0
Wednesday 1 Jan 2014 14:29

سیرتِ امام حسن ابن علی (ع)

سیرتِ امام حسن ابن علی (ع)
تحریر و ترتیب: ایس ایچ بنگش

ولادت:

آپ ۱۵رمضان ۳ ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ولادت سے قبل ام الفضل نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم (ص) کے جسم مبارک کا ایک ٹکڑا میرے گھر میں آ پہنچا ہے۔ خواب رسول کریم سے بیان کیا آپ نے فرمایا اس کی تعبیر یہ ہے کہ میری لخت جگر فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیدا ہو گا جس کی پرورش تم کرو گی۔ مورخین کا کہنا ہے کہ رسول کے گھر میں آپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی۔ آپ کی ولادت نے رسول کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کر دیا
اور دنیا کے سامنے سورہ کوثر کی ایک عملی اور بنیادی تفسیر پیش کر دی۔

آپکا نام نامی مبارک:
ولادت کے بعد اسم گرامی حمزہ تجویز ہو رہا تھا لیکن سرور کائنات (ص) نے بحکم خدا، موسٰی کے وزیر ہارون کے فرزندوں کے شبر و شبیر نام پر آپ کا نام حسن (ع) اور بعد میں آپکے بھائی کا نام حسین (ع) رکھا، بحارالانوار میں ہے کہ امام حسن کی پیدائش کے بعد جبرئیل امین نے سرور کائنات کی خدمت میں ایک سفید ریشمی رومال پیش کیا جس پرحسن لکھا ہوا تھا، ماہر علم النسب علامہ ابوالحسین کا کہنا ہے کہ خداوندعالم نے فاطمہ کے دونوں شاہزادوں کا نام انظار عالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن و حسین نام سے کوئی موسوم نہیں ہوا تھا۔ کتاب اعلام الوریٰ کے مطابق یہ نام بھی لوح محفوظ میں پہلے سے لکھا ہوا تھا۔

زبان رسالت دہن امامت میں:
علل الشرائع میں ہے کہ جب امام حسن علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور آپ سرورکائنات کی خدمت میں لائے گئے تو رسول کریم بےانتہا خوش ہوئے اور ان کے دہن مبارک میں اپنی زبان اقدس دیدی۔ بحارالانور میں ہے کہ آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں ا قامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسن اسے چوسنے لگے اس کے بعد آپ نے دعا کی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ امام حسن علیہ السلام کو لعاب دہن رسول کم اور امام حسین کو زیادہ چوسنے کا موقع دستیاب ہوا تھا اسی لیے
امامت نسل حسین میں مستقر ہو گئی۔

آپ کا عقیقہ:
آپ کی ولادت کے ساتویں دن سرکار کائنات نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی ( اسدالغابة جلد ۳ ص۱۳)۔ علامہ کمال الدین کا بیان ہے کہ عقیقہ کے سلسلے میں دنبہ ذبح کیا گیا تھا (مطالب السؤل ص، ۲۲۰) کافی کلینی میں ہے کہ سرورکائنات نے عقیقہ کے وقت جو دعا پڑھی تھی اس میں یہ عبارت بھی تھی، "اللہم عظمہا بعظمہ، لحمہا بلحمہ دمہا بدمہ و شعرہا بشعرہ اللہم اجعلہا وقاء لمحمد و آلہ" خدایا اس کی ہڈی مولود کی ہڈی کے عوض، اس کا گوشت اس کے گوشت کے عوض، اس کا خون اس کے خون کے عوض، اس کا بال اس کے بال کے عوض قرار دے اور اسے محمد (ص)  و آل محمد (ع)  کے لیے ہر بلا سے نجات کا ذریعہ بنا دے۔ امام شافعی (رہ) کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے امام حسن کا عقیقہ کرکے اس کے سنت ہونےکی دائمی بنیاد ڈل دی (مطالب السؤل ص ۲۲۰)۔ بعض معاصرین نے لکھا ہے کہ آنحضرت نے آپ کا ختنہ بھی کرایا تھا لیکن میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ امامت کی شان سے مختون پیدا ہونا بھی ہے۔

کنیت و القاب:
آپ کی کنیت صرف ابو محمد (ع) تھی اور آپ کے القاب بہت کثیر ہیں، جن میں طیب، تقی، سبط اور سید زیادہ مشہور ہیں، محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ آپ کا لقب ”سید“ خود سرور کائنات کا عطا کردہ ہے (مطالب السؤل ص ۲۲۱)۔ زیارت عاشورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کالقب ناصح اور امین بھی تھا۔

امام حسن پیغمبر (ص) اسلام کی نظر میں:
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امام حسن اسلام پیغمبر اسلام کے نواسے تھے لیکن قرآن نےانہیں فرزند رسول کا درجہ دیا ہے اور اپنے دامن میں جا بجا آپ کے تذکرہ کو جگہ دی ہے خود سرورکائنات نے بےشمار احادیث آپ کے متعلق ارشاد فرمائی ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عام و خاص نے بہت زیادہ احادیث بیان کی ہیں آپ نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے بارے میں
فرمایا (۷) "الحسن والحسین امامان قاماً او قعداً" یہ دونوں میرے بیٹے امام ہیں، خواہ وہ اٹھیں یا بیٹھیں۔“ (قیام کریں یا خاموشی)۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی آپ کے والد بزرگوار کی خلافت کے بعد آپ کی جانشینی کے بارے میں بھی بہت زیادہ احادیث موجود ہیں۔ (ارشاد مفید)۔ رسول خدا (ص) فرماتے تھے، "پروردگارا! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس کو دوست رکھ" ۔ اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا، "الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ" حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔" ایک دن امام حسن علیہ السلام اپنے نانا کی پشت پر سوار تھے ایک شخص نے کہا، واہ کیا خوب سواری ہے!پیغمبر(ص) نے فرمایا: بلکہ کیا خوب سوار ہیں! ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا کہ میں حسنین (ع) کو دوست رکھتا ہوں اور جو انہیں دوست رکھے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ ایک صحابی (رض) کا بیان ہے کہ میں نے رسول کریم کو اس حال میں دیکھا ہے کہ وہ ایک کندھے پر امام حسن کو اور ایک کندھے پر امام حسین کو بٹھائے ہوئے لیے جا رہے ہیں اور باری باری دونوں کا منہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کا بیان ہے کہ ایک دن
آنحضرت نماز پڑھ رہے تھے اور حسنین آپ کی پشت پر سوار ہو گئے آپ نے سجدے کو اتنا طولانی کیا کہ وہ آپ کی پشت مبارک سے اتر آئے۔ (اصابہ جلد ۲ ص ۱۲)۔ ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسن کو بہت زیادہ دوست رکھنے لگا ہوں جس دن میں نے رسول کی آغوش میں بیٹھ کر انہیں داڑھی سے کھیلتے دیکھا (نور الابصارص ۱۱۹)۔

ایک دن سرور کائنات امام حسن کو کاندھے پر سوار کئے ہوئے کہیں لیے جا رہے تھے، ایک صحابی نے کہا کہ اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدر اچھی ہے یہ سن کر آنحضرت نے فرمایا یہ کہو کہ کس قدر اچھا سوار ہے (اسدالغابة جلد ۳ ص ۱۵ بحوالہ ترمذی)۔ امام بخاری اور مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خدا امام حسن
علیہ السلام کو کندھے پر بٹھائے ہوئے فرما رہے تھے، خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ حافظ ابونعیم ابوبکر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت نمازجماعت پڑھا رہے
تھے کہ ناگاہ امام حسن آ گئے اور وہ دوڑ کر پشت رسول پرسوار ہو گئے یہ دیکھ کر رسول کریم نے نہایت نرمی کے ساتھ سر اٹھایا، اختتام نماز پر آپ سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو فرمایا یہ میرا گل امید ہے۔ ” ابنی ہذا سید“  یہ میرا بیٹا سید ہے اور دیکھو یہ عنقریب دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔ امام نسائی عبداللہ ابن شداد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نماز عشاء پڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے آپ کی آغوش میں امام حسن تھے آنحضرت نماز میں مشغول ہو گئے، جب سجدہ میں گئے تو اتنا طول دیا کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ اختتام نماز پر آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو فرمایا کہ میرا فرزند میری پشت پر آ گیا تھا میں نے یہ نہ چاہا کہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں، جب تک کہ وہ خود نہ اتر جائے، اس لیے سجدہ کو طول دینا پڑا۔ حکیم ترمذی، نسائی اور ابوداؤد نے لکھا ہے کہ آنحضرت ایک دن محو خطبہ تھے کہ حسنین علیہما السلام آ گئے اورحسن کے پاؤں دامن عبا میں اس طرح الجھے کہ آپ زمین پر گر پڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کر دیا اور منبر سے اتر کر انہیں آغوش میں اٹھا لیا اور منبر پرتشریف لے جا کرخطبہ شروع فرمایا (مطالب السؤل ص ۲۲۳)۔

امام حسن کی سرداری جنت:
آل محمد کی سرداری مسلمات میں سے ہے علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ سرورکائنات نے ارشاد فرمایا ہے ”الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنة و ابوہماخیر منہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والد بزرگوار یعنی علی بن ابی طالب علیہ السلام ان دونوں سے بہتر ہیں۔ جناب حذیفہ یمانی کا بیان ہے کہ میں نے آنحضرت (ص) کو ایک دن بہت زیادہ مسرور پا کر عرض کی مولا آج افراط شادمانی کی کیا وجہ ہے ارشاد فرمایا کہ مجھے آج جبرئیل
نے یہ بشارت دی ہے کہ میرے دونوں فرزند حسن و حسین جوانان بہشت کے سردار ہیں اور ان کے والد علی ابن ابی طالب ان سے بھی بہتر ہیں (کنزالعمال ج ۷ ص ۱۰۷ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۷) اس حدیث سے اس کی بھی وضاحت ہو گئی کہ حضرت علی صرف سید ہی نہ تھے بلکہ فرزندان سیادت کے باپ تھے۔

جذبہ اسلام کی فراوانی:
مؤرخین کا بیان ہے کہ ایک دن ابوسفیان حضرت علی (ع) کی خدمت میں حاضر ہو کرکہنے لگا کہ آپ آنحضرت سے سفارش کرکے ایک ایسا معاہدہ لکھوا دیجئے جس کی رو سے میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکوں آپ نے فرمایا کہ آنحضرت جو کچھ کہہ چکے ہیں اب اس میں سرِ مُو فرق نہ ہو گا اس نے امام حسن سے سفارش کی خواہش کی،  آپ کی عمر اگرچہ اس وقت صرف ۱۴ ماہ کی تھی لیکن آپ نے اس وقت ایسی جرائت کا ثبوت دیا جس کا تذکرہ زبان تاریخ پر ہے۔ لکھا ہے کہ ابوسفیان کی طلب سفارش پر آپ نے دوڑ کر اس کی داڑھی پکڑ لی اور ناک مروڑ کر کہا کلمہ شہادت زبان پرجاری کرو، تمہارے لیے سب کچھ ہے یہ دیکھ کر امیرالمومنین مسرور ہو گئے (مناقب آل ابی طالب جلد ۴ ص ۴۶)۔

امام حسن اور ترجمانی وحی:
علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام کا یہ وطیرہ تھا کہ آپ انتہائی کم سنی کے عالم میں اپنے نانا پر نازل ہونے والی وحی من و عن اپنی والدہ ماجدہ کو سنا دیا کرتے تھے ایک دن حضرت علی نے فرمایا کہ اے بنت رسول میرا جی چاہتا ہے کہ میں حسن کو ترجمانی وحی کرتے ہوئے خود دیکھوں، اور سنوں، سیدہ نے امام حسن کے پہنچنے کا وقت بتا دیا۔ ایک دن امیرالمومنین حسن سے پہلے داخل خانہ ہو گئے اور گوشئہ خانہ میں چھپ کر بیٹھ گئے۔  امام حسن حسب معمول تشریف لائے اور ماں کی آغوش میں بیٹھ کر وحی سنانا شروع کر دی لیکن تھوڑی دیرکے بعد عرض کی ”یا اماہ قد تلجلج لسانی و کل بیانی لعل سیدی یرانی“ مادرگرامی آج زبان وحی ترجمان میں لکنت اور بیان مقصد میں رکاوٹ ہو رہی ہے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے میرے والد بزرگوار مجھے دیکھ رہے ہیں یہ سن کرحضرت امیرالمومنین نے دوڑ کر امام حسن کو آغوش میں اٹھا لیا اور بوسہ دینے لگے۔ (بحارالانوار جلد ۱۰ ص ۱۹۳)۔

امام حسن اور تفسیر قرآن:
علامہ ابن طلحہ شافعی بحوالہ تفسیر وسیط واحدی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عباس اور ابن عمر سے ایک آیت سے متعلق ”شاہد و مشہود“ کے معنی دریافت کئے ابن عباس نے شاہد سے یوم جمعہ اور مشہود سے یوم عرفہ بتایا اور ابن عمر نے یوم جمعہ اور یوم النحر کہا اس کے بعد وہ شخص امام حسن علیہ السلام کے پاس پہنچا، آپ نے شاہد سے رسول خدا اور مشہود سے یوم قیامت فرمایا اور دلیل میں آیت پڑھی، "یا ایہاالنبی انا ارسلناک شاہدا و مبشرا و نذیرا" *۔ اے نبی ہم نے تم کو شاہد و مبشر اور نذیربنا کر بھیجا ہے۔
۲۔  "ذالک یوم مجموع لہ الناس و ذالک یوم مشہود"۔  قیامت کا وہ دن ہو گا جس میں تمام لوگ ایک مقام پر جمع کر دیئے جائیں گے، اور یہی یوم مشہود ہے۔ سائل نے سب کا جواب سننے کے بعد کہا ”فکان قول الحسن احسن“ امام حسن کا جواب دونوں سے کہیں بہتر ہے (مطالب السؤل ص ۲۲۵)۔

عبادتِ امام حسن علیہ السلام:
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام زبردست عابد، بےمثل زاہد، افضل ترین عالم تھے۔ آپ نے جب بھی حج فرمایا پیدل فرمایا، کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے آپ اکثر موت، عذاب، قبر، صراط اور بعثت و نشور کو یاد کرکے رویا کرتے تھے جب آپ وضو کرتے تھے تو آپ کے چہرہ کا رنگ زرد ہو جایا کرتا تھا اور جب نماز کے لیے کھڑ ے ہوتے تھے تو بید کی مثل کانپنے لگتے تھے آپ کا معمول تھا کہ جب دروازہ مسجد پر پہنچتے تو خدا کو مخاطب کرکے کہتے میرے پالنے والے تیرا گنہگار بندہ تیری بارگاہ میں آیا ہے اے رحمن و رحیم اپنی اچھائیوں کے صدقہ میں مجھ جیسے برائی کرنے والے بندہ کو معاف کر دے آپ جب نماز صبح سے فارغ ہوتے تھے۔ تو اس وقت تک خاموش بیٹھے رہتے تھے جب تک سورج طالع نہ ہو جائے۔ (روضة الواعظین بحارالانوار)۔

زہدِ امام حسن علیہ السلام:
امام شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے اکثر اپنا سارا مال راہ خدا میں تقسیم کر دیا ہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایا ہے وہ عظیم و پرہیزگار تھے۔

آپ کی سخاوت:
مورخین لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام حسن علیہ السلام سے کچھ مانگا دست سوال دراز ہونا تھاکہ آپ نے پچاس ہزار درہم اور پانچ سو اشرفیاں دے دیں اور فرمایا کہ مزدور لا کر اسے اٹھوا لے جا اس کے بعد آپ نے مزدور کی مزدوری میں اپنا چغہ بخش دیا (مراة الجنان ص ۱۲۳)۔ ایک مرتبہ آپ نے ایک سائل کو خدا سے دعا کرتے دیکھا خدایا مجھے دس ہزار درہم عطا فرما آپ نے گھر پہنچ کر مطلوبہ رقم بھجوا دی۔ (نورالابصار ص ۱۲۲)۔ آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ تو فاقہ کرتے ہیں لیکن سائل کو محروم واپس نہیں فرماتے، ارشاد فرمایا کہ میں خدا سے مانگنے والا ہوں اس نے مجھے دینے کی عادت ڈال
رکھی ہے اور میں نے لوگوں کو دینے کی عادت ڈالی رکھی ہے میں ڈرتا ہوں کہ اگر اپنی عادت بدل دوں، تو کہیں خدا بھی نہ اپنی عادت بدل دے اور مجھے بھی محروم کر دے (ص۱۲۳)۔

توکل کے متعلق آپ کا ارشاد:
امام شافعی کا بیان ہے کہ کسی نے امام حسن سے عرض کی کہ ابوذر غفاری فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تونگری سے زیادہ ناداری اور صحت سے زیادہ بیماری پسند ہے آپ نے فرمایا کہ خدا ابوذر پر رحم کرے ان کا کہنا درست ہے لیکن میں تو یہ کہتا ہوں کہ جو شخص خدا کے قضا و قدر پر توکل کرے وہ ہمیشہ اسی چیز کو پسند کرے گا جسے خدا اس کے لیے پسند کرے (مراة الجنان جلد ۱ ص ۱۲۵) ۔

امام حسن حلم اور اخلاق کے میدان میں:
علامہ ابن شہر آشوب تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن علیہ السلام گھوڑے پر سوار کہیں تشریف لیے جا رہے تھے راستہ میں امیر شام کے طرفدار ایک شامی سے سامنا ہوا، اس نے حضرت (ع) کو  دینی شروع کر دیں آپ نے اس کا مطلقا کوئی جواب نہ دیا جب وہ اپنی جیسی کر چکا تو آپ اس کے قریب گئے اور اس کو سلام کرکے فرمایا کہ بھائی شاید تو مسافر ہے، سن اگر تجھے سواری کی ضرورت ہو تو میں تجھے سواری دیدوں، اگر تو بھوکا ہے تو کھانا کھلا دوں، اگر تجھے کپڑے درکار ہوں تو کپڑے دیدوں، اگر تجھے رہنے کو جگہ چاہیئے تو مکان کا انتظام کر دوں، اگر دولت کی ضرورت ہے تو تجھے اتنا دیدوں کہ تو خوش حال ہو جائے، یہ سن کر شامی بےانتہا شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ (ع) زمین خدا پر اس کے خلیفہ ہیں، مولا میں تو آپ کو اور آپ کے باپ دادا کو سخت نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا لیکن آج آپ کے اخلاق نے مجھے آپ کا گردیدہ بنا دیا اب میں آپ کے قدموں سے دور نہ جاؤں گا اور تاحیات آپ کی خدمت میں رہوں گا۔ (مناقب جلد ۴ ص ۵۳ ،وکامل مبروج جلد ۲ ص ۸۶)۔

امام حسن علیہ السلام اور امیر شام کے درمیان صلح کی شرائط امام حسن  و اہلبیت علیہم السلام کی ابدی کامیابی:
وارث صلح حدیبیہ اور وارث مصطفی (ص) امام حسن (ع) نے امت کو فتنے سے بچانے کے لئے امیر شام سے صلح کیا۔ جس کے شرائط ہی امام حسن (ع) و اہلبیت (ع) کے برحق ہونے کی واضح دلیل ہیں۔ اس صلح کے بعد میں امیر شام نے پامال کرکے خلاف ورزی کی اور تاقیامت دنیا پر اہلبیت (ع) کی فتح اور بنی امیہ کی خباثت و شکست آشکار کر دی۔

شرائط صلح:
اس صلح نامہ کے مکمل شرائط حسب ذیل ہیں:
1۔  امیر شام حکومت اسلام میں، کتاب خدا اور سنت رسول پر عمل کریں گے۔
2- امیر شام کو اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کرنے کا حق نہ ہو گا۔
3- شام و عراق و حجاز و یمن سب جگہ کے لوگوں کے لیے امان ہو گی۔
۴- حضرت علی (ع) کے اصحاب رض  اور پیروکار جہاں بھی ہیں ان کے جان و مال اور ناموس اور اولاد محفوظ رہیں گے۔
۵- امیر شام ، حسن بن علی اور ان کے بھائی حسین ابن علی اور خاندان رسول میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان پہنچانے یا ہلاک کرنے کی کوشش نہ کریں گے نہ خفیہ طور پر اور نہ اعلانیہ، اور ان میں سے کسی کو کسی جگہ دھمکایا اور ڈرایا نہیں جائے گا۔
۶- جناب امیرالمومنین امام علی (ع) کی شان میں کلمات نازیبا جواب تک مسجد جامع اور قنوت نماز میں استعمال ہوتے رہے ہیں وہ ترک کر دئیے جائیں، آخری شرط کی منظوری میں امیر شام کو عذر ہوا تو یہ طے پایا کہ کم از کم جس موقع پر امام حسن علیہ السلام موجود ہوں اس جگہ ایسا نہ کیا جائے، یہ معاہدہ ربیع الاول یا جمادی الاول۴۱ء ہجری کو عمل میں آیا۔

صلح نامہ پر دستخط:
۲۵ ربیع الاول کو کوفہ کے قریب مقام انبار میں فریقین کا اجتماع ہوا اور صلح نامہ پر دونوں کے دستخط ہوئے اور گواہیاں ثبت ہوئیں (نہایة الارب فی معرفتہ انساب العرب ص ۸۰) اس کے بعد امیر شام نے اپنے لیے عام بیعت کا اعلان کر دیا اور اس سال کا نام سنت الجماعت رکھا پھر امام حسن کو خطبہ (ع) دینے پر مجبور کیا آپ منبرپرتشریف لے گئے
اور ارشاد فرمایا: ”اے لوگوں خدائے تعالی نے ہم میں سے اول کے ذریعہ سے تمہاری ہدایت کی اور آخر کے ذریعہ سے تمہیں خونریزی سے بچایا امیر شام نے اس امر میں مجھ سے جھگڑا کیا جس کا میں
اس سے زیادہ مستحق ہوں لیکن میں نے لوگوں کی خونریزی کی نسبت اس امرکو ترک کر دینا بہتر سمجھا، تم رنج و ملال نہ کرو کہ میں نے حکومت اس کے نااہل کو دے دی اور اس کے حق کو جائے ناحق پر رکھا، میری نیت اس معاملہ میں صرف امت کی بھلائی ہے
یہاں تک فرمانے پائے تھے کہ امیر شام نے کہا ”بس اے حضرت زیادہ فرمانے کی ضرورت نہیں ہے“ (تاریخ خمیس جلد ۲ ص ۳۲۵) ۔

تکمیل صلح کے بعد امام حسن نے صبر و استقلال اور نفس کی بلندی کے ساتھ ان تمام ناخوشگوار حالات کو برداشت کیا اور معاہدہ پر سختی کے ساتھ قائم رہے مگر ادھر یہ ہوا کہ امیر شام نے جنگ کے ختم ہوتے ہی اور سیاسی اقتدار کے مضبوط ہوتے ہی عراق میں داخل ہو کرنخیلہ میں جسے کوفہ کی سرحد سمجھنا چاہیئے، قیام کیا اور جمعہ کے خطبہ کے بعد اعلان کیا کہ میرا مقصد جنگ سے یہ نہ تھا کہ تم لوگ نماز پڑھنے لگو روزے رکھنے لگو، حج کرو یا زکوة ادا کرو، یہ سب تو تم کرتے ہی ہو میرا مقصد تو یہ تھا کہ میری حکومت تم پر مسلم ہو جائے اور یہ مقصد میرا امام حسن (ع) کے اس معاہدہ کے
بعد پورا ہو گیا اور باوجود تم لوگوں کی ناگواری کے میں کامیاب ہو گیا رہ گئے وہ شرائط جو میں نے حسن (ع) کے ساتھ کئے ہیں وہ سب میرے پیروں کے نیچے ہیں ان کا پورا کرنا یا نہ کرنا میرے ہاتھ کی بات ہے یہ سن کر مجمع میں ایک سناٹا چھا گیا مگر اب کس میں دم تھا کہ اس کے خلاف زبان کھولتا۔

شرائط صلح کا حشر:
مورخین کا اتفاق ہے کہ امیر شام جو میدان سیاست کے کھلاڑی اور مکر و زور کی سلطنت بنی امیہ کے تاجدار تھے امام حسن سے وعدہ اور معاہدہ کے بعد ہی سب سے مکر گئے ”ولم یف لہ معاویة لشئی مما عاہد علیہ“ (تاریخ کامل ابن اثیرجلد ۳ ص ۱۶۲) میں ہے کہ امیر شام نے کسی ایک چیز کی بھی پرواہ نہ کی اور کسی پر عمل نہ کیا، امام ابوالحسن علی بن محمد لکھتے ہیں کہ جب امیر شام کے لیے امر سلطنت استورا ہو گیا تو اس نے اپنے حاکموں کو جو مختلف شہروں اور علاقوں میں تھے یہ فرمان بھیجا کہ اگر کوئی شخص ابوتراب یعنی امام علی (ع) اور اس کے اہل بیت (ع) کی فضیلت کی روایت کرے گا تو میں اس سے بری الذمہ ہوں،جب یہ خبر تمام ملکوں میں پھیل گئی اور لوگوں کو امیر شام کا منشاء معلوم ہو گیا تو تمام خطیبوں نے منبروں پر سب و شتم اور منقصت امیرالمومنین پر خطبہ دینا شروع کر دیا. کوفہ میں زیاد ابن ابیہ جو کئی برس تک حضرت علی علیہ السلام کے عہد میں ان کے عمال میں رہ چکا تھا وہ پیروکار ان علی کو اچھی طرح سے جانتا تھا۔ مردوں، عورتوں، جوانوں، اور بوڑھوں سے اچھی طرح آگاہ تھا، اسے ہر ایک رہائش اور کونوں اور گوشوں میں بسنے والوں کا پتہ تھا اسے کوفہ اور بصرہ دونوں کا گورنر بنا دیا گیا تھا۔ اس کے ظلم کی یہ حالت تھی کہ پیروکاران علی کو قتل کرتا اور بعضوں کی آنکھوں کو پھوڑ دیتا اور بعضوں کے ہاتھ پاؤں کٹوا دیتا تھا اس ظلم عظیم سے سینکڑوں تباہ ہو گئے، ہزاروں جنگلوں اور پہاڑوں میں جا چھپے، بصرہ میں آٹھ ہزار آدمیوں کا قتل واقع ہوا جن میں بیالیس حافظ اور قاری قرآن تھے ان پر محبت علی کا جرم عائد کیا گیا
تھا، حکم یہ تھا کہ علی کی بجائے بنی امیہ کے فضائل بیان کئے جائیں اور علی علیہ السلام کے فضائل کے متعلق یہ کہتا تھا کہ ایک ایک فضیلت کے عوض دس دس منقصت و مذمت تصنیف کی جائیں یہ سب کچھ امیرالمومنین سے بدلا لینے اور یزید لعین کے لیے زمین
خلافت ہموار کرنے کی خاطر تھا۔

کوفہ سے امام حسن کی مدینہ کو روانگی:
صلح کے مراحل طے ہونے کے بعد امام حسن علیہ السلام اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام اور عبداللہ ابن جعفر اور اپنے اطفال و عیال کو لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے، تاریخ اسلام مسٹر ذاکر حسین کی جلد ۱ ص ۳۴ میں ہے کہ جب آپ کوفہ سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو امیر شام نے راستہ میں ایک پیغام بھیجا اور وہ یہ تھا کہ آپ
خوارج سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں کیونکہ انہوں نے میری بیعت ہوتے ہی پھر سر نکالا ہے۔ امام حسن علیہ السلام نے جواب دیا کہ اگر خونریزی مقصود ہوتی تو میں تجھ سے صلح کیوں کرتا۔

صلح حسن علیہ السلام اور اس کے وجوہ و اسباب:

استاد العلام حضرت علامہ سید عدیل اختر اعلٰی اللہ مقامہ (سابق پرنسپل مدرسة الواعظین لکھنؤ) اپنی کتاب تسکین الفتن فی صلح الحسن کے ص ۱۵۸ میں تحریر فرماتے ہیں، "امام حسن کی پالیسی بلکہ جیسا کہ بار بار لکھا جا چکا ہے کل اہلبیت (ع) کی پالیسی ایک
اور صرف ایک تھی (دراسات اللبیب ص ۲۴۹)۔ وہ یہ کہ حکم خدا اور حکم رسول کی پابندی انہیں کے احکام کا اجراء چاہیئے، اس مطلب کے لیے جو برداشت کرنا پڑے، مذکورہ بالا حالات میں امام حسن علیہ السلام کے لیے سوائے صلح کیا چارہ ہو سکتا تھا اس کو خود صاحبان
عقل سمجھ سکتے ہیں کسی استدلال کی چنداں ضرورت نہیں ہے یہاں پر علامہ ابن اثیر کی یہ عبارت (جس کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے) قابل غور ہے، ”کہا گیا ہے کہ امام حسن نے حکومت امیر شام  کو اس لیے سپرد کی کہ جب امیر شام  نے خلافت حوالے کرنے کے متعلق آپ کو خط لکھا اس وقت آپنے خطبہ پڑھا اور خدا کی حمدوثنا کے بعد فرمایا کہ دیکھو ہم کو شام والوں سے اس لیے نہیں دبنا پڑ رہا ہے (کہ اپنی حقیقت میں) ہم کو کوئی شک یا ندامت ہے بات تو فقط یہ ہے کہ ہم اہل شام سے سلامت اور صبر کے ساتھ لڑ رہے تھے مگر اب سلامت میں عداوت اور صبر میں فریاد مخلوط کر دی گئی ہے جب تم
لوگ صفین کو جا رہے تھے اس وقت تمہارا دین تمہاری دنیا پر مقدم تھا لیکن اب تم ایسے ہو گئے ہوکہ آج تمہاری دنیا تمہارے دین پر مقدم ہو گئی ہے، اس وقت تمہارے دونوں طرف دو قسم کے مقتول ہیں ایک صفین کے مقتول جن پر رو رہے ہو، دوسرے نہروان کے مقتول جن
کے خون کا بدلہ لینا چاہ رہے ہو۔ خلاصہ یہ کہ جو باقی ہے وہ ساتھ چھوڑنے والا ہے۔ اور جو رو رہا ہے وہ تو بدلہ لینا ہی چاہتا ہے خوب سمجھ لو کہ امیر شام  نے ہم کو جس امر کی دعوت دی ہے نہ اس میں عزت ہے اور نہ انصاف، لہذٰا اگر تم لوگ موت پر آمادہ ہو تو ہم اس کی دعوت کو رد کر دیں اور ہمارا اور اس کا فیصلہ خدا کے نزدیک بھی تلوار کی دھار سے ہو جائے اور اگر تم زندگی چاہتے ہو تو جو اس نے لکھا ہے مان لیاجائے اور جو تمہاری مرضی ہے ویسا ہو جائے، یہ سننا تھا کہ ہر طرف سے لوگوں نے چلانا شروع کر دیا بقا بقا، صلح صلح، (تاریخ کامل جلد ۳ ص ۱۶۲)۔

قارئین انصاف فرمائیں کہ کیا اب بھی امام حسن کے لیے یہ رائے ہے کہ صلح نہ کریں ان فوجیوں کے بل بوتے پر (اگر ایسوں کی فوج اور ان کی قوتوں کو بل بوتا کہا جا سکے) لڑائی زیبا ہے ہرگز نہیں ایسے حالات میں صرف یہی چارہ تھاکہ صلح کرکے اپنی اوران تمام لوگوں کی زندگی تومحفوظ رکھیں جودین رسول ص کے نام لیوا اورحقیقی
پیرو پابند تھے، اس کے علاوہ پیغمبراسلام کی پیشین گوئی بھی صلح کی راہ میں مشعل کا کام کر رہی تھی۔ (بخاری) علامہ محمد باقر لکھتے ہیں کہ حضرت کو اگرچہ کی وفائے صلح پر اعتماد نہیں تھا لیکن آپ نے حالات کے پیش نظر چار و ناچار دعوت صلح منظور کر لی
(دمعئہ ساکبہ)۔

حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت:
مورخین کا اتفاق ہے کہ امام حسن اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نیشین ہو گئے تھے، لیکن امیر شام آپ کے درپئے آزار رہے انہوں نے باربار کوشش کی کسی طرح امام حسن اس دارفانی سے ملک جاودانی کو روانہ ہو جائیں اور اس سے ان کا مقصد یزید کی
خلافت کے لیے زمین ہموار کرنا تھی، چنانچہ انہوں نے ۵ بار آپ کو زہر دلوایا لیکن ایام حیات باقی تھے زندگی ختم نہ ہو سکی، بالآخرہ شاہ روم سے ایک زبردست قسم کا زہر منگوا کر محمد ابن اشعث یا مروان کے ذریعہ سے جعدہ بنت اشعث کے پاس امیر شام نے بھیجا اور کہلا دیا کہ جب امام حسن شہید ہو جائیں گے تب ہم تجھے ایک لاکھ درہم دیں گے اور تیرا عقد اپنے بیٹے یزید کے ساتھ کر دیں گے، چنانچہ اس ملعونہ نے امام حسن کو زہردے کر28 صفر کو شہید کر دیا۔

منابع:
(تاریخ مروج الذہب مسعودی جلد ۲ ص ۳۰۳ ،مقاتل الطالبین ص ۵۱ ،
ابوالفداء ج ۱ ص ۱۸۳ ،روضةالصفاج ۳ ص ۷ ، حبیب السیر جلد ۲ ص ۱۸ ،طبری ص ۶۰۴
استیعاب جلد ۱ ص
خبر کا کوڈ : 334686
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش