1
0
Friday 20 Dec 2013 01:44

ہاشم (ع) و اُمیہ کی جنگ جاری ہے ۔۔۔۔۔

ہاشم (ع) و اُمیہ کی جنگ جاری ہے ۔۔۔۔۔
تحریر: سید قمر رضوی

خادمِ کعبہ عبدالمناف (ع) کو خدا نے جڑواں بیٹے عطا کئے۔ بچے آپس میں یوں جڑے ہوئے تھے کہ ایک کا پاؤں دوسرے کے سر سے متصل تھا۔ یہ ایک مشکل صورتِ حال تھی۔ دینِ ابراہیمی پر کاربند عبدالمناف (ع) کی نظر میں ذی روح کی جان بچانے کی ازحد کوشش واجب تھی۔ سو فیصلہ کیا کہ بچوں کی جان بخشی کی خاطر دونوں کو جدا کیا جائے۔ نجم شناسی کا دور تھا۔ ایک نجومی نے پیش گوئی کی کہ اگر ان بچوں کو جدا کیا گیا تو خون بہے گا، جو اس بات کا غماز ہوگا کہ دونوں  کی نسلوں میں  ابدی دشمنی چلے گی جسکا کوئی اختتام نہ ہو گا۔ توحید پرست عبدالمناف نے توہم پرستوں کی منطق پر خدا کی مرضی کو ترجیح دی اور نوزائیدگان کی  زندگی کا سلسلہ جاری رکھنے کی نیت سے جراحت کا حکم دیا۔ یوں دونوں کے اجسام جدا کر دیئے گئے۔ جس بچے کا پیر دوسرے کے سر میں پیوست تھا اسے ہاشم (ع) کا نام دیا گیا جبکہ دوسرا عبدالشمس کہلایا۔ ہاشم ایک نیکدل، بااخلاق، مہذب، باکردار اور وجیہہ صورت میں سامنے آیا جس نے جہل زدہ معاشرے میں حق و صداقت کا چراغ روشن کئے رکھا۔ خدا نے عبدالشمس کو اولاد سے نہ نوازا۔ چنانچہ اس نے کسی قصاب کے کارندے کو اپنے بیٹے اور جانشین کے طور پر چن لیا۔ قصاب کے اس شاگرد کا نام اُمیہ تھا جسکے شجرے کا بھی کچھ معلوم نہ تھا۔ اُمیہ ایک جاہل، بداخلاق، سنگدل، حاسد اور جھگڑالو قسم کا انسان تھا کہ جسکو انسان کہنا خود  انسان کی توہین ہے۔

اب  صورتِ حال یہ تھی کہ ایک ہی مقام پر دو مختلف طبیعتوں کے انسان موجود تھے۔ ایک رحمانی طبیعت تھی جبکہ دوسری شیطانی جن میں ہمہ وقت چپقلش رہتی۔ ایک اپنے جد پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کے توحیدی دین پر عمل پیرا رہا جبکہ دوسرے نے بت پرستی، شرک اور جہل کو اپنا مذہب قرار دیا۔ ہوتے ہوتے وہ وقت آیا جب عبدالمناف (ع) نے کعبہ کی چابی اپنے جانشین اور اس عالی منصب کے اہل  ہاشم (ع) کے حوالے کی۔ ہاشم کی اس منزلت پر اُمیہ سیخ پا ہو گیا جس نے ہاشم سے ایک سرد جنگ کا اعلان کر دیا جسکے ذیل میں اس نے اپنے دشمن کو نیچا  دکھانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ہاشم نے اپنے عالی نسب ہونے کا بھرپور مظاہرہ کیا اور جنگ سے ہرچند پہلو تہی کی کوشش کی۔

ہاشم نے اپنی خدائی ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے نبھایا۔ خدا نے ہاشم کو شیبہ نامی فرزند سے نوازا۔ کچھ عرصے بعد ہاشم نے داعیء اجل کو لبیک کہا اور یوں شیبہ (ع) کی کفالت ہاشم کے چھوٹے بھائی مُطِلب کے کاندھوں پر آئی۔ مُطِلب نے بھی ایسا حقِ پرورش ادا کیا کہ قیامت تک کے زمانے نے شیبہؑ کو اس کے اسمِ اصل کی بجائے عبدالمطِلب کے نام سے شناخت کیا۔ دوسری جانب اُمیہ کو خدا نے کثیر الاولاد بنایا لیکن سب کے سب ایک سے بڑھ کر ایک بد۔ اس خاندان میں شرافت کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اُمیہ کی بدطینت اولاد میں سب سے زیادہ برا انسان حرب تھا۔ جس نے کئی مرتبہ عبدالمطلب (ع) کو راستہ سے ہٹانے کی کوشش کی۔  حرب کے یہاں بھی ایک کینہ پرور اولاد نے جنم لیا جس کا نام اس نے ابوسفیان رکھا۔ ادھر خدا  بنی ہاشم کی حفاظت کرتا رہا اور عبدالمطلب کو نہ صرف زندگی دی بلکہ کئی نیک  اور طاہر فرزند عطا کیے جن میں سے ایک کا نام  عبداللہ (ع) اور ایک کا نام عمران (ع) تھا۔ اب وہ وقت آن پہنچا تھا کہ جب خدا نے اس کائنات کو اسکا مقصودِ تخلیق عطا کرنا تھا۔ چنانچہ اس نے عبداللہ (ع) کے گھر میں اپنی سب سے افضل اور طاہر ترین مخلوق یعنی محمد مصطفےٰ (ص) کو متولد کیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے میں عبداللہ (ع) کو اپنے پاس واپس بلوا لیا۔ اب محمدِ عربی (ص) کی کفالت و حفاظت کا ذمہ آپکے دادا عبدالمطلب (ع) اور کچھ عرصے بعد  چچا عمران المعروف ابوطالب (ع) کے توانا کاندھوں پر آ گیا۔ خدا نے ابوطالب (ع) کو بھی کئی فرزندوں سے نوازا جن میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر وہ ہستی ہے جو دراصل مقصودِ کائنات کا مقصود تھی۔ اس ہستی کو خدا نے اپنا نام یعنی علی دیا۔  یوں خدا نے محمد (ص) و علی (ع) کی صورت میں یک جاں دوقالب کا جیتا جاگتا مظہر پیش کیا۔

بنو اُمیہ کی بنو ہاشم سے دشمنی اب ایک کھلی ہوئی جنگ کی صورت اختیار کر چکی تھی، جہاں اُموی وارث ابوسفیان،  ہاشمی وارث محمد کے خون کا پیاسا تھا۔ ابوسفیان نے اپنے شیطانی حربوں کو کامیاب بنانے کے لئے شادی بھی کی تو بنو اُمیہ کی بدترین عورت ہندہ سے جو تاقیامت عورت کے  پاکیزہ نام پر ایک بدنما دھبہ رہے گی۔ ابھی تک تو صرف کعبہ کی کلید برداری تھی جو بنو اُمیہ کے سینے میں آگ کی مانند بھڑک رہی تھی کہ خدا نے اپنے پیغمبر محمد (ص) کو اعلانِ بعثت کا حکم بھی صادر فرما دیا۔ نبوت کا بنو ہاشم  میں آ جانا بنو اُمیہ کے لئے ناامیدی کا ایک اور تیر تھا جو سیدھا ابوسفیان کے کلیجے میں پیوست ہوا۔ خدا کے صادق دین کی تبلیغ و تریج میں جو سب سے نمایاں رکاوٹ پیش تھی اسکا نام تھا آلِ اُمیہ۔ یہ واحد نسل کائنات کی تمام غلاظتوں کو اپنے ناپاک وجود میں سموئے ہوئے تھی۔ پیغمبرِ ختمی مرتبت، آپکے خانوادے اور اسلام کو جتنی مشکلات درپیش ہوئیں، ان کا براہِ راست یا بلاواسطہ محرک یہی بنو اُمیہ تھے۔ چاہے وہ  لاتعداد جنگیں ہوں، شعب ابی طالب کی قید ہو، جلا وطنی ہو، ہجرت کی صعوبتیں ہوں یا آلِ محمد سے دشمنی کے اِجرا کے لئے افزائشِ نسل۔

آلِ اُمیہ وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے تمام زمانوں میں زمین کے طول و عرض پر حق و عدالت کے ساتھ جنگ کی اور مصباح الہدیٰ کو خاموش کرنے میں کوشاں رہے، چاہے میدانِ بدر و احد ہو، صفین و کربلا ہو یا اس کے بعد آج تک کی حق و باطل کے مابین جاری جنگیں ہوں لیکن خدا کا جاری کردہ چشمہء فیض بھی ایک لمحے کو نہیں رکا۔ بنو ہاشم کے آفتاب محمدؑ و علیؑ اور آپکی پاکیزہ ذریتؑ کی صورت میں ضوفشاں رہے۔ بدر، احد، خندق، صفین ہو یا کہ کربلا۔۔۔ ہدایت کا چراغ  ہمیشہ روشن رہا۔ بنو اُمیہ کی پھونکیں اسکا کچھ بگاڑ نہ سکیں۔ آلِ ہاشم (ع) سے آلِ اُمیہ کا عناد اس حد تک پہنچا کہ جنگِ احد میں ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے آنحضور (ص) کے چچا سید الشہداء جناب حمزہ (ع) کے جسم کو چاک کرکے آپکے اعضاء کا گلوبند تیار کیا۔ آپکے سینے کو چیر کر کلیجہ نکال کر چبایا۔ آپکے لہو سے اپنے ہونٹوں کو رنگین کرکے دنیا کے سامنے بت پرستوں کی شیطانی ماں کالی ماتا کا جیتا جاگتا مظہر بن کر پیش کیا۔ بغض و عناد کی ان تمام حدود کو پار کرکے بھی اس خاندان کو چین نہ آیا۔ میدان سے لوٹتے ہوئے ابوسفیان نے جنابِ حمزہ (ع)  کے پامال لاشے کو ٹھوکریں مار کر دانت پیستے ہوئے کہا کہ اگلے سال ہم پھر بدر میں نمودار ہوں گے۔ اس کے بعد ابوسفیان نے اسلام،  پیغمبرِ اسلام  اور فدایانِ اسلام کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اسی  ابوسفیان کی بدولت خندق کا معرکہ پیش آیا۔ اسی شخص نے مسلمانوں کے مرکز مدینہء طیبہ کو تاراج کرنے کے لئے مدینہ کے یہودیوں سے سازباز کی ۔ یہی ابو سفیان تھا جس نے مہاجرینِ حبشہ کو بےگھر کرنے کے تمام اقدامات کئے۔ الغرض ہر طرح کی شرمناک حرکتیں کرنے کے باوجود بھی جب بنی اُمیہ اسلام کو نہ مٹا سکے تو انہوں نے سوچا کہ ہماری اتنی مخالفت کے باوجود اسلام ختم نہیں ہوا تو ہمیں چاہیئے کہ ہم مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچائیں۔ اس طرح ہمیں دو بڑے فائدے ہو جائیں گے۔ اول تو اپنی جان بچ جائیگی، دوم مستقبل میں اسلام کے پیکر پر توانا ضرب لگانے کے بھی قابل ہو جائیں گے۔ یعنی ان کی سوچ صرف یہی تھی کہ اگر بیرونی جارحیت کی وجہ سے ہم اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکے تو اندرونی سازشوں کے ذریعے سے اسلام سے انتقام لیا جا سکتا ہے اور فتح مکہ کے وقت انہوں نے اپنی تدبیر پر حرف بہ حرف عمل کیا ۔

نیمہء رمضان کے دن ہیں کہ خدا نے فتحِ مکہ کی صورت میں بنو ہاشم (ع) کے چاند محمدِ عربی (ص) کے دونوں ہاتھوں پر ہر طرح کی کامرانی کے گلدستے سجا کر پیش کر دیئے ۔ بنی اُمیہ کے یہ دہشت گرد قیدی بنے سامنے کھڑے ہیں، جنکے تصورات میں بنو ہاشم پر توڑے گئے ظلم و مصائب کے تمام پہاڑ جمے کھڑے ہیں۔ سیدالشہداء کی لاش کی بےحرمتی، ہزاروں مومنین کا قتلِ عام، معاشی پابندیاں، مستورات کی عصمت دری، بچوں کو بھوک و پیاس سے مار ڈالنا۔۔۔ انتظار میں ہیں کہ کب ان جرائم کی سز ا سنیں۔ رسولِ رحمت (ص) کے پاس  موقع تھا کہ اپنے اجداد، اپنی ذات، اپنے خانوادے اور اپنے اصحابِ باوفا پر ہونے والے ایک ایک ظلم کا حساب چکایا جاتا لیکن سنتِ نبوی، دراصل سنتِ الٰہیہ کا احیا ہوتی ہے۔ جس طرح خدا نے اپنے دشمن کو اسکی گستاخی کی سزا نہ دی اور اسے کھلا چھوڑ دیا کہ جتنا مکروفریب کرنا چاہے کرلے۔ حاملانِ ایمان کو تو کیا زِک پہنچائے گا، یہ خود اپنے آپ کو بےنقاب کرکے لعنت کے اس طوق کا وزن بڑھاتا جائیگا جو روزِ الست اس نے خود اپنے گلے میں لٹکایا ہے۔ بالکل اسی طرح محمدِ عربی نے آج کے ابلیس کو بھی آزاد کر دیا کہ یہ اپنی افزائشِ نسل بھی جاری رکھے۔ ہاشمی خون سے اپنے عناد کو بھی برقرار رکھے اور ہر ہر دور میں  ازخود بےنقاب ہو کر خدا، ملائکہ اور مومنین کی لعنت کے طوق کا وزن بڑھاتا رہے یہاں تک کہ اپنے جد کے ہمراہ عدالتِ خداوندی میں پیش ہو جائے۔ رسولِ ہاشمی نے نظامِ خدا کا نفاذ کیا جسے یہ بدنیت  شخص حکومت کہتا رہا۔ اسی حکومت اور برتری کی لالچ نے اس خانوادے سے اتنے ظلم کروائے تھے کہ رسولِ اسلام (ص) کو کہنا پڑا کہ دیگر تمام انبیاء کے مصائب ایک طرف اور تنہا محمد (ص) کے مصائب ایک طرف۔ لیکن خدا کے کام بھی نرالے ہیں۔ اس نے علم، صبر، حلم، امن اور کشادہ قلبی جیسی اپنی صفات کو بنو ہاشم کا طُرہء امتیاز بنائے رکھا اور دنیاوی حکومت کو بنو اُمیہ ہی کے منہ پر دے مارا کہ جی بھر کے خدا کے نظام کے خلاف سازشیں کرے۔ چنانچہ اس خانوادے کے بدترین لوگ حکومت پر قابض رہے اور رسولِ نور (ص) کے بعد آپکے بھائی، آپکے بیٹوں اور آلِ ہاشم پر ظلم و تعدی کا وہ گھناؤنا کاروبار شروع کیا کہ یقیناً انکے اجداد بھی اپنی اولادوں کی ان حرکتوں پر لرز اٹھے ہوں گے۔

وصیءرسول (ع) کی ذاتِ اقدس پر منبر و محراب سے سب و شتم، فرزندِ رسول (ع) کو زہر سے شہید کرنا اور کربلا برپا کرنا بنو اُمیہ کے وہ مظالم ہیں کہ جنکی خدا کے یہاں کوئی معافی نہیں۔ دوسری جانب خدا و رسول کی سنت پر عمل پیرا خانوادہء حق بھی اپنے دشمن کو ڈھیل دے کر ذلیل و رسوا کرتا رہا۔ ورنہ اُموی حشرات کو پیروں تلے روند کر کہانی کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دینا بنو ہاشم کے لئے چنداں دشوار نہ تھا۔ حق تو یہ تھا کہ جوانانِ بنی ہاشم (ع) سے  کربلا میں بدر و احد کا  بدترین بدلہ چکا دیا تو ظلم کے اس باب کو بند کر دیا جاتا لیکن نظامِ شیطان کی تسکین اس طرح ممکن نہ تھی، چنانچہ معرکہء کوفہ و شام برپا کیا گیا۔ مخدراتِ بنی ہاشم کی بےحرمتی کی گئی اور انہیں در بدر پھرا کر درباروں میں قیدی بنا کر کھڑا کیا گیا۔ شراب کے جام لٹا کر شیطانی قہقہے بلند کئے گئے۔ اس وقت تصورات میں اپنے لعین اجداد کو رسولِ گرامی (ع) کی قید میں کھڑا ہوا پایا۔ اس تصور نے بنو اُمیہ کے جانشین کے تن بدن میں سرایت کی ہوئی غصے کی آگ بھڑکا دی۔ یہ لعین ابن ِلعین ابنِ لعین آسمان کو چیرنے کے انداز میں گویا ہوا کہ کاش آج میرے اجداد زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے بدر و احد کا بدلہ لے لیا ہے۔ میں خندق کی اولاد نہیں ہوں جو احمد (ص) کی اولاد سے بدلہ نہ لے۔ ہاہاہاہاہاہا ہا۔۔۔۔ مخدراتِ عصمت کو قید کرکے اور اپنے اس شیطانی عناد کا اعلان کرکے یزید نے دراصل سال  ہا سال سے مصلحتاً خاموش ہاشمی غیرت کو للکارنے کی ناپاک جسارت کی۔ بالفاظِ دیگر طاقت کے نشے میں چُور ایک بزدل شکاری نے شیر کی کچھار میں پتھر پھینکا۔

جواباً خونِ ہاشمی کو جلال آیا جس نے اس ملعون کی نسل کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ " چپ کر جا میرے نانا کے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد! آج تو آلِ رسول (ع) کو قتل کر کے اپنے بدکردار اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔ تیرا کیا خیال ہے کہ  وه تجھے سن سکتے ہیں؟! جلدی نہ کر۔  عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان گنگ ہو جاتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا۔ اے یزید! یاد رکھ کہ تونے جو ظلم آلِ محمد (ع) پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے  اور جبرئیلِ امین،  آلِ رسول (ع) کی گواہی دیں گے۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعہ تجھے بدترین عذاب میں مبتلا کر دے گا اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے۔ عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہلِ اسلام پر مسلط کیا۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں۔

اے یزید! یہ گردشِ ایام اور حوادثِ روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد انسان  سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں۔ لیکن یاد رکھ ! میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے۔ میری اس جراتِ سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بدسلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔
اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کر ڈالا ہے اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑیئے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بےحرمتی کر رہے ہیں۔

اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بدکرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہو گا۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے۔ اے یزید! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھرپور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجهے معلوم ہونا چاہیئے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے۔ تو یہ خیالِ خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا۔ تونے جس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بدنما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے۔ تری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لئے خدا کی لعنت ہے۔

ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد حضرت محمد مصطفی (ص) کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور امام حسین (ع) کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بےشک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لئے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے۔" یہاں دخترِ رسولِ ہاشمی نے  کلامِ ہاشمی کے یہ نشتر اس طرح  برسائے کہ حکومت، دولت و اختیار رکھنے کے باوجود یہ قبیلہ  اخلاقی و معنوی شکست سے دوچار ہو کر رہ گیا۔ یہی دولت و حکومت ان کے لئے تاقیامت کلنک کا نشان بن گئی۔ لعنت کے جس نشان کو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر جن شیاطین نے اسے برباد کرنا چاہا تھا، آج وہ اس طرح سے برہنہ ہوئے کہ  چودہ سو سال پر محیط تمام دولت، حکومت اور اختیارات کا جائز و ناجائز استعمال کرکے بھی اپنی پیشانیوں سے اس نشانِ لعنت کو مٹا نہ سکے۔ ہزار کوشش کی کہ دخترِ رسول (ع) کا داغا گیا یہ نشانِ لعنت محرابِ سجدہ کی صورت میں نظر آئے لیکن خون کی غلاظت چہروں اور اعمال سے ہمیشہ عیاں رہتی ہے۔

نجومی نے کہا تھا ۔۔۔ اور ٹھیک ہی کہا تھا کہ ان دونوں کی نسلوں میں تاقیامت ایک جنگ جاری رہے گی۔ ابھی قیامت برپا نہیں ہوئی، اسی لئے ہاشم (ع) و اُمیہ کی جنگ جاری ہے۔ ہاشمی انداز آج بھی ادب، اخلاق، علم، حلم، صبر، استقامت، شجاعت اور انصاف کا بول بالا کر رہا ہے۔  اسکے قتال میں بھی کوئی بےگناہ شامل نہیں جبکہ اُموی انداز آج بھی وہی ہے۔ کبھی چھپ کر، کبھی بھیس بدل کر اور کبھی عیاری سے ہاشمی چراغ کو بجھا دینا۔ چاہے اس چراغ کو بجھانے کے لئے دوسرے کئی چراغ بھی بجھ جائیں۔  لیکن یہ چراغ کیسے بجھ سکتا ہے کہ جسکی ضوفشانی کا وعدہ خدا نے کر رکھا ہے۔ یزید کوئی اولادِ خندق نہ تھا جو اپنے اجداد کی ذلت کا بدلہ نہ لیتا تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ آج اولادِ یزید معرکہءشام کو بھول جائے۔ ذلت کا وہ طوق جو دخترِ رسول (ع) نے یزید و آلِ یزید کے گلے میں لٹکایا تھا، کے وزن سے یہ شیطانی قبیل بلبلا اٹھا ہے۔ چودہ سو سال پر محیط یہ لعنت زمین و آسمان کے طول و عرض سے اس خانوادے پر مسلسل برس رہی ہے جس سے دلبرداشہ ہو کر یہ زمین کے طول و عرض میں ہاشمی چراغ کو گل کرنے کے لئے خون کی ندیاں بہا رہا ہے۔ حکومت، دولت، طاقت، وسائل، ذرائع ابلاغ اور عدلیہ پر مشتمل ہر طرح کی مدد اسی کے شاملِ حال ہے جسکے بل بوتے پر ایران، عراق، شام، لبنان، پاکستان، افغانستان، بحرین اور دنیا کے دوسرے خطوں میں اسکی شیطانی کاروائیاں جاری ہیں۔

آج بھی قصاب اُمیہ کی نجس اولاد شریف انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ یہ چاقو، چھرے اور ٹوکے چلا کر معصوم انسانوں کو ذبح کرنا اپنا فخر سمجھتی ہے۔ اسکی ناک میں نجس جانور کی سونگھنے کی صلاحیت ہے۔ اسے اپنے اجداد کا منہ کالا کرنے والوں کی اولاد کے خون کی مہک دیوانہ کر ڈالتی ہے۔ یہ اپنی ُامویت و شیطنت کے جنون میں مبتلا کبھی خودکش دھماکے کرتی ہے تو کبھی مومنین کو ذبح کرتی ہے۔ یہ اُموی ٹولہ آج بھی منبر و محراب پر قابض ہے جہاں آلِ رسولؑ کے متوالوں پر شب و ستم تو کرتا ہی ہے، ساتھ ساتھ سادہ لوح مسلمانوں کو ان کے دین سے بے راہ کرکے اپنے ساتھ جہنم میں جھونک رہا ہے۔ آج بھی اولادِ ہندہ کے منہ کو ہاشی خون لگا ہوا ہے جو شہدائے شام کے سینوں کو چیر کر انکے کلیجے چبا رہی ہے۔ اولاد و اصحابِ رسول کے بقعہءنور بنے مراقد اس شیطان کو جینے نہیں دیتے سو یہ خاموش قبروں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالتا ہے۔ لیکن کیا کریں! جتنا مصباحِ ہاشمی کو گل کرنے کی تدبیر کی جاتی ہے یہ اسی قوت سے جگمگا اٹھتا ہے۔

کئی صدیاں بیت گئیں۔ انسان نے خاک کی خاک چھاننے سے لیکر آسمان کے راستوں تک کو طے کرلیا۔ دنیا طرح طرح کے تجربات کرکے انسان اور انسانیت کی معراج کی فکر میں غلطاں ہے لیکن زمانہء جاہلیت کی پیداوار اس ابوجہلی و ابوسفیانی ٹولے کو انسانی وقار ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ اسکی آج بھی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح سے بیغمبرختمی مرتبت (ص) کی شریعت کا علمی باب بند کرکے دنیا کو واپس اسی  زمانہء جاہلیت میں پہنچا دیا جائے جہاں صرف اس خونخوار ٹولے کا راج تھا اور انسان مظلوم تھا۔ آج بھی جہاں کہیں مظلوم انسان اور انسانیت کے وقار کا تذکرہ ہو تو یہ ٹولہ سیخ پا ہو جاتا ہے۔ چودہ سو برس قبل  اپنی ہی بادشاہت میں، اپنے ہی سجائے گئے دربار میں، اپنے ہی مہمانوں کے سامنے اپنے پیشوا کے منہ پر پڑنے والے زینبی کلام کے وہ طمانچے آج بھی اسکی نجس سماعتوں میں گونج کر اسکو دیوانہ کئے جا رہے ہیں۔ اسی دیوانگی کے عالم میں یہ اُموی ٹولہ  آفتابِ ہاشم کو گل کرنے کے قصابانہ اقدامات کرتے ہوئے اپنے اسی انجام کی جانب گامزن ہے جہاں اسکے اسلاف اپنے آپ کو روسیاہ کرتے ہوئے نارِ حامیہ کی اتھاہ گہرائیوں میں منہ کے بل گرتے رہے ہیں۔ جبکہ شہادت جیسے عظیم مرتبے کو خدا نے بنو ہاشم کا افتخار قرار دیا تھا، سو آج بھی اپنے پیغمبر (ص) اور اسکی پاکیزہ آل کے نام پر اپنے مادی اجسام کو مثلِ حمزہؑ ٹکڑوں میں بٹوا کر اس ابدی سفر پر نکل کھڑا ہونا ہاشمی پیروکاروں کا ہی جگر ہے کہ جسکا اول ترین پڑاؤ کوثر و تسنیم کے نخلستان ہیں، جہاں اول ترین میزبان جوانانِ بنو ہاشم ہیں۔

نجومی نے پیش گوئی کی تھی۔۔۔۔ اور درست ہی کی تھی۔۔۔ کہ دونوں کا خون زمین پر ٹپکا تو کبھی رکے گا نہیں۔ لیکن  بات تو بہت پرانی ہے کہ جب خدا نے ارادہ کیا تھا کہ میں زمین میں انسان کو اپنا نمائندہ بناؤں گا۔ اسی لمحے خدشات نے جنم لیا تھا کہ جہاں انسان ہو گا، وہاں خون تو بہے گا لیکن خدا کا جواب تھا کہ جو میں جانتا ہوں، وہ تمہیں کیا معلوم؟  واقعی ملائک یا جن و انس کو کیا معلوم  کہ یہ جنگ کب تک چلے گی۔ ابھی تو چند صدیاں ہی بیتی ہیں۔ دو قبیلوں کی جنگ دراصل ذاتی نہ تھی، نظریاتی تھی۔ آج بھی دو نظریات کی جنگ ہے۔ خدائی اور ابلیسی جنگ، ہاشم (ع) اور اُمیہ کی جنگ، حسین (ع) اور یزید کی جنگ ۔۔۔ نہیں حق اور باطل کی جنگ۔۔۔   خدا ہی جانے کہ یہ جنگ کب تک جاری رہے گی لیکن یہ بات خدا کے علاوہ ملائک اور جن و انس بھی جانتے ہیں کہ فتح  ہاشم کی ہو گی، حسین کی ہو گی، حق کی ہو گی۔۔۔ نمائندہ خدا،  وارثِ حسین،  حق الیقین (عج) ۔۔۔ ابلیس، اُمیہ اور باطل کے چہرے سے نقاب کی آخری پرت کھینچ کر خدا کے اُس ارادے کو یوں عیاں فرمائے گا کہ سب ہی جان جائیں گے جو روزِ الست لاعلم تھے کہ تخلیقِ انسان میں خدا کی کیا مصلحت پوشیدہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 332252
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ قمر بھائی سلامت رہیں۔
ہماری پیشکش