لابی آیپک کی پوری کوشش ہے کہ وہ مشرق وسطی سے مربوط امریکہ کی خارجہ سیاست کو امریکہ کے اندرونی معاملے میں تبدیل کر دے۔ درحقیقت آیپک کی پوری کوشش رہی ہے کہ وہ امریکی رائے عامہ کو اسرائیل کے حق میں ہموار کرے جبکہ اس کے مقابلے میں عرب حکومتوں کی کمزور کارکردگی نے اس مقصد کے حصول کیلئے آیپک کی راہ مزید ہموار کرتے ہوئے اس کی کامیابی کو یقینی بنایا ہے۔ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی اندھی حمایت اسے کئی قسم کے نقصانات پہنچنے کا باعث بنی ہے جن کی ایک مثال امریکہ اور مسلم ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تناو اور تعلقات کی خرابی کی صورت میں قابل مشاہدہ ہے۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں اس پریشر گروپ کی چند اہم سرگرمیاں مندرجہ ذیل ہیں:
اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی انقلاب کو عالمی برادری کیلئے ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کرنا اور اس بات پر تاکید کرنا کہ اس خطرے کا مقابلہ صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب دنیا کے تمام ممالک اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ایران کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران کے اہداف و مقاصد خاص طور پر ایران کے جوہری پروگرام سے مربوط حقائق کو بگاڑ کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور ایران کو دہشت گردی کا حامی ملک قرار دے کر اس کے خلاف عالمی رائے عامہ کو ہوا دینا۔  
 
دنیا کے مختلف ممالک، بینکوں اور تجارتی کمپنیوں کو ڈرا دھمکا کر ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں پر اکسانا خاص طور پر ایران کے تیل اور گیس کے شعبوں میں سرمایہ گذاری سے روکنا اور ایران کے خلاف اقتصادی اور سیاسی دباو ایجاد کرنا۔ 
 
مختلف قسم کے سیاسی، سکیورٹی اور میڈیا ہتھکنڈے بروئے کار لاتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کا محاصرہ کرنا اور اس محاصرے کو مزید تنگ کرنے کی کوشش کرنا۔ 
 
اسلامی جمہوریہ ایران کو علمی ترقی سے روکنے کیلئے جدید ٹیکنولوجیز اور شعبوں سے متعلقہ مواد ایران جانے سے روکنا خاص طور پر فضائی ٹیکنولوجی، میزائل ٹیکنولوجی، حیاتیاتی اور جوہری شعبوں سے متعلق بیرونی کمپنیز کے ذریعے ہر قسم کے آلات اور لٹریچر ایران میں داخل ہونے سے روکنا۔ 
 
دنیا میں ایران کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ، صیہوینیوں کیلئے ڈراونا خواب:
حال ہی میں دورہ امریکہ کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کا عالمی برادری کی جانب سے انتہائی شاندار استقبال اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68 ویں اجلاس میں ان کی تقریر پر مثبت ردعمل عالمی سطح پر تہران کی کامیاب سفارتکاری کی علامت تصور کی جاتی ہے۔ صدر اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے اٹھائے جانے والے جرات مندانہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت ایران نے دنیا کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے اور خطے کے ممالک کے ساتھ تعاون اور ہمکاری بڑھانے کا پختہ عزم کر رکھا ہے۔ حال ہی میں شام کے بحران کے حل اور خطے میں جنگ کی آگ بھڑکنے سے روکنے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے بے مثال کردار نے دنیا میں اس کی حیثیت اور منزلت کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ 
 
جناب ڈاکٹر روحانی کی جانب سے فعال حکمت عملی اور اعتدال پسندی پر مبنی پالیسیاں اختیار کئے جانا، ایرانی صدر کے دورہ امریکہ کے دوران ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کی امیدیں پیدا ہونا، جنرل اسمبلی میں ایرانی صدر جناب حسن روحانی کی تقریر کے دوران دنیا کے تمام ممالک کے نمائندوں کی موجودگی اور صرف اسرائیلی نمائندوں کا بائیکاٹ اسرائیل کے مزید گوشہ گیر اور منزوی ہونے کا باعث بنے ہیں۔ یہی وجہ تھی جس کی خاطر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس وقت جب ڈاکٹر حسن روحانی ایرانی صدر کے طور پر منتخب ہوئے تھے اور ابھی انہوں نے اپنی خارجہ پالیسیوں کی وضاحت بھی نہیں کی تھی ان کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی تھی۔ 
 
اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی گوشہ گیری اور انزوا ایران میں اسلامی انقلاب کی عظیم کامیابی سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ خطے میں اسلامی بیداری کی امواج جنم لینے سے اسرائیل کی یہ گوشہ گیری اور انزوا مزید شدت اختیار کر گئی اور اب جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کا عظیم استقبال عمل میں آیا تو اسرائیلی حکام حواس باختہ ہو گئے اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو فورا امریکی صدر براک اوباما کے پاس پہنچ گیا۔ امریکی صدر نے اپنے گذشتہ موقف کے برخلاف ایک بار پھر ایران کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کا آپشن میں زیرغور ہے جبکہ کچھ دن قبل جب ایرانی صدر جناب حسن روحانی نیویارک میں موجود تھے امریکی صدر براک اوباما نے ایران کے ساتھ تمام مسائل گفتگو اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا تھا۔ امریکی صدر کے موقف میں یہ اچانک تبدیلی اگرچہ ایرانی حکام کیلئے ایک غیرمتوقع امر تھا اور مربوطہ ایرانی حکام کی جانب سے مناسب ردعمل کا باعث بنا لیکن دوسری طرف یہودی لابیز اور پریشر گروپس کی درپردہ سرگرمیوں اور فعالیت کا شاخسانہ تھا۔ امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات کی بہتری یہودی لابیز اور گروپس کیلئے ایک بھیانک اور ڈراونا خواب ہے۔ 
 
اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق امریکی صدر براک اوباما کے موقف میں اچانک تبدیلی میں صہیونیستی لابیز کا کردار ایک اور اہم نکتے کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے جو امریکی خارجہ پالیسیوں کو اسرائیل مفادات کی سمت ہدایت کرنے میں یہودی لابیز کی طاقت ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی جانب اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر اور ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے حالیہ خطاب کے دوران اشارہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
"امریکی حکومت بین الاقوامی صہیونیستی نیٹ ورک کے شدید قبضے اور تسلط میں ہے جس کی وجہ سے یہ حکومت بین الاقوامی صہیونیستی نیٹ ورک کے ناجائز مطالبات اور مفادات کی تکمیل کیلئے اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے ساتھ تعاون کرنے اور ان کے ہر مطالبے کو پورا کرنے اور اس کے ساتھ نرمی اختیار کرنے پر مجبور ہے۔ امریکی حکام اپنے اس کام کو امریکی مفادات کا نام دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج امریکی حکومت اسرائیل کی جعلی ریاست کی حمایت میں جو کچھ کر رہی ہے وہ امریکی مفادات کے بالکل خلاف ہے"۔  
 
نتیجہ گیری:
مذکورہ بالا بیان کردہ حقائق کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اقدامات جنہیں امریکہ کی خارجہ پالیسی کا نام دیا جاتا ہے ان کا مقصد دراصل امریکہ کے قومی مفادات کا حصول نہیں بلکہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے مفادات کا حصول بالخصوص مشرق وسطٰی میں موجود ممالک کی نسبت اس کے امور کی تکمیل ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران جس قدر دنیا کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہبود بخشنے اور بین الاقوامی سطح پر اپنا چہرہ صحیح طور پر پیش کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے اسرائیلی حکام اسی قدر تشویش اور پریشانی میں مبتلا ہوتے جائیں گے۔ لہذا اسرائیلی حکام اور بین الاقوامی سطح پر سرگرم صہیونیستی نیٹ ورک کی پوری کوشش ہو گی کہ وہ ایران اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات کو تناو اور ناہمواری کی حالت میں باقی رکھیں اور اس طرح اپنے سیاسی مفادات حاصل کرتے رہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 312032
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش