7
0
Wednesday 4 Dec 2013 21:36

ایران 1+5 ایٹمی سمجھوتہ اور مرگ بر امریکہ

ایران 1+5 ایٹمی سمجھوتہ اور مرگ بر امریکہ
تحریر: سلمان رضا
salmanrazapk@gmail.com


 24نومبر 2013ء کو ایران اور عالمی طاقتیں 1+5 گروپ اپنے درمیان جاری ایٹمی تنازعے کے حل کیلئے ایک سمجھوتے پر متفق ہوگئے۔ جونہی یہ خبر عالمی ذرائع ابلاغ پر نشر کی گئی تو پوری دنیا اور بالخصوص اسلامی ممالک میں ہر خاص و عام کے درمیان یہ موضوع زیر بحث آ گیا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے بھی اس موضوع پر بڑھ چڑھ کر تجزیہ و تحلیل کے جوہر دکھائے، لیکن اکثر اہل قلم نے معاہدے کا متن پڑھنے کی بجائے امریکی ذرائع ابلاغ سے جاری ہونے والے امریکی وزیر خارجہ کے بیانات کی روشنی میں اپنے تجزیات کو ترتیب دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں پاکستانی اہل قلم چند طبقات میں تقسیم نظر آئے۔ ایک بڑی تعداد نے اس سمجھوتے کی پذیرائی بھی کی اور اس کے مثبت نتائج کی طرف توجہ مبذول کروائی، لیکن چونکہ ماخذ امریکی سفارتکاروں کے جاری کردہ بیانات تھے، لہٰذا انہیں تصویر ایسی نظر آئی کہ ایران نے امریکی شرائط کو تسلیم کرلیا اور دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ بڑی طاقتوں کے ساتھ ٹکر نہ لی جائے۔
 
بعض اہل قلم کے مطابق یہ مسئلہ مستقلاً حل ہوگیا اور اب ایران سپر طاقتوں کا اچھا بچہ بن کر رہے گا جبکہ کچھ اہل قلم نے اس امر پر زور دیا کہ ایران میں "شدت پسند" علماء اور سیاستدانوں کی بجائے سفارتکاری پر یقین رکھنے والے "معتدل" سیاستدان ہی ایران کو مشکلات سے نجات دلا سکتے ہیں، لیکن شائد وہ یہ بات بھول گئے کہ ماضی میں احمدی نژاد (جنہیں اپنی انقلابی پالیسیوں کی وجہ سے سخت گیر صدر تصور کیا جاتا ہے) بھی سفارتکاری کے حق میں تھے اور اپنے 8سالہ دور حکومت میں انہوں نے اس معاملے پر سفارتکاری جاری رکھی۔ ان اہل قلم کے برعکس بعض کالم نگاروں کے خیال میں یہ معاہدہ اصل میں ایرانی اسلامی انقلاب کی موت ہے اور آج کے بعد ایران کی امریکہ دشمنی ختم ہوگئی ہے۔ آئندہ مسئلہ فلسطین ہو یا شام کا مسئلہ، ہر جگہ پر ایران امریکہ کے ساتھ تعاون کرے گا اور مزاحمت کا مستقبل تاریک ہے۔
 
گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر اہل قلم دو طبقوں میں تقسیم نظر آئے۔ ایک تو وہ جو اس معاہدے کو "مختلف نقطہ ہائے نظر کی وجہ سے " داد و تحسین کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جبکہ دوسرے طبقے کے اہل قلم اس معاہدے کو ایک عالمی مزاحمتی قوت کے عالمی استکباری قوت کے سامنے سرنگوں ہونے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اُن کے مطابق انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کو فراموش کرچکا ہے، یعنی دونوں طبقات اسے ایران کو تسلیم ہونے کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، البتہ ایک گروہ اس فعل کو قابل تحسین جبکہ دوسرا گروہ اسے باعث تشویش ٹھہرا رہا ہے۔ ہمارے خیال میں دونوں تحلیلیں درست نہیں۔

پہلی چیز تو جس کی اصلاح ناگزیر ہے وہ یہ ہے کہ یہ سمجھوتہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان (جو سب ایٹمی قوت بھی ہیں) + جرمنی اور ایران کے درمیان ہوا، لیکن اگر کوئی اسے امریکہ ایران معاہدہ قرار دے تو یہ سراسر زیادتی ہوگی۔ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ امریکہ مغربی تہذیب کا علمبردار ہے اور سارا یورپ بھی اسی کی تقلید کرتا ہے لیکن اُن پانچ ارکان میں چین اور روس بھی شامل ہیں جو کہ اپنی تہذیب اور ترجیحات میں امریکہ سے متصادم ہیں بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان پانچ مستقل ارکان میں سے دو ارکان ایسے ہیں جو بعض عالمی معاملات جیسے شام اور عراق وغیرہ میں ایران کے حلیف بھی تصور کئے جاتے ہیں۔ گویا یہ سمجھوتہ سکیورٹی کونسل کی طرف سے مینڈیٹ پانے والی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہوا اور امریکہ پہلے فریق میں سے ایک رکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ 

دوسری چیز جو انتہائی اہمیت کی حامل ہے وہ اس سمجھوتے کی شرائط کی منصفانہ تحلیل کرنا اور اس سمجھوتے کے فوائد اور نقصانات کا تقابل کرنا ہے اور اس امر کیلئے ہم سمجھوتے کی شرائط دیکھتے ہیں۔ اس سمجھوتے کی وہ کاپی جو ایرانی سفارتی ذرائع نے پیش کی اور فارس نیوز نے اسے اپنی سائٹ پر نشر کیا ہے، اس کے مطابق سمجھوتہ دو حصوں میں تقسیم ہے، پہلے حصے میں ایران کی ذمہ داریاں لکھی گئی ہیں اور دوسرے حصے میں 1+5 ممالک کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔
سمجھوتے کے مطابق
ایران کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کیلئے ہے اور کبھی بھی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کیلئے استعمال نہیں ہوگا اور ایران رضار کارانہ طور پر تسلیم کرتا ہے کہ وہ
* یورینیم کی افزودگی کو اگلے چھ ماہ کیلئے 5% تک محدود کرے گا۔
* اپنے پاس موجود 20% افزودہ یورینیم کے آدھے ذخیرے کو 5% تک تحلیل کرے گا۔
* اراک، نطنز اور فردو میں موجود ایٹمی تنصیبات پر کوئی نئی پیشرفت نہیں کرے گا۔
* اگلے چھ ماہ میں کوئی نئی ایٹمی سائٹ تعمیر نہیں کرے گا۔
* IAEA کے انسپکٹروں کو اپنی تنصیبات تک مذید بہتر رسائی دے گا۔
* اپنے ایٹمی منصوبوں کے بارے تفصیلی اطلاعات مہیا کرے گا۔

جبکہ اس کے بدلے میں 1+5 ممالک تسلیم کرتے ہیں وہ رضا کارانہ طور پر
* امریکی اور یورپی پابندیاں جو ایران کے پٹرولیم اور قیمتی دھاتوں کے شعبے پر عائد ہیں روک دیں گے۔
* امریکی پابندیاں جو ایران کی آٹو موبائل انڈسٹری پر عائد ہیں روک دیں گے۔
* ایرانی ائیر لائنز کی سکیورٹی کیلئے درکار آلات اور تربیت کیلئے ماہرین کی دستیابی کو یقینی بنائیں گے۔
* اگلے چھ ماہ کے دوران کوئی نئی پابندی نہیں لگائیں گے۔
* مغرب میں موجود تیل کے ایرانی منجمند اکاؤنٹس میں سے کچھ رقم کی ترسیلات کو یقینی بنائیں گے۔

مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران نے 6 ماہ کے عرصے کیلئے اپنی بعض تنصیبات میں پیشرفت کو روکنے اور وقتی طور پر 20% تک یورینیم افزودگی کو روک کر اس شعبے میں ایک مختصر عرصے کیلئے عقب نشینی اختیار کی ہے، لیکن باقی شرائط جن میں IAEA کو بہتر رسائی دینا اور اپنے منصوبوں سے مطلع کرنا وغیرہ میں کوئی نئی چیز نہیں اور ایران اس سے قبل بھی اس بات کا اعادہ کرچکا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کیلئے ہے اور اگر IAEA بہتر مانیٹرنگ کے ذریعے اس پروگرام کے پرامن ہونے کو یقینی بناتی ہے تو اس سے ایران کو کوئی مشکل نہیں ہوگی، جبکہ اگر فوائد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایرانی معیشت جو اپنے مشکل دور سے گزر رہی ہے اسے وقتی طور پر ریلیف مل سکے گا۔
 تیل کی برآمد جو گزشتہ تین سالوں میں مسلسل گرتی آئی ہے 6 ماہ کیلئے بہتری کی جانب آسکے گی۔ آٹو انڈسٹری کی مشکلات اور ایرانی ائیر لائنز کو فاضل پرزہ جات کی دستیابی اس عرصے میں ممکن ہوسکے گی۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ معاہدہ مغرب کی شرائط کے مطابق نہیں ہوا اور نہ ہی مکمل طور پر ایران کی شرائط پر بلکہ کچھ لو کچھ دو کے اُصول کے تحت ہوا، جس میں ایران کے بنیادی حق یعنی یورینیم کی افزودگی کو تسلیم کیا گیا ہے۔

یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ایران نے مذاکرات کی میز پر مغرب کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے بائیکاٹ کیوں نہ کر دیا، کیونکہ مغرب کو راضی کرنا ایران کا مذہبی فریضہ تو نہیں تھا، تو جواب یہ ہے کہ سمجھوتہ کسی مذہبی وظیفے کی وجہ سے نہیں کیا گیا اور نہ ہی آج کی "مہذب" دنیا پر رائج عالمی نظام الٰہی مذہبی تعلیمات سے اخذ کیا گیا ہے بلکہ یہ نظام طاقت کی دلیل پر مبنی ہے، لیکن جب گنگاہی اُلٹی بہتی ہو تو آپ تنہا اس کا رُخ نہیں بدل سکتے اور بسا اوقات آپ کو حالت مجبوری میں اپنی طرف بڑھتے ہوئے طوفان کو دیکھ کر عقب نشینی کرنی پڑتی ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ سلامتی کونسل میں پانچ مستقل اراکین یا سپر پاورز کی حیثیت مذہبی، عقلانی یا منطقی لحاظ سے درست نہیں، لیکن چونکہ اقوام عالم کی اکثریت نے اسے تسلیم کر رکھا ہے اور اگر آپ اسے تسلیم نہ کریں تو آپ آج کی "سولائزڈ دنیا" سے کٹ کر نہیں جی سکتے، کیونکہ بین الاقوامی تجارت سے لے کر سفارتکاری تک تمام چیزیں کسی نہ کسی طرح اس نظام سے مربوط ہیں۔ 

مزید دقت کی جائے تو یہ امر خود باعث حیرت ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے والے تمام ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور ان میں سے ایک ملک امریکہ وہ واحد ملک ہے جس نے تاریخ بشریت میں اس منحوس ہتھیار کا استعمال کیا، لیکن آج الٹا چور بنا کوتوال کا مصداق امریکہ اس دوڑ میں سب سے آگے ہے، لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ اگر ان کی مادی طاقت اور طاقت کی دلیل کے سامنے دلیل کی طاقت کار گر ہوتی تو کبھی بھی ایران کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا نہیں پڑتا، یعنی اگر اقوام عالم عقلانیت، ناستم پذیری اور صداقت پر مبنی پالیسیوں کیلئے میدان میں موجود ہوتیں اور اس میدان میں کسی حق پر کھڑے ملک (خواہ ایران یا کسی اور ملک) کو تنہا نہ چھوڑتیں تو آج اس سمجھوتے کی ضرورت نہ پڑتی۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ اگرچہ سمجھوتہ مجبوری کی حالت میں کیا جاتا ہے، یا جب کوئی فریق اپنے داخلی یا خارجی حالات کی وجہ سے ضعف کا شکار ہو تو سمجھوتے کی راہ اپنانا پڑتی ہے، لیکن اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ فریق اُصولوں سے دستبردار ہو جائے یا تسلیم ہو جائے بلکہ وہ فریق مصلحتاً عقب نشینی اختیار کرتے ہوئے اُصولوں کو حفظ کرتا ہے اور جونہی اسے دوبارہ قدرت حاصل ہوتی ہے تو وہ میدان میں آکر اُصولوں کیلئے دوبارہ جنگ شروع کرتا ہے۔

رسول خداؐ (ص) نے صلح حدیبیہ کرتے ہوئے اسلامی اُصولوں سے روگردانی نہیں کی تھی بلکہ اپنے وقتی ضعف کو دیکھتے ہوئے مصلحتاً سمجھوتے کی راہ اختیار کی تھی اور بعد کے واقعات شاہد ہیں کہ استقامت اور پائیداری نے دوبارہ اسلام کو غلبہ دیا تھا۔ اسی طرح امام خمینیؒ نے عراق ایران جنگ کے دوران دفاعی جنگ لڑتے ہوئے اپنے جہاد کو جاری رکھنے کا اعادہ کیا تھا لیکن جب صدام نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا اور پوری دنیا نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ صدام کی ہر ممکن مدد کرتی رہی تو اس موقع پر امام خمینیؒ نے نوجوانوں کے حوصلوں کے وقتی ضعف اور مشکلات کو دیکھتے ہوئے سلامتی کونسل کی قرارداد 598 برائے جنگ بندی کو تسلیم کرلیا تھا تو کیا امام خمینیؒ نے انقلابی اُصولوں پر سمجھوتہ کرلیا تھا، نہیں بلکہ امام نے وقتی سمجھوتہ کرکے اسلام کے اُصولوں کا پرچار کرنے والی واحد اسلامی قوت کو حفظ کرلیا تھا، لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ میدان بدلتے رہے لیکن یہی انقلاب اسلام کے اُصولوں کا دفاع کرتا رہا۔

یہاں دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سے حالات تھے جن کی موجودگی میں اسلامی جمہوریہ ایران مجبور ہوا کہ وہ سمجھوتے کی راہ اپنائے، تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ احمدی نژاد کے دور حکومت میں 2006ء میں مغرب نے انقلابی حکومت کا قافیہ تنگ کرنے کیلئے پابندیوں کا سلسلہ شروع کیا، جوں جوں وقت گزرتا گیا اور اسلامی جمہوریہ دفاعی میدان، معاشی میدان، ثقافتی میدان اور سیاسی میدان میں مضبوط ہوتا گیا، مغرب کی بے چینی بڑھتی گئی اور اسلامی جمہوریہ پر تاریخ کی بدترین پابندیاں لگائی جانے لگیں۔ سازشوں کے جال کو وسیع کیا جانے لگا، بالخصوص جب دیکھا کہ ایران تنہائی سے نکل کر ایک عالمی مزاحمتی بلاک بنتا جا رہا ہے تو اس کو توڑنے کیلئے مغرب نے فیصلہ کن جنگ شروع کی۔ ایران کے پڑوس میں شام کو خانہ جنگی کا شکار کیا گیا، پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگ اور عراق میں داخلی بحران بھی اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ 

شام کی جنگ میں ایران نے فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا اور ہر ممکن سفارتی اور معاشی مدد کی، جس کی وجہ سے ایران کے مصارف میں بے پناہ اضافہ ہوا، ساتھ ہی پابندیوں کی وجہ سے ایران میں موجود قلیل لیکن طاقتور مغرب نواز طبقے نے داخلی اقتصاد کو جکڑنا شروع کیا، نتیجتاً ایرانی کرنسی کی قیمت میں چند ماہ میں 70 سے 80 فیصد تک گرواٹ ہوئی اور ملک میں مہنگائی کا ایک ایسا طوفان آیا، جس کو بالخصوص ایران میں موجود متوسط طبقے نے پوری شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ آخری پابندیوں میں ایران کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والے شعبے یعنی تیل کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی اور اس کی برآمد جو 2.5 ملین بیرل یومیہ تھی، کم ہوتی ہوتی 2 ملین بیرل یومیہ سے بھی نیچے چلی گئی اور انڈیا (جو چین کے بعد ایرانی تیل کا دوسرا بڑا خریدار ہے) نے بھی امریکی پریشر میں آکر تیل کی خرید سے اجتناب کیلئے بہانے تراشنے شروع کر دیئے۔ ایران پاکستان انڈیا پائپ لائن سے پہلے انڈیا نکلا پھر پاکستان پس و پیش کرنے لگا اور جب نواز شریف کی حکومت آئی تو سعودی و امریکی پریشر کے باعث نواز حکومت بھی پھسل گئی۔ ایسے ہی اشارے ترکی نے بھی دینے شروع کر دیئے، جو پہلے سے شام پالیسی پر ایران سے متصادم نظر آرہا تھا۔
 
بعض ماہرین کے مطابق ان پابندیوں کے باعث ایرانی معیشت کو 120 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ گذشتہ صدارتی انتخابات کے دوران انقلابی امیدواروں کے مقابلے میں خاتمی کی فکر والے امیدوار کمزور نظر آتے تھے، لہٰذا ان امیدواروں نے دیکھا کہ وہ یہ مقابلہ نہیں جیت سکتے تو انہوں نے نسبتاً کم انقلابی امیدوار ڈاکٹر حسن روحانی کے حق میں دستبرداری اختیار کرلی اور نتیجتاً ڈاکٹر حسن روحانی جن کی ایٹمی پالیسی میں سفارتکاری کا نعرہ خاصہ عیاں تھا کامیاب ہوگئے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد مغربی طاقتوں کے ساتھ سفارتکاری کی راہ کو پوری شدت کے ساتھ اُٹھایا اور معاشی مشکلات کا حل بھی اسی میں جانا کہ کسی سمجھوتے پر متفق ہوجایا جائے۔ 

رہبر معظم نے اپنی بصیرت سے عوامی جذبات کو دیکھتے ہوئے مذاکراتی ٹیم کو حدود و قیود سے آگاہ کر دیا کہ ایٹمی پروگرام میں رکاوٹ اور یورینیم افزودگی پر قدغن کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ لہٰذا مذاکراتی ٹیم تین دوروں کے بعد یہ بات منوانے میں کامیاب ہوگئی کہ ایران یورینیم افزودگی جاری رکھے گا اور ایٹمی بجلی گھروں کی ضرورت پوری کرنے کیلئے درکار 3.5 فیصد افزودگی خود کرے گا جبکہ فی الحال ان چھ ماہ میں میڈیکل سینٹرز کیلئے درکار 20 فیصد افزودہ یورینیم اپنے پاس موجود ذخائر میں سے استعمال کرے گا اور بعد ازاں میں ماضی میں احمدی نژاد کے دور حکومت میں مجوزہ تجویز کے تحت آئندہ 3.5 فیصد افزوہ یورینیم دے کر مغرب سے 20 فیصد افزودہ یورینیم حاصل کرے گا۔ 

اب اگر یہ کہا جائے کہ اس معاہدے میں ایران کا نقصان ہی نقصان ہے تو خطے میں موجود اسلامی جمہوریہ کا ازلی دشمن اسرائیل اور بدقسمتی سے اسلامی لباس میں مغرب نواز ملک سعودی عرب کیوں بے چین ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ 5+1 ممالک نے تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور اسرائیل اس معاہدے کو تسلیم کرنے کا پابند نہیں، اسی طرح سعودی سفیر کا کہنا ہے کہ ہم اس معاہدے کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہیں گے بلکہ خطے میں عدم توازن کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور خود امریکی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو افزودگی کا حق نہیں دیا گیا یا اس کے پروگرام کو تحلیل کر دیا گیا ہے۔
 
جب ایک صحافی نے ثبوت کے ساتھ سوال کیا کہ وہ تو اس معاہدے کی رو سے آج بھی افزودگی کر رہا ہے تو تحلیل ہونے کا سوال کیسے پیدا ہوتا ہے، اس پر کھسیانی بلی کھمبانوچے کی طرح جان کیری نے کہا کہ جب ایران مزید کوئی نئی پیشرفت نہیں کرے گا تو یہی سمجھا جائے کہ یہ پروگرام تحلیل ہوگیا، یعنی امریکی اس معاہدے سے خود بھی خوش نہیں ہیں اور اپنی کانگریس میں سخت گیر ارکان کی توپوں کے دہانے کے سامنے اپنا دفاع کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی ترجمان برائے وزارت خارجہ نے اور خود ایرانی وزیر خارجہ نے امریکہ کی طرف سے پیش کردہ سمجھوتے کے متن کی تردید کی ہے۔

یہاں یہ تحلیل بھی پیش کرنی چاہیے کہ کیوں امریکہ نے آخر ایران کو اتنا ریلیف بھی دے دیا، یعنی جو ملک اسلامی جمہوریہ کو یورینیم افزودگی کا حق دینے سے آج تک انکاری ہے، آخر کیسے اسے تسلیم کر رہا ہے تو ہمارے خیال میں امریکہ یہ چاہتا ہے کہ سختی کے اس دور میں ایرانی عوام کے دلوں میں اپنا سافٹ کارنر پیدا کرے اور کسی زیادہ انقلابی حکومت کے مقابلے میں نسبتاً کم انقلابی حکومت کے ذریعے ریلیف دے کر یہ باور کروانے کی کوشش کرے کہ مزاحمت کی بجائے سفارتکاری کی راہ زیادہ مطلوب ہونی چاہیے اور رفتہ رفتہ ایرانی عوام اور رہبریت کے درمیان موجود مضبوط رشتے کو کمزور کرے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ حکومتیں بدلتی رہیں اور عوام کے شکم پر ور طبقے کی ترجیحات بھی بدلتی رہیں، لیکن اسلامی جمہوریہ کے خواص، وارثین شہداء، یاران امام اور عوام کے ایک بڑے طبقے کے دل میں رہبریت کی محبت اور جذبہ اطاعت ہمیشہ زیادہ سے زیادہ ہوتا رہا اور ایران کی ہوش مند اور بابصیرت قیادت نے بشیر و نذیر کی طرح ان مذاکرات میں حکومتی عہدیداروں کی کلی رہنمائی بھی کی ہے اور جمہوری اسلامی کے انقلابی اُصولوں کا ہمیشہ دفاع بھی کیا ہے۔
 
رہبر معظم نے حالیہ مذاکرات کو جاری رکھنے کی توثیق بھی کی تھی اور فرمایا تھا کہ میں ان مذاکرات کی جزیات میں نہیں جاؤں گا، لیکن کلی طور پر میں نے حکومتی عہدیداران کو ان مذاکرات کی ریڈ لائنز واضح کردی ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر حسن روحانی کو یہ سمجھوتہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا، ہمارا ان سے سوال ہے کہ ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے دور حکومت میں بھی تو یہ مذاکرات جاری تھے اور دو دفعہ دونوں فریق سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے تھے، اگر اس وقت سمجھوتہ ہوجاتا تو کیا یہ الزام احمدی نژاد پر بھی لگایا جاتا کہ وہ انقلاب کو خیر باد کہہ گئے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مذاکرات شروع ہی کسی سمجھوتے پر پہنچنے کیلئے کئے جاتے ہیں، ورنہ ماضی میں گذشتہ حکومتیں کوئی کھیل تو نہیں کھیل رہی تھیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ گذشتہ دور حکومت میں شرائط نسبتاً مختلف ہوتیں، لیکن وقت کی سنگینی یا عوام مزاج اور حکومتی اسٹریٹجی میں تغیر کی وجہ سے سمجھوتوں کی ماہیت میں فرق تو آتا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس سمجھوتے کا مستقبل اور انجام کیا ہوگا۔ 

بالآخر یہ سمجھوتہ ہمیشہ کیلئے تو نہیں کیا گیا اور پھر 6 ماہ کے بعد اگلا معاہدہ ایک سال کیلئے کیا جائے گا، وہ بھی اگر دونوں فریق اپنی اپنی تسلیم کردہ شرائط پر کاربند رہے تو، لیکن اس سوال کے جواب سے پہلے ایک اور سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے کہ کیا اس معاہدے سے ایران کی امریکہ و اسرائیل دشمنی کا باب ہمیشہ کیلئے یا حتٰی صرف چھ ماہ کیلئے بند ہوگیا اور بعض کالم کار جو "مرگ بر امریکہ" کے عنوان سے گمراہ کن کالم لکھ رہے ہیں، ان میں کتنی حقیقت ہے تو اس کا جواب ہمیں رہبر معظم کی اس تقریر سے ملتا ہے جو رہبر نے بسیج سے مخاطب ہوکر عین ان ایام میں کی تھی جن ایام میں مذاکراتی دور جاری تھا۔

20 نومبر کو رہبر معظم نے بسیج فورس کے کمانڈروں اور کارکنوں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ملت ایران کی استقامت و قوت دشمنوں کو مایوس کر دینے کا واحد راستہ ہے اور ہماری پیش قدمی کا عمل اور رُخ و سمت کا تعین ہمیشہ حضرت زینب ؑ کے انداز میں ہونا چاہیے، جنہوں نے دربار شام میں آہنی عزم کی عکاسی کی اور وقار کا پیکر بن کر مصیبتوں کا مقابلہ کیا۔ آپ نے فاتحانہ لچک کی بابت فرمایا تھا کہ اس کے معنی یہ نہیں کہ فنکارانہ مشق اور اسلامی اہداف کے حصول کیلئے مختلف روشوں کو بروئے کار لایا جائے۔ آپ نے اسرائیل کی صیہونی حکومت کو نجس اور منحوس قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ صیہونی حکومت اسلامی نظام پر الزام لگاتی ہے کہ ہم اقوام عالم سے تنازعات پالنا چاہتے ہیں، جبکہ اسلام قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی نظام تمام قوموں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے اور تمام قوموں سے دوستانہ روابط قائم کرنے کا خواہاں ہے۔
 
امریکہ کا رویہ اسلامی نظام کے مقابل ہمیشہ بدخواہ، کینہ پرور اور استکباری رہا ہے اور ہم جس چیز سے لڑ رہے ہیں وہ یہی استکبار ہے۔ امریکہ، برطانیہ کی استکباری پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ افریقی سیاہ فام باشندوں اور آسٹریلوی مقامی لوگوں کے ساتھ سلوک اس استکبار کے جرائم کا شاہد ہے اور امریکہ وہ واحد قوت ہے جس نے تاریخ بشریت میں دو دفعہ ایٹم بم استعمال کیا۔ آپ نے فرمایا امریکی حکمران شام میں جھوٹے پراپیگنڈہ پر مبنی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو ریڈ لائن قرار دے رہے ہیں، لیکن جب صدام یہی ہتھیار ایران کے خلاف استعمال کر رہا تھا تو امریکی حکام خود اس کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ 2009ء میں ایران کے انتخابات کے دوران امریکی صدر کا کردار انتہائی بھیانک رہا اور اپنے حکومتی عہدیداروں کو تاکید کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ آپ ایرانی عوام کے حقوق سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹیں۔ 

اس خطاب کے مندرجات کو تفصیل سے لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم ایرانی پالیسی کا تفصیلی جائزہ لیں۔ اس خطاب کی روشنی میں ایرانی قوم کے حاکم شرعی یعنی ولی الامرالمسلمین نے واضح لائن کھینچ دی کہ امریکہ درحقیقت استکبار ہے اور جب تک امریکہ یا مغرب اپنی استکباری پالیسی سے روگردانی نہیں کرتا، ہماری اس سے دشمنی جاری رہے گی، کیونکہ یہ ایک قرآنی فریضہ ہے کہ استکبار کا مقابلہ کیا جائے۔ یہاں ہمیں یہ بات یاد رہے کہ امریکہ اور مغرب یہ جانتے ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار تیار نہیں کر رہا اور رہبر معظم نے کئی دفعہ یہ اعلان کیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری حرام ہے اور ہم یہ کام کبھی نہیں کریں گے۔ دنیا جانتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے رہبر کی تمام زندگی صداقت کا پیکر ہے اور کسی مغربی حکمران کی طرح ان کی بنیاد میں کہیں بھی جھوٹ یا مبالغے کی آمیزش نہیں۔

اس سے بڑھ کر خود 15 امریکی ایجنسیوں نے چند برس قبل مشترکہ رپورٹ پیش کی تھی کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری نہیں کر رہا، لہٰذا ہمارے خیال میں امریکہ کی اصل دشمنی ایٹمی ہتھیاروں کی بابت نہیں بلکہ اصل مسئلہ فلسطین یعنی مزاحمت، انکارِ استکبار اور مستضعفین کی داد رسی ہے اور ایٹمی مسئلہ تو بہانہ ہے۔ لہٰذا جب تک ایران اپنی اسلامی پالیسی پر گامزن رہے گا (جو کہ گامزن ہے) اس وقت تک امریکہ اسرائیل دشمنی ختم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آج بھی ہر ایرانی مسجد سے ہر نماز کے بعد مرگ بر امریکہ مرگ بر اسرائیل کی صدائیں جاری ہیں۔

جہاں تک اس سمجھوتے کے مستقبل کا سوال ہے تو ہمارے خیال میں یہ دو عوامل پر منحصر ہے۔ پہلا یہ کہ اگر مغرب نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا اور اگلے دور میں ایران کو درکار 20 فیصد افزودہ یورینیم ملتا رہا تو ایران بھی اس معاہدے کو آگے بڑھائے گا اور ساتھ ہی ساتھ دیکھے گا کہ اس سمجھوتے سے اس کی اقتصادی مشکلات میں کتنی کمی آئی ہے۔ اگر Pros اینڈ Cons کے میزان میں افادہ زیادہ اور ضرّر کم ہوا تو معاہدہ چلتا رہے گا، لیکن اگر ضرر زیادہ اور افادہ کم ہوا تو ایران اس سے پیچھے ہٹ جائے گا، جبکہ اس کے برعکس مغرب دیکھے گا کہ اگلے مرحلے میں ایرانی عوام میں موجود استکبار دشمنی میں کمی آئی ہے تو وہ اگلی مدت کیلئے بھی سمجھوتہ کرے گا، اسی طرح اگر ایرانی عوام کو توقع سے زیادہ ریلیف مل گیا اور اقتصاد اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے لگی تو مغرب پیچھے ہٹ جائے گا، اسی طرح اگر ایرانی عوام کی استکبار دشمنی میں اضافہ ہوتا ہے اور ایرانی حکومت عالمی معاملات میں اپنے اُصولوں پر کاربند رہتی ہے تو بھی مغرب اس سمجھوتے سے نکل جائے گا۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ امریکی حکومت اور ایرانی حکومت دونوں ہی سمجھوتہ چاہتی تھیں۔ یہ کیسے ہوگیا کہ دو دشمن ایک ہی ہدف رکھتے ہوں، تو جواب یہ ہے کہ دونوں اپنی اپنی شرائط پر یہ سمجھوتہ چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ہر فریق کتنا اپنی شرائط سے دستبردار ہوتا ہے اور کتنا اپنی شرائط منواتا ہے۔ بعض اوقات دو فریق ایک ہی ہدف رکھتے ہیں، لیکن دونوں کے مقاصد الگ ہوتے ہیں، جسے عراق میں شیعہ بھی صدام سے چھٹکارا چاہتے تھے اور امریکی بھی، لیکن دونوں کے مقاصد الگ تھے، شیعہ چاہتے تھے کہ ظالم صدام جائے اور کوئی صالح حکمران آئے جبکہ امریکہ چاہتا تھا کہ صدام چونکہ چلا ہوا کارتوس ہے، اس لیے یہ جائے اور نیا کٹھ پتلی حکمران آئے، لہٰذا اصل جنگ بعد کے مراحل میں شروع ہوتی ہے۔ 

اس سمجھوتے میں بھی اصل چیز اس کے after effects ہیں۔ پھر رہبر معظم نے اپنی ایک تقریر میں یہ اشارہ کیا تھا کہ اگر یہ سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو یہ بھی ایرانی قوم کیلئے بالکل ایسے ہی ایک تجربہ ہوگا، جیسے ایرانی عوام نے خاتمی دور میں دو سال کیلئے یورینیم افزودگی کو روک کر کیا تھا اور قومیں اپنے تجربات سے سبق سیکھتی ہیں اور آگے بڑھتی ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ اگر یہ سمجھوتہ ناکام ہو جاتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت بھی ایران سے ایٹمی میدان کی قابلیت، مہارت، تجربہ اور استعداد چھین نہیں سکتی۔ ایران نے جہاں سے یہ سفر مؤخر کیا ہے وہیں سے شروع کرے گا۔ اتنا فرق ضرور پڑے گا کہ دوبارہ کام کے آغاز اور پھر اس کے موجودہ لیول تک پہنچنے میں کچھ ماہ کا وقت درکار ہوگا، لیکن یہ تمام تنصیبات اور انسانی تجربہ اور استعداد تو دنیا کی کوئی طاقت ایران سے نہیں چھین سکتی۔ معاہدے کی شرائط میں یہ تو لکھا ہے کہ تین مقامات پر موجود تنصیبات پر کوئی پیش رفت نہیں کی جائے گی، لیکن یہ کہیں نہیں لکھا کہ ایران کی موجودہ ایٹمی صلاحیت کو کم کیا جائے، جبکہ رہبریت کی رہنمائی میں یہ دستور لکھا جاچکا ہے کہ جب تک امریکہ اپنی استکبارانہ روش کو ترک نہیں کرتا، ہر آنے والے دن کے ساتھ استکبار دشمنی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، یعنی مرگ بر امریکہ کی صدائیں بلند سے بلند تر ہوتی جائیں گیں۔ 
بقول علامہ اقبالؒ 
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
 چراغِ مصطفوی سے شرار بولہبی
خبر کا کوڈ : 327275
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

brother MashaALLAH bohot acha tajziya hey lekin ager mozoh ke beja tolani karne va takrari jomlon se perhaz karte tu pherdne walon ke lian zida moride tawajoh hota
Excellent illustrative essay regarding the reality of DOWN WITH USA
United Kingdom
Very nice and informative article
Pakistan
Great and very much informative article. Well done
Pakistan
پیارے بھائی
بعض حقائق کی طرف توجہ فرمائیں۔ یہ جوائنٹ پلان آف ایکشن یعنی مشترکہ منصوبہ عمل ہے۔ فریقین میں ایک طرف ایران اور دوسری طرف ای تھری پلس تھری یعنی یورپی یونین کے تین ممالک اور دیگر ممالک کا نام اس میں واضح طور پر لکھا ہے۔ اسی معاہدہ میں زیادہ سے زیادہ مزید چھ ماہ کے لئے توسیع کی جاسکتی ہے۔ یہ سمجھوتہ امریکہ، صھیونی ریاست اور دیگر ایران دشمنوں کی کھلی ناکامی ہے کیونکہ وہ زیرو انرچمنٹ یعنی افزودگی بالکل بھی نہ ہو کے طلبگار تھے۔ یہ ایران کی واضح فتح ہے اور اس کا کریڈٹ سابق ایرانی صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کو جاتا ہے، جنہوں نے یورینیم کی افزودگی جاری رکھی۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ جب پابندیوں کا آغاز ہوا تو ایران کے پاس ایک سو چونسٹھ سینٹری فیوجز تھے اور آج انیس ہزار ہیں۔ کرسچن سائنس مانیٹر کی رپورٹ ہے کہ نیوکلیئر ایشو پر ایرانی مذاکرات پر ایران کا وہ طبقہ جو مغرب سے تعلیم یافتہ ہے وہ بھی امام خامنہ ای کی جھولی میں آچکا ہے، یہ میں نے حرف بحرف ترجمہ لکھا ہے۔ ایرانی ملت بغیر کسی فرق کے امام خامنہ ای کی طرفدار ہے۔ رہ گئی شیریں عبادی جیسی مخالف تو وہ واشنگٹن پوسٹ میں مقالہ لکھ کر امریکی حکومت پر تنقید کر رہی ہے کہ معاہدہ کیوں کیا، ہم جیسوں کا کیا بنے گا؟ یہ عقب نشینی ایران کی طرف سے نہیں ہے بلکہ امریکہ کی طرف سے ہے۔ امریکہ میں اسرائیلی لابی اور امریکی کانگریس میں موجود ان کے حامی اراکین اتنے بلبلا رہے ہیں کہ وہ نئی پابندیاں لگا کر اس معاہدے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن چونکہ امریکی کانگریس میں قانون سازی سے پہلے مسئلہ ان کی ذیلی کمیٹیوں سے منظور کروانا لازمی ہوتا ہے، لہذا دسمبر میں یہ ممکن نہیں۔ واءٹ ہاوس کے ترجمان جے کارنے نے اس پر منگل کو بیان دیا کہ اگر اس طرح ہوا تو اس معاملے پر دیگر انٹرنیشنل امریکی پارٹنرز بھی ایران کے ساتھ ہوجائیں گے۔ یہ معاہدہ ہوا ہی اس لئے ہے کہ امریکہ یورینیم کی افزودگی پابندیوں کے باوجود روکنے میں ناکام رہا تھا۔ یہ ہر لحاظ سے ایران کی جیت ہے، مرگ بر ضد ولایت فقیہ، مرگ بر امریکا، مرگ بر انگلیسی، مرگ بر منافقین و کفار اور مرگ بر اسرائیل جیسے نعروں کی مکمل جیت اور کامیابی ہے۔
ghulamhussain1979@hotmail.com
ایران کی جیت کے بارے میں مزید تفصیلات یہاں پڑھیں اور ٹوءیٹ اور فیس بک کی شیءرنگ کریں۔http://www.express.pk/story/203156/
انفارمیٹو ضرور ہے مگر ایک بات کا خیال رکھیں کہ اس قدر طولانی اور لینگتھی تحریر کو ایک میں نہیں بلکہ دو یا تین قسطوں میں شائع کریں تو اچھا ہوگا۔ اس سے دو فائدے ہونگے، ایک یہ کہ قاری تھکن محسوس نہیں کریں گے۔ دوئم یہ کہ اس تحریر کے انتظار میں وہ سائٹ کو باقاعدگی سے دیکھتے رہیں گے۔
سید محمد الحسینی
ہماری پیشکش