1
0
Monday 11 Nov 2013 00:34

پاک و ہند کے عزاخانے اور تعزیوں کی روایت

پاک و ہند کے عزاخانے اور تعزیوں کی روایت
یہ بات پورے وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ دنیا میں پہلا عزا خانہ کہاں قائم ہوا تھا لیکن قیاس یہ کیا جاتا ہے کہ پہلا عزا خانہ عراق کے شہر بغداد میں معزالدولہ ویلمی بویہی نے ہی بنوایا تھا۔ تاریخ میں مراکش کے کچھ قدیم ترین عزا خانوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے لیکن ان تذکروں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کیا دنیا کا پہلا معلوم عزا خانہ کیا کہیں قائم ہوا تھا؟ جسٹس امیر علی تاریخ کی کتاب ‘‘ہسٹری آف سیراسنز599‘‘ کیمطابق پہلی امام بارگاہ مصر کا شہر قاہرہ آباد کرنے والے شاہ المعز نے تعمیر کروائی، مصر کے فاطمی بادشاہوں نے جب قاہرہ کے محلات تعمیر کروائے تو انکے ساتھ مجالس عزا کے لئے مخصوص عمارتیں بھی بنوائیں۔ برصغیر میں مجالس اور عزاخانوں کا وجود تیمور سے بہت پہلے پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ  بھارت میں مسلم حکومت کی ابتدا سے ہی کسی شیعہ حاکم نے کوئی عزا خانہ تعمیر کروایا ہو لیکن تغلق عہد میں یہ بات ثبوت کے ساتھ ملتی ہے۔ بھارت کے شہر لکھنؤ کے عزاخانوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں شہرہ آفاق عزا خانوں میں عزا خانہ آصفی، چھوٹے امام باڑے، شاہ نجف اور امام باڑہ سبطین آباد مبارک شامل ہیں۔ تیمور کے زمانے میں 803 ہجری کے محرم میں تعزیہ داری کی بنیاد رکھی گئی اور پہلے پہل مٹی کا تعزیہ بنایا گیا اور پھر لکڑی کے تعزیے بنے اور شاید اسی لئے ایک خاص قسم کے تعزیے کو تیموری تعزیہ کہا جانے لگا۔

عرب اور ایران کے بعد دنیا میں برصغیر ہی عزاداری کا سب سے بڑا مرکز رہا اور یہاں اس کا آغاز دکنی ریاستوں گولکنڈہ اور بیجاپور سے ہوا اور اسمیں شاہان اودھ کے علاوہ بنگال کے نوابوں کا بھی اہم کردار رہا جبکہ پنجاب میں عزاداری کے فروغ میں یہاں کے سادات کا بڑا عمل دخل ہے۔ سندھ کے علاقے میں یہ تاریخ نہایت قدیم ہے اور کہا جاتا ہے کہ مولا علی کے عہد خلافت میں سندھ کا ایک حکمران شنسب مسلمان ہو گیا تھا اور مولا علی علیہ السلام نے اسے اسکی سلطنت کے ساتھ بحال رکھا اور اب یہ شنسب پہلا شخص تھا جس کا پورا خاندان موالیان علی علیہ السلام میں سے تھا اور بنو امیہ کے عہد میں بھی یہاں محبت اہلبیت (ع) روشن تھی۔ اسی طرح سندھ کی عزاداری کی تاریخ میں فاتح سندھ حارث بن مرہ العہدی کے نام کے علاوہ ایک ایسی سندھی خاتون کا بھی نام آتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ علی ابن الحسین امام زین العابدین (ع) کے نکاح میں تھیں اور جنکے بطن سے زید شہید پیدا ہوئے تھے۔

اسی طرح عزاداری کے فروغ میں برصغیر کے درویشوں اور صوفیوں کا بھی بہت بڑا کردار ہے جو اپنے طور پر ایک الگ موضوع ہے۔ اسی طرح برصغیر میں مغلیہ عہد میں بھی عزاداری کو وسعت ملی۔ 1832ء میں لکھنؤ کے ایک رئیس حسن علی کی انگریز بیوی مسز میر حسن علی کی ایک کتاب شائع ہوئی جسمیں انہوں نے اسوقت کے محرم اور عزاداری کا ذکر کیا ہے۔ جسٹس مرتضیٰ حسین کا ایک مضمون 1996ء میں نیا دور لکھنؤ میں شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے تحقیق کے ساتھ یہ بتایا تھا کہ یہاں پر عزاداری ایودہیا کی اس متنازعہ مسجد سے شروع ہوئی تھی جو پچھلے چند برس میں خوب خبروں میں رہی ہے اور اسی کے چبوترے پر تعزیہ بنا کر رکھا جاتا تھا جو فیض آباد میں عزاداری کی ابتدا تھی جسکے بعد 1764ء میں نواب صفدر جنگ کی اہلیہ نے امام خانہ اور مسجد تعمیر کروائی۔ فیض آباد کا دوسرا تاریخی عزا خانہ نواب شجاع الدولہ کی اہلیہ کا ہے جسے امام باڑہ بہو بیگم کہتے ہیں۔ اسی طرح جواہر علی خان، نواب سرفراز الدولہ اور حسن رضا خان کے عزا خانے بھی تاریخی ہیں۔

عزاداری کا اہم ترین مرکز اودھ تھا جہاں حکمران اور عوام دونوں عزاداری کے فروغ کی کڑیاں ہیں اور خاص طور پر اودھ کے حکمرانوں کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اس ضمن میں واجد علی شاہ اور آصف الدولہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ لکھنؤ کے معروف عزا خانوں میں امام باڑہ آصفیہ، امامباڑہ حسین آباد، امامباڑہ شاہ نجف، امام باڑہ جنت نشین و سبطین آباد، امام باڑہ قاسم علی خان، امام باڑہ زین العابدین خان، امام باڑہ راجہ جھاؤ لال، امامباڑہ ملکہ زمانیہ، امامباڑہ ولایتی محل، امامباڑہ مغل صاحب، امامباڑہ آغا باقر خان، حسینہ تقی صاحب، امامباڑہ میر باقر سوداگر، امامباڑہ ناظم صاحب، امامباڑہ افضل محل، امامباڑہ ملکہ آفاق اور اسی طرح کوئی چالیس عزا خانے تاریخی ہیں جن میں سے متعدد آج بھی محرم کے ایام میں سوز، نوحے، مرثیے اور ماتم کی صداؤں سے گونجتے ہیں۔ جنوبی ہند میں دکن، حیدر آباد، گولکنڈہ، بیجاپور اور مشرقی ہند میں بنگال، کلکتہ، بہار، پٹنہ، عظیم آباد اور پھر گوالیار۔ محمود آباد، جاورہ اور پٹیالہ کی ریاستیں بھی عزاداری کا مرکز رہی ہیں۔ محمود آباد میں راجہ صاحب محمود آباد کے خاندان نے اسمیں قابل ذکر کردار ادا کیا ہے۔

تاریخ میں ہندؤں، آدی واسیوں، بھانڈوں اور طوائفوں کے بھی الگ الگ تعزیوں کے تذکرے ملتے ہیں۔ راولپنڈی، کراچی، بہاولپور اور حیدر آباد کے علاوہ کئی شہروں میں اہل سنت کے مخصوص تعزیے بھی نکالے جاتے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان، شمالی علاقہ جات کے علاوہ بھارت میں اودھ، بیجاپور، گولکنڈہ اور بہار کے علاوہ بنگال میں موم کے تعزیے، صندل کی لکڑی کے تعزیے، جو اور چاول کے تعزیے، مور کے پروں کے تعزیے، سنگ مر مر، کاغذ، ابرق، کپڑے اور پھلوں سے تیار کئے جانے والے تعزیے شامل ہیں۔ پاکستان کے شہر منڈی بہاوالدین میں تقسیم کے وقت بھارت کے شہر سماہنہ سے ہجرت کر کے آنے والے رضوی سادات کاغذ اور گتے کا تعزیہ بناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1948ء میں ہمارے اجداد نے عاشور کے مراسم سماہنہ میں ادا کیے اور اس کے بعد سفر کرتے ہوئے کم وزن کاغذی تعزیہ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے پاکستان کے مذکورہ علاقہ میں آ پہنچے، یہ روایت نو سو سال سے جاری ہے۔

دنیا بھر میں کچھ علاقے ایسے ہیں جنمیں محرم تاریخی گردانا جانا جاتا ہے جن میں لکھنؤ کے علاوہ بغداد، کربلا، نجف، کاظمین، تہران، مشہد، قم، کویت، بحرین کے کچھ شہر، ترکی کے شہر، لبنان، یمن اور مغربی ممالک میں امریکہ کے شہر شکاگو، ہیوسٹن، لاس اینجلس، برطانیہ میں لندن، برمنگھم، بریڈ فورڈ، مانچسٹر، کینیڈا میں ٹورنٹو اور یورپ میں ہیگ، برسلز اور پیرس جیسے شہر شامل ہیں۔ ایران میں دولت صفویہ کے عہد سے یعنی سولہویں صدی کے شروع سے تعزیہ داری کا رواج ہوا اور پھر رفتہ رفتہ برصغیر پاکستان و ہندوستان میں بھی تعزیہ داری ہونے لگی۔

تعزیہ داری کے بارے میں انگریزی زبان کی تاریخ میں دو انگریز خواتین مسز میر حسن اور فینی پارکس کے علاوہ شاہ نصیرالدین کے مصاحب ولیم نائٹن کے نام بہت مستند شمار کئے جاتے ہیں۔ لکھنؤ کے آصفی امام باڑے کا ‘‘لاڈو ساقن کا تعزیہ، ریاست جاورہ اور حسین ٹیکری کا تعزیہ، روہڑی کا چار سو سال پرانا تعزیہ، باون ڈنڈوں کا تعزیہ، چالیس منبروں کی زیارت اور پھر پاکستان میں ملتان شہر کے تعزیے تاریخی اعتبار سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ملتان کا شمار پاکستان کے اُن شہروں میں ہوتا ہے جہاں یومِ عاشور کے موقع پر ایک بڑی تعداد میں ماتمی جلوس نِکالے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں سے ذوالجناح، علم اور تعزیے کے چارسو سے زائد ماتمی جلوس نکلتے ہیں لیکن اِن میں بڑی تعداد تعزیے کے جلوسوں کی ہوتی ہے۔ تاہم تین سو سے اوُپر نکالے جانے والے تعزیوں میں نمایاں مقام اندرونِ شہر کے پاک گیٹ سے برآمد ہونے والے قدیمی اُستاد اور شاگرد کے تعزیوں کو ہی حاصل ہے۔

اِن میں سے اُستاد کا تعزیہ ایک سو اسی سال سے زیادہ پُرانا بتایا جاتا ہے۔ شاگرد کا تعزیہ بھی اِتنا ہی پرانا تھا لیکن یہ ایک دفعہ گِر کر اور دوسری دفعہ جل کر مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ روایت کے مطابق لکڑی پر کندہ کاری اور چوب کاری کے ماہر اُستاد پیر بخش نے حضرت امام حسین (ع) سے عقیدت کے اظہار کے لیے اٹھارہ سو پچیس میں یہ شاندار تعزیہ تیار کیا تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اُستاد کو اِس کی بناوٹ اور سجاوٹ میں پانچ سال کا عرصہ لگا تھا جبکہ بعض لوگ یہ مُدت سولہ سال بتاتے ہیں۔ شاگرد کا تعزیہ تیار کرنے والے ہنرمند کا نام اِلہی بخش تھا اور وہ اُستاد پیر بخش کے شاگردوں کی اُس ٹیم کا حصہ تھے جِس نے اُستاد کا تعزیہ تیار کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اِلہی بخش دِن میں اُستاد کے ساتھ کام کرتے اور رات میں ایک خفیہ جگہ پر ویسا ہی تعزیہ بناتے تھے۔ اُستاد اور شاگرد کے تعزیے کی یہ  روایت  کم و بیش دو صدیاں گذرنے کے بعد بھی قائم ہے۔ ملتان میں آج بھی تعزیوں کے مرکزی جلوس کی قیادت اُستاد کا لافانی تعزیہ کرتا ہے جِس کے پیچھے شاگرد کا تعزیہ اور پھر دوسرے تعزیے ہوتے ہیں۔

اُستاد کا تعزیہ پچیس فُٹ بلند اور آٹھ فُٹ چوڑا ہے اور اِس تعزیے کی چھ منزلیں ہیں اور ہر منزل کئی چھوٹے بڑے ساگوان کی لکڑی کے ایسے ٹکڑوں سے بنی ہے جو مِنی ایچر محرابوں، جھروکوں، گنبدوں اور میناروں پر مشتمل ہوتے ہیں اور اسے بنانے میں کوئی میخ استعمال نہیں ہوئی۔ شاگرد کے تعزیے کی چھ منزلیں ہیں اوراونچائی بھی پچیس فُٹ ہے جبکہ چوڑائی ساڑھے آٹھ فُٹ ہے۔ لیکن شاگرد کا موجودہ تعزیہ مشین کی مدد سے تیار کردہ ہے جو انُیس سو چوالیس میں اُس وقت بنایا گیا جب شاگرد کے تعزّیے کو پراسرار طور پر آگ لگی اور وہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا تھا۔ ملتان میں عزاداری کی تاریخ 512 ہجری تک جاتی ہے جب غزنوی عہد میں سید جمال بہرام شاہ ملتان آئے جو شاہ گردیز کے نام سے موسوم ہوئے اور آج بھی شاہ گردیز کی عزاداری تاریخی اور منفرد ہے۔

راولپنڈی میں عزاداری کے ڈانڈے کوئی پانچ سو سال قبل سید کسراں نامی گاؤں سے ملتے ہیں جس کے بعد تیلی محلے، شاہ چن چراغ، ڈھوک رتہ امرال اور متعدد دیگر عزاخانوں کے بعد اسلام آباد میں کراچی سے دارالحکومت منتقل ہونے کے ساتھ ہی عزاداری کی بنیاد پڑ گئی اور آج محرم میں پچاس سے زائد مقامات پر مجالس ہوتی اور جلوس نکلتے ہیں۔ یہاں کے معروف عزا خانوں میں کرنل مقبول، بوہڑ بازار، مدرسہ فاطمیہ، مبارک بانو، لڈن شاہ، زین العابدین، سید محمد آغا رضوی، بیت الکاظم، ساگری، خیام اہلبیت، قصر سجاد، قصر معصومہ قم، مریڑ چوک، جعفریہ مسلم ٹاؤن، علی مسجد سیٹلائٹ ٹاؤن، قصر ابوطالب، قصر علمدار، موہن پورہ، بارگاہ زینب، ناصر العزا، چٹی ہٹیاں، ابو محمد اور قصرالحسین کے علاوہ متعدد دیگر عزا خانے شامل ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے چاروں صوبوں کے متعدد چھوٹے بڑے شہروں میں مجموعی طور پر ہزاروں کی تعداد میں نئے پرانے عزا خانے ہیں جہاں کربلا والوں کی یاد منائی جاتی ہے لیکن پاکستان میں عزاداری کے لکھنؤ ملتان اور کراچی کے ساتھ لاہور کی عزاداری تاریخی اور قدیمی ہے۔ تقسیم سے قبل تک عزاداری کا یہ اثاثہ مشترک تھا لیکن آزادی کےبعد عزاداری کے بڑے مراکز میں کراچی، حیدر آباد، لاہور، ملتان، راولپنڈی، جھنگ، فیصل آباد، بہاولپور، میانوالی، بھکر، سرگودھا اور سرحد میں پشاور، ہنگو، مردان، ڈیرہ اسماعیل خان، پارہ چنار اور شمالی علاقہ جات میں گلگت، سکردو اور لداخ کے علاوہ متعدد دیگر چھوٹے بڑے شہر شامل ہیں۔ 1954ء میں ماکلی کے قدیم قبرستان سے 133ہجری کے کچھ سکے کھدائی میں ملے تھے جن پر خانوادہ رسالت کے امام جعفر صادق علیہ السلام کا نام کندہ تھا۔
خبر کا کوڈ : 318181
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Sajjad Anwar
Pakistan
ماشاءاللہ۔ بہت معلوماتی کاوش ھے۔
ہماری پیشکش