0
Monday 27 Jan 2014 14:59

فرقہ پرست کون؟ (2)

فرقہ پرست کون؟ (2)
تحریر: عامر ریاض

1970ء کی دہائی سے ہمارے ہاں ہر مکتبہ فکر میں انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کا زور بڑھ چکا ہے، جبکہ اعتدال پسند پیچھے کی صفوں میں دھکیل دیئے گئے ہیں۔ ان انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کو استعمال کرنے والے گروہ اور طاقتیں بھی بہت سی ہیں، کیونکہ ان میں غصہ اور تعصب حد سے زیادہ ہوتا ہے، اس لیے انہیں استعمال کرنا بھی قدرے آسان ہوتا ہے۔ 19ویں صدی سے استوار کیے گئے جدید ریاستی بندوبست یعنی وطنی ریاستوں کی دنیا میں تو انہیں استعمال کرنا اور بھی آسان ہوچکا ہے کہ اقتدار یا طاقت کی لڑائی میں اولیت نہ ہی فقہا کو حاصل ہوتی ہے نہ ہی نظریئے کو بلکہ اصل مدعا یا مقصد اقتدار پر قبضے یا طاقت کا حصول ہی ہوتا ہے۔

جہاں فرقہ پرست و انتہا پسند خیالات ہوں گے، وہیں ان کو اپنے مقاصدکے تحت استعمال کرنے والوں کو بھی کامیابی ملے گی۔ جہاں نصاب اور میڈیا میں فرقہ وارانہ استعارے استعمال کرنے کی آزادی ہو، وہاں باہر والوں کی تو موجیں ہو جاتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ جب سے دنیا بنی ہے اس میں اختلافات بدرجہ اتم موجود رہے ہیں۔ کون سا گھر یا خاندان ہے جس میں اختلاف نہ ہو؟ اصل مسئلہ اختلاف نہیں بلکہ "اختلافات کے ساتھ جینا" ہے۔ جنھیں اختلافات کے ساتھ جینے کا ہنر آتا ہے وہی اعتدال، رواداری اور بردباری کا رستہ اپناتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں اختلافات کو یکسر ختم کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی کوئی مثبت عمل، البتہ یہ ممکن ہے کہ ہم سب اختلافات کے ساتھ جینا سیکھ جائیں۔ جو اختلافات کے ساتھ جینا نہیں جانتا وہی فرقہ پرست بھی ہے اور انتہا پسندیوں کا مبلغ بھی۔

جب 1920ء میں عدم تعاون کی تحریک کو بڑھاوا دینے کے لیے تحریک خلافت کے رہنماؤں نے نومولود علیگڑھ یونیورسٹی میں چند طلباء کو ساتھ لے کر "جامعہ ملیہ" بنائی تھی تو مہاتما گاندھی نے اس مجوزہ یونیورسٹی کے لیے علامہ اقبال کو خط لکھ کر پہلا وائس چانسلر بننے کی دعوت دی تھی۔ زیرک اقبال نے مہاتما گاندھی کو جو جواب میں لکھا تھا اسے کراچی کے خرم علی شفیق نے علامہ پرلکھی جا رہی 6 جلدوں پر مشتمل ضخیم سوانح کی تیسری جلد میں نقل کیا ہے۔ یہ کتابیں لاہور کی اقبال اکیڈیمی مسلسل چھاپ رہی ہے۔ جامعہ ملیہ بظاہر تو مسلمانوں کی قومی تعلیم کے لیے بنائی جارہی تھی، مگر اقبال کا استدلال تھا کہ مسلمانوں کی تعلیم سے قبل تمام مسلم مکاتب فکر کے درمیان ہم آہنگی ہونا لازم ہے، وگرنہ ایسی تعلیم سے فرقہ واریت پھوٹے گی۔

اقبال نے جس اندیشے کا اظہار کیا تھا وہ آج حقیقت بن چکا ہے۔ یہی استدلال انہوں نے خطبہ الہٰ آباد میں بھی دہرایا اور 11 اگست 1947ء کی تقریر میں بھی قائداعظم نے اسی سوچ کو اولیت دی تھی کہ اس میں رنگارنگی کو تسلیم کرنے اور رواداری کو اپنانے کا درس بدرجہ اتم موجود تھا۔ اب آپ سوچیں کہ ہم نے آج اس ملک میں فرقہ واریت اور انتہا پسندیوں کا خاتمہ کرنا ہے تو ہمیں اعتدال، رواداری اور معقولاتی (Rational) سلسلوں کو ہی آگے بڑھانا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 345370
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش