0
Friday 8 Nov 2013 17:36

کربلا و امام حسین (ع) غیر مسلم مشاہیر کی نظر میں

کربلا و امام حسین (ع) غیر مسلم مشاہیر کی نظر میں
تحریر و ترتیب: ایس ایچ بنگش

محسن انسانیت امام حسین علیہ السلام نے میدان کربلا میں اپنے انصار و اصحاب سمیت تاقیامت انسانی اقدار کو بچانے کے لئے ایسی لازاول قربانی دی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے، یہی وجہ ہے کہ نواسہ رسول ص، محسن انسانیت حضرت امام حسین (ع) کی یاد تمام باشعور و حریت پسند انسانوں میں بغیر کسی تفریق مذہب و رنگ و نسل آباد ہے اور انشاءاللہ تاقیامت یہ یاد رہے گی۔ امام حسین علیہ السلام نے راہِ خدا و اسلام، راہِ حق و عدالت، اور جہالت و گمراہی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں کو آزاد کرنے کے لئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ کیا یہ چیزیں کبھی پرانی اور فراموش ہونے والی ہیں؟ ہر گز نہیں۔ حضرت امام حسین (ع) نہ صرف مسلمانوں کے دلوں میں مقام و منزلت رکھتے ہیں بلکہ تمام مذاہب اسلامی اور غیر اسلامی آپ کو ایک مرد آزاد کے عنوان سے پہچانتے ہیں اور آپ کے لیے کچھ خاص خصوصیات کے قائل ہیں۔ ہم یہاں پر بعض غیر اسلامی دانشوروں اور مورخین کے اقوال امام حسین (ع) سلسلے میں نقل کرتے ہیں۔

آج اگر شام دمشق میں صیہونی و تکفیری مثلث امریکہ اسرائیل اور دور حاضر کے خوارج اسرائیل کے حامی اور فلسطین مخالف قوتوں کو شکست کا سامنا پڑا تو وہ بھی کربلا کو آئیڈیل قرار دینے والے حزب اللہ و انقلاب اسلامی کے ہاتھوں۔ اسی طرح لبنان کی 33 روزہ اور غزہ فلسطین کی 22 روزہ جنگ میں صیہونیت کے خلاف مقاومت حزب اللہ و حماس کی فتح بھی کربلا کی مرہون منت ہے، کیونکہ حزب اللہ و حماس عالم اسلام کے دونوں بازوں کا منبع انقلاب اسلامی اور فکر خمینی ہے ۔ وہ امام خمینی، جب کسی نے امام خمینی سے پوچھا کہ آپ نے اتنا عظیم انقلاب کیسے برپا کیا تو امام خمینی کا جواب تھا، ما ہر چہ داریم از کربلا و عاشورا داریم۔۔۔ یعنی ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہے وہ کربلا و امام حسین کا مرہون منت ہے، محرم اور صفر کے مہینے کو زندہ رکھیں کیونکہ انہوں نے اسلام کو زندہ کردیا۔ علامہ اقبال کا بھی یہی کہنا تھا۔
حدیث عشق دوباب است کربلا و دمشق
یک حسین (ع) رقم کرد و دیگر زینب (س)


کربلا شناس امام خمینی کا فرمان ہے کہ ہم امریکہ کے عوام کے دشمن نہیں بلکہ امریکہ کے انسان دشمن پالیسیوں کے دشمن ہیں۔۔۔چند دہائیاں پہلے لوگ اس فرمان کے مقصد کو سمجھے بغیر اسے دوغلی پالیسی سمجھتے تھے، لیکن اکیسیویں صدی میں امریکہ کی طرف سے افغانستان عراق اور حالیہ شام پر امریکی حملوں کے خلاف امریکہ کے اندر لاکھوں افراد کا احتجاج اور امام حسین (ع) کے متعلق دنیا بھر کے باضمیر سکالرز کا ذیل میں دیا ہوا خراج تحسین اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جس طرح کربلا و امام حسین (ع) کا ذکر تاقیامت زندہ ہیں، اس طرح کربلا شناس امام خمینی کا ذکر بھی تاقیامت زندہ و جاوید رہے گا۔
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

لبنان سے تعلق رکھنے والے عیسائی اسکالر انٹویا بارا کہتے ہیں۔ کہ اگر ہمارے ساتھ امام حسین جیسی ہستی ہوتی تو ہم دنیا کے مختلف حصوں میں امام حسین کے نام کا پرچم لے کر مینار تعمیر کرکے لوگوں کو عیسائیت کی طرف بلاتے، لیکن افسوس عیسائیت کے پاس حسین نہیں، انگلستان کے مشہور سکالر و ناول نگار چارلس ڈکسن کہتے ہیں کہ میں نہیں سمجھتا کہ حسین (امام حسین) کو کوئی دنیاوی لالچ تھا یا اگر ایسا ہوتا تو حسین ( امام حسین) اپنا سارا خاندان بچے و خواتین کیوں دشت کربلا میں لاتے۔ کربلا میں بچوں و خواتین سمیت آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ  حسین نے فقط اسلام اور رضائے الہی کے لئے قربانی دی۔ ع۔ ل۔ پویڈ لکھتے ہیں، حسین (امام حسین)نے یہ درس دیا ہے کہ دنیا میں بعض دائمی اصول جیسے عدالت، رحم، محبت وغیرہ پائے جاتے ہیں کہ جو قابل تغییر نہیں ہیں۔ اور اسی طریقے سے جب بھی کوئی برائی رواج پھیل جائے اور انسان اس کے مقابلے میں قیام کرے تو وہ دنیامیں ایک ثابت اصول کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ گذشتہ صدیوں میں کچھ افراد ہمیشہ جرأت، غیرت اور عظمت انسانی کو دوست رکھتے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آزادی اور عدالت، ظلم و فساد کے سامنے نہیں جھکے ہیں۔ حسین (امام حسین) بھی ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے عدالت اور آزادی کو زندہ رکھا۔ میں خوشی کا احساس کر رہا ہوں کہ میں اس دن ان لوگوں کے ساتھ جن کی جانثاری اور فداکاری بےمثال تھی شریک ہوا ہوں اگرچہ ۱۳ سو سال اس تاریخ کو گزر چکے ہیں۔

امریکہ کا مشہور و معروف مورخ اپرونیک، واشنگٹن سے لکھتا ہے۔ حسین (امام حسینؑ) کے لیے ممکن تھا کہ یزید کے آگے جھک کر اپنی زندگی کو بچا لیتے لیکن امامت کی ذمہ داری اجازت نہیں دی رہی تھی کہ آپ یزید کو ایک خلیفۃ المسلمین کے عنوان سے قبول کریں انہوں نے اسلام کو بنی امیہ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر طرح کی مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا۔ دھوپ کی شدت تمازت میں جلتی ہوئی ریتی پر حسین (امام حسین) نے حیات ابدی کا سودا کر لیا، اے مرد مجاہد، اے شجاعت کے علمبردار، اور اے شہسوار، اے میرے حسین (امام حسین)۔ برصیغر کے معروف رہنما مہاتما گاندھی کہتے ہیں۔۔کہ اسلام بذور شمشیر نہیں پھیلا بلکہ اسلام حسین کی قربانی کی وجہ سے پھیلا اور میں نےحسین (امام حسین) سے مظلومیت کے اوقات میں فتح و کامرانی کا درس سیکھا ہے۔

گویا انگریزوں سے پاکستان و ہندوستان کی آزادی بھی امام حسین (ع) کی قربانی سے سبق لینے کی وجہ سے ہے۔ ایک طرف گاندھی برملا اس بات کا اقرار کرتا ہے تو دوسری طرف بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے والد پونجا جناح اور بعد میں خاندان کے ساتھ جناح کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ ان کی عاشورا کے دن امام حسین کے شبیہہ ذوالجناح کے وسیلے سے دعا پوری ہونے (کیونکہ قرآن میں بھی اللہ سے دعا مانگنے کے لئے وسیلہ تلاش کرنے کا حکم ہے) کی وجہ سے یہ خاندان محب اہل بیت اور پیروکاران سید الشہدا امام حسین (ع) بن گئے تھے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی مخالفت کرنے والے عناصر اور بات بات پر کفر کے فتوے لگانے والے اسلام کے لبادے میں یزید ملعون کے پیروکار مٹھی بھر فسادی ٹولے اور فسادی ملاؤں نے اس وقت قائداعظم کو بھی کافر اعظم (نقل کفر کفر نہ باشد) کہہ کر پکارا اور آج بھی یہی مٹھی بھر خارجی و فسادی ٹولہ پاکستان میں اسلام کے نام پر فساد برپا کر رہا ہے۔

کربلا شناس و حکیم الامت علامہ اقبال نے سن اکسٹھ ہجری اور اکیسویں صدی کی یزیدیت کو بےنقاب کرتے ہوئے فرمایا،
عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ
کٹا حسین (ع) کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ

اسی طرح آج کے دور اکیسیویں صدی کے یزید وقت امریکہ کے ایجنٹ اسلام کے نام پر جہاد بنام فساد کی صورت میں ہو ان خواراج و یزیدان عصر کی اسلام دشمنی اور فتنہ کے بارے میں بھی اقبال نے پیشن گوئی کی تھی، اور یوں برملا اظہار کیا تھا۔
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ


امام حسین (ع) اور عزاداری کی طاقت وجہ سے عراق سے امریکی افواج کا انخلا۔۔ امریکی فوجی ٹام کا عراقی شہر کربلا سے اپنی مام(ماں، امریکی شہر ہوسٹن) کے نام خط۔۔ عراق پر جب یزید وقت امریکہ نے اپنے ہی پالے ہوئے پٹھو صدام کی حکومت کے خاتمے اور کیمیائی ہتھیاروں کے بہانے چڑھائی کرکے ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ ڈالے تو دوسری طرف عراقی عوام نے اس دور کے یزید امریکہ کے سامنے جھکنے کی بجائے امام حیسن (ع) کی عزاداری اور ماتم کی طاقت و فلسفے سے ظلم و یزیدیت کے خلاف آواز اٹھا کر آخر کار امریکہ کو عراق چھوڑنے پر مجبور کیا۔ عراق میں عاشورا اور چہلم کے موقع پر لاکھوں حتی کہ چہلم و اربعین شہدائے کربلا کے موقع پر ایک کروڑ سے زیادہ پاپیادہ عزاداروں کے کربلا کی طرف مارچ و عزاداری اور لبیک یا حسین (ع)، حسینت زندہ باد و یزیدیت مردہ باد کے نعروں نے وہاں ڈیوٹی پر مقیم امریکی فوجیوں کے نفسیات پر اثر ڈالا اور یوں امریکی افواج میں امریکی حکومت کے خلاف بغاوت پیدا ہونے کے ڈر سے امریکہ عراق سے دم بھگا کر بھاگ گیا، یقینا امریکہ کا عراق سے بھاگ جانا ٹام جیسے سینکڑوں فوجیوں کی نفسیات پر اثر اور انکے دل میں عزاداری و ماتم امام حسینؑ کی وجہ سے جنگ مخالف جذبات پیدا ہوئے، ٹام کا خط سن دو ہزار تین میں مختلف میڈیا ذرائع و اخبارات بشمول پاکستان کے روزنامہ ڈان کے سنڈے ایڈیشن میں بھی شائع ہوا۔ جس کے ایک پیراگراف کا یہاں ترجمہ اور مکمل خط کا لنک و تفصیل یہاں قارئین کے لئے دی جا رہی ہے۔
http://archives.dawn.com/weekly/dmag/archive/030413/dmag3.htm

ٹام لکھتے ہیں۔۔میری ماں، میں آپ کا بیٹا ٹام ہوں، اور یہ کربلا شہر کے ایک بیرک یا مورچے میں میری ڈیوٹی کا تیسرا دن ہے۔ یہاں ایک مقدس مقام زیارت کی طرف لوگ جا رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ مقدس مقام یا زیارت ان کے نبی حضرت محمد (ص) کے نواسے کی اس قربانی کی یاد میں بنایا گیا ہے کہ آپ (امام حسین) نے اپنے خاندان کے تمام مرد بشمول چھ ماہ کے شیر خوار کو اللہ کی راہ میں قربان کیا۔ ماں، میں بھی ہوسٹن امریکہ سے بہت دور اس صحرا میں آیا ہوں، لیکن میں جانتا ہوں کہ میں یہاں اللہ کی رضا کے لئے نہیں آیا بلکہ میں اور میرے دوسرے ساتھی (امریکی فوجی) ہم سب یہاں اسلئے ہیں کہ ہمارے صدر (امریکی صدر) نے ہمیں یہاں مامور کیا ہے۔   

ٹام کے اس خط سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح عراق سے امریکہ کی ذلالت بھری شکست میں سید الشہداء اور امام حسین کی عزاداری نے اہم کردار ادا کیا کیونکہ عراق میں سینکڑوں امریکی فوجی نفسیاتی و ذہنی مریض بن گئے تھے۔ دوسری طرف اس خط نے صیہونی زیر اثر امریکی حکومت اور ان کے عوام حتی کہ افواج میں موجود بعض زندہ ضمیر افراد کی جنگ مخالف اقدامات اور حال ہی میں امریکہ میں شروع کی جانی والی وال سٹریٹ قبضہ کرو تحریک نے دراصل امام خمینی (رہ)  کے کئی دہائی پہلے اس فرمان کہ ہم امریکی عوام کے نہیں بلکہ امریکہ کی انسان دشمن پالیسیوں کے مخالف ہیں۔۔ اور امام خمینی (رہ) کے اس فرمان کو دنیا نے عراق اور افغانستان پر امریکی چڑھائی کے بعد لاکھوں امریکیوں کا امریکی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کی صورت میں مشاہدہ کیا اور جس کا گواہ حال ہی میں ایک اور عبرت آموز واقعہ، بیس امریکی ریاستوں کا امریکہ سے آزادی کا مطالبہ کرنا ہے۔ جس طرح  کربلا شناس امام خمینی (رہ) کے گورباچوف کے نام ایک خط نے روس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اسی طرح کربلا کے مکتب کے پروردہ  نظریہ ولایت فقیہہ کے مطابق رہبر و رہنما امام خمینی (رہ) اور اس کے پیشرو سید علی خامنہ ای کے  پہلے سے جاری مشاہدات  اور پیشن گوئیوں کے مطابق بہت جلد یزید وقت امریکہ بھی اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے، اور وہ وقت دور نہیں کیونکہ  اس سال محرم کے آغاز میں امریکی ایماء پر اسرائیل کی طرف سے غزہ پر بربریت و یزیدیت ہی امریکہ کو لے ڈوبی گی۔ 

یہی وجہ ہے کہ امام خمینی (رہ)  نے کربلا اور عاشورا کی طاقت بتاتے ہوئے فرمایا تھا کہ "لوگ ہمیں محرم میں رونے والے( گریہ و فریاد ماتم و عزاداری کرنے والے) کہہ کر مذاق اڑاتے تھے لیکن ان آنسوؤں کی طاقت سے ہم نے کئی صدیوں پر محیط شاہی نظام اور اس کے سرپرست شیطان بزرگ امریکہ کا بستر گول کرکے بساط لپیٹ  کر شکست دے دی، ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہے وہ کربلا کی وجہ سے ہے اسلئے کربلا و عاشورا اور محرم و صفر (چہلم یا اربعین حسین) کو زندہ رکھیں"۔ 2006ء میں اسرائیل کو بدترین شکست دینے والے حزب اللہ لبنان کے سربراہ حسن نصر اللہ سے جب کسی صحافی نے سوال کیا کہ آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ تو حسن نصر اللہ نے جواب دیا۔ دو ہی وجہ ہیں ایک اپنے دور میں کربلا و عاشورا کو زندہ کرکے ماتم و عزاداری حسین (ع) سے درس حریت لینا اور دوسرا تہران میں بیٹھے میرے رہبر ولی فقیہہ امر المسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے حکم و مشورے کی اطاعت کرنا۔ گویا لبنانی ہو کر بھی حسن نصر اللہ، حکیم الامت و کربلا شناس علامہ اقبال (رہ)  کی اس پیشن گوئی کی تفسیر کر رہے ہیں، اور ہم بحثیت پاکستانی اب تک  علامہ اقبال (رہ) کو نہ سمجھ سکے۔۔
دیکھا تھا افرنگ نے اک خواب جینیوا
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
تہران ہو گر عالم مشرق کا جینیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 318095
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش