2
0
Monday 4 Nov 2013 17:22

شٹ ڈاؤن اور زبوں حال امریکی معیشت

شٹ ڈاؤن اور زبوں حال امریکی معیشت
تحریر: سلمان رضا
salmanrazapk@gmail.com

دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور واحد عالمی طاقت امریکہ میں یکم اکتوبر کو معاشی شٹ ڈاؤن ہوگیا اور 8 لاکھ سرکاری ملازمین گھروں میں جا بیٹھے۔ خیال تھا کہ امریکی صدر باراک اوبامہ اس مسئلے کو ایک دو دن میں حل کرلیں گے اور کسی نہ کسی طرح رپبلکن پارٹی کے نمائندگان کو اپنی پالیسی " Obamacare " پر سمجھوتے کیلئے قائل کرلیں گے لیکن اندازوں کے برخلاف یہ شٹ ڈاؤن 16 اکتوبر تک چلتا رہا۔ 8 لاکھ ملازمین کے بعد مزید 13 لاکھ ملازمین بھی انتظار میں کھڑے تھے کہ کب اُن کو بھی گھر کی راہ دکھائی جاتی ہے۔ پوری دنیا کے اخبارات میں فرنٹ صفحات کی سرخیاں امریکہ کی عالمگیریت پر مبنی معاشی طاقت کا منہ چڑاتی رہیں۔ ٹاک شوز میں معاشی ماہرین امریکہ کی آخری سانسیں لیتی معیشت کا پردہ چاک کرتے رہے لیکن شائد ہی کسی اخبار یا چینل نے گہرائی سے اس پہلو پر روشنی ڈالی ہو کہ 2007ء کے بعد سے امریکہ میں آخر کیوں ایک بحران کے بعد دوسرا بحران جنم لے رہا ہے۔ کبھی پراپرٹی کے غبارے سے ہوا نکلتی ہے تو کبھی بنکس اور آٹو موبائل مارکیٹ کریش کر جاتی ہے، کبھی قرض کی حد میں اضافے کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے تو کبھی اینٹی وال اسٹریٹ تحریک شروع ہو جاتی ہے۔
میں اپنے گذشتہ مضامین میں بھی کئی دفعہ یہ بات تحریر کرچکا ہوں کہ امریکی دیو ہیکل معیشت آکسیجن پر چل رہی ہے اور اس بیمار معیشت کو ہر ایک دو سال بعد مصنوعی تنفس کے ذریعے موت کی آغوش سے بچا لیا جاتا ہے لیکن اس کا مرض کینسر کی طرح اسے جکڑ چکا ہے اور انتظار اس بات کا ہے کہ یہ مصنوعی تنفس کب تک اس بیمارمعیشت کو چلا پائے گا۔ حالیہ شٹ ڈاؤن کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ہم امریکی نظام سیاست میں مالیاتی اخراجات کے طریقہ کار کو سمجھیں۔ امریکی قانون کے مطابق امریکی صدر کو نئے مالیاتی سال میں اخراجات کی منظوری کیلئے کانگریس سے منظوری درکار ہوتی ہے اور اگر کانگریس صدر کی پالیسی کو منظور نہ کرے تو سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی رک جاتی ہے اور ایسی صورت میں یہ ملازمین گھروں کو جا بیٹھتے ہیں اور اس کیفیت کو شٹ ڈاؤن کہا جاتا ہے۔ 

امریکی معیشت میں ایسا شٹ ڈاؤن ماضی میں کئی دفعہ ہوا لیکن اس کا دورانیہ مختصر رہا لیکن تین دفعہ یہ شٹ ڈاؤن طول پکڑ گیا اور خطرناک حدوں کو چھونے لگا اور پھر اس کی طوالت کے باعث امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ، اسٹاک مارکیٹ وغیرہ بھی متاثر ہوتی ہے۔ پہلی مرتبہ طویل شٹ ڈاؤن 1978ء میں ہوا جب یہ 18دن تک چلا، دوسری مرتبہ 1995-96ء میں ہوا جو کہ 21دن تک چلا اور تیسری مرتبہ یہ شٹ ڈاؤن حالیہ سال ماہ اکتوبر میں ہوا جو کہ 16دن تک طول پکڑ گیا اور 17 اکتوبر کو عبوری اجازت نامہ ملنے پر ملازمین دوبارہ اپنی ڈیوٹیوں پر گئے ۔دوسرے لفظوں میں جب سرکاری ملازمین کو یقین دلایا گیا کہ اب امریکی خستہ حال معیشت اپنا آ پ نچوڑ کر آپ کو ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگی کرے گی تو ملازمین نے دوبارہ اپنی ڈیوٹیوں کا رُخ کیا۔ بنیادی طور پر امریکی کانگریس میں حکومتی پارٹی ڈیموکریٹس اور حزب اختلاف کی پارٹی ریپبلکن کے درمیان اس وقت سے محاذ آرائی چلی آ رہی ہے جب 2010ء میں پارلیمانی انتخابات میں ریپبلکنز کو برتری حاصل ہو گئی تھی۔ ریپبلکنز اور بعدازاں اسی سے نکلنے والی Tea Partyکے سینیٹرز نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم صدر اوبامہ کے Affordable Care Act کو منسوخ کروائیں گے لیکن ابتدائی طور پر یہ کوشش بار آور نہ ہو سکی۔ 

یہاں یہ بات واضح رہے کہ سابق امریکی صدر جارج بش نے افغانستان اور عراق جنگ میں امریکی معیشت کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کے بعد میڈی کیئر بجٹ میں معمولی کٹوتی کا اعلان کیا تھا جبکہ موجودہ امریکی صدر نے اپنی پالیسی کے تحتPatient   Protection اور Affordable Care Actکو کانگریس سے منظور کروا لیا تھا اور اس ایکٹ کے تحت وہ امریکی خاندان جن کی میڈیکل انشورنس نہیں ہو رہی تھی انشورنش شیلڈ میں آگئے تھے البتہ ان کی انشورنس پالیسی نسبتاً ارزاں نرخوں پر ہو رہی تھی اور اس پالیسی کو Obamacareکے نام سے پکارا جاتا ہے جبکہ ریپبلکنز اور بالخصوص Tea Partyکا کہنا تھا کہ امریکی عوام پر مزید ٹیکس نہیں لگائے جانے چاہئیں اور اس قانون کے تحت معیشت پر مزید بوجھ پڑ رہا ہے لہٰذا انہوں نے عزم کیا تھا کہ ہم کانگریس کے ذریعے اس قانون کو کالعدم کروائیں گے۔ ہمیں یاد رہے کہ ریپبلکنز اور Tea Partyکا اس پالیسی سے انحراف فقط ایک سیاسی حربہ ہے تاکہ اپنے مخالف کو زیر کیا جا سکے وگرنہ ہر امریکی صدر ماضی میں میڈی کیئر اور میڈی کیڈ کے شعبہ میں اخراجات میں اضافہ کرتا آیا ہے کیونکہ امریکہ جہاں ووٹنگ کا تناسب 40فیصد سے زیادہ نہیں، ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے ہمیشہ بوڑھے افراد پولنگ اسٹیشن پر آتے ہیں اور ان ضعیف العمر افراد کو سب سے بڑا مسئلہ اپنی گرتی صحت کی بحالی اور بیماریوں سے تحفظ کے لیے مفت علاج اور تشخیص ہوتا ہے اور اگر کوئی پارٹی اس ضمن میں کٹوتی کر ڈالے تو اس کا ووٹ بینک ضرور متاثر ہوتا ہے، امریکی پارٹیوں کے لیے یہ دو شعبہ جات ریڈ لائن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 

حاصل کلام یہ کہ جب حالیہ شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں عالمی منڈی میں امریکی تاثر بگڑنے لگا تو صدر اوبامہ نے اگلے بحران جو ماہ اکتوبر کے وسط سے شروع ہونے والا تھا یعنی امریکی قرض کی حد کو بڑھانے کے لیے کانگریس سے منظوری طلب کرنا تو اوبامہ نے ایک ہی تیر سے دوشکار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک کانگریس امریکی قرض جو اس وقت 16.7ٹریلین ڈالر یعنی 16700ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اس کی حد کو بڑھا نہیں دیا جاتا میں کانگریس میں بجٹ بحث شروع نہیں کروں گا۔ جب ریپبلکنز نے دیکھا کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں امریکی معاشی ساکھ بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور اگر اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ گیا تو وہ اس معیشت کو اپنے مفادات کے لیے کیسے نچوڑ سکیں گے، لہذا 14اکتوبر کو ناکام ہونے والے مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے اس دفعہ ریپبلکنز نے زیادہ لچک کا مظاہرہ کیا اور لگ بھگ 27 ریپبلکنز نے اپنی پارٹی سے اختلاف کرتے ہوئے ڈیموکریٹس کا ساتھ دیا اور 16اکتوبر کو سینٹ میں 18 کے مقابلے میں 81 ووٹوں سے اس قانون کو منظور کرلیا گیا لیکن یہاں یہ بات یاد رہے کہ اس دفعہ یہ منظوری عبوری عرصے کے لیے کی گئی ہے۔ اس طرح Debt Ceiling یعنی امریکی قرضہ کی حد کو 7فروری تک جبکہ تنخواہوں کے لیے فنڈ یا دوسرے لفظوں میں اخراجات کی منظوری کو 15جنوری تک منظور کیا گیا ہے۔ ان تاریخوں کے بعد دوبارہ کیسا دنگل سجتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ایک بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ کی معاشی قوت گذشتہ 6سالوں میں بری طرح متاثر ہوئی ہے اور ان گزشتہ بحرانوں سے امریکی معیشت کی فالٹ لائنز دنیا کے سامنے عیاں ہو گئی ہیں۔ اشتراکیت کا بت پاش پاش ہوئے تین دہائیاں گزر گئیں اب دنیا سرمایہ داری کا بت کرنے کی آہٹ سن رہی ہے ۔ 

عمومی طور پر تجزیہ نگار امریکہ کے حالیہ بحران کو امریکی کانگریس میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان چپقلش میں تلاش کررہے ہیں یا اس سارے قضیے کی جڑ کو Obamacareنامی پالیسی میں تلاش کررہے ہیں جبکہ میرے خیال میں ایسی تعبیر اور جستجو عوام کو اصل قضیے سے غافل رکھنے کی ایک کوشش ہے۔ میرے خیال میں اس بحران اور گذشتہ 6سالوں میں آنے والے تمام بحرانوں کی جڑ امریکہ کی جنگی پالیسیوں اور تسلط آمیز روش میں پنہاں ہے۔ درحقیقت دنیا کے محکوم عوام کے وسیع ذخائر کو اپنے تسلط میں رکھنا اور خود کو دنیا کی واحد عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنا امریکہ کا وہ خواب ہے جس نے اسے دوسرے ملکوں میں اپنے اڈے بنانے اور عسکری طور پر ضعیف ممالک پر جنگیں مسلط کرنے کی طرف راغب کیا ہوا ہے۔ اور ایسا پچھلی ساری صدی میں ہوتا آ رہا ہے لیکن پچھلی تین دہائیوں میں جو فرق پڑا ہے وہ عوام کے شعور کی بیداری ہے۔ 1979ء میں انقلاب اسلامی کے بعد امام خمینیؒ نے دنیا کے مستعضفین کو امید کی کرن دکھا دی تھی اور پھر حزب اللہ اور حماس کی مقاومت نے بھی محروم و محکوم عوام کے دلوں پر شجاعت و استقامت کا گہرا اثر چھوڑا اور نتیجتاً عراق ہو یا افغانستان کوئی ملک بھی امریکہ کے لیے ترنوالہ نہ بن سکا اور امریکہ کے لیے یہ جنگیں اپنے اہداف میں ناکافی کے باعث گلے کی ہڈی بنتی گئیں۔ ماضی کے مقابلے میں ان جنگوں کی قیمت کئی گنا زیادہ تھی جبکہ ایک بڑا فیکٹر تیل کی صورت میں نمایاں ہوا۔ اس ضمن میں عراق کی جنگ نے امریکی معیشت پر ناقابل تلافی اثر چھوڑا ۔ امریکہ میں وہی تیل جو 1990ء میں 1.30ڈالر فی گیلن فروخت ہوتا تھا وہ دس سال بعد 2000ء میں صرف 1.14ڈالر فی گیلن فروخت ہو رہا تھا جبکہ اگر اس سے بھی پہلے دس بیس سال پر نگاہ ڈالی جائے تو 80ء کی دہائی میں بھی اس کی قیمت لگ بھگ ایک ڈالر فی گیلن تھی یعنی جو قیمت گذشتہ 30سالوں میں چند سینٹ بڑھی وہ عراق جنگ کے بعد چند سالوں میں آسمان کو چھونے لگی اور 2012ء میں 3.62ڈالر فی گیلن تک پہنچ گئی۔ اگرچہ اس قیمت میں اضافے کا ایک سبب چین، انڈیا اور برازیل جیسے ممالک جنہیں BRICSکہا جاتا ہے میں معیشت کی ترقی اور تیل کی طلب میں اضافہ بھی تھا لیکن بنیادی مسئلہ یہی تھا کہ عراق جنگ کے بعد جیسے امریکہ نے سوچا تھا کہ عوام تسخیر ہو جائیں گے اور تیل کی بلاتعطل سپلائی سے امریکہ اپنے پچھلے تمام قرضے اتار کر دوبارہ سیاسی طور پر مستحکم ہو جائے گا لیکن امریکی اُمیدوں کے برخلاف وہاں مزاحمت شروع ہو گئی اور تیل کی سپلائی میں تعطل اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے عالمی منڈی میں آئے روز تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا۔ اب امریکہ جس کی بیشتر آبادی شہروں سے باہر Suburbsیعنی شہروں سے ملحقہ علاقوں میں رہتی ہے اور دفتروں سے گھر آنے جانے کیلئے بھاری انجنوں والی گاڑیاں استعمال کرتی ہے اس کیلئے اتنی دور گھروں کو آنا جانا مشکل ہو گیا۔ 

ماضی کی تین چار دہائیوں میں تیل کی قیمت انتہائی کم ہونے اور اس کے مستقل ایک جگہ پر کھڑے رہنے کی وجہ سے جو گھر پرسکوں اور آلودگی سے پاک علاقوں میں پرکشش دکھائی دیتے تھے وہی امریکی متوسط طبقے کیلئے وبال جان بن گئے۔ 3200 سی سی گاڑیاں تیل کو دن رات پی رہی تھیں اور بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں کی وجہ سے ساری تنخواہ پٹرول پمپوں کی نظر ہوتی جا رہی تھی لہٰذا عوام نے اپنے گھر بنکوں کو واپس کیے، ہیوی انجن گاڑیاں بھی بنکوں کو اپنے قرض کے بدلے واپس کردیں اور شہروں میں موجود آلودگی سے پُر علاقوں میں چھوٹے چھوٹے فلیٹوں میں شفٹ ہو گئے لہٰذا سارے کا سارا سودی نظام خود اپنی گردن کا طوق بن گیا۔ یہی وہ موقع تھا کہ 2008ء میں امریکی بش انتظامیہ اپنے سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کیلئے میدان میں آئی اور بنکوں اور آٹو موبائل انڈسٹری کیلئے بیل آؤٹ پیکج کا اعلان کیا، پھر اوبامہ نے بھی اپنے پیشرو کی تقلید کرتے ہوئے اس پیکج کو مزید بڑھا دیا۔ اس طرح 14500ارب ڈالر یعنی 1.45ٹریلین ڈالر ان سیکٹرز کو بطور بیل آؤٹ (Bail out) پیکج دیئے گئے۔ اس مرحلے پر ہمیں یہ یاد رہے کہ امریکی حکومت نے ان غریب عوام کو پیسے نہیں دیئے جو بنکوں کے قرض کی اقساط ادا نہ کرنے کی وجہ سے اپنی گاڑیاں اور گھر بنکوں کو واپس کرکے شہروں کے اندر چھوٹے فلیٹوں میں شفٹ ہو رہے تھے بلکہ اُن بنکوں کو اس طرح ادا کیے کہ وہ گھر حکومت نے بنکوں سے مارکیٹ ویلیو سے کہیں زیادہ قیمت پر خریدنے شروع کئے جو مارکیٹ میں گاہک نہ ہونے کی وجہ سے دنوں میں اپنی مالیت کے اعتبار سے لاکھوں سے ہزاروں میں تبدیل ہو گئے تھے۔ گویا امریکی حکومت اگر میدان میں آتی بھی تو سرمایہ دار کے تحفظ کیلئے نہ کہ متوسط طبقے کیلئے جس نے سالوں ان گھروں اور گاڑیوں کی قسطیں ادا کی تھیں اور آج اُن ادا شدہ اقساط کو بھی ضبط کرلیا گیا اور بنکوں کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے عالمی اداروں سے قرض پکڑ کر ان اداروں کی معاونت کی گئی کہ اگر ان سود خوروں کی کشتیاں ڈوب گئیں تو کہیں سارا سرمایہ دارانہ نظام ہی غرق نہ ہو جائے۔ 

یہاں یہ اعداد و شمار قابل ذکر ہیں کہ عراق جنگ سے پہلے 2003ء میں امریکہ پر بیرونی قرض 5.9ٹریلین ڈالر یعنی 5900ارب ڈالر تھا جبکہ عراق اور افغان جنگ میں بھاری اخراجات کے باعث امریکی قرض 2008ء میں 9.9ٹریلین ڈالر یعنی 9900ارب ڈالر ہوگیا اور 2013ء کے حالیہ دنوں میں یہی قرض 17.07ٹریلین ڈالر یعنی 17070ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ ہمیں یاد رہے کہ اس قرض میں امریکہ کا داخلی قرض شامل نہیں اور امریکہ کی سالانہ خام پیداوار یعنی سالانہ GDP،16.7 ٹریلین ڈالر ہے، یعنی امریکہ اپنی سالانہ خام پیداوار سے زیادہ قرض لے چکا ہے۔ 2008ء سے 2013ء تک اس کے قرض میں 70%کا اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے چھ سالوں سے امریکی معیشت کو ICU میں طبی امداد کے ذریعے چلایا جا رہا تھا یعنی اس کا بجٹ خسارہ GDP کے تناسب سے کبھی 10% تو کبھی 7%اور کبھی 4%تک رہا ہے لیکن ناقدین کے مطابق امریکی معیشت کا اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر بغیر خسارے کا بجٹ شائد ایک سہانا خواب ہی رہے گا۔ امریکہ کے کل بجٹ کا حجم لگ بھگ 3.5ٹریلین ڈالر یعنی 3516ارب ڈالر ہے جبکہ اس میں سے صرف میڈی کیئر اور میڈی کیڈ پر 816 ارب ڈالر جبکہ سوشل سکیورٹی پر 813ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں، یعنی 3516 ارب ڈالر میں سے صرف دو شعبوں پر 1629 ارب ڈالر جو کہ کل بجٹ کا 46% بنتے ہیں خرچ ہوتے ہیں اس کے بعد دفاع تیسرا بڑا ہیڈ ہے جس پر605 ارب ڈالر خرچ ہونگے البتہ یہ رقم اعلانیہ ہے جبکہ غیر اعلانیہ وقتاً فوقتاً اضافی طور پر مہیا کی جانے والی رقم اس کے علاوہ ہے۔ اس طرح 3516ارب ڈالر کے بجٹ میں سے متذکرہ بالا تین شعبہ جات پر 2234ارب ڈالر خرچ ہو جاتے ہیں گویا ملکی بجٹ کا 64%حصہ ان تین شعبوں پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رہنی چاہیئے کہ پوری دنیا کے ممالک اپنے دفاعی شعبہ پر جتنا پیسہ خرچ کرتے ہیں اس کا لگ بھگ 40%اکیلا امریکہ اپنے دفاعی مصارف پر خرچ کرتا ہے۔ اب اگر تجزیہ کریں تو ہمارے سامنے یہ شکل آتی ہے کہ پہلے دو شعبے یعنی میڈیکل اور سوشل سکیورٹی میں کمی اس لیے نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہی طبقہ امریکی انتخابات میں ووٹ ڈالنے آتا ہے لہٰذا کوئی پارٹی بھی اس طبقے کو ناراض کرکے اپنے الیکٹورل سسٹم کو سنسان نہیں کرنا چاہتی ورنہ امریکی جمہوریت کے منہ سے نقاب اُلٹ جائے گی پھر بالفرض اگر ایک پارٹی ان اخراجات میں کمی جیسا بہادرانہ اقدام اُٹھاتی ہے تو دوسری پارٹی اس سے انحراف کا اعلان کرکے اپنی پوائنٹ اسکورنگ کر جائے گی لہٰذا ایسی صورتحال کسی بھی پارٹی کیلئے ناقابل قبول ہے۔ 

جبکہ دفاعی شعبے میں اگر امریکہ اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو بدلتا ہے تو خطے میں اس کی غاصبانہ حکمرانی اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ اگرچہ عوام کے شور و غوغا کی وجہ سے یا معیشت کی اکھڑتی سانسوں کو دیکھ کر اوبامہ دفاعی پالیسی میں تبدیلی کے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ امریکی نظام حکومت میں صدر کی حیثیت پنٹاگون کے بغیر کچھ بھی نہیں اور امریکی سرمایہ دار طبقہ جس نے سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اسلحہ سازی کے شعبے میں کر رکھی ہے کبھی اسے قبول نہیں کرے گا ۔اسطرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے اخراجات میں کمی کئے بغیر امریکی معیشت بستر علالت سے کبھی اُٹھ نہیں پائے گی جبکہ ان اخراجات میں کمی کی صورت میں امریکی ووٹر یا امریکی سرمایہ دار (جو فارما سیوٹیکل کمپنیوں، انشورنس کمپنیوں ،بنکوں اور اسلحہ سازی کی فیکٹریوں کے مالک ہیں) امریکی حکومت کا بستر گول کردے گا۔ اقوام عالم کے لاکھوں مظلوم عوام کا قتل، کروڑوں لوگوں کا معاشی استحصال، ملتوں کی تکریم اور شرف کی پامالی اور ایسے ہی کئی بھیانک جرائم کا خمیازہ تو امریکی حکمرانوں اور عوام دونوں کو بھگتنا پڑے گا ہی لیکن خود داخلی طور پر مفاد پرستانہ پالیسیاں ہی امریکی معیشت کو آکٹوپس کی طرح شکنجے میں جکڑے ہوئی ہیں۔ میرے خیال میں امریکی عوام کو ایسے اور اس سے بڑے بڑے بحرانوں کیلئے تیار رہنا چاہیئے اور وہ دن دور نہیں جب یہ عالمی طاقت منہ کے بل زمین بوس ہو کر رہے گی۔


خبر کا کوڈ : 317286
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
Nice analysis
سلمان بھائی! ماشاءاللہ بہت عمدہ تجزیہ ہے۔

انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب یہ عالمی طاقت منہ کے بل زمین بوس ہو کر رہے گی۔
ہماری پیشکش