0
Monday 25 Nov 2013 21:39

النصرہ فرنٹ، نظریاتی بنیادیں، تنظیمی ڈھانچہ اور خطے میں اس کا مستقبل (دوسرا حصہ)

النصرہ فرنٹ، نظریاتی بنیادیں، تنظیمی ڈھانچہ اور خطے میں اس کا مستقبل (دوسرا حصہ)
تحریر: ہادی محمدی فر

اسلام ٹائمز- گذشتہ حصے میں ہم نے النصرہ فرنٹ کی فکری اور نظریاتی بنیادوں اور اس کے تنظیمی ڈھانچے کا مختصر جائزہ لیا تھا۔ اس حصے میں ہم خطے اور بین الاقوامی سطح پر النصرہ فرنٹ کی حامی اور مخالف قوتوں اور شام کے مستقبل میں اس دہشت گرد گروہ کے کردار پر روشنی ڈالیں گے۔ 

علاقائی اور بین الاقوامی ممالک کی النصرہ فرنٹ کے بارے میں پالیسیاں:
النصرہ فرنٹ کے بارے میں دو قسم کی پالیسیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایک اس کی حمایت میں اور دوسری اس کی مخالفت میں۔ وہ ممالک جو شام میں النصرہ فرنٹ کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں عام طور پر مشرق وسطی میں اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کے حامی ممالک تصور کئے جاتے ہیں۔ لبنان میں سابق وزیراعظم مرحوم رفیق حریری کے بیٹے سعد حریری کی سربراہی میں 14 مارچ گروپ، ترکی، قطر، سعودی عرب، مصر اور اردن خطے میں النصرہ فرنٹ کے بڑے حامیوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ملک نے اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول کیلئے النصرہ فرنٹ کی حمایت میں مخصوص پالیسیاں اپنا رکھی ہیں۔ دوسری طرف النصرہ فرنٹ کے ان حامی ممالک کے اپنے اندر بھی ایک قسم کی رقابت پائی جاتی ہے۔ 
 
دوسرا گروپ ایران، حزب اللہ لبنان، عراق اور شام پر مبنی ہے جو النصرہ فرنٹ کے مخالفین میں شمار کئے جاتے ہیں۔ سلفی گروہوں کے شدت پسندانہ نظریات کی وجہ سے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد انتہائی توہین کا شکار ہوتے ہیں جو فطری طور پر اس گروہ کے نظریات اور خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی بلاک کے نظریات کے درمیان تضاد پیدا ہونے کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ النصرہ فرنٹ ایران، حزب اللہ لبنان اور عراق میں نوری المالکی کی حکومت پر شام کی حمایت کا الزام لگاتا آ رہا ہے۔ 
 
النصرہ فرنٹ کے حامی ممالک میں سے ہر ملک خطے کا ایک سیاسی کھلاڑی ہونے کے ناطے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے کوشاں نظر آتا ہے۔ سعودی عرب واحد وہ ملک ہے جو النصرہ فرنٹ کے سلفی دہشت گردوں کی بے چون و چرا حمایت اور مالی مدد کرنے میں مصروف ہے جبکہ قطر کی جانب سے النصرہ فرنٹ کی حمایت صرف ایک عارضی ہتھکنڈہ ہے جس کا مقصد شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کو کمزور کرنا ہے۔ دوسری طرف ترکی کا جھکاو بھی زیادہ تر اخوان المسلمین کی جانب ہے اور النصرہ فرنٹ کی حمایت میں وہ بھی زیادہ سنجیدہ اور مخلص دکھائی نہیں دیتا۔ 
 
شام میں برسرپیکار دوسرے مسلح گروہوں کے برخلاف النصرہ فرنٹ زیادہ مضبوط اور منظم تنظیمی سیٹ اپ کا حامل ہے۔ النصرہ فرنٹ اپنے گہرے اثرورسوخ کی بدولت اخوان المسلمین کی حامی قوتوں کو قطر، ترکی اور اردن کی جانب سے دی جانے والی فوجی امداد میں سے زیادہ بہتر اور جدید اسلحہ اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ دوسری طرف عرب ممالک میں عوام کے اندر اثرورسوخ قائم کرتے ہوئے وہاں سے اپنی افرادی قوت کو مضبوط بنانے کیلئے افراد بھرتی کرتا ہے۔ النصرہ فرنٹ کی کوشش ہے کہ شیعہ مخالف افکار کا پرچار کر کے مذہبی فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دے جس کی وجہ سے سعودی عرب خاص طور پر سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ بندر بن سلطان انتہائی پروزور انداز میں اس دہشت گرد گروہ کی حمایت کرنے میں مصروف ہے۔ 
 
خطے میں النصرہ فرنٹ کا سب سے بڑا اور اہم ترین حامی اسرائیل ہے۔ اسرائیل کئی پہلووں سے مسلمانان عالم کے درمیان اتحاد اور وحدت کو اپنے ناپاک مقاصد کے حصول میں بڑی رکاوٹ تصور کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اسرائیل کی اسٹریٹجک گہرائی (Strategic Depth) انتہائی کمزور ہے۔ سب سے بدتر یہ کہ اسرائیل کی یہ اسٹریٹجک گہرائی اسلامی ممالک کے درمیان محصور ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ان اسلامی ممالک میں کسی قسم کی وحدت اور اتحاد اس خطرے کا باعث بن سکتا ہے کہ یہ ممالک مل کر اسرائیل کے خلاف کوئی بڑی کاروائی شروع کر دیں۔ اسی وجہ سے اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم مشرق وسطی میں موجود اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات پیدا کر کے ان میں دشمنی کی فضا قائم کرنا چاہتی ہے اور اس منحوس مقصد کے حصول کیلئے النصرہ فرنٹ اس کیلئے بہت زیادہ مفید اور مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ 
 
اسرائیل اور شام کے درمیان کافی عرصے سے گولان ہائٹس کے بارے میں تنازعہ چلا آ رہا ہے۔ جیسا کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ گولان ہائٹس ان عرب سرزمینوں کا حصہ ہے جن پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے دوران غاصبانہ قبضہ جما لیا تھا۔ اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے خلاف 33 روزہ جنگ میں عبرتناک شکست کھائی تھی جس کے بعد وہ اس سوچ میں پڑ گیا کہ کس طرح شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی حزب اللہ لبنان اور زیادہ تر سنی مسلمانوں پر مشتمل عرب ممالک کے درمیان اختلافات اور تفرقہ پیدا کر کے انہیں آپس میں لڑایا جائے؟ اسی مقصد کیلئے لبنان کی دہشت گرد تنظیم فتح الاسلام سے وابستہ سلفی دہشت گرد اسرائیل کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ جب شام میں سلفی دہشت گروہوں نے اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کا آغاز کیا تو اسرائیل کی توجہ سلفی گروہ النصرہ فرنٹ کی جانب مبذول ہونا شروع ہو گئی۔ 
 
شام میں ہر قسم کا بحران اور سیاسی عدم استحکام درحقیقت خطے میں اسرائیل کی حیثیت مضبوط ہونے کے مترادف تصور کی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور شام کے درمیان ہر قسم کا جھگڑا صرف اور صرف جیت – ہار کی بنیادوں پر ہی استوار ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیلی وزیراعظم اویگڈور لیبرمین نے شام میں بحران کے آغاز کے ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ لیبیا کی طرح شام کے خلاف بھی متحدہ محاذ تشکیل دے۔ شام میں بحران شدت اختیار کرنے کے بعد اسرائیلی سرحدوں کے ساتھ بھی بدامنی شروع ہو گئی جس پر اسرائیلی حکام النصرہ فرنٹ کی جانب سے تشویش محسوس کرنے لگے۔ اسرائیلییوں کا عقیدہ ہے کہ ایک جانا پہچانا دشمن انجان دشمن سے کہیں بہتر ہے لہذا شام کے بحران میں زیادہ مداخلت کرنے سے باز رہے۔ 
 
امریکہ اور مغربی ممالک ایک طرف تو النصرہ فرنٹ کے اقدامات کی عملی طور پر حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن دوسری طرف بظاہر خود کو خطے میں النصرہ فرنٹ کے دہشت گردانہ اقدامات کا مخالف ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ النصرہ فرنٹ کی نسبت ان کا یہ دوغلا رویہ امریکہ اور مغربی ممالک کی خارجہ پالیسیوں میں تضاد پیدا ہونے کا باعث بنا ہے۔ امریکہ ایک طرف تو شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن دوسری طرف النصرہ فرنٹ کی طاقت کو بھی کمزور کرنا چاہتا ہے لہذا اس نے شام کے بارے میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ شام میں بدامنی عدم استحکام جاری رہے کیونکہ اس بحرانی صورتحال کے تسلسل کا نتیجہ فطری طور پر شام کے سیاسی اور اقتصادی نظام کی سرنگونی اور مغرب کی جانب سے شام میں فوجی مداخلت کا زمینہ فراہم ہونے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اس ضمن میں ایک ممکنہ قدم امریکہ اور مغربی طاقتوں کی جانب سے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کو بہانہ بنا کر وہاں فوجی کاروائی کا زمینہ فراہم کرنا تھا لیکن شام کے حامی ممالک جیسے ایران اور روس کی جانب سے کامیاب سفارتکاری اور امریکہ کی دھمکیوں کا جواب دھمکیوں سے دینے کی وجہ سے یہ خطرہ اب ٹل چکا ہے۔ 
 
النصرہ فرنٹ کے بارے میں اس کے حامی امریکی اور یورپی اتحادیوں کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ چین اور روس کے رویے کا ذکر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے چونکہ یہ دونوں ممالک اب تک سیکورٹی کونسل میں صدر بشار اسد کی حکومت کے خلاف ہر قسم کی شدت پسندانہ قرارداد کی منظوری میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے ہیں۔ چین اور روس شام میں صدر بشار اسد کے حامی ہونے کے ناطے امریکہ، مغربی ممالک اور خطے کے بعض ممالک کی جانب سے النصرہ فرنٹ کی فوجی اور مالی امداد کے شدید مخالف رہے ہیں۔ لیبیا کے مسئلے میں مغربی طاقتوں کی جانب سے روس کے مفادات کو یکسر طور پر نظرانداز کر دینے کی وجہ سے روس اب شام کے مسئلے میں مغربی ممالک پر بالکل اعتماد نہیں کر رہا۔ لہذا روس نے شروع سے ہی شام حکومت کی ڈٹ کر حمایت کر رکھی ہے اور اب تک اپنے اس موقف پر سختی سے قائم ہے۔ اسی کی ایک بڑی وجہ شام کی بندرگاہوں طرطوس اور لاذقیہ پر موجود روس کے فوجی اڈے بھی ہیں۔ روس ان اڈوں کے بارے میں پریشان ہے کیونکہ اسے یقین نہیں کہ شام میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کے مدنظر مطلوبہ سیاسی تبدیلی آنے کے بعد ان فوجی اڈوں کا کیا بنے گا۔ روس کے خیال میں شام میں ہر قسم کی سیاسی تبدیلی بین الاقوامی سطح پر طاقت کے توازن کو مغربی ممالک اور امریکہ کے حق میں بگاڑ سکتی ہے لہذا وہ شام میں النصرہ فرنٹ کے دہشت گردانہ اقدامات کا سخت مخالف ہے۔ اسی طرح گذشتہ تین عشروں سے روس اور شام میں مختلف دفاعی معاہدوں کے تحت تعاون جاری ہے اور روس نے ان تیس سالوں کے دوران شام کی فوج کو مضبوط بنانے اور اس کی دفاعی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لہذا النصرہ فرنٹ شام کے بارے میں روس کی پالیسیوں سے شدید مخالفت رکھتی ہے۔ 
 
القصیر کا معرکہ اور النصرہ فرنٹ کی طاقت میں کمی:
النصرہ فرنٹ جنگ کے میدان میں کافی حد تک اپنی طاقت کھو چکی ہے لہذا اس نے اپنے افراد کے حوصلے بلند کرنے کیلئے القاعدہ سے بیعت کا اعلان کیا لیکن یہ حربہ بھی بے سود ثابت ہوا اور بیعت بھی النصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کے مورال کو بلند کرنے میں کوئی کردار ادا نہ کر سکی۔ القصیر کا قصبہ لبنان کی سرحد کے قریب واقع ہے اور شام کے سرحدی علاقوں اور صوبہ حمص کے درمیان واقع ہونے کے ناطے انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل قصبہ جانا جاتا ہے۔ یہ قصبہ النصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کیلئے انتہائی اہم تھا کیونکہ لبنان کے راستے آنے والے تمام دہشت گرد اور فوجی امداد اسی راستے صوبہ حمص بھیجی جاتی تھی۔ القصیر پر قابض ہونے کے ناطے النصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں نے اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کا سلسلہ لبنان کے اندر تک بڑھا دیا تھا۔ دوسری طرف دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے ریف الدمشق میں بھی دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دینے کیلئے القصیر کا قصبہ استعمال کی جاتا تھا۔ 
 
القصیر کا معرکہ درحقیقت النصرہ فرنٹ پر ایک شدید دھچکا ثابت ہوا اور اس قصبے کی آزادی سے خطے میں فوجی توازن شامی فوج کے حق میں تبدیل ہو گیا۔ القصیر قصبے پر شامی فوج کا قبضہ شام کے دوسرے شمالی علاقوں جیسے صوبہ حلب اور صوبہ حمص میں شامی فوج کی جانب سے فوجی آپریشن شروع کرنے کا مقدمہ ثابت ہوا۔ یہ آپریشن جو اب تک جاری ہے شامی فوج کی برتری کا باعث بنا ہے۔ دوسری طرف القصیر معرکے کے بعد شام پر حکمفرما بعث پارٹی کے مرکزی رہنماوں کی تبدیلی اور نئے افراد کا شامل ہونا دہشت گردی کے خلاف حکومتی اقدامات میں مزید بہتری پیدا ہونے کا باعث بنا ہے۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے صدر بشار اسد کی پوزیشن مزید مضبوط ہو چکی ہے اور اب وہ زیادہ کھل کر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کر چکے ہیں۔ دوسری طرف اس صورتحال کے نتیجے میں النصرہ فرنٹ کا مورال انتہائی کمزور حد تک جا پہنچا ہے اور وہ شدید خوف و ہراس کا شکار ہو چکے ہیں۔ 
 
خطے میں اسلامی بیداری کا جنم لینا اور النصرہ فرنٹ کی جانب سے سوء استفادہ کی کوششیں:
خطے میں اسلامی بیداری کی امواج رونما ہونے اور تیونس، مصر، لیبیا اور یمن میں عرب عوام کی جانب سے حکمفرما آمرانہ نظاموں کی سرنگونی کیلئے جدوجہد کے آغاز کے بعد النصرہ فرنٹ نے بھی شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کے خلاف اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کو عرب اسپرنگ کا رنگ دینے کی کوششیں شروع کر دیں۔ لیکن ان کا یہ حربہ بری طرح ناکامی کا شکار ہو گیا اور شام کی عوام نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ اس ناکامی کی کئی وجوہات تھیں۔ پہلی بڑی وجہ یہ تھی کہ صدر بشار اسد ملک میں برگزار ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آئے تھے اور ان کی حیثیت حسنی مبارک، بن علی اور عبداللہ صالح جیسے رہنماوں سے بالکل مختلف تھی۔ 
 
النصرہ فرنٹ کی ناکامی کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ شام اسرائیل کے خلاف قائم عربی – اسلامی محاذ کی فرنٹ لائن پر کھڑا ہے۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ شام کی عوام پڑھی لکھی عوام ہے اور شام میں شرح خواندگی بلند سطح پر ہے جس کے باعث عوام انتہائی سلجھے ہوئے ہیں اور دہشت گردانہ اقدامات کے شدید خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ النصرہ فرنٹ سے وابستہ دہشت گرد عناصر کی اکثریت غیرشامی افراد پر مشتمل ہے۔ النصرہ فرنٹ کے اکثر دہشت گردوں کا تعلق اردن سے ہے۔ صدر بشار اسد کی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کرنے والے افراد کی اکثریت غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ لہذا شام میں جاری بغاوت کو دوسرے عرب ممالک میں رونما ہونے والے انقلابات کے ساتھ موازنہ کرنا بالکل درست نہیں۔ 
 
نتیجہ گیری:
جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ اعلی اقدار اور رسومات بذات خود ایک خطے میں واقع مختلف ممالک کے درمیان قربت اور ہماہنگی ایجاد ہونے کا باعث بنتی ہیں۔ عربی، عبری اور مغربی اتحاد اب تک انہیں مشترکہ اقدار کی مدد سے شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے کر خطے میں اسرائیل کے خلاف ایک مشترکہ اسلامی محاذ قائم ہونے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا آیا ہے۔ یہی عوامل مشرق وسطی میں مسلمان قوتوں کے درمیان اختلافات کا باعث بھی بنے ہیں۔ شام اسی کشمکش کا مرکز بنا ہوا ہے جسے صحیح طور پر "عالمی طاقتوں کی جانب سے مشرق وسطی میں نئی سرد جنگ" کا نام دیا جا سکتا ہے۔ 
 
خطے میں النصرہ فرنٹ کے مستقبل کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ یہ تنظیم عوامی حمایت پر استوار نہیں ہے بلکہ اس کی تشکیل میں غیرملکی اور بیرونی عناصر کا کردار حاوی رہا ہے اور ہر وہ تحریک یا تنظیم جس کی جڑیں اس خطے کی عوام میں نہ ہوں لمبے عرصے کیلئے نہیں چل سکتی اور زوال اس کا مقدر ہوتی ہے لہذا النصرہ فرنٹ کا مستقبل بھی تاریک نظر آتا ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیم مغربی طاقتوں کا آلت دست بنی ہوئی ہے اور وہ اسے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ اس تنظیم کو صرف ایک کام میں مہارت حاصل ہے اور وہ کام تخریبی اور دہشت گردانہ کاروائیاں ہیں۔ ایسے تنظیم کسی ملک میں بھی کسی بنیادی کردار کی حامل نہیں ہو سکتی۔ النصرہ فرنٹ خود شامی عوام کی نمایندہ تنظیم نہیں اور اسی وجہ سے پورے یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شامی عوام کی نظر میں اس دہشت گرد تنظیم کی کوئی حیثیت نہیں اور ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے زوال اور نابودی کے شاہد ہوں گے۔ 

 
خبر کا کوڈ : 317970
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش