0
Wednesday 20 Nov 2013 21:36

النصرہ فرنٹ، نظریاتی بنیادیں، تنظیمی ڈھانچہ اور خطے میں اس کا مستقبل (پہلا حصہ)

النصرہ فرنٹ، نظریاتی بنیادیں، تنظیمی ڈھانچہ اور خطے میں اس کا مستقبل (پہلا حصہ)
تحریر: ہادی محمدی فر 

سلفیت اور عظیم اسلامی تہذیب و تمدن کے سنہری دور کی جانب واپسی ایک ایسا موضوع ہے جس کی بنیاد اسلامی تہذیب و تمدن کے ابتدائی دور پر ہونے کی بجائے عالمی طاقتوں کی جانب سے مشرق وسطی میں تسلط پسندانہ پالیسیوں کے اجرا کیلئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ "سلفیت" بذات خود ایک اچھی اور پسندیدہ چیز ہے لیکن جب ایک بیرونی طاقت کے آلہ کار میں تبدیل ہو جاتی ہے تو اس کے انتہائی خطرناک اور بھیانک نتائی برآمد ہوتے ہیں۔ حجاز کے خطے میں اسلامی تہذیب و تمدن اپنے ابتدائی دور میں انسانی تہذیب و تمدن کا ایک بہترین نمونہ ثابت ہوا ہے۔ یہ سنہری دور آج کل بعض عالمی طاقتوں کی جانب سے مشرق وسطی میں اپنی سیاست چمکانے کا وسیلہ بن چکا ہے۔ 
 
میرے عقیدے کے مطابق اسلامی تہذیب و تمدن کا سنہری دور اسلامی معاشرے کی پیداوار تھا جبکہ آج کی "سلفیت" بیرونی عوامل کی پیدا کردہ ہے جو عالمی استعماری طاقتوں کی خدمت کرنے میں مصروف ہے۔ آج سلفیت ایک ایسے ماڈل میں تبدیل ہو چکی ہے جو اسلامی تہذیب و تمدن کے سنہری دور سے منحرف ہو چکا ہے اور اسلامی دنیا کیلئے ایک بڑے چیلنج میں تبدیل ہو چکا ہے۔ شام میں النصرہ فرنٹ کا ظہور انہیں حقائق کی عکاسی کرتا ہے۔ اگرچہ اس گروہ نے 23 جنوری 2012ء کو اپنی موجودیت کا اعلان کیا ہے لیکن اس کی جڑیں بہت پہلے سے موجود تھیں اور النصرہ فرنٹ کی نظریاتی بنیادیں درحقیقت دہشت گرد گروہ القاعدہ کے طرز تفکر کا ہی تسلسل ہے۔ اس تحریر میں ہم کوشش کریں گے اس سلفی گروہ کی نظریاتی بنیادوں، اس کے معرض وجود میں آنے کی رویداد اور اس گروہ کی جانب سے انجام پائے اہم اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے تین سطح یعنی شام، خطے اور بین الاقوامی سطح پر اس گروہ کے اثرات کا جائزہ لیں۔ 
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی بدلتی دنیا میں اعلی اقدار اور رسوم انٹرنیشنل ریلیشنز کے حقائق میں شمار ہوتی ہیں۔ آج اعلٰی اقدار اور رسوم کو انٹرنیشنل ریلیشنز کے جدید پہلووں کے طور پر تعریف کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف عالمی سطح پر موجود تنازعات میں ان کا کردار انتہائی اہم ہے جس کی وجہ سے انہیں انٹرنیشنل ریلیشنز کے شعبے سے جدا کرنا ممکن نہیں۔ النصرہ فرنٹ کے اقدامات کا بغور جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ گروہ عالمی طاقتوں کے مفادات کے حق میں عمل پیرا ہے اور مشرق وسطی میں اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے ان کے ایک اہم ہتھکنڈے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اگرچہ ماضی میں اعلی اقدار اسلامی تہذیب و تمدن کے ساتھ مخصوص تھیں لیکن اب وہی اقدار بین الاقوامی استعماری طاقتوں کی برتری کا وسیلہ بن چکی ہیں۔ 
 
النصرہ فرنٹ کی نظریاتی بنیادیں:
النصرہ فرنٹ کی نظریاتی و فکری بنیادیں ابن تیمیہ اور اس کے بعد محمد بن عبدالوھاب کی جانب سے پیش کردہ اصولوں پر استوار ہیں۔ محمد بن عبدالوھاب کی جانب سے شدت پسندانہ نظریات پہلی جنگ عظیم کے بعد سائیکس – پیکو معاہدے کے دوران منظرعام پر آئے۔ یہ بات کسی پر ڈھکی چھپی نہیں کہ صفویہ اور عثمانی دور سلطنت میں اسلامی تہذیب و تمدن مشرق وسطی میں اسلام کے غلبے کا سنہری ترین زمانہ محسوب کیا جاتا ہے لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں کی مداخلت کے بعد اسلامی سرزمین دو بڑی استعماری طاقتوں برطانیہ اور فرانس کے درمیان بٹ گئی۔ 
 
موجودہ شام اور لبنان فرانس کی سرپرستی میں دے دیئے گئے جبکہ عراق، اردن اور فلسطین برطانیہ کی کالونی قرار پائے۔ ایسے حالات میں جب محمد بن عبدالوھاب کی سربراہی میں سلفی طرز تفکر نے ظہور کیا تو اس آئیڈیالوجی کا اصلی مرکز سعودی عرب قرار پایا اور سعودی عرب میں حکمفرما نظام حکومت نے اس طرز تفکر کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔ 1918ء میں پہلی جنگ عظیم اور 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتیں اپنے اندرونی بحرانوں اور مسائل کی وجہ سے اپنی زیرتسلط کالونیوں کو آزادی دینے پر مجبور ہو گئیں اور مشرق وسطی سے بھی ان کی توجہ ہٹ گئی۔ 
 
یہ صورتحال افغانستان پر سابق سوویت یونین کی چڑھائی تک ایسی ہی رہی۔ افغانستان پر کمیونیسٹ بلاک کے قبضے کے بعد امریکہ کی سربراہی میں مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے حامی بلاک نے ایک بار پھر سلفی طرز تفکر کو زندہ کرنا شروع کر دیا۔ امریکہ کی حمایت سے سابق سوویت یونین کے خلاف القاعدہ نامی سلفی گروہ ایک تحریک کی صورت میں ظاہر ہوا۔ سعودی عرب بھی عبداللہ الاعزام اور بعد میں اسامہ بن لادن کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کمیونیسٹ بلاک کے مقابلے میں امریکہ کے شانہ بشانہ میدان میں آ کھڑا ہوا۔ سعودی عرب اور امریکہ میں گہرے تعاون اور ہم آہنگی نے ثابت کر دیا کہ سلفی گروہ القاعدہ امریکہ اور سعودی عرب کے زیر سرپرستی معرض وجود میں لایا گیا۔ 
 
نائن الیون، امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کا اہم موڑ:
11 ستمبر 2001ء کے حادثات نے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان جاری تعاون میں اہم تبدیلیاں رونما کر دیں۔ نائن الیون کے دہشت گردانہ اقدامات کا الزام 11 سعودی شہریوں پر لگایا گیا۔ ایسے حالات میں امریکی صدر جارج بش جونیئر کی جانب سے گریٹر مڈل ایسٹ جیسا منصوبہ ایک ڈاکٹرائن کی شکل میں سامنے آیا۔ اس منصوبے میں لبرالیزم، ثقافت اور جمہوریت پر خاص تاکید کی گئی تھی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب جہاں قبائلی نظام حکمفرما ہے اس منصوبے کے سب سے بڑے مخالف کے طور پر سامنے آیا۔ لیکن ایک اور ایسا واقعہ پیش آیا جو امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعاون اور ہمکاری میں مزید بہبود اور بہتری آنے کا باعث بن گیا اور یہ واقعہ جنوری 2005ء میں عراق میں برگزار ہونے والے انتخابات میں شیعہ اتحاد کی واضح کامیابی تھی۔ عراق میں ابومصعب زرقاوی کی سربراہی میں القاعدہ کا دہشت گرد گروہ شیعوں کے سب سے بڑے دشمن کی صورت میں منظرعام پر آیا۔ 
 
شام کا مسئلہ اور امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کا نیا آغاز:
شام کے بحران نے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان کمزور ہوتے تعلقات میں بہتری کا مناسب موقع فراہم کر دیا۔ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعاون کے نئے آغاز کا نتیجہ خود بخود سلفی عناصر کے مضبوط اور طاقتور ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ امریکہ عراق میں القاعدہ کی موجودگی کے بارے میں مکمل آگاہی رکھتا تھا۔ 2011ء تک عراق میں انجام پانے والی القاعدہ کی تمام سرگرمیاں امریکہ کی زیر سرپرستی تھیں۔ عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد القاعدہ نے وزیراعظم نوری المالکی کی وفادات سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ان دہشت گردانہ اقدامات سے ظاہر ہوتا تھا کہ عراق میں بہت جلد شیعہ سنی فرقہ وارانہ فسادات کا نیا مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔ شام کے بحران نے ان فسادات میں تیزی کا زمینہ فراہم کر دیا۔ 
 
وہ چیز جس کا امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک کو انتظار تھا شام کے بحران کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی یعنی شیعہ سنی اختلافات کی شدت میں اضافہ ہوا جو مغرب کے دراز مدت مفادات کیلئے اچھی خبر جانی جاتی ہے۔ شام میں بحران کے شدت اختیار کرنے پر القاعدہ کے مرکزی رہنما ایمن الظواہری نے جہاد کا فتوا صادر کرتے ہوئے تمام سلفی قوتوں کا رخ شام کی جانب موڑ دیا۔ ایمن الظواہری نے اعلان کیا کہ اے شام کے شیرو شام کا رخ کرو۔ یہ فتوا صادر ہوتے ہی بڑے پیمانے پر سلفی دہشت گرد شام کی سرزمین میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ ان دہشت گردوں کی اکثریت عراق کی سرحد سے شام میں داخل ہوئی۔ 2012ء میں امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے شام کے خلاف مشترکہ محاذ تشکیل دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک کے مفادات دہشت گرد گروہ النصرہ فرنٹ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ 
 
یہاں النصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کے تجزیہ و تحلیل کے بارے میں ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں النصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کی اکثریت اردن کے شہری ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کے بعد النصرہ فرنٹ کی حقیقت مزید کھل کر سامنے آئے گی۔ القاعدہ کے اردنی دہشت گردوں کی اکثریت القاعدہ کی عراقی شاخ سے منسلک ہے۔ ان کا لیڈر ابومصعب زرقاوی ہے جو ایک اردنی شہری تھا اور جب اس نے عراق میں القاعدہ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی تو زیادہ سے زیادہ اپنے ہم وطن اردنی شہریوں کو اپنے گروہ میں بھرتی کر کے عراق لے آیا۔ عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء اور ابومصعب زرقاوی کی ہلاکت کے بعد عراق میں القاعدہ بہت حد تک کمزور ہو گئی۔ اس کی ایک وجہ عراقی فوج کی جانب سے دہشت گرد عناصر کے خلاف شدید آپریشن تھی اور دوسری وجہ بیداری کونسل کا عراقی فوج کے ساتھ تعاون تھی۔ 
 
2011ء میں شام میں رونما ہونے والے بحران نے عراق میں سرگرم القاعدہ کے دہشت گرد گروہوں کیلئے شام میں داخل ہونے کا موقع فراہم کر دیا۔ دوسری طرف شمالی عراق کے سنی اکثریت والے صوبوں خاص طور پر الانبار میں القاعدہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف عوامی احتجاج اور مظاہروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور القاعدہ سے وابستہ عناصر بہت تیزے سے عراق سے شام کی جانب نقل مکانی کرنے لگے۔ عراق کے سابق نائب وزیراعظم طارق الہاشمی اور رافع العیساوی کے دہشت گردانہ اقدامات میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت فراہم ہونے کے بعد اس کے گارڈز کو عراقی سیکورٹی فورسز نے گرفتار کر لیا جس پر عراق کے شمالی علاقوں میں نوری المالکی کی حکومت کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہو گئے۔ القاعدہ کے سرکردہ رہنما ابوبکر البغدادی نے موقع کو غنیمت جانا اور بڑے پیمانے پر اپنے دہشت گردوں کو سرحد پار کروا کر شام بھیج دیا۔ دوسرے الفاظ میں عراق شام میں داخل ہونے والے دہشت گرد عناصر کا دروازہ بن گیا۔ 
 
لبنان کے سلفی گروہ اور شام میں بحران کی شدت میں اضافہ: 
جیسا کہ ذکر کیا ہے کہ شام کی مشرقی سرحدی پٹی میں ہنگامہ آرائی اور افراتفری سے سوء استفادہ کرتے ہوئے القاعدہ کے رہنما ابوبکر البغدادی نے بڑے پیمانے پر دہشت گرد شام میں بھیجنا شروع کر دیئے۔ دوسری طرف شام کی مغربی سرحد پر واقع لبنان سے ملحقہ علاقوں میں بھی لبنان کے سلفی دہشت گرد گروہ شام میں مداخلت کیلئے تیار کھڑے تھے۔ 2006ء میں دہشت گرد گروہ فتح الاسلام اور لبنانی سیکورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپیں لبنان میں سلفی دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی بہترین مثال ہے جنہوں نے نہرالبارد کے مہاجرین کیمپ میں لبنانی فوج کیلئے بڑی مشکلیں کھڑی کر رکھی تھیں۔ 
 
شام میں بحران کے شدت اختیار کر جانے کے بعد لبنانی سلفی دہشت گرد گروہ فتح الاسلام کے دہشت گردوں نے شام کا رخ کیا اور النصرہ فرنٹ کے شانہ بشانہ دہشت گردانہ اقدامات کا آغاز کر دیا۔ حتی لبنان کے شہر صیدا میں جہاں کی آبادی علوی اور سنی باشندوں دونوں پر مشتمل تھی فتح الاسلام کے دہشت گردوں اور ان کے حامیوں نے احمد الاسیر کی سربراہی میں ایسے اقدامات شروع کر دیئے جس کا مقصد شام کے بحران کو لبنان کی سرزمین میں منتقل کرنا تھا۔ ہمیں شام اور لبنان کے سرحدی علاقوں میں سعودی عرب اور ترکی کی سرگرمیوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ دونوں ممالک ان سرگرمیوں کے ذریعے صدر بشار اسد کی حکومت کی سرنگونی پر مبنی مشترکہ ہدف کیلئے کوشاں تھے۔ ترکی میں اردگان اور سعودی عرب میں بندر بن سلطان نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر النصرہ فرنٹ کو اسلحہ فراہم کیا اور ان کی مدد کی۔ 
 
القاعدہ اور النصرہ فرنٹ:
القاعدہ کے مرکزی رہنما ایمن الظواہری نے سلفی دہشت گردوں کو شام جانے کا حکم دیا اور دوسری طرف عراق میں موجود القاعدہ کے رہنما ابوبکر البغدادی نے سلفی دہشت گردوں کو انتہائی منظم انداز میں بڑے پیمانے پر عراق کے ذریعے شام کی سرزمین میں بھیجنا شروع کر دیا۔ النصرہ فرنٹ تین پہلووں سے القاعدہ کے ساتھ مرتبط ہے۔ یہ تین پہلو تنظیمی، افرادی اور بین الاقوامی ہیں۔ 13 اپریل 2013ء کو النصرہ فرنٹ کے رہنما محمد الجولانی کی جانب سے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد ان دو دہشت گرد گروہوں کے درمیان تعلق کے بارے میں تمام ابہامات دور ہو گئے اور دنیا والوں پر واضح ہو گیا کہ القاعدہ اور النصرہ فرنٹ حقیقت میں ایک ہی گروہ ہے۔ 
 
محمد الجولانی نے کہا: "النصرہ فرنٹ کے عہدیدار اور بیٹے شیخ جہاد ایمن الظواہری سے تجدید بیعت کرتے ہیں اور ان کی اطاعت کریں گے "۔ 
اس بیعت کے اعلان کے بعد النصرہ فرنٹ نے شام میں اپنی فوجی کاروائیوں اور اقدامات میں اضافہ کر دیا۔ النصرہ فرنٹ کی جانب سے انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات کی نوعیت سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دہشت گرد گروہ القاعدہ کی ذیلی شاخ ہی ہے۔ القصیر میں شام کی فوج کی جانب سے کامیاب آپریشن کی وجہ سے شام میں سلفی قوتیں کمزور ہو گئیں اور النصرہ فرنٹ کی طاقت میں بھی کمی آ گئی۔ اس کے بعد ایمن الظواہری نے ابوبکر البغدادی پر الزام لگایا کہ اس نے اپنے طور پر ہی "داعش" یا دولہ الاسلامیہ العراق و الشام کی بنیاد رکھی ہے۔ 
 
النصرہ فرنٹ کا تنظیمی ڈھانچہ:
النصرہ فرنٹ کا تنظیمی سیٹ اپ درحقیقت القاعدہ کے دہشت گردانہ نیٹ ورک کے تابع ہے۔ النصرہ فرنٹ کے دو قسم کے مرکزی رہنما ہیں۔ ایک سیاسی رہنما اور دوسرے مذہبی رہنما جنہیں شیخ بھی کہا جاتا ہے۔ شیخ کی ذمہ داری سلفی مذہبی قوتوں کی رہنمائی اور ان کیلئے دینی مدارس کا قیام ہے تاکہ انہیں دینی تعلیمات دی جا سکیں۔ النصرہ فرنٹ کا مذہبی رہنما اور مرشد سعودی عرب کا شہری ابومصعب القحطانی ہے۔ اسی طرح سیاسی رہنما کی ذمہ داری النصرہ فرنٹ کے کارکنوں کی فوجی تربیت کرنا اور سیاسی امور کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ 
 
النصرہ فرنٹ نے ایک عدالتی نظام بھی بنا رکھا ہے جس کے تحت اسلامی عدالتیں قائم کی گئی ہیں جو اس گروہ کے زیرکنٹرول علاقوں میں تنازعات اور لڑائی جھگڑوں کا فیصلہ سناتی ہیں۔ اسی طرح النصرہ فرنٹ کے وہ فوجی عہدیدار اور کمانڈرز جو فوجی اصولوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں اسی عدالت میں پیش کئے جاتے ہیں اور ان کے خلاف قانونی کاروائی انجام پاتی ہے۔ النصرہ فرنٹ کی جانب سے قائم کی گئی ان عدالتوں کا طریقہ کار مالی اور افغانستان میں موجود القاعدہ کی علاقائی عدالتوں کی مانند ہے۔ النصرہ فرنٹ نے اعلان کر رکھا ہے کہ اس کے قوانین اسلامی اصولوں یعنی قرآن و سنت پر مبنی ہیں۔ یاد رہے قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تفسیر سلفی طرز تفکر کے مطابق کی جاتی ہے۔ 
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 317968
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش