0
Sunday 27 Oct 2013 15:04

طالبان سے مذاکرات کی منہج کیا ہو؟ (2)

طالبان سے مذاکرات کی منہج کیا ہو؟ (2)
تحری: سید اسد عباس تقوی

ملک کے دانشور حلقوں میں بجا طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ طالبان اور اس کے ذیلی گروہ جو ملک میں ہزاروں بے گناہ افراد کے قتل کے ذمہ دار ہیں، جو پاکستانی حکومت کی رٹ کو نہیں مانتے، جو آئین پاکستان کو نہیں مانتے، جن کا ہماری عدالتوں پر اعتماد نہیں، جو نظام کے باغی ہیں سے کس بنیاد پر مذاکرات کیے جاسکتے ہیں۔ وہ گروہ جو طالبان اور اس کی ذیلی تنظیموں کی براہ راست کارروائیوں کا نشانہ بنے ہیں، مذاکرات کو ایک لایعنی عمل قرار دیتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ ان کے سرکردہ قائدین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر مذاکرات کے اس عمل کو ختم کرکے ان جرائم پیشہ عناصر (طالبان) کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا جائے۔

اس کے برعکس وہ افراد جو مذاکرات کے حق میں ہیں کی نوعیت بھی کئی قسم کی ہے۔ مذاکرات کا حامی ایک گروہ تو طالبان کا ہم مکتب و ہم مشرب ہے، جبکہ اس عمل کی حامی بعض سیاسی قوتوں کے طالبان یا ان کی ہمدرد عالمی قوتوں سے قریبی روابط ہیں۔ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو واقعی اس عمل کو امن کا ضامن سمجھتا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرنے والی اے پی سی میں مدعو تمام جماعتوں کو ہم طالبان کا ہم مشرب یا سیاسی حامی نہیں کہ سکتے بلکہ بعض جماعتیں تو ایسی بھی ہیں جن پر طالبان نے گزشتہ دور حکومت میں تابڑ توڑ حملے کیے اور ان جماعتوں نے ان حملوں میں اپنے کئی ایک قائدین کی قربانیاں پیش کیں۔ ایم کیو ایم کو ہی لے لیجیے اس کے قائد ابتداء سے طالبانائزیشن کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ اے این پی نے بشیر بلور اور ان جیسے کئی کارکنان کی قربانیاں دیں۔ پی پی پی کی چیرپرسن کے حوالے سے بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ کام بھی طالبان نے کیا۔ آفتاب احمد خان شیر پاﺅ کی تو اپنی ذات طالبان کے متعدد جان لیوا حملوں کا نشانہ بنی۔ اگر یہ سب قوتیں اپنے موقف میں سچی تھیں تو طالبان سے مذاکرات کیوں؟ ان جماعتوں نے اے پی سی میں آپریشن کا مطالبہ کیوں نہ کیا؟

طالبان سے مذاکرات شروع کرنے اور امن کو ایک موقع دینے کے لیے ملک کی انتخابی سیاست کی بڑی جماعتوں کی ”ہاں“ اس بات کی غماز ہے کہ کچھ ایسا ہے جس نے ان سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اپنی تمام تر قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے اپنے ہی قاتلوں سے مذاکرات کے عمل پر راضی کیا۔ میری نظر میں یہ پوشیدہ کڑی وہ ملٹری بریفنگ ہے جو اے پی سی کے اجلاس سے قبل آرمی چیف اور جنرل ظہیر الاسلام کی جانب سے دی گئی۔ پاکستان کی ان بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے سامنے یقیناً افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد کی صورتحال، قبائلی علاقہ جات میں افواج پاکستان کی پیشرفت، طالبان کی تنظیم نو اور عالمی روابط، طالبان کے خلاف آپریشن پر آنے والے اب تک کے اخراجات، پاکستان دشمن عالمی قوتوں کے طالبان سے روابط، ارادوں اور امکانات اور ان جیسے دیگر امور پر روشنی ڈالی گئی ہوگی۔ اس بات کے علاوہ میری نظر میں کوئی دوسری ایسی وجہ نہیں ہے جس کے سبب پی پی پی، ایم کیو ایم ، اے این پی اور آفتاب احمد خان شیرپاﺅ جیسی طالبان مخالف جماعتوں اور شخصیات نے مذاکرات کے عمل کو ایک موقع دینے کی حامی بھری ہو۔

اے پی سی کے اس اجلاس میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل ظہیر الاسلام، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ،وزیر اطلاعات، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی، خیبر پختونخوا کے گورنر کے علاوہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ، مخدوم امین فہیم (پی پی پی)، چوہدری شجاعت حسین(مسلم لیگ (ق))، عمران خان (تحریک انصاف)، پیر پگاڑا (مسلم لیگ (ف)، حاجی عدیل (اے این پی)، ڈاکٹر فاروق ستار (ایم کیو ایم)، لیاقت بلوچ (جماعت اسلامی)، اختر مینگل (بی این پی)، محمود خان اچکزئی (پی ایم اے پی)، راجہ ظفر الحق (مسلم لیگ (ن)، مولانا فضل الرحمن (جمعیت علمائے اسلام (ف)، آفتاب احمد خان شیر پاﺅ (قومی وطن پارٹی)، میر حاصل بزنجو (نیشنل پارٹی)، غازی گلاب جمال (آزاد امیدوار فاٹا)، عباس خان اور پروفیسر ساجد میر (مرکزی جمعیت اہلحدیث) نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ طالبان سے مذاکرات کے عمل کو ایک موقع دیا جائے گا اور وہ گروہ جو ان مذاکرات کے باوجود ہتھیار نہیں ڈالتے کے خلاف آپریشن کیا جائے گا۔

ایم کیو ایم، پی پی پی اور اے این پی کے کئی ایک قائدین نے اے پی سی کے بعد بھی ٹی وی چینلز پر آکر مذاکرات کو ایک موقع دینے کے حوالے سے اپنے موقف کی تو ثیق کی۔ اس کے ساتھ ساتھ بعد کے دہشتگردی کے واقعات کے مدنظر عندیہ دیا کہ اگر یہ واقعات یوں ہی جاری رہے تو ایک اور اے پی سی بلائی جائے گی تاکہ آپریشن کا فیصلہ کیا جائے۔ مذکورہ بالا آل پارٹیز کانفرنس یقیناً ان جماعتوں اور شخصیات کا اکٹھ تھا جو پارلیمنٹ یا سینیٹ میں نمائندگی کی حامل ہیں یا طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے علاقائی سطح پر یا عالم عرب میں کوئی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ تاہم اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وہ طبقات جو پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے بعد طالبان اور اس کی ذیلی کالعدم جماعتوں کے نشانے پر رہے یعنی بریلوی، شیعہ اور مشائخ کی کسی قابل ذکر تنظیم یا شخصیت کو اس اے پی سی میں نمائندگی کی دعوت نہ دی گئی۔

حکومت اور ملک کی سیاسی جماعتیں جو ایک جانب ملک کے باغیوں سے مذاکرات کرنے جا رہی ہیں نے دوسری جانب ملک کے وفادار طبقات جن کی زندگیاں ان مذاکرات کے نتائج اور آپریشن کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی براہ راست زد پر آتی ہیں کو نظر انداز کر دیا۔ یہ عمل جہاں ایک طرف افغان جہاد پالیسی اور اس کے برے اثرات کو تسلسل فراہم کرتاہے وہیں ”درد مشترک“ کے حامل ان طبقات کی سیاسی ناکامیوں اور اپنے مشترکہ مفادات کی خاطر ہم آواز ہو کر قیام نہ کر سکنے کی داستان کی بھی غمازی کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کی وہ اقلیتیں جو حالیہ دنوں میں شدت پسندانہ کارروائیوں کا نشانہ بنی ہیں کو بھی آن بورڈ لیا جاتا تاکہ ایک بھرپور مینڈیٹ کے ساتھ مذاکرات یا آپریشن کا فیصلہ کیا جاتا۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا، مذکورہ بالا طبقات آج بھی حکومت کی مذاکرات کی دعوت اور اس سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات پر اعتماد نہیں رکھتے۔

یہ صورتحال ایک نئی خلیج اور خلا کو جنم دے گی۔ ممکن ہے فوری طور پر حکومت کے لیے ان کی ناراضگی کسی مشکل کا باعث نہ ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی گروہ ملک کی اکثریت کو تشکیل دیتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ گروہ ملک کے وفادار ہیں بلکہ انھوں نے کسی ایسی شدت پسندانہ تحریک میں حصہ نہیں لیا جو پاکستان کی سیکیورٹی کے حوالے سے کسی خطرے کا باعث بنتی ۔ملک کی ایسی اکثریت کو یوں نظر انداز کر دینا اور جنہیں یہ اپنا قاتل سمجھتے ہیں ان سے مذاکرات کو ضروری سمجھنا آئندہ ضرور اس ملک کے لیے منفی اثرات کاحامل ہو سکتا ہے۔ لہذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے سے پہلے اہلسنت (بریلوی) ،اہل تشیع اور مشائخ کی تنظیموں کو اعتماد میں لیا جائے۔اسی طرح مسیحیوں سمیت اس ملک کی اقلیتوں کا اعتماد بھی حاصل کیا جائے۔
مصنف : سید اسد عباس تقوی
خبر کا کوڈ : 314667
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش