0
Sunday 10 Nov 2013 14:50

عزاداری امام حسین علیہ السلام پر ہونے والے اعتراضات اور ان کا جواب (پہلا حصہ)

عزاداری امام حسین علیہ السلام پر ہونے والے اعتراضات اور ان کا جواب (پہلا حصہ)
اسلام ٹائمز- سید الشہداء امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور عزاداری کی فضیلت کے بارے میں بہت زیادہ احادیث اور روایات موجود ہیں جن میں ائمہ معصومین علیھم السلام کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری پر خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر امام حسین علیہ السلام پر گریہ و عزاداری کرنے پر اس قدر تاکید کیوں کی گئی ہے؟ عزاداری کا فلسفہ کیا ہے؟ اس عزاداری اور گریہ کے کیا آثار اور برکات ہیں؟ اس تحریر میں دو ممتاز شیعہ عالم دین آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی اور آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی کی چند کتابوں کی مدد سے ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ 
 
1.    واقعہ کربلا کی یاد منانے اور اسے زندہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟
ہر معاشرے کے گذشتہ واقعات اور حادثات اس معاشرے کے مستقبل اور اس کی تقدیر پر عظیم اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں۔ ایسے واقعات کی یاددہانی  کروانا درحقیقت ایک طرح سے ان کو زندہ رکھنے اور ان پر نظرثانی کرنے کے مترادف ہوتا ہے تاکہ اس معاشرے میں موجود افراد ان واقعات کی برکات سے فیض یاب ہو سکیں۔ اگر ماضی میں انجام پانے والا یہ واقعہ ایک مفید واقعہ تھا جس نے اپنے زمانے میں انتہائی بابرکت اور مفید اثرات ڈالے تھے تو ان کی یاد منانے اور انہیں انسانوں کے ذہن میں زندہ کرنے سے ان بابرکت اثرات سے فیض یاب ہوا جا سکتا ہے۔ 
 
اس کے علاوہ ہر انسانی معاشرے میں ماضی کے واقعات کی یاد کو کسی نہ کسی طرح زندہ رکھنے اور انہیں اہمیت دیتے ہوئے ان کیلئے ایک خاص احترام کا قائل ہونے کا رواج موجود ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ماضی کے یہ واقعات ایسی اہم شخصیات سے متعلق ہوں جنہوں نے اپنے معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہو جیسا کہ معروف سائنسدانوں اور موجد حضرات کی یاد کو زندہ رکھا جاتا ہے، یا ماضی کے یہ واقعات ایسے افراد سے متعلق ہوں جنہوں نے سیاسی اور معاشرتی جدوجہد کے ذریعے اپنی قوم کی آزادی اور خودمختاری میں اہم کردار ادا کیا ہو جیسا کہ مختلف ممالک میں قومی ہیروز کی یاد کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ 
 
دنیا کے تمام عقلمند حضرات ایسے عظیم افراد اور شخصیات کی یاد کو زندہ رکھنے کیلئے مخصوص پروگرامز کے انعقاد کو جائز اور مفید قرار دیتے ہیں۔ یہ اقدامات اس مقدس فطری تقاضے کے عین مطابق ہیں جنہیں خداوند متعال نے انسانی سرشت میں قرار دیا ہے اور اسے "احسان مندی کا احساس" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہر انسان فطری طور پر اپنے محسنوں کی یاد کو زندہ رکھنے کا نہ صرف خواہش مند ہوتا ہے بلکہ اسے اپنا عقلی و شرعی وظیفہ بھی جانتا ہے۔ لہذا یہ تمام انسانوں کا فطری تقاضہ ہے کہ ایسی شخصیات جنہوں نے ان کی خدمت کی ہے کا شکریہ ادا کریں، ان کی یاد کو تازہ رکھیں اور انہیں احترام کی نظر سے دیکھیں۔ اس کے علاوہ اگر ماضی کا وہ واقعہ انسانی معاشرے کی سعادت اور فلاح و بہبود میں انتہائی موثر واقع ہوا ہو تو اس کی یاد کو زندہ رکھنے کا ایک اور جواز سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ ایسے واقعے کی یاددہانی انسانی معاشرے کی سعادت اور فلاح و بہبود کیلئے مزید موثر ثابت ہو سکتی ہے اور اس کی یاد کو زندہ رکھنا گویا اس واقعے کے دوبارہ انجام پانے کے مترادف ہو سکتا ہے۔ 
 
چونکہ ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ عاشورا کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ ہے اور مسلمانوں کی سعادت اور ان کیلئے ہدایت کے راستے کی نشاندہی کرنے میں یہ واقعہ انتہائی اہم اور بنیادی کردار کا حامل ہے لہذا ہماری نظر میں یہ واقعہ انتہائی باارزش اور گرانبہا ہے۔ چنانچہ اس واقعے کی یاد کو تازہ کرنا، اسے اہمیت اور احترام دینا اور اس کے چھپے ہوئے پہلووں پر روشنی ڈالنا اس بات کا باعث بنتا ہے کہ آج کا انسانی معاشرہ بھی اس بابرکت واقعے کی برکتوں اور نورانیت سے فیض یاب ہو سکے۔ وہ نکتہ جس پر تمام دوستوں اور دشمنوں کا اتفاق ہے یہ ہے کہ کربلا کا واقعہ اگر انسانی تاریخ کا یگانہ اور بے مثال واقعہ نہ بھی ہو تو کم از کم ایک کم نظیر واقعہ ضرور ہے۔ 
 
البتہ ائمہ معصومین علیھم السلام کی جانب سے پہنچنے والی روایات کی روشنی میں ہمارے نزدیک کربلا کے واقعہ کی کوئی مثال نہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ عاشورا جیسا واقعہ نہ ماضی میں رونما ہوا ہے اور نہ ہی مستقبل میں رونما ہو سکتا ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے مدمقابل افراد اس حقیقت کو صحیح طور پر درک کرنے کے قابل نہیں اور ہم ان کے ساتھ زیادہ بحث نہیں کرنا چاہتے لہذا ہم کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ کے تمام ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پوری تاریخ میں کربلا جیسا واقعہ اگر بے مثال نہ ہو تو کم از کم نادر اور کم نظیر ضرور ہے۔ کربلا کا واقعہ ایک ایسا واقعہ ہے جو ہر لحاظ سے کم نظیر ہے۔ جس طرح سے یہ واقعہ رونما ہوا، جتنے عظیم اور ناقابل تصور مصائب اور مشکلات کا سامنا اہلبیت اطہار علیھم السلام کو کرنا پڑا اور اسی طرح جس طرح سے یہ واقعہ تاریخ میں زندہ اور جاودان رہا اور حتی اہلبیت اطہار علیھم السلام کی دشمنی رکھنے والے اموی حکمرانوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود بھی سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی یاد اور آپ کا روضہ مبارک لوگوں کے دلوں اور نظروں سے محو نہ سکے، ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ کربلا جیسے واقعے کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ 
 
دنیا کے مختلف ممالک میں ہر سال ایام محرم میں کربلا کے واقعے اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی عزاداری کا سلسلہ جو صدیوں سے جاری و ساری ہے، بذات خود ایک معجزے سے کم نہیں۔ دنیا میں انسانی تاریخ کے دوران کتنے ہی ایسے بے شمار واقعات انجام پائے ہیں جن میں بیگناہ معصوم انسانوں کا خون بہایا گیا ہے لیکن کون سا ایسا واقعہ ہے جس کی یاد ہر سال دنیا بھر میں واقعہ کربلا جیسی منائی جاتی ہو؟ یہ امر بذات خود غافل انسانوں کو جگانے اور ان کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ واقعہ کربلا ایک ایسا واقعہ ہے جس کیلئے دنیا بھر میں ہر سال کھربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور کوئی کسی کو مجبور بھی نہیں کرتا بلکہ سب اپنی دلی خوشی سے یہ اخراجات انجام دیتے ہیں، غم حسین علیہ السلام میں ہر سال کس قدر آنسو بہائے جاتے ہیں، کتنے سینے چاک ہوتے ہیں؟ آیا دنیا میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟
 
یہ عزاداری اور ماتم کسی ایک ملک کے ساتھ مخصوص بھی نہیں۔ دنیا کے ہر کونے میں محرم اور صفر کے مہینوں خاص طور پر 10 محرم عاشورا کے دن صف عزا بچھ جاتی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے شہر نیویارک میں ہر سال عاشورا کے دن پاکستانی، ایرانی، عراقی، لبنانی اور بعض دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے شیعیان حیدر کرار کی جانب سے ماتمی جلوس نکالا جاتا ہے اور دنیا کے تمام انسانوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کر لیتا ہے۔ اس شہر کی سب سے بڑی سڑکیں عزاداروں سے بھر جاتی ہیں۔ حتی سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کیلئے عزاداری کا سلسلہ صرف شیعہ مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا کے ایسے ممالک میں بھی جہاں سنی مسلمان بھائیوں کی اکثریت ہے غم حسین علیہ السلام انتہائی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور بڑی تعداد میں سنی بھائی بھی اس میں شریک ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو خود سنی مسلمان بھائی اپنے طور پر امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے پروگرامز منعقد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں اہلسنت برادران بڑی تعداد میں شیعہ افراد کے ساتھ مل کر مجالس حسین علیہ السلام کا بندوبست کرتے ہیں اور ان مجالس میں شرکت کو اجر رسالت کی ادائیگی کے طور پر اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں۔ 
 
بلکہ بعض ایسے ممالک بھی ہیں جہاں غیرمسلمان حضرات بھی انتہائی عقیدت اور احترام سے مجالس غم حسین علیہ السلام میں شرکت کرتے ہیں اور اسے اپنے لئے برکت کا باعث قرار دیتے ہیں۔ انڈیا میں ہندووں اور سکھوں کی جانب سے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی مجالس میں نذورات کا سلسلہ معروف ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو دنیا بھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ لہذا دنیا میں واقعہ کربلا کے علاوہ کوئی اور ایسا واقعہ نہیں ملے گا جس کا اثر عاشورا جیسا ہو اور اس نے مختلف قوموں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے سے متاثر کیا ہے۔ یہ سب باتیں ایک طرف اور شیعیان حیدر کرار کی جانب سے کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی یاد اور عزاداری کو زندہ رکھنے کیلئے دی جانے والی قربانیاں ایک طرف۔ تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں کہ شیعیان اہلبیت اطہار علیھم السلام نے اس راستے میں کیا کچھ قربان نہیں کیا؟ دنیا کے مختلف ممالک میں اب تک اہلبیت علیھم السلام سے اظہار عقیدت اور کربلا کی یاد کو زندہ رکھنے کے جرم میں شیعہ بچوں، خواتین، جوانوں اور بوڑھوں کو بم دھماکوں سے اڑایا جاتا ہے، ان کے گلے کاٹے جاتے ہیں اور ان کے عزیزوں کو چن چن کر قتل کیا جاتا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود ہر سال عاشورا 10 محرام اور چہلم 10 صفر کے دن لاکھوں بلکہ کروڑوں عقیدت مند افراد پیدل چل کر امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک پر پہنچتے ہیں اور ان کا غم مناتے ہیں۔ 
 
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام کی زیارت ہمیشہ آج کی طرح آسانی اور سہولت سے انجام نہیں پاتی تھی۔ البتہ آج بھی زیارت کربلا اتنی آسان نہیں۔ لیکن ایسا زمانہ بھی گزرا ہے جب اگر کوئی شخص سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کیلئے جانا چاہتا تھا تو اسے اپنی جان پر کھیلنا پڑتا تھا۔ کیونکہ بنی عباس کے دور حکومت خاص طور پر متوکل کے زمانے میں کربلا کی زیارت پر سختی سے پابندی عائد کر دی گئی تھی اور جو شخص بھی روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام کے نزدیک جاتا اسے قتل کر دیا جاتا۔ حتی نوبت یہاں تک پہنچی کہ متوکل عباسی نے کئی بار قبر مبارک امام حسین علیہ السلام کو مسمار کروا کر وہاں ہل چلوا دیئے۔ وہ چاہتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کا نشان تک مٹا دے۔ لیکن شیعیان حیدر کرار نے روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام کی زیارت کیلئے اپنے ہاتھ تک کٹوا دیئے، اپنے پاوں کٹوائے حتی اپنی جان قربان کی۔ صرف اس لئے کہ نزدیک جا کر امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں سلام عرض کر سکیں۔ یقینا ان واقعات کی مثال انسانی تاریخ میں ملنا ناممکن ہے۔ اگر کہا بھی جائے کہ دوسرے پہلووں میں واقعہ کربلا اور دوسرے واقعات میں کچھ حد تک شباہت پائی جاتی ہے تو اس پہلو میں کوئی واقعہ کربلا کے واقعے سے نہیں ملتا۔ 
 
2. واقعہ کربلا کی یاد زندہ رکھنے کیلئے کیوں صرف گفتگو اور بحث پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا؟
یہ بات صحیح ہے کہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور واقعہ کربلا کے بارے میں بحث و گفتگو، گروپ ڈسکشنز، کانفرنسز، تقریروں کا انعقاد، مقالہ نویسی وغیرہ جیسی ثقافتی، علمی اور تحقیقاتی سرگرمیاں بہت مفید اور ضروری ہیں اور یہ کام ہمارے معاشرے میں انجام بھی پا رہے ہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام کی شخصیت اور عزاداری کی برکت سے ان کے بارے میں بڑے پیمانے پر تحقیقاتی کام انجام پا چکے ہیں، لیکن کیا واقعہ کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی شخصیت سے پوری طرح فیض یاب اور مستفیض ہونے کیلئے یہ اقدامات کافی ہیں؟ یا یہ کہ ان سرگرمیوں کے علاوہ گریہ و عزاداری بھی اپنی جگہ ضروری ہیں؟
 
اس سوال کا جواب دینے کیلئے ضروری ہے کہ ہم انسان کے نفسیاتی پہلو کا مختصر جائزہ لیں اور دیکھیں کہ وہ عوامل جو ہمارے آگاہانہ عمل پر موثر ہیں صرف فکری اور عقلی حد تک ہی ہیں یا یہ کہ انسان کے معاشرتی رویوں میں اس کے علاوہ بعض دوسرے عوامل بھی موثر ہیں؟ جب ہم اپنے رویوں اور عمل پر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہمارا عمل کم از کم دو قسم کے عوامل کے زیر اثر ہے۔ ایک قسم کے عوامل کا تعلق فکر، سوچ اور عقل سے ہے جبکہ دوسری قسم کے عوامل ہمارے محرکات، احساسات، رجحانات، تمایلات اور عواطف سے مربوط ہیں۔ کوئی بھی عمل انجام دینے کیلئے صرف اس کے بارے میں علم پیدا کر لینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ جب تک انسان کے اندر ایک طاقتور محرک یا انگیزہ ایجاد نہیں ہوتا وہ اس عمل کو انجام دینے کا حتمی ارادہ نہیں کرتا۔ لہذا انسان کے رویے صرف اس کے فکری اور عقلانی پہلو سے ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ اس کے احساسات اور رجحانات بھی ان رویوں کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ آئیے انسان کے اس احساساتی، عاطفی، نفسیاتی یا عقیدتی پہلو کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔ 
 
اگر آپ اپنے رویوں کا بغور جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ چاہے آپ کا عمل آپ کی انفرادی زندگی سے مربوط ہو یا اس کا تعلق آپ کی اجتماعی یا سیاسی زندگی سے ہو جو چیز اس عمل کو انجام دینے میں بنیادی اور مرکزی کردار کی حامل ہے وہ آپ کا انگیزہ یا محرک ہے۔ انسان کوئی عمل بھی ارادے کے بغیر انجام نہیں دے سکتا اور ارادہ اس وقت تک وجود میں نہیں آتا جب تک اس کام کیلئے انسان کے اندر مناسب محرک یا انگیزہ موجود نہ ہو۔ مثال کے طور پر انسان اپنے بال بچوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے دن بھر مشقت اور محنت کرتا ہے۔ کیا چیز اسے اس مشقت اور محنت پر مجبور کرتی ہے؟ ہو سکتا ہے کوئی کہے کہ بچوں کی محبت اس بات کا باعث بنتی ہے کہ وہ دن بھر محنت مزدوری کرے تاکہ اس کے بچے رات کو سکون کی نیند سو سکیں۔ اس صورت میں اس شخص کی جانب سے دن بھر مشقت اور محنت کرنے کا اصلی محرک اور انگیزہ بچوں کی محبت ہو گا۔ اب ایک ایسے شخص کا تصور کریں جسے پوری طرح علم ہے کہ اگر وہ دن کو محنت مزدوری کرے گا تو اس کے نتیجے میں اس کے بچے رات کو سکون کی نیند سو سکیں گے لیکن اس میں یہ کام انجام دینے کا محرک یعنی بچوں کی محبت موجود نہیں۔ کیا وہ خود کو دن بھر محنت اور مشقت والے کاموں میں ڈالے گا؟ کبھی بھی نہیں۔ کیونکہ اس کے عمل کیلئے ایک عامل تو موجود ہے جو فکری اور عقلانی ہے لیکن دوسرا عامل جو نفسیاتی، احساساتی یا عاطفی ہے موجود نہیں۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ انسان ایک ایسی گاڑی کی مانند ہے جسے چلنے کیلئے ایندھن کی ضرورت ہے اور اس کے اندر موجود انگیزہ یا محرک اس ایندھن کا کام کرتا ہے۔ 
 
انسان جب تک ایک کام میں رغبت اور شوق نہ رکھتا ہو اسے انجام نہیں دیتا۔ یہ شوق اور رغبت درحقیقت وہی انگیزہ ہے۔ یہ شوق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ کام اس کیلئے فائدہ مند اور مفید ہے۔ یہ جاننے کیلئے کہ کون سا کام انسان کیلئے مفید ہے اور یہ کہ انسان کا حقیقی فائدہ کیا ہے اور کن کاموں میں مضمر ہے عقل، سوچ اور فکر کی ضرورت پڑتی ہے۔ پس خود انسان کا عقلانی اور فکری پہلو ایک طرح سے اس کے اندر احساساتی اور نفسیاتی پہلو یعنی محرک اور انگیزے کے ایجاد ہونے کا باعث بنتا ہے۔ انسان اپنی عقل اور فکر سے درک کرتا ہے کہ یہ کام اس کیلئے فائدہ مند ہے، اس کے بعد اس کے اندر یہ شوق اور رغبت پیدا ہوتی ہے کہ وہ اس کام کو انجام دے تاکہ اس فائدے تک پہنچے۔ لہذا نفسیاتی اور احساساتی عوامل انسان کے اند ایک کام کو انجام دینے کا شوق پیدا کرتے ہیں۔ یہ شوق جس قدر شدید ہو گا انسان اسی شدت کے ساتھ اس کام کو انجام دینے کی کوشش کرے گا۔ اس کی ایک سادہ سی مثال بھوک میں ہے۔ فرض کریں ایک ایسا انسان ہے جسے بھوک نہیں ہے۔ کیا اس کے اندر کچھ کھانے کی رغبت اور شوق پائی جائے گی؟ ہر گز نہیں۔ چاہے اسے معلوم ہی کیوں نہ ہو کہ یہ کھانا اس کے بدن کیلئے انتہائی مفید ہے اور اس میں فلان پروٹین ہے، فلان وٹامن ہے وغیرہ وغیرہ لیکن چونکہ اسے بھوک نہیں ہے، یعنی اس کے اندر محرک اور انگیزہ موجود نہیں ہے لہذا وہ کبھی بھی اس کھانے کی جانب ہاتھ نہیں بڑھائے گا۔ 
 
اب آئیے اپنے اصلی موضود کی جانب پلٹتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی شخصیت اور ان کے اہداف و مقاصد کے بارے میں صرف علم حاصل کر لینا ہی اس بات کا باعث نہیں بنتا کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کا ارادہ کر لیں۔ کیونکہ یہ صرف فکری اور عقلی پہلو تک محدود ہے۔ ہاں، یہ علم اس وقت ہمیں امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے پر مجبور کر سکتا ہے جب اس کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر مناسب محرکات اور انگیزے بھی موجود ہوں اور وہ محرکات ہمارے اندر امام حسین علیہ السلام کے راستے پر چلنے کیلئے شوق اور رغبت پیدا کریں۔ اس کام کیلئے ضروری ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی نسبت انسان کے اندر احساسات اور عواطف کو ابھارا جائے اور یہ کام عزاداری اور گریہ کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ صرف علم اور پہچان انسان کے اندر شوق اور محرک پیدا کرنے کیلئے کافی نہیں۔ امام حسین علیہ السلام کے بارے میں گفتگو، بحث، کانفرنسز، سیمینارز، مقالات، کتب وغیرہ صرف اور صرف ہمارے اندر ان کے بارے میں علم پیدا ہونے کا باعث بنتے ہیں لیکن جب تک ہمارے اندر سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کے بارے میں محبت اور ہمدردی کے جذبات پیدا نہیں کئے جاتے ہم ان کے راستے پر چلنے کا پختہ عزم کرنے سے قاصر رہیں گے۔ 
 
ہو سکتا ہے ایک شخص اس بات کا علم رکھتا ہو کہ عاشورا کے دن کربلا کے میدان میں کس بے دردی اور ظلم سے امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا۔ لیکن کیا یہ علم اس کے اندر غم اور دکھ کی کیفیت پیدا ہونے کیلئے کافی ہے؟ جب تک انسان مجلس عزاداری میں شرکت نہیں کرتا، مرثیہ نہیں سنتا، مصائب نہیں سنتا، مخصوص انداز میں واقعہ کربلا کو نہیں سنتا، اس وقت تک اس کے اندر امام حسین علیہ السلام سے محبت اور ہمدردی کے احساسات وجود میں نہیں آ سکتے۔ جب انسان مجلس عزاداری میں ایک عالم دین یا ذاکر اہلبیت علیھم السلام کی زبان سے اس خوبصورت انداز میں واقعہ کربلا کو سنتا ہے تو خودبخود اس کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ ان مجالس میں شرکت سے انسان کے اندر امام حسین علیہ السلام کی نسبت جذبات اور احساسات ابھر کر سامنے آتے ہیں اور یہ وہ کام ہے جو صرف کتابوں کا مطالعہ کرنے یا کانفرنسز میں شرکت کرنے سے امکان پذیر نہیں۔ جس قدر ہمارے اندر امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہلبیت علیھم السلام اور وفادار ساتھیوں کی نسبت زیادہ جذبات اور احساسات ابھریں گے اسی قدر ہمارے دلوں پر عاشورا کا اثر زیادہ ہو گا اور عزاداری امام حسین علیہ السلام کا بھی یہی مقصد ہے کہ ہماری زندگی عاشورا اور واقعہ کربلا سے متاثر ہو کر امام حسین علیہ السلام کے رنگ میں ڈھل جائے۔ 
 
لہذا واقعہ کربلا کا محض عالمانہ جائزہ عزاداری کی جگہ نہیں لے سکتا۔ معاشرے کی سطح پر مجالس و جلوس عزاداری کی صورت میں ایسی سرگرمیاں انجام پانا ضروری ہیں جو امام حسین علیہ السلام کے بارے میں لوگوں کے اندر جذبات اور احساسات کو ابھاریں۔ اسی طرح عمومی سطح پر ایسے مناظر پیش کرنا بھی ضروری ہیں جو دیکھنے والوں کے اندر امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہمدردی اور محبت کے جذبات پیدا ہونے کا باعث بنیں۔ مثال کے طور پر جب محرم کا آغاز ہوتا ہے تو شہر بھر میں سیاہ علم اور بینرز دیکھتے ہی کربلا کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ عزادار سیاہ کپڑوں میں ملبوس نظر آتے ہیں۔ یہی تبدیلیاں باعث بنتی ہیں کہ دیکھنے والوں کے قلوب امام حسین علیہ السلام کی جانب متوجہ ہو جائیں۔ عزاداران حسین علیہ السلام ایک خاص جذبے کے تحت محرم کا آغاز کرتے ہیں۔ مختلف حسینی کمیٹیاں عزاداری کی تیاری شروع کر دیتی ہیں۔ ماتمی دستے جلوس و مجالس میں شرکت کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ یہ تمام سرگرمیاں ایک خاص جذبے کے تحت انجام پاتی ہیں اور دیکھنے والوں کے اندر بھی اسی قسم کے جذبات پیدا ہونے کا باعث بنتی ہیں لہذا یہ وہ کردار ہے جو محض علمی سرگرمیاں کبھی بھی ادا نہیں کر سکتیں۔ 
 
شائد یہی وجہ ہے کہ موجودہ صدی کے عظیم انسان حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ عزاداری امام حسین علیہ السلام پر خاص تاکید کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کا یہ فرمان انتہائی معروف ہے کہ "ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ محرم اور صفر کی برکت سے ہے"۔ گذشتہ 13 صدیوں کے دوران عزاداری امام حسین علیہ السلام نے لوگوں کے اندر مذہبی جذبات پیدا کرنے اور انہیں باقی رکھنے میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ 
 
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 319550
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش