0
Sunday 10 Nov 2013 00:26

پیغام کربلا (1)

پیغام کربلا (1)
تحریر: محمد علی نقوی

محرم ایک بار پھر اپنے پیغام  ہدایت کے ساتھ جلوہ گر ہے، محرم  یعنی پیغام کربلا۔ پیغام کربلا یعنی پیغام امام حسین اور امام حسین کا پیغام دین اسلام کا آفاقی پیغام ہے۔ امام حسین کی تحریک اسلام کے احیاء کی تحریک ہے۔ آپ کی تحریک کا واقعاتی جائزہ لینے کے لئے اس تحریک کے دوران آپ کے فرامین، مکتوبات اور اقدامات کا مطالعہ ضروری ہے، ان فرامین کے سننے اور پڑھنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امام عالی مقام کی تحریک امت کے سیاسی و اجتماعی نظام کی اصلاح کے لئے تھی۔ امام عالی مقام، بنی امیہ کے اقتدار کے نتیجے میں شریعت کی پامالی، حدود الٰہی کے تعطل اور عوام کے ساتھ ظلم و ناانصافی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ آپ علیہ السلام دیکھ رہے تھے کہ امت کا اقتدار یزید جیسے فاسق و فاجر شخص کے حوالے کردیا گیا ہے، امت کے امور ایک ایسے شخص کے سپرد کردیئے گئے ہیں جو کسی طرح اس عہدے کا اہل نہیں اور بیعت کے ذریعے اس کے اقتدار کی تصدیق دراصل اسلام کی موت کے پروانے پر دستخط کے مترادف ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس صورتحال پر خاموشی بھی ناقابل معافی جرم ہے۔ لہذا امام عالی مقام نے یزید کے خلاف تحریک شروع کی اور اپنی حکمت عملی سے اسلام کی نابودی کے خطرے سے نجات دلائی۔ آپ نے اس تحریک کے آغاز سے لیکر شہادت کے درجے پر فائز ہونے تک ہدایت اور اپنی تحریک کے مقاصد کو بیان کیا ہے۔ آئیے ان بیانات عالیہ کی روشنی میں ہم اپنی ذمہ داری کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آپ نے یزید کے بیعت کے مطالبے پر ایک لافانی جملہ ارشاد فرمایا، مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا یعنی رہتی دنیا تک جو بھی حسینی ہو گا کسی یزید کی بیعت نہیں کرے گا گویا ایک معیار قائم کردیا۔ آپ جب کربلا کے راستے میں تھے تو حر کے لشکر سے آمنا سامنا ہوا وہاں آپ نے ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔ لوگوں میں علم و آگہی پیدا کرنا اور غافل انسانوں پر حجت تمام کرنا، امام حسین (ع) کا وہ شیوہ تھا جس سے آپ نے ہر جگہ اور ہر مناسب موقع پر استفادہ کیا۔ چنانچہ امام (ع) جب حر کے لشکر میں شامل ہزاروں سپاہیوں کے محاصرے میں تھے اور جب خطرے کا نزدیک سے مشاہدہ کیا تو آپ نے ان کو موعظہ اور نصیحت کرنے کے لئے مناسب موقع جانا ۔ امام حسین (ع) کے فصیح و بلیغ خطبات، شکوک و شبہات رفع کرنے کا ایک موقع ہے اور اگر دل اسے قبول کرنے پر آمادہ ہے تو اس سے ضرور اثر قبول کرے گا۔ حضرت امام حسین (ع) اپنے خطبے کا آغاز، اپنے جد بزرگوار حضرت رسول خدا (ص) کی ایک حدیث سے فرماتے ہیں ۔

اے لوگو پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا ہے، ہر وہ مسلمان جو ایسے منہ زور سلطان یا بادشاہ کے بالمقابل قرار پا جائے جو حرام خدا کو حلال کرے اور عہد الٰہی کو توڑے اور قانون و سنت پیغمبر کی مخالفت کرے اور بندگان خدا کے درمیان معصیت کو رواج دے ، لیکن اس کے رویئے اور طرز عمل کا مقابلہ نہ کرے تو خداوند عالم پر واجب ہےکہ اسے بھی اس طاغوتی بادشاہ کے ساتھ جہنم کے شعلوں میں دھکیل دے۔ اے لوگو، آگاہ ہو جاؤ کہ بنی امیہ نے اطاعت پروردگار چھوڑ کر اپنے اوپر شیطان کی پیروی واجب کر لی ہے، انہوں نے فساد اور تباہی کو رواج دیا ہے اور حدود و قوانین الہی کو دگرگوں کیا ہے اور میں ان بدخواہوں اور دین کو نابود کرنے والوں کے مقابلے میں مسلمان معاشرے کی قیادت کا زیادہ حق رکھتا ہوں اس کے علاوہ تمہارے جو خطوط ہمیں موصول ہوئے وہ اس بات کے آئینہ دار ہیں کہ تم نے میری بیعت کی ہے اور مجھ سے عہد و پیمان کیا ہے کہ مجھے دشمن کے مقابلے میں تنھا نہیں چھوڑو گے۔ اب اگر تم اپنے اس عہد پر قائم اور وفادار ہو تو تم رستگار وک امیاب ہو۔ میں حسین بن علی (ع) تمہارے رسول کی بیٹی فاطمہ زہرا (س) کا دلبند ہوں، میرا وجود مسلمانوں کے وجود سے جڑا ہوا ہے اور تمہارے بچے اور اہل خانہ، ہمارے بچوں اور گھر کے افراد کی مانند ہیں۔ میں تمہارا ہادی و پیشوا ہوں لیکن اگر تم ایسا نہ کرو اور اپنا عہد و پیمان توڑ دو اور اپنی بیعت پر قائم نہ رہو جیسا کہ تم ماضی میں بھی کرچکے ہو اور اس سے قبل تم نے ہمارے بابا، بھائی اور چچازاد بھائی مسلم کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے ۔ ۔۔۔ تم وہ لوگ ہو جو نصیب کے مارے ہو اور خود کو تباہ کرلیا ہے اور تم میں سے جو کوئی بھی عہد شکنی کرے اس نے خود اپنا ہی نقصان کیا ہے اور امید ہے کہ خداوند عالم مجھے تم لوگوں سے بےنیاز کر دے گا۔

امام حسین بن علی (ع) کا یہی وہ خطبہ تھا، جسے امام (ع) نے، حر اور اسکے لشکر کے سپاہیوں کے سامنے کہ جس نے امام کا راستہ روک دیا تھا، اتمام حجت کے لئے اور ان کو حق کی جانب بلانے کے لئے ارشاد فرمایا تھا۔ اس خطبے کی چند خصوصیات قابل ذکر ہيں۔ اموی نظام حکومت کی خصوصیات بیان کرنے کے لئے پیغمبر خدا (ص) کے اقوال کا ذکر، امام کی عظمت و منزلت کا بیان، اپنے قیام اور تحریک کے علل و اسباب کا ذکر اور معاشرے کے افراد کے ساتھ امام کے رابطے کی نوعیت اور اس تحریک کے روشن افق کو بیان کرنا، اس خطبے میں پیش کئے جانے والے موضوعات ہیں۔ امام حسین (ع) کا قافلہ، ماہ محرم کی دوسری تاریخ کو کربلا میں وارد ہوتا ہے۔ اس سرزمین پر امام (ع) اور ان کے خاندان اور اصحاب باوفا کے لئے حالات مزید سخت و دشوار ہو جاتے ہيں دشمن امام (‏ع) اور ان کے بچوں پر پانی بند کر دیتے ہیں تاکہ شاید امام اور ان کے ہمراہ اصحاب، اپنی استقامت کھو بیٹھیں اور ان کے سامنے تسلیم ہو جائیں لیکن ایسے حالات میں کربلا والوں نے ایثار و فداکاری کا ایسا اعلٰی ترین نمونہ پیش کیا جو رہتی دنیا تک کے لئے نمونۂ عمل بن گيا ۔

امام (‏ع) اچھی طرح جانتےتھے کہ میدان جنگ میں بڑے اور عظیم حادثوں کا متحمل ہونے کے لئے عظیم قوت برداشت کی ضرورت ہے ۔ اسی بناء پر ہر مقام پر اور ہر وقت اپنے ساتھیوں کو ایمان اور یقین کی بنیادیں مستحکم ہونے کی تلقین فرماتے تھے اور شب عاشور ، اصحاب و انصار نے خود کو امام پر قربان کرنے کے لئے آمادہ کرلیا تھا۔ شب عاشور ایسے اضطراب کی شب تھی جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس شب امام حسین (‏ع) نے اپنے اصحاب کو بلایا اور واضح طور پر ان سے کہا کہ ہماری شہادت کا وقت نزدیک ہے اور میں تم پر سے اپنی بیعت اٹھائے لیتا ہوں لہذٰا تم رات کی تاریکی سے استفادہ کرو اور تم میں سے جو بھی کل عاشور کے دن جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دے سکتا اس کے لئے اپنے گھر اور وطن لوٹ جانے کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ یہ تجویز درحقیقت امام حسین (ع) کی جانب سے آخری آزمائش تھی اور اس آزمائش کا نتیجہ، امام کے ساتھیوں میں جنگ میں شرکت کے لئے جوش و جذبے میں شدت اور حدت کا سبب بنا اور سب نے امام (ع) سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ خون کے آخری قطرے تک استقامت کریں گے اور آپ کے ساتھ رہیں گے، اور اس طرح سے اس آزمائش میں سرافراز و کامیاب ہوں گے۔

عاشور کی صبح آئی تو امام (ع) نے نماز صبح کے بعد اپنے اصحاب کے سامنے عظیم خطبہ دیا ایسا خطبہ جو ان کی استقامت اور صبر کا آئینہ دار تھا امام (ع) نے فرمایا اے بزرگ زادوں، صابر اور پرعزم بنو ۔ موت انسان کے لئے ایک پل اور گذرگاہ سے زیادہ کچھ نہيں ہے کہ جو رنج و مصیبت سے انسان کو رہائی دلا کر جنت کی جاوداں اور دائمی نعمتوں کی جانب لے جاتی ہے۔ تم ميں سے کون یہ نہیں پسند کرے گا کہ جیل سے رہائی پاکر محل اور قصر میں پہنچ جائے جب کہ یہی موت تمہارے دشمن کے لئے قصر اور محل سے جہنم ميں جانے کا باعث بنے گی۔ اس عقیدے کی جڑ خدا پر اعتماد اور یقین ہے اور یہ چیز صبر اور استقامت کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ پھر امام (ع) نے اپنے لشکر کو ترتیب دیا اور پھر تیکھی نظروں سے دشمن کے بھاری لشکر کو دیکھا اور اپنا سر خدا سے راز و نیاز کے لئے اٹھایا اور فرمایا " خدایا مصائب و آلام اور سختیوں میں میرا ملجا اور پناہگاہ تو ہی ہے میں تجھ پر ہی اعتماد کرتا ہوں اور برے اور بدترین و سخت ترین حالات میں میری امید کا مرکز تو ہی ہے۔ ان سخت و دشوار حالات میں صرف تجھ ہی سے شکوہ کرسکتا ہوں تو ہی میری مدد کر اور میرے غم کو زائل کردے اور آرام و سکون عطا کر۔ صبح عاشور کی جانے والی امام (ع) کی اس دعا میں، تمام تر صبر و استقامت کا محور خدا پر یقین و اعتماد ہے بیشک خدا پر یقین اور اعتماد، سختیوں کو آسان اور مصائب و آلام میں صبر و تحمل کی قوت عطا کرتا ہے۔

حضرت امام حسین بن علی (ع) یہ دیکھ رہے تھے کہ دشمن پوری قوت سے جنگ کے لئے آمادہ ہے یہاں تک کہ بچوں تک پانی پہنچنے پر بھی پابندی لگا رہا ہے اور اس بات کا منتظر ہے کہ ایک ادنٰی سا اشارہ ملے تو حملے کا آ‏‏غاز کر دے۔ ایسے حالات میں امام (ع) نہ صرف جنگ کا آ‏غاز کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ چاہتے تھے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے دشمن کی سپاہ کو وعظ و نصیحت کریں تاکہ ایک طرف وہ حق و فضیلت کی راہ کو باطل سے تشخیص دے سکيں تو دوسری طرف کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے درمیان کوئی نادانستہ طور پر امام کا خون بہانے میں شریک ہو جائے اور حقیقت سے آگاہی اور توجہ کے بغیر تباہی اور بدبختی کا شکار ہو جائے۔ اسی بناء پر امام حسین (ع) اپنے لشکر کو منظم کرنے کے بعد گھوڑے پر سوار ہوئے اور خیموں سے کچھ فاصلے پر چلے گئے اور انتہائی واضح الفاظ میں عمر سعد کے لشکر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا،اے لوگو، میری باتیں سنو اور جنگ و خون ریزی میں عجلت سے کام نہ لو تاکہ میں اپنی ذمہ داری کو یعنی تم کو وعظ و نصیحت کرسکوں اور اپنے کربلا آنے کا تمہیں سبب بتا دوں اگر تم نے میری بات قبول نہيں کی اور میرے ساتھ انصاف کا راستہ اختیار نہیں کیا تو پھر تم سب ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنی باطل فکر اور فیصلے پر عمل کرو اور پھر مجھے کوئي مہلت نہ دو لیکن بہرحال تم پر حق مخفی نہ رہ جائے ۔ میرا حامی و محافظ وہی خدا ہے کہ جس نے قرآن کو نازل کیا اور وہی بہترین مددگار ہے۔

یہ ہے ایک امام اور خدا کے نمائندے کی محبت و مہربانی کہ جو اپنے خونخوار دشمن کے مقابلے میں، حساس ترین حالات میں بھی انہیں دعوت حق دینے سے دستبردار نہیں ہوئے۔ امام (ع) نے روز عاشورا باوجودیکہ موقع نہیں تھا تاہم لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اور اپنے راہنما ارشادات سے لوگوں کو حق سے آگاہ فرماتے رہے اور یہ کام آپ پیہم انجام دیتے رہے تاکہ شاید دشمن راہ راست پر آ جائیں۔ امام (ع) اپنے خطبے میں لشکر عمر سعدکو یہ بتاتے ہیں کہ کوفے اور عمر سعد کے لشکر کے افراد یہ نہ سوچ لیں کہ میں ان خطبوں اور وعظ و نصیحت کے ذریعے کسی ساز باز یا سمجھوتے کی بات کر رہا ہوں، نہیں، میرا ہدف و مقصد ان خطبوں اور بیانات سے یہ ہےکہ میں تم پر حجت تمام کر دوں۔


خبر کا کوڈ : 319210
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش