0
Wednesday 11 Dec 2013 01:22

امریکہ اور انسانی حقوق کا عالمی دن

امریکہ اور انسانی حقوق کا عالمی دن
تحریر: محمد علی نقوی

گذشتہ روز دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948ء کو انسانی حقوق کا عالمی منشور منظور کرکے اس کا اعلان کیا۔ یو این او نے تو 1948ء میں یہ منشور بنایا جبکہ اسلام نے 1400 سال قبل انسانی حقوق کا منشور دیا تھا اور اسلام نے تو ہر لحاظ سے احترام انسانیت کا سبق دیا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں حقوق الناس کی معافی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ شخص جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو وہ خود معاف نہ کرے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ انسانی حقوق کی اہمیت، اس پر عمل کرنے اور دوسرے لوگوں کے حقوق کے بارے میں اسلام میں کتنی سختی سے تاکید کی گئی ہے۔ عالم اسلام کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کے غلط آئیدیل کی ضرورت نہیں ہے، جس کی بارہا خلاف ورزی بھی کی جا چکی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا مقام بہت نمایاں ہے۔ اسلام، انسانی حقوق و حرمت کا پاسباں، اخلاقیات و صفات حسنہ کا ضامن اور امن و سکون کا علمبردار ہے۔ بدترین دروغگوئی اور پست ترین الزام تراشی کے مرتکب تو وہ افراد ہو رہے ہیں جو اسلام کو انسانی حقوق، تہذیب و تمدن اور امن و سلامتی کا مخالف قرار دیتے ہیں اور اسے مسلم اقوام پر اپنی ظالمانہ جارحیت و توسیع پسندی کا جواز بنا کر پیش کرتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کے نام اپنے معروف (نہج البلاغۃ، 331 ویں) خط میں ہدایات دیتے ہیں کہ عوام کے ساتھ ایسا برتاؤ کرو، ایسا سلوک کرو، وحشی بھیڑیئے کی مانند ان پر ٹوٹ نہ پڑو۔ اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں: "فانھم صنفان" عوام دو طرح کے ہیں۔ "اما اخ لک فی الدین و اما نظیر لک فی الخلق" یا تمہارے دینی بھائی ہیں یا انسانیت میں تمہارے شریک ہیں، یعنی تمہاری طرح انسان ہیں۔ بنابریں مظلوم کے دفاع اور انسان کو اس کا حق دلانے کے سلسلے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے نزدیک اسلام کی شرط نہیں ہے۔ آپ کی نظر میں مسلم اور غیر مسلم دونوں اس سلسلے میں مساوی ہیں۔ ذرا غور تو کیجئے کہ یہ کتنی بلند فکر ہے اور کتنا عظیم پرچم ہے جو تاریخ میں حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے پیش کیا ہے۔ 

اس وقت کچھ لوگ دنیا میں انسانی حقوق کی رٹ تو لگاتے ہیں، لیکن یہ سراسر جھوٹ اور دکھاوا ہوتا ہے۔ کہیں بھی، حتی خود ان کے ملکوں میں بھی انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا، اسلام تو مجرمین کے حقوق کا بھی خیال رکھے جانے کا قائل ہے۔ کسی کو بھی اس شخص سے بدکلامی کی اجازت نہیں جسے پھانسی دی جانے والی ہے۔ کیونکہ یہ زیادتی ہوگی، گالی دینا ظلم شمار ہوگا، گالی دینا اس کی حق تلفی ہوگی۔ لہذا اس گالی دینے والے کو روکا جانا چاہئے۔ یہ ہے سزائے موت کے مجرمین کے ساتھ سلوک کا انداز تو پھر جیل کی سزا پانے والے اور اس شخص کی بات ہی الگ ہے جس پر عائد الزام ابھی ثابت نہیں ہوا ہے یا وہ شخص جس کے خلاف تہمت کی حقیقت ابھی واضح اور ثابت نہیں ہوئی ہے۔

امریکہ، جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کے دفاع کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے اور اس بہانے سے وہ دنیا کے بہت سے ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت بھی کرتا رہتا ہے، اسکے اپنے ملک میں یہ صورتحال ہے کہ اس وقت امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے اور حکومت کے مہنگے رفاہی پروگراموں کے باوجود ایک طبقاتی اور غیر منصفانہ معاشرے میں تبدیل ہوگيا ہے۔ اسی بنا پر ایک ایسے ملک میں کہ جس میں دنیا کے سب سے زیادہ دولت مند افراد موجود ہیں، ساڑھے چار کروڑ افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پانچ کروڑ افراد میڈیکل انشورنس سے محروم ہیں۔ ساڑھے چار کروڑ افراد حکومت کی امداد پر زندگی گزار رہے ہیں اور امریکہ کے سات فیصد افراد بےروزگار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے چار سو دولت مند ترین خاندانوں کے اثاثوں کی مالیت امریکہ کی نصف آبادی کی دولت کے برابر ہے۔ البتہ ناانصافیاں اور عدم مساوات صرف اقتصادی نہیں ہے بلکہ امریکہ میں برسوں سے جاری نسلی امتیاز کی روایت ہے۔
 
اعداد و شمار کے مطابق ایک سفید فام مزدور کے مقابلے میں ایک سیاہ فام مزدور کی تنخواہ اور مزدوری بہت کم ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب امریکہ میں سیاہ فاموں کی آبادی چودہ فیصد جبکہ جیلوں میں قید سیاہ فاموں کی تعداد تقریباً اسی فیصد ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ امریکی آئین میں ادیان و عبادت کی آزادی ہے جبکہ اس کے برخلاف بعض ادیان کے پیروؤں کو پابندیوں اور امتیازات کا سامنا ہے۔ اس فہرست میں مسلمان سب سے اوپر ہیں کہ جنہیں خاص طور پر گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد انتہائی سخت حالات کا سامنا ہے اور اسلام کے خلاف ایک لہر اور منفی پروپیگنڈا جاری ہے۔ مزدوروں کی کم سے کم اجرت کا تعین امریکہ میں ایک حساس اور اہم مسئلہ شمار کیا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ گذشتہ چند سال سے خاص طور پر امریکہ کے حالیہ بدترین اقتصادی بحران کی وجہ سے امریکہ میں متوسط طبقے خصوصاً مزدور طبقے پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ 

اس بحران کے باعث ایک طرف تو روزگار کے ہزاروں مواقع ضائع ہوئے اور دوسری طرف بےروزگاری کی شرح میں دس فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ اگرچہ اس وقت یہ شرح تقریباً سات فیصد پر رکی ہوئی ہے لیکن بہت سے مزدوروں اور کاریگروں کو اپنی نوکری اور کام کے بارے میں اطمینان نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ امریکہ کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنے بہت سے رفاہی پروگرام ختم کر دیئے ہیں اور اس طرح مزدوروں کی زندگی کی سطح نیچے آگئی ہے۔ اس کے علاوہ غذائی اشیاء کی قیمتوں اور یوٹیلٹی بلز میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایسے حالات میں لیبر یونینوں کا خیال ہے کہ مزدوروں کی کم سے کم اجرت سات ڈالر پچیس سینٹ فی گھنٹہ امریکہ کے موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ وہ حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کو اس میں اضافے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ امریکی حکومت ان کے اس مطالبے کی حمایت تو کرتی ہے لیکن شاید وہ اتنا اضافہ کرنا نہیں چاہتی جتنا لیبر یونینیں مطالبہ کر رہی ہیں۔

گذشتہ ہفتے اس بات کا  بھی انکشاف کیا گيا کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے پوری دنیا میں روزانہ پانچ ارب سے زائد موبائل ٹیلی فون کالز ٹیپ کرتی ہے۔ اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ امریکہ کی اس ایجنسی کا جاسوسی کا یہ پروگرام دوسرے پروگراموں سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ یہ اطلاعات اتنی زیادہ ہیں کہ ایجنسی ان کا فوری تجزیہ و تحلیل کرنے سے قاصر ہے۔ واشنگٹن پوسٹ مزید لکھتا ہے کہ ان اطلاعات کا تجزیہ ایک کمپیوٹر پروگرام "کو ٹریولر" کے ذریعے ممکن ہے کیونکہ جمع کی گئیں صرف ایک فیصد اطلاعات دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے مفید ہیں۔ اس سسٹم کے ذریعے جو تفصیلات حاصل ہوتی ہیں وہ اتنی جدید اور دقیق ہیں کہ حتی جب موبائل آف بھی ہے یا حتی اگر اسے تھوڑے عرصے کے لیے استعمال کیا جائے تو امریکہ کی یہ خفیہ ایجنسی اس بات پر قادر ہے کہ اس کا پیچھا کرسکے۔
 
امریکہ کی شہری آزادی کی یونین کا کہنا ہے کہ امریکہ کا اتنا دقیق سسٹم تعجب کا باعث ہے اور اس قسم کا سسٹم اور غیر ملکی شہریوں کی نجی زندگی کے بارے میں امریکی وعدوں کی خلاف ورزی ہے۔ اب تو دنیا کے معروف مصنفوں نے امریکی خفیہ جاسوس اداروں کے اقدامات کو لگام دینے کے لیے عالمی قوانین طے کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کی آزادی اور جمہوریت خطرے میں ہے۔ پانچ سو سے زائد مصفین چیخ پڑے ہیں کہ امریکی جاسوس اداروں کی ڈیجیٹل ڈیٹا تک رسائی بند کی جائے۔ اس امریکی جاسوسی کے نظام سے لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ برطانوی اخبار کے مطابق 81 ممالک کے 5سو سے زائد مصنف اس بات پر متفق ہیں کہ عالمی طاقتوں کے خفیہ جاسوس ادارے جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہیں۔ عرن دتی رائے، مارگریٹ اٹ ووڈ ،ڈان ڈی لیلو جیسے زیرک افراد کا کہنا ہے کہ امریکی جاسوس اداروں کو نئے بین الاقوامی چارٹر کے تحت لایا جائے۔ جاسوس اداروں کے لاکھوں افراد کے ڈیٹا تک رسائی سے ہر کوئی مبینہ مشتبہ فرد بن رہا ہے۔ انھوں نے اقوام متحدہ سے انڑنیشنل بل آف ڈیجیٹل رائٹس کا مطالبہ کیا، جو دور جدید میں شہریوں کے حقوق کو تحفظ دے سکے۔

دوسری طرف انسانی حقوق کی ذرا سی خلاف ورزی امریکہ مخالف کسی ملک میں ہو تو امریکہ اور اسکی حواری این جی اوز کے اہلکار حرکت میں آجاتے ہیں، لیکن یوں لگتا ہے کہ ان عالمی تنظیموں کا دائرہ کار صرف تیسری دنیا اور امریکہ مخالف ممالک تک محدود ہے۔ تمام ضابطے اور قوانین صرف تیسری دنیا کے ممالک کے مظالم پر نظر رکھنے کے لئے بنائے گئے ہیں، کیونکہ پچھلے دس برسوں کے دوران افغانستان، عراق، ایران، پاکستان، بحرین، شام اور لبنان وغیرہ امریکہ  اور اسکے حواریوں کی جانب سے ڈھائے گئے مظالم سے پریشان ہیں، امریکی فوجیوں کے مظالم نے تاتاریوں کو بھی مات دے دی ہے۔ ایک امریکی جریدے رولنگ اسٹون میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی معصوم اور بے گناہ افغانی شہریوں کو ہلاک کرنے کے بعد نہ صرف خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں بلکہ جشن فتح مناتے ہیں اور افغانیوں کی لاشوں کے جسم سے مختلف اعضاء کاٹ کر انہیں بطور یادگار اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ رولنگ اسٹون نامی ویب سائٹ پر یہ تمام مناظر ڈیتھ اسکواڈ کے عنوان کے تحت دیکھے جاسکتے ہیں۔

ڈیتھ اسکواڈ اور کلنگ ٹیم کے عنوانات کے تحت اس ویب سائٹ پر بے گناہ افغان بچوں کو امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، مگر حیرت کی بات ہے کہ ظلم و بربریت کی یہ داستانیں عالمی حقوق کی تنظیموں کے محضر نامے پر درج ہونے سے رہ جاتی ہیں۔ سعودی عرب اور خلیج فارس کے عرب ملکوں میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور اس ملک میں عوام کی وسیع پیمانے پر سرکوبی پر امریکہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔؟ یقینی طور پر امریکہ، خلیج فارس سمیت دوسرے ملکوں میں اپنے سے وابستہ شاہی اور کٹھ پتلی نظام حکومت باقی رکھنے کا خواہاں ہے۔ ان ملکوں میں امریکی مفادات اس بات کا باعث بنے ہوئے ہیں کہ وہ ان ملکوں میں آمرانہ حکومتوں اور قدامت پسند حکمرانوں کا حامی مستقل حامی ہے۔ 

مثال کے طور پر بحرین اور سعودی عرب کی حکومتیں ایسی دو عرب نمونہ حکومتیں ہیں، جو اپنے ملکوں کے عوام کے خلاف جارحانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں، پھر بھی انھیں یورپ و امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے، یہان تک کہ امریکہ، ان ملکوں میں عوامی احتجاجات کچلنے کیلئے آل خلیفہ اور آل سعود حکمرانوں کو ضرورت کے تمام ہتھیار بھی فراہم کر رہا ہے، البتہ امریکہ کے ان دوہرے معیارات کی کہانی کوئی نئی نہیں۔ یہ اس کا بہت پرانا چلن ہے۔ سترہویں تا بیسویں صدی اور جنگ عظیم کے بعد ہونے والی ہر سازش میں امریکی بداعمالیوں کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ جنوبی اور شمالی کوریا کی جنگ میں 20 لاکھ افراد کی ہلاکت ہو، ویت نام کی جنگ میں 41 لاکھ نفوس کی نسل کشی ہو یا افغانستان میں 30 لاکھ مسلمانوں کی شہادت ہوئی اور عراق میں کیمیائی ہتھیاروں سے قتل عام جیسی واقعات امریکی سفاک تاریخ کے گواہ ہیں ہر واقعے کے پیچھے امریکی چالبازوں کی چالبازیاں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں۔ 

معروف پاکستانی تجزیہ نگار واصف ناگی کے بقول امریکہ جو ویسے تو بے شمار باتیں انسانیت کی خدمت کے حوالے سے کرتا ہے لیکن جس قدر انسانی حقوق کی پامالی امریکہ اور اس کا حواری اسرائیل نے کی اور کر رہا ہے، شاید ہی کسی ملک نے اتنی انسانی حقوق کی پامالی کی ہو۔ آج امریکہ مسلم ممالک میں جو کچھ کر رہا ہے، کیا وہ انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے کر رہا ہے۔ کئی برس قبل امریکہ نے ویت نام میں جو کچھ کیا، جاپان پر ایٹم بم برسائے، آج امریکہ کی جیلوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ یا شام اور بحرین میں جو کھیل امریکہ کھیل رہا ہے، کیا اس سے انسانی حقوق کا منشور مزید مضبوط ہو رہا ہے یا امریکہ مسلم ممالک کو پتھر کے زمانے میں دھکیل رہا ہے۔ کیا اس دن کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منانا دنیا کے ان کروڑوں انسانوں کے ساتھ جو آج ظلم و ستم کا شکار ہیں اور بنیادی حقوق سے محروم ہیں بھیانک مذاق نہیں ہے، اس لئے کہ یہ  تمام ظلم و ستم انسانی حقوق کے دعووں کے ساتھ ہی ہو رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 329432
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش