5
0
Saturday 30 Nov 2013 21:53

صلح ہضم نہیں ہوئی

صلح ہضم نہیں ہوئی
تحریر: سید اسد عباس تقوی

دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے حادثات اور نئے واقعات کو سمجھنے کے لیے تاریخی حوالے دینا ضروری نہیں ہوتا بلکہ انسانی عقل اس قابل ہے کہ اگر حالات و واقعات کا بے لاگ تجزیہ کرے تو اسے خود بخود حقیقت نظر آنے لگتی ہے۔ اس تجزیے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے پاس کسی بھی معاملے کی مکمل معلومات ہوں، جو اس نے متفرق ذرائع سے اکٹھی کی ہوں۔ مثبت و منفی ہر قسم کی باتوں کا تجزیہ کیا ہو، تب جا کر کہیں انسان اس قابل ہوتا ہے کہ کسی نئے واقعہ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرسکے۔ اگر انسان نامکمل معلومات، فرضی کہانیوں اور سنی سنائی باتوں پر یقین کرے تو کبھی بھی ’’حرف راز‘‘ نہیں پا سکتا۔ بہرحال تاریخی حوالہ اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ وہ لوگ جو کسی بھی معاملے کی تہ تک پہنچنے سے قاصر ہیں،  انکے اذہان کو قریب کیا جاسکے۔ قرآن کا یہی اسلوب ہے، اس نے واقعات کے ذریعے بہت سے ایسے مفاہیم کو انسانی اذہان تک پہنچایا جن کا کسی اور طرح سے بیان یا ابلاغ شاید اتنا موثر نہ ہوتا۔

تاریخ اسلام میں صلح حدیبیہ کا واقعہ ایک ایسی ہی مثال ہے جو اس وقت بعض لوگوں کی سمجھ سے باہر تھا۔ آج انسانی عقول بعد کے واقعات کی روشنی میں یہ فیصلے دے رہی ہیں کہ اس واقعہ نے اسلام کی تاریخ بدل دی۔ اسلام کو اس صلح کے سبب جو طاقت و قوت ملی وہ جنگ سے نہیں مل سکتی تھی۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وقتی نقصان بہت سے فوائد لے کر آیا۔ اگر ہم اس واقعہ کا گہرائی سے جائزہ لیں تو اس وقت بھی ہمیں کچھ کردار ایسے نظر آتے ہیں جنھوں نے اس صلح کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا بلکہ بعض تو اس حد تک چلے گئے کہ رسول اکرم (ص) کے حکم کو سنا ان سنا کر دیا۔ بے یقینی اور عجلت میں انسان اسی قسم کی باتیں کرتا ہے۔ 

اسی قسم کی بے یقینی ہمیں جنگ صفین میں بھی نظر آئی، خوارج جو دین اسلام سے مخلص تھے اور اپنے آپ کو ٹھیٹھ مسلمان سمجھتے تھے کی عقول جب معاملے کو سمجھنے سے عاجز آگئیں تو انھوں نے لا حکم الا للہ کا نعرہ بلند کیا اور فریقین کے کفر کے قائل ہوگئے۔ حضرت علی (ع) کو ان افراد کے اسلام سے اخلاص پر شبہ نہیں تھا، اسی لیے تو ان کی جانب متعدد قاصد بھیجے کہ تم سے معاملہ فہمی میں غلطی ہوئی ہے، اپنی روش پر نظرثانی کرو اور نقص امن کا باعث نہ بنو۔ حضرت علی (ع) کی انہی کوششوں کے سبب بہت سے لوگ خوارج سے الگ ہوگئے اور پرامن زندگی گزارنے لگے، تاہم جن کو اپنے علم کا سودا رہا اور جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے تھے، وہ نہروان کی جنگ میں کام آئے۔

قارئین کرام کسی تاریخی کردار پر ہنسنا اور اس کے بارے میں باتیں کرنا بہت آسان ہے، لیکن آپ سوچیں تو سہی ایک اللہ کا بندہ جو دین کے نام پر اپنا سب کچھ قربان کرکے مدینہ چلا گیا۔ جس نے اپنی آنکھوں سے قریش کے مظالم کا مشاہدہ کیا، جو سمجھتا تھا کہ کفار سے مصلحت کے تحت بھی صلح نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر مصلحت کی گنجائش ہوتی تو مکہ میں ہی کرلی جاتی، جہاں ہم اپنے کاروبار، اولاد، بیویوں اور رشتہ داروں کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ اس مخلص مسلمان کو حدیبیہ کی صلح سمجھ نہیں آئی۔ شاید اس ذی وقار نے یہ بھی سوچا ہو کہ قرآن ان کفار پر لعنت بھیجتا ہے اور ہم ان سے صلح کرنے جا رہے ہیں۔ شاید کسی نے یہ بھی سوچا ہو کہ محمد عربی(ص) کے کہنے پر ہم نے اپنا سب کچھ قربان کیا، اجڑ کر مکہ سے مدینے پہنچے، مہاجروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے اور آج یہ انہی لوگوں سے صلح کر رہے ہیں جن کے ہاتھ ہمارے پیاروں کے خون سے رنگین ہیں۔

تاریخ میں اگر اس واقعہ کے حوالے سے تفصیل موجود نہ ہوتی تو میں کبھی مندرجہ بالا مفروضے سوچنے کی ہمت نہ کرتا۔ تاریخ کہتی ہے کہ ایک صحابی رسول (ص) صلح کے بعد رسول اکرم (ص) کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ کیا آپ نبی برحق نہیں ہیں؟ کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل نہیں ہے؟ کیا آپ نے نہیں کہا تھا کہ ہم عنقریب مکہ جا کر خانہ کعبہ کا طواف کریں گے؟ رسول اکرم (ص) نے ان تمام سوالات کا جواب دیا، یہ صحابی اٹھ کر ایک دوسرے صحابی کے پاس گئے اور یہی سوالات دہرائے، یعنی انھیں رسول اکرم (ص) کے جوابات سے تسلی نہیں ہوئی تھی۔ تاریخ میں یہ بھی رقم ہے کہ اس وقت فضاء ایسی بن گئی کہ رسول اکرم (ص) نے اصحاب کرام رضوان اللہ کے ایک گروہ سے کہا کہ اٹھو اور قربانی کرو، سر منڈواؤ لیکن کوئی بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔ حتی کہ ام المومنین ام سلمہ (ع) کے مشورے پر رسول خدا (ص) خود اٹھے اور اونٹ ذبح کیا اور حجام کو بلوا کر اپنے بال منڈوائے۔ پھر دیکھا دیکھی اصحاب اٹھے اور انھوں نے بھی آپ کی پیروی میں یہ کام انجام دیا۔ 1

اتنی تفصیل بیان کرنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ ذہن قریب ہوجائیں، دنیا جانتی ہے کہ صلح حدیبیہ سے مراد قطعاً یہ نہیں تھا کہ رسول اکرم (ص) کو خدانخواستہ اپنے نبی برحق ہونے پر شک تھا، نہ ہی صلح کا مطلب یہ تھا کہ رسول برحق (ص) کفار مکہ کو حق پر جاننے لگ گئے تھے۔ صلح سے مراد یہ بھی نہ تھی کہ رسول اکرم (ص) نے نعوذباللہ کفار کے سامنے ذلت قبول کرلی اور ان کی قوت کو تسلیم کر لیا، جیسا کہ اس مخلص صحابی نے سمجھا بلکہ یہ صلح ایک وقتی حکمت عملی تھی، جس کے دیرپا اثرات رسالت مآب (ص) کی بابصیرت نگاہیں دیکھ رہی تھیں، لیکن اصحاب کی ایک جماعت ان اثرات سے بے بہرہ تھی۔ مذکورہ اصحاب کو تو فقط یہ نظر آرہا تھا کہ ہم اپنے موقف سے ہٹ گئے، ہم نے کفار کی قوت کو تسلیم کر لیا۔ بس! میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔

آج بھی کچھ ایسے ہی مخلص اہل علم ہمارے درمیان موجود ہیں، جنھوں نے ایران اور مغربی قوتوں کے مابین ہونے والے معاہدے کو شکست، ذلت اور پسپائی تصور کر لیا ہے۔ انکی رائے ہے کہ آج انقلاب اپنے بانی کی دی ہوئی روش سے بھٹک گیا ہے اور تنزلی کا شکار ہے۔ کچھ باتیں وہ پلے سے اضافہ کر دیتے ہیں، جیسے کہ اب وہاں امام خمینی کی کتابیں نہیں ملتیں، ان کا نام نہیں لیا جاتا، دین کو فرقہ وارانہ انداز سے پھیلایا جارہا ہے۔ حکومت طالبان کی حمایت نہیں کرتی اور بہت کچھ۔ اوریا مقبول جان ملک میں صحافت کے عنوان سے ایک معتبر نام ہے، میں ان کی باتوں سے اختلاف کی جرات نہ کرتا لیکن اب وہ جن وادیوں میں بگ ٹٹ دوڑنے لگے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ میرے محترم کہیں بڑی ٹھوکر نہ کھا بیٹھیں۔ 

اس لیے اتنا پوچھنے کا حق محسوس کرنے لگا ہوں کہ حضرت کیا یہ مسلکی اختلاف اور عرب و عجم کے جھگڑے ایران کے انقلابیوں نے اٹھائے جو فلسطین میں مالکی فقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں اور لبنان میں شیعہ و سنی عربوں کی حمایت کر رہے ہیں، یا انھوں نے جو اسلامی ممالک کی دولت لوٹ لوٹ کر اپنے محلات کی تزئین و آرائش پر اور غیر ملکی دوروں پر لگاتے ہیں؟ امریکہ نے ایران کو برائی کا محور بنایا اور عرب بدو اس جھانسے میں آگئے اور لاکھوں ڈالر کا اسلحہ خریدتے رہے جبکہ انقلاب کے آغاز سے آج تک ایک بھی ایسا واقعہ موجود نہیں جس میں ایران نے کسی عرب سرزمین پر قبضہ کیا ہو یا اسکے خلاف جارحیت کا سوچا ہو۔ اب آپ ہی بتائیں قصوار ایران ہوا یا یہ عرب شہنشاہ جو مغرب کی راگنی پر محو رقص ہیں۔؟

اوریا صاحب یہ حقیقت آج دنیا کے سامنے آشکار ہے کہ ان عرب حکمرانوں کو ایران سے اصل خطرہ فوجی نہیں بلکہ سیاسی ہے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایران میں پنپنے والی انقلابی فکر ہمارے عوام میں سرایت کرے۔ لہذا اپنے عوام کو اس انقلاب سے دور رکھنے کے لیے اسے عجمی اور شیعہ انقلاب کا نام دیا۔ افسوس تو یہ ہے کہ آج آپ جیسا پڑھا لکھا انسان بھی ان عربوں کی سوچ کی پیروی کرتے ہوئے انہی کے الفاظ دہرا رہا ہے، حالانکہ آپ کا ان سے کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ رہا طالبان کا سوال تو وہ تو بندے کو بندہ ہی نہیں سمجھتے، کجا یہ کہ وہ بندہ طالبان کے علاوہ کسی اور مسلک سے تعلق رکھتا ہو۔ اب ایسے بے ہنگم گروہ کی مدد کرنا اسلام کی کونسی خدمت ہے، میری سمجھ سے تو بالاتر ہے۔

مختصر یہ کہ یہ معاہدہ کتنا عرصہ چلتا ہے، اس بارے میں تو کچھ کہنا قبل از وقت ہے، تاہم اس کے بارے میں کچھ تحریر کرنے سے قبل ضروری تھا کہ آپ تمام فریقوں بالخصوص صیہونی اکائی کے ذمہ داران کے بیانات کو پڑھ لیتے تو یقیناً آپ اس نتیجے پر نہ پہنچتے کہ انقلاب اپنی روش سے ہٹ گیا، اس نے پسپائی قبول کر لی بلکہ اسرائیلی وزیر خارجہ کی طرح آپ بھی کہتے کہ ’’یہ معاہدہ ایران کی سب سے بڑی سفارتی فتح ہے۔‘‘

اس واقعہ کو اصحاب سیر و تاریخ کے علاوہ بخاری نے اپنی صحیح کے اندر کتاب الشروط فی الجہاد ج 2 ص 122 پر اور مسلم نے اپنی صحیح میں باب صلح حدیبیہ میں تحریر کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 326159
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
very nice article.. thank you
plz send this article to roznama dunya as well

Ikram
Agha jan Kamal kar dyya. buhat khushi hoi
اگر اوریا مقبول نے سچی بات کہی ہے تو اس میں ناراض ہونے والی کون سی بات ہے۔
bohat khoub
ہماری پیشکش