0
Friday 10 Jan 2014 22:42
آغاز امامت و ولایت حضرت ولی عصر عج مبارک ہو

امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے زندہ ہونے پر قرآنی، حدیثی اور عقلی دلائل

امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے زندہ ہونے پر قرآنی، حدیثی اور عقلی دلائل
اسلام ٹائمز- مہدویت شناسی سے متعلق ایک انتہائی اہم اور ضروری موضوع حضرت امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی لمبی زندگی ہے۔ اس بارے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں امام زمانہ عج کے زندہ اور موجود ہونے کو اس حقیقت کا انکار کرنے والے افراد یا اس کے بارے میں شک کا شکار افراد کیلئے کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟ اس تحریر میں ہم نے مختلف آیات قرآن کریم اور احادیث معصومین علیھم السلام کی مدد سے اور اسی طرح عقلی دلیل کے ذریعے ہر دور کے انسانوں میں زندہ اور حاضر حجت خدا کی موجودگی کو ثابت کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے زندہ اور حاضر ہونے کو بعض بزرگ علمای دین کے تجربات اور آپ عج کے حضور ان کے تشرف کے ذریعے بھی ثابت کیا گیا ہے۔ 
 
مقدمہ:
مکتب تشیع کے مسلمہ عقائد میں سے ایک عقیدہ جسے تمام عقائد کی بنیاد اور اساس قرار دیا جا سکتا ہے مہدویت جیسے بنیادی اصول پر کڑی تاکید سے بڑھ کر امام مھدی عج کے زندہ اور موجود ہونے پر عقیدہ راسخ ہے۔ مکتب تشیع اپنے اس عقیدے پر مختلف قسم کے دلائل پیش کرتا ہے جن میں آیات قرآن کریم، احادیث معصومین علیھم السلام اور ہدایت الہی کے دوام پر مبنی قانون شامل ہیں۔ ہدایت الہی کے دوام پر مبنی قانون وہی قانون ہے جس کی بنیاد پر خداوند متعال نے جب حضرت موسی علیہ السلام کو محدود مدت کیلئے کوہ طور پر بلایا تو انہیں تاکید کی کہ اپنی غیبت میں اپنی قوم کیلئے ایک جانشین مقرر کریں۔ وہ خدا جو انسانوں کو فقط چالیس دن تک اپنی حجت سے محروم کرنا پسند نہیں کرتا، آیا اس حکیم اور آگاہ پروردگار سے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ اس نے بارہ صدیوں سے انسانوں کو اپنے حال پر چھوڑ رکھا ہو اور انہیں حجت الہی اور حقیقی پیشوا اور رھبر سے محروم کر رکھا ہو؟ اس بابرکت عقیدے کی وجہ سے مکتب تشیع انتہائی ثابت قدمی اور استقامت کا حامل رہا ہے اور شیعہ تاریخ کے دوران گزرنے والے تمام بزرگ علماء، عرفاء اور مشائخ اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ زمین کبھی بھی حجت الہی سے خالی نہیں رہ سکتی۔ 
 
جب امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی عمر کے بارے میں بات کی جاتی ہے جو اس وقت تقریبا 1200 سال کی حد کو بھی عبور کر چکی ہے تو بعض افراد کی جانب سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اتنی لمبی عمر کیسے ممکن ہے؟ اس اعتراض کا جواب زیادہ مشکل نہیں کیونکہ کسی انسان کی لمبی عمر ہونا کوئی ایسی عقلی طور پر محال چیز نہیں جسے ثابت کرنا بہت مشکل کام ہو۔ جیسا کہ ہم تاریخ میں بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی عمر تقریبا ایک ہزار سال سے بھی زیادہ تھی۔ لہذا امام مھدی عج کی طول عمر کو ثابت کرنے کیلئے کسی معجزے کا سہارا لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ لیکن اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔ امام مھدی عج کے زندہ ہونے سے ہماری مراد ان کی لمبی عمر تک محدود نہیں۔ بلکہ ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام زمانہ عج نہ فقط زندہ ہیں بلکہ انسانوں کے درمیان حاضر و ناظر ہیں اور ان کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ عج دوسرے انسانوں کی مانند ہر روز اور شب سورج اور ستاروں کا نظارہ کرتے ہیں اور اپنی اس دنیوی زندگی کے ساتھ ساتھ ایک بھرپور معنوی اور روحانی زندگی سے بھی بہرہ مند ہیں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، امیر المومنین امام علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین علیھم السلام کی مانند دن رات عبادت اور بندگی خداوند میں مشغول ہیں۔ جیسا کہ زیارت آل یاسین میں امام زمانہ عج کو یوں مخاطب قرار دیتے ہیں:
"السلام علیک حین تقرأ و تبین، السلام علیک حین تصلی و تقنت، السلام علیک حین ترکع و تسجد، السلام علیک حین تهلل و تکبّر، السلام علیک حین تحمد و تستغفر..."
"سلام ہو آپ پر جب آپ قران کی تلاوت کرتے ہیں اور اسے بیان فرماتے ہیں، سلام ہو آپ پر جب نماز ادا کرتے ہیں اور قنوت پڑھتے ہیں، سلام ہو آپ پر جب آپ رکوع کرتے ہیں اور سجدہ بجا لاتے ہیں، سلام ہو آپ پر جب آپ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہتے ہیں، سلام ہو آپ پر جب آپ خدا کی حمد کرتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں ۔۔۔۔ "
امام مھدی عج ان تمام عبادی اور انفرادی مصروفیات کے ساتھ ساتھ امامت، ولایت اور امت مسلمہ کی ہدایت بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کی زندگی میں نورافشانی کرنے جیسی بھاری ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ چونکہ امام عصر عج حقیقی معنا میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی وارث ہیں جنہیں خداوند متعال نے رحمۃ للعالمین قرار دیا ہے۔ 
"و ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین" [سورہ انبیاء، آیہ 70]۔
 
امام مھدی عج جیسا عظیم انسان جو تمام انبیای الہی جیسے حضرت آدم ع، حضرت نوح ع، حضرت ابراہیم ع، حضرت شیث ع، حضرت ھود ع، حضرت موسی ع، حضرت زکریا ع، حضرت یحیی ع، حضرت عیسی ع اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حقیقی وارث اور ان کے کمالات کا جیتا جاگتا نمونہ ہے، ہر لحظہ ہمارے ساتھ ہے اور تمام انسانوں پر حاضر و ناظر ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ حضرت موسی ع کے پیروکار ان سے ملاقات کے انتظار میں تڑپ رہے ہیں اور حضرت عیسی ع کے ماننے والے ان کی زیارت کیلئے لحظہ شماری کر رہے ہیں؟ آیا یہ حقیقت نہیں کہ اکثر مسلمان یہ آرزو کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ اے کاش وقت پچھلی جانب پلٹ جائے اور انہیں اپنے محبوب محمد مصطفی ص کے حسین چہرے کی زیارت نصیب ہو جائے؟ مکتب تشیع امام مھدی عج کے زندہ اور حاضر و ناظر ہونے پر مبنی اپنے عقیدے کی بدولت دنیا کے تمام متدین افراد سے یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ وہ ہستیاں جن کی زیارت ان کی دلی آرزو ہے ان کا جیتا جاگتا نمونہ اس وقت ان کے ساتھ موجود ہے۔ مکتب تشیع دنیا والوں کو یہ کہنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے کہ امام زمانہ عج کی شخصیت تمام انبیاء کی شخصیتوں کا نچوڑ ہے۔ آئیں ان کی زیارت سے فیض یاب ہوں اور اپنے ذہن میں موجود ہزاروں سوال ان سے پوچھیں۔ البتہ اس زیارت اور ملاقات کی راہ میں صرف ایک رکاوٹ موجود ہے جو ان کے برے اعمال اور معصیت خداوند کا ارتکاب ہے۔ اس رکاوٹ کو دور کریں اور حجت خدا امام عصر عج کے بابرکت وجود سے خود کو نورانی کریں۔ 
 
امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے زندہ ہونے کے دلائل:
امام زمانہ عج کے زندہ ہونے پر تین مختلف قسم کے دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں۔
۱۔ وحیانی دلائل [قرآنی آیات اور احادیث معصومین علیھم السلام]،
۲۔ عقلی دلائل اور
۳۔ امام زمانہ عج کے حضور شرف یاب ہونے والے بزرگان کا ذاتی تجربہ۔
وحیانی دلائل جو آیات قرآن کریم اور احادیث معصومین علیھم السلام پر مبنی ہیں مسلمانوں کو قائل کرنے کیلئے پیش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن غیرمسلم افراد کیلئے عقلی دلائل اور ایسے بزرگان کا تجربہ جو امام زمانہ عج کے حضور شرف یاب ہونے کی توفیق حاصل کر چکے ہیں کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ہم ان دلائل پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔
 
1۔ امام مھدی عج کے زندہ ہونے پر وحیانی دلائل:
جیسا کہ عرض کر چکے ہیں کہ امام مھدی عج کے زندہ اور حاضر و ناظر ہونے پر موجود وحیانی دلائل دو قسم کی ہیں۔ ایک قرآن کریم کی آیات اور دوسری احادیث معصومین علیھم السلام۔ علماء اور محققین نے اس ضمن میں کئی آیات اور روایات کا سہارا لیا ہے لیکن ہم اس تحریر میں صرف دو آیات اور ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بیان کرنے پر ہی اکتفا کریں گے۔ یہ آیات سورہ مبارکہ قدر اور دخان کا حصہ ہیں اور حدیث نبوی "اثنا عشر خلیفہ" کے نام سے معروف ہے۔ 
 
الف- قرآنی دلیل:
سورہ مبارکہ قدر میں خداوند کریم نے فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو ایسی رات میں نازل کیا جو شب قدر ہے اور اسے ہزار مہینوں سے بھی زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ اس رات فرشتگان الہی اور سب سے زیادہ افضل فرشتہ "روح" خداوند متعال کے حکم سے زمین پر نازل ہوتے ہیں اور اپنے مقررہ وظائف انجام دیتے ہیں۔ یہ فرشتے شب قدر کی تمام رات فجر کی اذان تک زمین پر ہی رہتے ہیں۔
سورہ قدر میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
" تَنَزَّلُ الْمَلَائِکةُ وَالرُّوحُ فِیهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ کلِّ أَمْرٍ سَلَامٌ هِی حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ" [سورہ قدر، آیات 4، 5]۔
"اس رات ملائکہ اور روح خدا کے حکم سے تمام امور کیلئے نازل ہوتے ہیں، طلوع فجر تک یہ رات سلامتی ہی سلامتی ہے"۔
اسی طرح سورہ دخان میں خداوند متعال فرماتا ہے:
" إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِی لَیْلَةٍ مُبَارَکَةٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِینَ فِیهَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ" [سورہ دخان، آیات 3، 4]۔
"تحقیق ہم نے قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل فرمایا، ہم تو راستہ دکھانے والے ہیں، اسی رات میں تمام حکیمانہ امور کا فیصلہ کیا جاتا ہے"۔
 
مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آسمان سے نازل ہونے والے فرشتے کس جگہ اور کس شخص پر نازل ہوتے ہیں؟ مزید یہ کہ وہ حکیمانہ امور جن کا تعین اس مبارک شب یعنی شب قدر میں کیا جاتا ہے کون سے ہیں؟ اسی قسم کے سوالات معصومین علیھم السلام کے اصحاب کے ذہن میں بھی پیدا ہوئے۔ انہوں نے ائمہ معصومین علیھم السلام سے ان کا جواب طلب کیا تو انہیں یہ جواب ملا:
"ہر شب قدر میں آنے والے سال کے تمام مقدرات طے پاتے ہیں اور اس رات نازل ہونے والے فرشتے اپنے زمانے کے امام معصوم جو زمین پر خدا کی حجت ہوتا ہے کے پاس نازل ہوتے ہیں"۔ [بصائر الدرجات، ص 241؛ بحار الانوار، ج 94، ص 23]۔
 
معروف شیعہ محدث اور عالم دین ثقہ الاسلام کلینی نے اپنی کتاب "کافی" کی فصل "کتاب الحجہ" میں "باب فی شان انا انزلناہ فی لیلہ القدر و تفسیرھا" کے عنوان سے ایک باب ذکر کیا ہے جس میں 9 احادیث بیان کی گئی ہیں۔ [کافی، جلد1، ص 235]۔ ان احادیث کی روشنی میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ شب قدر تمام گذشتہ امتوں میں بھی پائی جاتی تھی اور آسمانی فرشتے ہر زمانے کے نبی یا اس کے وصی کے پاس نازل ہوتے تھے۔ امت مسلمہ میں بھی یہ امر تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور ہر دور میں موجود امام معصوم پر یہ فرشتے نازل ہوتے آئے ہیں۔ ان احادیث میں سے پہلی حدیث میں کہا گیا ہے کہ شب قدر کی رات فرشتے ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر نازل نہیں ہوتے بلکہ آسمان سے زمین پر نازل ہوتے ہیں۔ 
لہذا یہ سوال بھی انتہائی منطقی اور معقول نظر آتا ہے کہ شب قدر میں طے پانے والے حکیمانہ امور اور عالم ہستی کے مقدرات خداوند متعال کی جانب سے نازل ہونے والے ان فرشتوں کی جانب سے کس شخص یا اشخاص کو پہنچائے جاتے ہیں؟ اگر ایسا فرض کیا جائے کہ شب قدر کی رات آسمان سے زمین پر نازل ہونے والے فرشتے انسان کامل سے ملاقات کئے بغیر ہی واپس لوٹ جاتے ہیں تو ان فرشتوں کا نزول بیہودہ اور بے معنا نظر آئے گا۔ لہذا جب شب قدر کی رات فرشتوں کا آسمان سے زمین پر نازل ہونا اور انسان کامل سے ان کی ملاقات کرنا یقینی طور پر ثابت ہو گئے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر دور و زمانے میں زمین پر حجت خدا، انسان کامل یا امام معصوم کا وجود ضروری امور میں سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گیارہویں امام، امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت سے لے کر آج تک وہ انسان کامل جسے کے حضور فرشتگان الہی شب قدر کی رات تمام مقدرات عالم لے کر نازل ہوتے ہیں امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی ذات ہے۔ یہ حقیقت بذات خود امام عصر عج کی زندگی کے تسلسل پر ایک ٹھوس دلیل ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے امامت اور اس کے تسلسل کو ثابت کرنے کیلئے اپنے پیروکاروں کو سورہ قدر اور سورہ دخان کی ان آیات سے مدد لینے کی تاکید فرمائی ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اے ہمارے پیروکارو، سورہ انا انزلناہ کی مدد سے ہمارے دشمنوں کے ساتھ مناظرہ کرو، خدا کی قسم یہ سورہ رسول خدا ص کے بعد انسانوں کیلئے خداوند تبارک و تعالی کی حجت اور دلیل ہے۔ اے ہمارے شیعو، "حم والکتاب المبین انا انزلناہ فی لیلہ مارکہ انا کنا منذرین" کے ذریعے دشمنوں سے مناظرہ کرو، پس یہ آیہ رسول خدا ص کے بعد حکومت کے مستحق افراد کو واضح کرتی ہے"۔ [کافی، جلد 1، ص 249]۔
 
ب۔ حدیث نبوی "اثنا عشر خلیفہ":
جابر بن سمرہ بن جندب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ص نے فرمایا:
" لایزال الإسلام عزیزاً إلی اثنی عشر خلیفة" ثم قال کلمة لم أفهمها فقلت لأبی: "ما قال؟" فقال: "کلهم من قریش"۔
"اسلام اس وقت تک عزت مند نہیں ہو سکتا جب تک بارہ خلیفے نہ آ جائیں" اس کے بعد رسول خدا ص نے کچھ ایسے کلمات ادا کئے جو میں نہیں سمجھ پایا، پس میں نے اپنے والد سے پوچھا: "رسول خدا ص نے کیا بولا؟" میرے والد نے جواب دیا: |"یہ سب خلیفے قریش سے ہوں گے"۔ 
یہ حدیث شیعہ حدیثی منابع میں نقل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت کم اختلاف کے ساتھ اہلسنت کے اہم ترین حدیثی منابع میں بھی نقل کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر مسند احمد بن حنبل [جلد 5، صفحہ 86]، صحیح بخاری [جلد 8 صفحہ 126]، صحیح مسلم [جلد 6، صفحہ 2، باب "الناس تبع لقریش و الخلافہ فی قریش"]، سنن ابی داود [جلد 3، صفحہ 309، باب کتاب المھدی]، سنن ترمذی [جلد 3، صفحہ 340، باب ما جاء فی الخلفاء"]، مستدرک حاکم نیشاپوری [جلد 3، صفحہ 617] وغیرہ۔
 
کیونکہ یہ حدیث نبوی ص اس حقیقت پر واضح دلالت کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد ان کے خلفاء اور جانشینوں کی تعداد بارہ ہے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ص کے بعد آنے والے تین خلفاء اور اس کے بعد اموی دور کے خلفاء اور عباسی دور کے خلفاء میں کسی پر یہ حدیث صادق نہیں آتی کیونکہ اولا ان کی تعداد بارہ نہیں بلکہ اس سے کم یا زیادہ ہے اور دوما وہ سب قریش سے تعلق نہیں رکھتے تھے، لہذا شیعہ متکلمین کے نزدیک یہ حدیث نبوی ص آنحضور ص کے بعد ان کے جانشین اور خلیفہ بارہ معصوم اماموں پر مبنی مکتب تشیع کے عقیدے کی حقانیت پر واضح اور ٹھوس دلیل ہے۔ اس روایت کو جس کے مطابق پیغمبر اکرم ص کے ان بارہ جانشینوں کے درمیان تسلسل پایا جاتا ہے دوسری احادیث نبوی ص جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ حضرت مھدی عج جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی نسل سے ہیں، کے ساتھ رکھنے سے مکتب تشیع کا یہ عقیدہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ امام مھدی عج گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ اس نتیجہ کی روشنی میں امام مھدی عج کی ولادت سے لے کر اب تک کی زندگی بھی ثابت ہو جاتی ہے۔
 
دوسری طرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث کے مطابق آپ ص کے بارہ جانشینوں میں تسلسل پائے جانے اور ان میں فاصلہ نہ ہونے سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ بارہویں امام گیارہویں امام کی شہادت کے فورا بعد ہی منصب امامت پر فائز ہو چکے تھے۔ جیسا کہ امام مھدی عج کی ولادت بھی کئی احادیث اور تاریخی شواہد کی روشنی میں ثابت کی جا چکی ہے۔ ان بیانات کی روشنی میں دو طریقوں سے امام مھدی عج کے زندہ ہونے کو ثابت کیا جا سکتا ہے:
اول یہ کہ اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان ایک مرکب اجماع پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ امام مھدی عج ہمارے زمانے میں فوت نہیں ہوئے۔ کیونکہ اہل تشیع تو واضح طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ امام مھدی عج کی زندگی ان کی ولادت سے لے کر اب تک جاری ہے جبکہ اہلسنت کا یہ نظریہ ہے کہ امام مھدی عج ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے، اور واضح ہے کہ جو شخص پیدا نہ ہوا ہو وہ فوت کیسے ہو سکتا ہے؟ پس دونوں مسلک اس بات پر متفق ہیں کہ امام مھدی عج فوت نہیں ہوئے جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اب تک زندہ ہیں۔ 
دوم یہ کہ اگر کوئی اس بات کا قائل ہوتا ہے کہ امام مھدی عج 255 ہجری قمری میں ولادت پا چکے ہیں لیکن اس کے بعد فوت ہو گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ خدا نے امت مسلمہ بلکہ تمام عالم ھستی کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے اور زمین حجت الہی سے خالی ہو چکی ہے جو مسلمہ اسلامی اصول کے منافی ہے۔ اسی طرح یہ نتیجہ حدیث نبوی ص "اثنا عشر خلیفہ" سے بھی مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کے غلبے اور ان کی عزت کا وعدہ دیا گیا ہے جبکہ اسلام اور مسلمین کا عزت مند ہونا زمین کے حجت الہی سے خالی ہونے کی صورت میں ممکن نہیں۔ حیرت والی بات تو یہ ہے کہ ابو داود سجستانی نے حدیث نبوی ص "اثنا عشر خلیفہ" کو "کتاب المھدی" میں ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی اس حدیث نبوی ص کو بیان کیا ہے جس میں امام مھدی عج کے ظہور کو حتمی قرار دیا گیا ہے اور اس امر پر تاکید کی گئی ہے کہ امام مھدی عج جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی نسل سے ہوں گے۔ [سنن ابی داود، جلد 2، ص 309]۔ شائد ابی داود سجستانی نے غیرارادی طور پر حدیث اثنا عشر خلیفہ کو امام مھدی عج پر منطبق جانا ہے۔ 
 
2۔ امام مھدی عج کے زندہ ہونے پر عقلی دلیل:
امام مھدی عج کے زندہ ہونے پر سب سے بڑی عقلی دلیل کی بنیاد "حکمت الہی" پر استوار ہے۔ سب مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ خداوند متعال کی صفات میں سے ایک صفت "حکمت" ہے۔ خداوند تبارک و تعالی کا ہر فعل حکیمانہ ہوتا ہے۔ اس صفت کو سورہ ملک میں بہت اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہے:
"الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَانِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعْ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ثُمَّ ارْجِعْ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِیر" [سورہ ملک، آیات 3، 4]۔
"جس نے سات آسمان اوپر نیچے خلق کئے، تو رحمان کی آفرینش میں کوئی نقص نہیں دیکھے گا، ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ کیا تجھ کو کوئی نقص یا کمی نظر آتی ہے؟ پھر دوبارہ نظر ڈالو، نظر تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی"۔ 
 
ان آیات شریفہ کی روشنی میں عالم ھستی میں ذرہ برابر نقص اور کمی نہیں پائی جاتی۔ اگر خداوند متعال نے قرآن کریم میں انسان کی آفرینش کو بہترین قرار دیا ہے [سورہ طین، آیہ 4]، اور پہاڑوں کی حرکت کو بادلوں کی مانند لیکن آہستہ بیان کیا ہے اور ان کی پیدائش کو انتہائی ماہرانہ خلقت قرار دیا ہے [سورہ نمل، آیہ 88] اور حتی قرآن کریم کو عزت مند اور مستحکم بیان کیا ہے جس میں کسی قسم کا عیب یا نقص نہیں پایا جاتا [سورہ فصلت، آیات 41، 42]، یہ تمام بیانات درحقیقت حکمت الہی کے ہی جلوے ہیں۔ حکمت خداوند نہ فقط عقل مندانہ روش پر استوار ہے بلکہ ہر قسم کے نقص اور خطا سے بھی عاری ہے۔ کیونکہ بعض اوقات ممکن ہے ایک کام مکمل طور پر عقل مندانہ انداز میں انجام پائے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس میں چھپے ہوئے عیوب اور نقائص ظاہر ہونے لگیں۔ لیکن حکمت الہی کے تحت انجام پانے والے کاموں میں کسی قسم کا نقص و عیب شامل ہونا ایک محال امر ہے۔ خداوند متعال نے جنت سے حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر سقوط کے بعد یہ اعلان فرمایا کہ اب انسانوں میں انحراف، بے انصافی اور دشمنی پیدا ہو جائے گی لہذا حکمت الہی کے تقاضے کے تحت لوگوں کی ہدایت اور انہیں گمراہی سے نجات دلانے، دشمنیوں سے بچانے، عدالت کی برقراری اور اتمام حجت کیلئے یہ فیصلہ کیا کہ ان کی طرف انبیاء علیھم السلام کو مبعوث کرے۔ قرآن کریم میں بارہا اس قانون الہی کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانوں کی ہدایت کیلئے انبیاء کو مبعوث کرنا ایک حتمی امر ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ دنیا کی کوئی امت ایسی نہیں جہاں خدا نے نبی نہ بھیجا ہو۔ 
" وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خلَا فِیهَا نَذِیرٌ" [سورہ فاطر، آیہ 24]۔
"اور کوئی امت نہیں مگر اس میں ہدایت کرنے والا گزر چکا ہے"۔ 
 
موجودہ آسمانی کتب میں اس قانون الہی کی تائید کے علاوہ اس نکتے کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ ہمیشہ سے انبیای الہی کے ایسے اوصیاء اور جانشین بھی موجود تھے جو ایک پیغمبر کی وفات کے بعد اگلے پیغمبر کے مبعوث ہونے تک وجود میں آنے والے خلاء کو پر کرتے تھے۔ مثال کے طور پر حضرت موسی علیہ السلام کے وصی حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے وصی کے طور پر حضرت آصف بن برخیا کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ خداوند متعال کی جانب سے ارسال رسل پر مبنی حکیمانہ قانون کے مطابق خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مبعوث ہوئے۔ آپ ص خاتم النبیین قرار پائے اور آپ ص کا لایا ہوا دین کامل ترین دین قرار پایا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی وحی اور رسالت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہو گئے۔ [سورہ احزاب، آیہ 40]۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مبعوث ہونے کے بعد صرف 23 سال تک انسانوں کی ہدایت کا وظیفہ انجام دیا۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ص کی وفات کے بعد قیامت تک کے انسانوں کو ہدایت کا سنگین وظیفہ کس کے کاندھوں پر ڈالا گیا ہے؟ اگر کوئی یہ کہے کہ ان انسانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے اور زمین ایسی حجت خدا سے خالی ہو گئی ہے جس کا وظیفہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں بلکہ تمام عالم ھستی کو خدا کی سمت ہدایت دینا ہے تو یہ بات حکمت الہی سے واضح تضاد کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ وہ خدا جس نے حضرت موسی علیہ السلام کے کوہ طور پر صرف 40 دن جانے کے بعد ان کی قوم کو حجت الہی سے خالی نہیں چھوڑا اور حضرت ہارون علیہ السلام کو ان کے وصی کے طور پر مقرر فرمایا ہے کس طرح قیامت تک آنے والے انسانوں کو اپنی طرف سے مقرر شدہ حجت الہی اور حقیقی پیشوا سے محروم رکھ سکتا ہے؟
 
آیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد صرف قرآن اور سنت پیغمبر ص ہی مسلمانوں اور انسانوں کی ہدایت اور انہیں مختلف قسم کے انحرافات اور گمراہیوں سے نجات دلانے کیلئے کافی ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر امت مسلمہ ان دونوں کی موجودگی کے باوجود اس قدر اختلافات کا شکار کیوں ہو چکی ہے اور اس میں 72 سے زیادہ فرقے کیوں معرض وجود میں آ چکے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ اہلبیت اطہار علیھم السلام نے بارہا اس پر تاکید کی ہے کہ قرآن کریم کتاب صامت ہے جس کی تفسیر اور بیان کیلئے خدا کی جانب سے مقرر کردہ برگزیدہ روحانی پیشواوں کی ضرورت ہے۔ یہ الہی پیشوا قرآن کے حقیقی معنا و مفہوم کو بیان کرنے کے ذریعے مسلمانوں اور انسانوں کو قرآن کریم میں موجود عظیم حقائق سے آگاہ کرنے کا بھاری وظیفہ کاندھوں پر لئے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ عوام اپنے درمیان موجود لڑائی جھگڑوں کے ازالے اور فکری اور اعتقادی اختلافات کو دور کرنے کیلئے ہمیشہ ایسے پیشواوں اور امامان کے محتاج ہیں جنہیں خداوند متعال نے ہر خطا سے محفوظ قرار دیا ہو اور انہیں الہی علم سے نوازا ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے انسانی بدن میں عقل کا کام حواس خمسہ کی غلطیوں کو دور کرتے ہوئے انسان کو گمراہی اور انحراف سے بچانا ہے۔   
 
یہی وجہ ہے کہ مکتب تشیع پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ان کے معصوم جانشینوں کے تسلسل پر زور دیتا ہے اور اس مستحکم عقیدے پر استوار ہے کہ جب تک یہ کائنات باقی ہے اس وقت تک زمین حجت خدا سے ایک لمحہ بھی خالی نہیں رہ سکتی۔ لہذا معصومین علیھم السلام سے نقل ہونے والی روایات میں زمین پر حجت الہی کی موجودگی اور اس کے زندہ اور حاضر و ناظر ہونے کو ایک حتمی اور اٹل قانون قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ احادیث معصومین علیھم السلام میں کہا گیا ہے کہ 
"اگر زمین حجت خدا سے خالی ہو جائے تو اپنے بسنے والوں کو نگل جائے گی" [اصول کافی، جلد 1، صفحہ 178]۔
اسی طرح ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے کہ اگر بالفرض دنیا میں صرف دو ہی انسان موجود ہوں تو حتما ان میں سے ایک حجت خدا ہو گا۔ 
دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں کہ آئین اور آئینی اور حکومتی اداروں کی موجودگی کو کافی جانتے ہوئے ملک کو حکمران کی موجودگی سے بے نیاز قرار دیا گیا ہو۔ بلکہ ہر ملک میں نظم و نسق اور ملکی امور کی برقراری کیلئے آئین، حکومتی اداروں اور قانونی مراکز کے علاوہ ایک لائق اور محنتی حکمران کو بھی ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ اگر بعض حالات میں اس حکمران کو ملک سے باہر بھی جانا پڑے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ملک میں اپنا ایک نائب بنا کر جائے جو اس کی غیرموجودگی میں ملکی امور کو چلاتا رہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم جیسے ناقص انسانوں کی عقل تو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک ملک کو چلانے کیلئے صرف آئین اور آئینی ادارے ہی کافی نہیں بلکہ ایک ایسا لائق اور باصلاحیت شخص کا ہونا ضروری ہے جو حکمرانی کے فرائض انجام دے لیکن خداوند متعال جو حکیم ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے پوری عالم ھستی اور عالم بشریت کو اپنے نمائندے اور جانشین سے محروم کرتے ہوئے صرف قرآن کریم اور سنت پیغمبر ص کو ان کی ہدایت کیلئے کافی جانے؟ لہذا حکمت الہی کا معترف ہونے کے بعد اور اس کے تحت زمین کا حجت الہی سے خالی ہونے کو محال جاننے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آج کے دور میں بھی زمین حجت الہی سے خالی نہیں بلکہ امام مھدی عج رسول خدا ص کے بارہویں جانشین اور امام معصوم ہونے کے ناطے زندہ اور حاضر و ناظر اپنے الہی فرائض انجام دینے میں مشغول ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 339779
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش