0
Friday 25 Oct 2013 16:25

نواز شریف کا دورہ امریکہ، کیا حاصل ہوا؟

نواز شریف کا دورہ امریکہ، کیا حاصل ہوا؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف امریکہ یاترا سے واپس آ گئے ہیں۔ انہیں امریکہ بلایا گیا تھا یا وہ خود گئے تھے یہ بھی اہم سوال ہے، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب وزیراعظم پاکستان امریکہ پہنچے تو ان کا استقبال کسی امریکی کے بجائے پاکستانی سفیر نے کیا۔ جس سے لگتا ہے کہ وہ امریکی کی دعوت نہیں نہیں خود ساختہ دورے پر امریکہ گئے تھے۔ اگر وہ سرکاری دورہ پر ہوتے تو انہیں سرکاری پروٹوکول ملنا چاہئے تھا۔ اور اگر وہ واقعی سرکاری دورے پر تھے تو پھر انہیں اپنی اوقات بتائی گئی ہے کہ آپ کے استقبال کے لئے بھی امریکیوں کے پاس وقت نہیں۔ بعض حلقے تو کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو صرف اس لئے امریکہ ’’طلب‘‘ کیا گیا تھا کہ امریکہ نے افغانستان سے انخلا کیلئے پاکستان سے راہداری لینی تھی اور اس ملاقات میں اوباما نے ذرا سختی سے کہا ہے کہ ہمیں شرافت سے راہداری دیدو ورنہ۔۔۔۔۔۔ اور میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ ضرور ہم حاضر ہیں اس کے عوض آپ میڈیا کے سامنے مسکرا کر آ جائیں اور کہہ دیں کہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ علامہ طاہرالقادری نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ میاں صاحب واشنگٹن میں سب کچھ ہار کر آئے ہیں انہوں نے اپنی ایک بھی بات نہیں منوائی اور اوباما کی سب باتیں مان لی ہیں۔

پاک امریکا قائدین کی اس ملاقات سے جس طرح کی توقعات تھیں ویسے نتائج سامنے نہیں آئے۔ میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ صدر اوباما سے ان کی ملاقات ایک نئے دور کی ابتدا ہو گی لیکن نیا دور کب شروع ہو گا اوباما نے اس جانب اشارہ نہیں دیا۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے ایک بات کہی جا رہی ہے کہ اس موقع پر دونوں سربراہان نے تمام متنازع معاملات ایک دوسرے کے سامنے رکھے، جیسا کہ ڈرون حملے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی جیسے نازک اور حساس معاملات مگر فریقین کی جانب سے کوئی فیصلہ یا حتمی بات نہیں کی گئی۔ میاں نواز شریف نے ہر فورم پر ڈرون حملوں کے خاتمے اور ان کے منفی اثرات کا ذکر کیا جبکہ امریکی انتظامیہ نے ان کی موجودگی میں نہ صرف یہ کہ ان کے موقف کی نفی کی بلکہ امریکہ نے پاکستان اور یمن میں اپنے ڈرون حملوں کے دفاع میں کہا ہے کہ وہ عالمی قوانین پر عمل درآمد کے معاملے میں غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کرتا ہے۔ تاہم صدر اوباما نے یہ ’’لالی پاپ‘‘ ضرور دیا کہ دونوں ممالک کے تحفظات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم مل کر ایسے تعمیری ذرائع تلاش کریں گے جن سے پاکستان کی خودمختاری کا تحفظ ہو سکے۔ یہاں ایک بات جسے سبھی نے محسوس کیا وہ یہ تھی کہ صدر اوباما نے اپنی گفتگو میں ڈرون حملوں کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں وہ اس معاملے کو انتہائی چالاکی کے ساتھ گول کر گئے۔ مگر نواز شریف نے صدر اوباما کی موجودگی میں اپنے تحریری بیان میں ڈرون حملوں کا برملا تذکرہ کیا اور کہا کہ میں نے ڈرون حملوں کا معاملہ اس ملاقات میں اٹھایا اور اس طرح کے حملوں کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا۔ صدر اوباما نے پاکستان کو اہم سٹریٹجک حلیف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت اس بات کا جائزہ لے گی کہ کیسے امریکہ اور پاکستان کے درمیان تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ ملک کے اندر حکومت چار اہم شعبوں میں بہتری پر کام کر رہی ہے اور وہ ہیں معیشت، توانائی، تعلیم اور شدت پسندی کا مقابلہ۔ ہم دونوں نے اتفاق کیا کہ ان بنیادی شعبوں میں ترقی نئی نسل کیلئے ایک پر امید مستقبل کی تشکیل کیلئے انتہائی اہم ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے افغانستان اور بھارت کیساتھ تعلقات کے حوالے سے کہا وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہشمند ہیں جس کے بارے میں امریکی صدر نے کہا کہ یہ بہت سمجھداری کا راستہ ہے۔ قبل ازیں امریکی ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ایڈ روئس نے پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ملاقات میں ان پر زور دیا کہ وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کر دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ پاکستان دہشت گردی، جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور خطے میں پر تشدد شدت پسندی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا موثر ساتھی بنے۔

پاک امریکا تعلقات کی تاریخ ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے تاہم پاکستان اور امریکہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہیں۔ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا اور 1998ء میں پاکستان کے جوہری تجربوں کے بعد پاک، امریکہ تعلقات میں جو تعطل آیا تھا وہ افغانستان پر 2001ء میں امریکی حملے کے بعد بحال ہو گیا تھا۔ تاہم اس رشتے میں تناؤ اور بے اعتباری برقرار رہی۔ تعلقات کا بدترین مرحلہ ریمنڈ ڈیوس سے شروع ہوا۔ بعد ازاں سلالہ چوکی پر نیٹو افواج کا حملہ، ایبٹ آباد حملہ، میمو گیٹ سکینڈل، نیٹو رسد کی معطلی اور شمسی ایئر بیس خالی کرایا جانا ایسے معاملات تھے جن سے دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے۔ 2014ء میں امریکی فوجوں کے افغانستان سے انخلا اور افغان طالبان کیساتھ مذاکرات کے حوالے سے پاکستانی اہمیت ایک بار پھر دونوں ممالک کو قریب لے آئی۔

یہ پہلا موقع تھا جب دونوں ملکوں کی سیاسی اور عسکری قیادت بات چیت میں شامل تھی۔ فوجی صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار کے بعد پہلی بار امریکہ سے بات چیت کی کمان سیاستدانوں کے پاس آئی ان مذاکرات میں امریکہ کا مقصد افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا میں پاکستانی مدد کو یقینی بنانا تھا جبکہ پاکستان کی نظر معاشی امداد اور سول جوہری معاہدے پر تھی۔ ان مذاکرات میں معیشت، توانائی، سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت کئی شعبوں میں تعاون پر بات چیت کی گئی۔ امریکہ نے پاکستان کے اہم مطالبات منظور نہیں کیے تاہم سویلین سیکٹر کو آئندہ پانچ سال میں ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر دینے اور پاکستان فوج کے ایک ارب ڈالر کے بقایاجات کی جلد ادائیگی کا عندیہ ضرور دے دیا ہے۔ یہاں اہم بات یہ کہ پہلی بار پاکستان نے کھلے لفظوں میں امریکا پر واضح کیا کہ شکیل آفریدی ہیرو نہیں مجرم ہے جس کی قسمت کا فیصلہ پاکستان کی عدالتیں کریں گی۔ اس کو کہتے ہیں جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا، مگر اس سے پوچھ کر۔۔۔!
خبر کا کوڈ : 313851
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش