0
Saturday 7 Dec 2013 23:50

کربلا اور اصلاح معاشرہ (2)

کربلا اور اصلاح معاشرہ (2)
تحریر: فدا حسین بالہامی 
سرینگر کشمیر

مہاتما سے مصلح بڑا:
سماجی ناانصافی اور خرافات سے متنفر افراد کا ردِعمل ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ صرف اپنے سفینہ حیات کو معاشرے کی "الٹی گنگا"سے نکال کر ساحل پر لے آتے ہیں اور اطمینان کی سانس لیتے ہیں کہ انہوں نے توہم پرستی کے بازار سے خود کو نقصان سے بچا لیا۔ برعکس اس کے کچھ افراد نہ صرف اپنے آپ کو سماج کو کج روی سے بچاتے ہیں بلکہ باقی لوگوں کو بھی صحیح سمت لے جانا فرض عین تصور کرتے ہیں۔ وہ سماج کی "الٹی گنگا" سے کنارہ کشی کی بجائے اس کا رخ بدلنے کی جستجو کرتے ہیں۔ اس بات کو مزید واضح کرنے کیلئے مذہبی تاریخ سے ایک مثال اخذ کرنا مناسب  ہے۔ مہاتما بدھ ایک شاہی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ زندگی کے ابتدائی ایام انتہائی ناز و نعم میں گزرے۔ شاہی ٹھاٹ باٹھ میں پلنے والے اس شہزادے کی انتیس سال کی عمر میں معاشرے پر نظر پڑی تو غربت کی ستم ظریفی، بڑھاپے کی لاچاری اور ضعف و بیماری کی درد ناکی دیکھ کر اس سے رہا نہ گیا۔ معاشرے کی ناہمواری اور رعایا کی حالت زار سے مشتعل و مغموم ہوکر سنیاس کی راہ لی اور پھر شاہی محل کی طرف مُڑکر نہیں دیکھا۔ اسی اقدام سے گوتم بدھ لوگوں کی نظر میں "مہان اور مہاتما" بن گئے [4]--- اس کے برعکس مصلحانہ کردار کی جھلک مذہبی تاریخ کے تابناک اوراق میں موجود ہے۔ سرورکائنات نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس کی ابتری کو لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ اس دور کے وحشت ناک حالات اظہر من الشمس ہیں۔ آنحضور کے پاس مہاتما بدھ جیسی شہنشاہی طاقت نہ تھی جسے آپ معاشرے کے سرکشوں کو لگام دے دیتے، عسکری طاقت سے مستضعفین کی پشت پناہی کرتے اور سماج کے پچھڑے طبقے کی خزانہ عامرہ سے امداد کرتے۔ جب آپ نے عرب کی ابتر حالت دیکھی تو شریف خاندان سے تعلق رکھنے والے اس یتیم کی رگ ہمدردی پھڑک اُٹھی، لیکن انہوں  نے راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے مصلحانہ کردار اپنایا۔ آپ نے کبھی بھی معاشرے کی سدھار کیلئے آس کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ نتیجتاً بہت ہی قلیل مدت میں ایک مثالی معاشرہ کو وجود بخشا۔ پس یہ بات ببانگ دہل کہی جا سکتی ہے کہ انسانیت کی رشد و ہدایت "مفرور مہاتما" نہیں بلکہ "پیغمبر اصلاح" ہی کر سکتا ہے۔ اب اگر مسلمانوں کا طبقہ صرف "اصلاح نفس" کو بہانا بناکر سماج سے فرار اختیار کرے تو وہ سنت نبوی سے بالکل مخالف رہبانیت میں مبتلا ہے۔ اسلام اصلاح نفس کیساتھ اصلاح معاشرہ کی بھی تلقین کرتا ہے اور معاشرہ کی اصلاح بغیر از مصلح ممکن ہی نہیں۔ بڑے بڑے گوشہ نشین زاہد ہرگز اس بلند مقام تک نہیں پہنچ سکے جن تک مصلحین کی رسائی باآسانی ہو سکتی ہے کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ "زاہد کے مقابلے میں عالم کا مقام بہت بلند ہے کیونکہ زاہد صرف اپنے آپ کو خدا کی عبادت کی جانب مائل کرتا ہے اور برعکس اس کے عالم ایک سوسائٹی کو خدا پرست بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے"۔

تاریخی المیہ:
تاریخ انسانیت کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ وفاتِ پیغمبر کے بعد حقیقی مرکز و محور کو چھوڑ کر مسلمانوں نے عارضی محور قائم کیا جس کا لابدی نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کا "نظام عدل اجتماعی" درہم برہم ہو گیا۔ اسلامی تہذیب و تمدن کے چہرے کا سنگھار "خلافت جہانگیری کے گردو غبار" سے کیا گیا۔ نکتہ چینوں کو یہ نکتہ فراہم ہوا کہ اسلام بزور تلوار پھیلا ہے، ملوکیت نے باب امامت پر پہرے بٹھا رکھے تھے۔ بظاہر سلطنت اسلامیہ تیزی سے پھیلتی گئی، مسلم افواج نے بہت سی غیر مسلم ریاستوں پر فتح مندی کے جھنڈے گاڑ دیئے مگر دوسری جانب دارالخلافہ پر کفر کی پروردہ ملوکیت قابض ہو گئی یہاں تک کہ یزید جیسا فاجر و فاسق خلافت کی کرسی پر براجمان ہوا۔ یزید جیسے بدکردار کو بےلگام جوانی کا خمار تو تھا ہی، اس پر شراب اور محفل رقص جلتی آگ پر تیل کا کام کر رہی تھی۔ معاشی بدعنوانی، جنسی بے راہ روی، سماجی بےانصافی اور زوالِ اخلاقی کچھ ایسی آفتیں ہیں کہ جن میں تنہا ایک ہی آفت کسی تہذیب و تمدن کو نیست و نابود کرنے کیلئے کافی ہے۔ چہ جائیکہ یہ تمام آفتیں کسی تہذیب کے خلاف بیک وقت صف آرا ہو جائیں۔ یزید نے ان ہی جیسی آفتوں پر اپنے نظام حکومت کی بنیاد کھڑی کر دی۔ بیت المال سے عیش و عشرت کیلئے بےدریغ  دولت  لٹائی جا رہی تھی، جانوروں کو حکومت شام و کوفہ کے دربار میں ایسا  رتبہ دیا جاتا تھا کہ بڑے بڑے درباری مفتی ان جانوروں کے تئیں رشک کرنے لگے۔ خوف و دہشت کے عالم میں بڑے بڑے صحابہ لب بستہ کھڑے تھے۔ اُنہیں معلوم تھا کہ معمولی سی مزاحمت پر جان کے لالے پڑ سکتے ہیں۔ جس وقت پوری مسلم امت کو سانپ سونگھ گیا تھا ایسے میں صرف ایک آواز گونجی، جب سب کے  پایہ استقامت جواب دے چکے تھے بس ایک ہی ہستی کے قدموں کی آہٹ سے شام کی قصر امارت لرزہ براندام ہوگئی۔ جوانی کے خمار میں چور، شراب کے نشے میں بدمست، رقص و سرور کی محفلوں میں مدہوش یزید کو اہل حق کی موجودگی خطرے کی گھنٹی لگنے لگی۔ کبھی کبھار اس گھنٹی کے بجنے سے دونوں نشے یعنی نشہ قوت اور نشہ عیش و عشرت کافور ہو جاتے تھے اور یزید کو بخوبی اندازہ ہو جاتا تھا کہ جب تک حق پرست زندہ ہیں باطل کو حق ثابت کرنا ناممکن سی بات ہے۔ نیز اُسکی فاسد حرکتوں کو شرعی اور سماجی جواز نہیں مل سکتا۔ چونکہ غیر صالح معاشرے میں اللہ کے بندوں کی مثال خس و خاشاک میں موجود چنگاریوں کی مانند ہے، جب بھی مناسب ہوا مل جائے سماجی بدعات کو ایمان کی حرارت سے جلاکر خاکستر کر دیتے ہیں۔

امام برحق نے جب دیکھا کہ یزید کی بدکاری اسکے دربار کی چار دیواری تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ پوری امت کو اپنی لپیٹ میں لے گی تو مصلحانہ ذمہ داری کے پیش نظر اپنی تحریک کا منشور یوں جاری کیا۔«اِنّى ما خَرَجتُ اَشراً و لا بَطراً و لا مُفسداً و لا ظالماً، اِنّما خرجتُ لِطلَبِ الاِصلاح فى اُمَّهِ جدّى، اُريدُ اَن آمُرَ بالمعروفِ و اَنهى عن المنكر و اُسير بسيرهِ جدّى و اَبى علىّ بن اَبيطالب‏» "میں سرکشی اور جنگ و جدال کے ارادے سے نہیں نکل رہا ہوں اور نہ ہی میرا مقصد فسادپھیلانا یا کسی پر ظلم کرنا ہے، بلکہ میں تو اپنے نانا [ص] کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا ہوں۔ میری غرض فقط امر  بالمعروف، نہی عن المنکر اور والد و جد کی پیروی ہے"۔[5]

اس فرمان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امام عالی مقام علیہ السلام نے اپنے جد کی امت کی اصلاح کیلئے قیام کیا تھا۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ جن لوگوں کی اصلاح مقصود تھی وہ کس طرح کے لوگ تھے؟ ان میں کیا کیا خرابیاں تھیں کہ امام کو اتنا بڑا قدم اٹھانا پڑا۔ امام علیہ السلام کے سامنے دو گروہ تھے جو دونوں کے دونوں اصلاح طلب تھے۔ ایک گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو امام علیہ السلام کے نام لیوا اور ان کے پیروکار ہونے کا دعوی تو کرتے تھے لیکن حکومت ِکوفہ و شام کے ظلم و ستم سے اس قدر ہراساں اور خوف زدہ تھے کہ یہ لوگ شاہی دبدبہ کے آگے اپنی عقیدت کے مطابق جذبات کا اظہار نہیں کرسکتے تھے۔ صبح و شام محمد و آل محمد [ص ] پر درود ورد زبان تھا مگر ہاتھ میں تلوار لیکر ان ذواتِ مقدسہ کی نصرت کرنا اُن کے بس کا روگ نہیں تھا۔ انکی نفسیات کا خاکہ مشہور شاعر اہلبیت فرزدق نے یوں امام حسین کے حضور پیش کیا "عراق کے لوگوں کے دل آپ کی طرف مائل ہیں اور اُن کی تلواریں بنی امیہ کی اعانت کیلئے ہیں" [6] ۔ دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو اہلبیت علیہم السلام کی دشمنی کو علامت ایمان سمجھتا تھا۔ شامی حکومت کے پروپیگنڈہ مشینری سے یہ لوگ اس قدر اندھے ہوگئے تھے کہ آفتاب امامت کی ضیاء پاشی کے باوجود حق و باطل میں تمیز کرنا تو دور کی بات، اونٹ، اونٹنی میں فرق کرنے سے قاصر تھے۔ بدھ کو نماز جمعہ ادا کرنے والے، عین خانہ خدا میں منبر رسول پر خطہ جمعہ کے دوران رسول خدا کے عزیز ترین اقرباء پر سب و شتم کو خوشنودی الہٰی کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ [7]

مختصر الفاظ میں امام علیہ السلام کو نادان دشمنوں اور بزدل دوستوں سے واسطہ تھا۔ نادان دشمنوں کے مرضِ تعصب و جہالت کا علاج امام کی "معرفت" تھی اور بزدل دوستوں کی کم حوصلگی کی دوا ہمت و جرات تھی۔ گویا کربلا کی اصلاحی تحریک کو ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ چنانچہ کوئی اور ہوتا تو دوستوں سے مایوس اور دشمنوں سے ناامید ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھتا مگر یہ رسالت کے پروردہ حسین علیہ السلام تھے جو بذات خود آس و امید کا سرچشمہ ہیں۔ انہوں نے اپنی شہادت سے دوستوں کے قلوب کو ابدی حرارت بخشی۔ یوں انہیں ظالم حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا حوصلہ ملا اور دوسری طرف دشمنوں کے پتھر دل بھی موم ہو کر پگھل گئے۔ کوفہ و شام کے بازاروں میں اور دمشق میں رونے کی آوازیں بتا رہی تھیں کہ ایک خفیہ انقلاب برپا ہوا ہے اور امت مسلمہ میں غیرت اسلامی کا احیاء ہوا ہے۔ نتیجتاً مردہ ضمیروں میں نئی روح پڑگئی، گلے میں اٹکی ہوئی سسکیاں نالہ و شیون میں تبدیل ہوگئیں جس سے یزید کی راتوں کی نیند اور دن کا چین مفقود ہو گیا کیونکہ اسے اسلامی ریاست کے گوشہ و کنار سے بغاوت کی بو محسوس ہونے لگی۔ یہ اسی  خوف کا نتیجہ تھا کہ ممکنہ بغاوت کو فرو کرنے کے لئے یزید نے اپنی افواج کو  مدینہ پر چڑھائی کا حکم دے دیا  اس طرح  واقعہ حرہ کی قہر سامانیاں اہلیان مدینہ کو دیکھنا پڑیں اور اگلے سال مکہ پر حملہ کر کے خانہ کعبہ کو نذرِ آتش کیا گیا۔ 

بہرصورت عالم اسلام کے مذکورہ  ناگفتہ بہ حالات کے پیش نظر امام علیہ السلام نے اپنی اصلاحی تحریک کا برمحل و بروقت ایک منظم انداز میں  آغاز کیا۔ جہاں مناسب سمجھا وہاں امت سے خطاب فرمایا، اپنے سفر کے دوران امام علیہ السلام نے ہر مقام پر ہدایت کا سنگ میل نسب کیا اور ہر حق جو کیلئے کوشش و جستجو کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ دن رات اسی فکر میں گزرے کہ کس طرح جد امجد کی گمراہ امت کو راہِ راست پر لایا جائے۔ مفسدوں کے جمِ غفیر میں مصلح اعظم تن تنہا اس الہٰی فرمان پر گوش بر آواز ہوئے۔ "تم لوگوں میں ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہیئے جو خیر کی جانب دعوت دے اور نیکیوں کا حکم دے، برائیوں سے روکے اور یقیناً یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔"[8]

امام حسین علیہ السلام کی رہبری میں کربلا والوں کا اُٹھایا ہوا ہر قدم خداوند کریم کی جانب سے ایک حجت ہے۔ انکی حیات کا ہر نفس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تحریک کو زندگی کی نئی رمق عطا کرتا ہے۔ جس کسی کو بھی کربلا والوں جیسی بصیرت نصیب ہوئی وہ بے جنت و جہنم کے مناظر اسی دنیا میں حجابانہ دیکھ لیتا ہے۔ اُنکی عظیم قربانی سے خیر و شر میں تمیز ہوئی۔ کربلا نے اس قرآنی آیت کا جیتا جاگتا مصداق اسلام کے دامن میں ڈال دیا کہ "اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کیلئے میدان میں لایا گیا، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو"۔ [۹]

اس گروہ میں معاشرے کا ہر کردار دیکھنے کو ملتا ہے۔ کربلائی معاشرے کے جوان پاکبازی، جوان مردی خداترسی کے مجسم ہیں۔ یہاں کے بچے صبر و استقامت کے پہاڑ نظر آتے ہیں، بزرگ افراد ہدایت و رہبری کے زندہ جاوید پیکر ہیں، خواتین کربلا کی مجاہدانہ  زندگی نہ صرف خواتین بلکہ مسلمان مردوں کیلئے بھی ہمت و جرات کا قابل تقلید نمونہ ہے۔ الغرض اس چھوٹے سے معاشرے کے ہر کردار نے تاریخ کے سینے پر انسانی اقدار و اخلاق کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے جو رہتی دنیا تک عالم انسانیت کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ کربلا کی اصلاحی تحریک کا یہ بھی ایک امتیاز ہے کہ یہاں ایک بڑے معاشرے کو سدھارنے کیلئے ایک چھوٹا سا معاشرہ سرگرم عمل ہے۔ اسلامی معاشرہ کے جمود کو توڑنے کی کوشش میں یہ صالح معاشرہ مدینے سے مکہ اور پھر کربلا کا سفر طے کرتا ہے۔ کربلا میں دی گئی قربانی چند افراد کی قربانی نہیں بلکہ ایک مثالی معاشرے کی قربانی ہے کیونکہ انسانی معاشرہ کا ہر رنگ اس چھوٹے سے کربلائی معاشرے میں نظر آتا ہے اور ایک صالح معاشرے کا  کوئی بھی عبادی، عائلی، جذباتی، نفسیاتی، سیاسی، معاشرتی، روحانی، جہادی پہلو یہاں تشنہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ وہ مقصد کتنا عظیم ہوگا جس کی خاطر اتنا عظیم معاشرہ قربان ہوا۔

امام۔۔۔دشمنوں کی اصلاح کے طالب:
کسی عالم دین نے کربلا کے حقیقی مقصد کو پہچانتے ہوئے ٹھیک ہی کہا ہے کہ "تمام انصار و اقرباء کی شہادت کے بعد بھی امام عالی مقام علیہ السلام  اس بات کے متمنی تھے کہ ان کے بدترین دشمن کی بھی عاقبت خراب نہ ہو"۔ ایسی کریمی اور کہاں دیکھنے کو ملے گی کہ آخری دم تک امام چاہتے تھے کہ یزید، عمر بن سعد، عبیداللہ بن زیاد، حرملہ اور شمرذی الجوش جیسے بدترین انسان بھی خداوند کریم کے درِ استغفار کی طرف رجوع کریں۔ فوجِ اعداء کی طرف سے تیروں اور تلواروں کی یورش تھی اور امام دوجہاں کی جانب سے فوج اعداء کو عاقبت ساز خطبے سننے کو ملتے تھے۔ وہ امام کی زندگی کے خاتمے پر تُلے ہوئے تھے اور امام اُنکو دنیا و دین بچانے کا درس دیتے تھے۔ وہ درپئے آزار تھے اور امام عذاب آخرت سے بچنے کا درس دیتے تھے۔ اس صورتِ حال پر ایک عربی شاعر کا یہ مصرعہ بالکل موزوں ہے۔ "اُرید حیاۃ و یرید قتلی"۔ [۱۰] میں اس کی زندگی کا خواہاں ہوں اور وہ میرے قتل کا ارادہ رکھتا ہے۔ امام عالی مقام علیہ السلام مسلسل کوشش کرتے رہے کہ لشکر یذید پر نصیحت آموز باتوں کا اثر ہو جائے۔ یہ لشکر شیطانی، لشکر رحمانی میں تبدیل ہو جائے۔ اتنا بڑا احسان دشمن پر کون کر سکتا ہے کہ دشمن جان کو بھی برائی سے نیکی کی طرف اس وقت دعوت دے جبکہ وہ اُس کو قتل کرنے کی تیاری کر رہے ہوں۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے۔ "من حزرک کمن بشرک و من وعظک احسن الیک" جس نے تمہیں آگاہ کیا اُس نے تمہیں [روشن مستقبل] کی بشارت دی اور جس نے تمہیں نصیحت کی اس نے تمہارے اوپر احسان کیا۔ [11]

کربلا اور آج کا حسینی معاشرہ:
جو امام جانی دشمنوں کی عاقبت کے تئیں اس قدر فکر مند تھے وہ اپنے ماننے والوں کو ہدایت کے کس قدر شیدا ہوں گے، اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ امامت کی پرتو سے یزیدی لشکر کے سالار یعنی حُرکی تقدیر ہی بدل گئی اور امامت کے عقیدے کو جزو ایمان سمجھنے والے کتاب کربلا کے سائے میں اپنی تقدیر سیدھی کیوں نہیں کرسکتے؟
دوستان را کجا کنی محروم
تو کہ با دشمناں نظر داری

عزادارئ امام حسین علیہ السلام معاشرہ سازی کا بہترین ذریعہ ہے۔ عزاداری کا اصل مقصد بھی معاشرہ سازی ہی ہے۔ کربلا کی یاد تازہ کرنے میں تاثیر بھی ہے اور نمونہ عمل بھی۔ یعنی کربلا ایک شخص کو عمل کرنے پر بھی تیار کرتی ہے اور ساتھ ہی عمل صالح کا بہترین نمونہ بھی پیش کرتی ہے۔ واقعہ کربلا میں انوکھا پن یہ ہے کہ یہ  بندے کو خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے پر مائل کرتا ہے اور سجدہ شبیری کا بہترین نمونہ پیش کرکے یہ بھی بتایا ہے کہ سجدہ پروردگار کا حق کیسے ادا کیا جاتا ہے؟ عزاداری کو صرف صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے، معاشرے کے آگاہ افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حسینی معاشرہ کو صحیح سمت کی طرف رہنمائی کریں۔ عام عزادارکو یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی کہ کچھ کیا جائے بلکہ اُسے کوئی یہ بتانے والا ہوکہ کیا کیا کرنا چاہیئے، کس چیز کو اولویت دی جائے۔ ماہِ محرم میں صورت حال کا بھرپور فائدہ اُٹھانے والا ہو تو بھولے بھٹکے افراد بھی دین کی طرف آ سکتے ہیں۔ بےنمازی بھی ماتم حسینی میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے یہ انکا یہ ماتم بےسود ہے، البتہ اگر ہم مصلحانہ اور مثبت زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ سوئے خدا بڑھتا ہوا آدھا قدم ہے۔ چنانچہ جو شخص ذکر حسین پر کمربستہ ہو اُسے ذکر خدا پر آمادہ کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ عزادار جو امام بارگاہ میں آ جائے اس کی صحیح رہنمائی ہو جائے تو وہ خدا کی بارگاہ میں آ کر عبادت گزار بھی ضرور بن جائے گا۔

کربلا کے مثالی معاشرے کو مدنظر رکھ کر تمام سماجی بیماریوں کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔ یزید سے نفرت کا لابدی نتیجہ یہ ہونا چاہیئے کہ اُن برائیوں سے بھی حسین علیہ السلام کے ماننے والوں کو نفرت ہو جن کی وجہ سے حسین علیہ السلام کو قیام کرنا پڑا۔ حُب حسین علیہ السلام حُسن عمل کی متقاضی ہے اور نفرت یزید،  بدی سے نفرت کی جیتی جاگتی علامت ہے۔ کربلا امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور تولا و تبریٰ جیسے اہم فرائض کو شخصی کردار میں پیش کرتی ہے۔ ان کرداروں کو سامنے رکھ کر یہ اہم فرائض بخوبی انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر جیسے فرائض کی ادائیگی صالح سماج جب وجود میں آئے گا تو خیرکا شر پر، اچھائی کا برائی پر رعب طاری ہو گا، اندھیرے پر اُجالے کی بالا دستی ہو گی، عصری یزیدوں کا دائرہ کار اور قافیہ حیات تنگ ہوگا اور ہر حسینی کے ہاتھ پر روزانہ کئی یزیدی بیعت کریں گے۔


حوالہ جات:

-Britannica Encyclopedia, Add 1995, Vol2, pg 602-4

5- تاریخ عاشورہ، ڈاکٹر ابراہیم آیتی

6- تاریخ طبری، ج۵، ص ۳۱

7۔ بحوالہ خلافت ملوکیت – علامہ مودودی

8- سورہ آل عمران، آیہ ۱۰۴

9- سورہ آل عمران، آیہ ۱۱۰

10- لہوف، سید ابن طاووس

11- تجلیات حکمت، ص ۴۶۵



خبر کا کوڈ : 328392
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش