0
Wednesday 5 Feb 2014 11:45

یکجہتی کشمیر کے تقاضے

یکجہتی کشمیر کے تقاضے
تحریر: حبیب اللہ

  کشمیریوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں اس خطہ میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکمران کشمیری مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے، مضبوط و مستحکم کشمیر پالیسی ترتیب دیں۔ جموں و کشمیر، برصغیر کی اہم ترین ریاستوں میں سے ایک ہے، جس طرح حیدر آباد، جونا گڑھ اور مناوا جیسے مسلم اکثریتی علاقوں پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا، اسی طرح قیامِ پاکستان کے اڑھائی ماہ بعد 29 اکتوبر 1947ء کو انڈیا نے کشمیر پر لشکر کشی کی اور ریاست ہائے جموں کشمیر پر بھی اپنا تسلط جما لیا۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے پاکستانی افواج کو بھارتی لشکر کشی کا جواب دینے کا حکم دیا، تو پاکستانی فوج کے انگریز کمانڈر جنرل ڈگلس گریسی نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ 

بعد ازاں 1948ء میں پاکستانی افواج اور قبائلی مجاہدین سری نگر تک پہنچنے والے تھے کہ بھارت یکم جنوری 1948ء کو کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیا، جس پر سلامتی کونسل نے 12اگست 1948ء اور 5 مئی 1949ء کو دو قراردادیں پاس کیں کہ جنگ بند کرکے دونوں حکومتیں کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلائیں تاکہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کا انتظام کیا جائے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں جنگ بندی ہو گئی۔ اس کے بعد پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھارت مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کو ٹالتا رہا اور اقوام متحدہ جیسا حقوق انسانی کا علمبردار ادارہ جو مشرقی تیمور کا مسئلہ ہو، مسلمانوں کی رفاہی تنظیموں، شخصیات و اداروں پر پابندیوں کا مسئلہ ہو، تو دنوں میں اپنی قراردادوں و فیصلوں پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن کشمیر میں آج تک اپنی قراردادوں پر عمل نہیں کروا سکا۔ 

یہ نام نہاد عالمی طاقتوں اور اداروں کے بھارت کی طرف جھکائو کا نتیجہ تھا کہ انڈیا نے ہمیشہ اس مسئلہ پر روایتی ٹال مٹول سے کام لیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا، یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے نہتے کشمیریوں کے قتل عام کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ کشمیر میں استصواب رائے کے وعدہ سے انڈیا صاف طور پر مکر گیا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کر دیا۔ بھارت کا ہٹ دھرمی والا رویہ اور ظلم و ستم دیکھ کر کشمیریوں نے 1989ء میں اپنی عزتوں و حقوق کے تحفظ کے لئے گن اٹھانے کا فیصلہ کیا، جس پر چند برسوں میں ہی کشمیری مسلمانوں کی قربانیوں و شہادتوں کے نتیجہ میں مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر واضح طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ 

کشمیری مجاہدین کے حملوں سے بھارت سخت بوکھلاہٹ کا شکار تھا۔ بھارتی آرمی چیف سے لیکر سول حکمرانوں تک سبھی کی زبانوں سے یہ باتیں نکل رہی تھیں کہ مجاہدین کے ان حملوں کا ہمارے پاس کوئی توڑ نہیں۔ بھارت کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہو رہی تھیں کہ حکومت کسی طرح کشمیر سے جان چھڑائے کب تک ہندو قوم اپنے نوجوانوں کی لاشیں اپنے ہاتھوں سے جلانے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ یہ وہ دن تھے جب ایک بار پھر تحریک آزادی کشمیر اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی تھی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اپنے جوبن پر تھی کہ امریکا میں نائن الیون کا واقعہ ہوا اور سابق صدر پرویز مشرف ایک ٹیلیفون کال پر سرنڈر کر گئے۔ جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرنے والے حکمران جہاد کشمیر کو دہشت گردی سے تعبیر کرنے لگے، نہتے کشمیریوں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا گیا۔ 

بھارت نے چھیاسٹھ برسوں میں ہر ممکن طریقہ سے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کرنے اور کچلنے کی کوشش کی ہے مگر اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بھارتی فوج نے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا۔ ہزاروں کشمیری مائوں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی، بچوں و بوڑھوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہزاروں کشمیری نوجوان ابھی تک بھارتی جیلوں میں پڑ ے ہیں۔ کشمیر کا کوئی ایسا گھر نہیں جس کا کوئی فرد شہید نہ ہوا ہو یا وہ کسی اور انداز میں بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کا نشانہ نہ بنا ہو۔ لیکن اس کے باوجود کشمیری مسلمانوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ بھارت طاقت و قوت کے بل بوتے پر کشمیری مسلمانوں کو غلام بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ 

تاریخ گواہ ہے کہ کشمیری قوم 66 برس سے عزم و استقلال کا پہاڑ بن کر بھارت کے ظلم و تشدد کو برداشت کر رہی ہے مگر ان کی بھارت سے نفرت کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے کوئی کمی نہیں آئی۔ کشمیری مسلمانوں کی اہل پاکستان سے محبت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وہ اب بھی پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی گھڑیاں پاکستانی وقت کے مطابق رکھنا پسند کرتے ہیں، عیدین کا مسئلہ ہو تو اُن کی نگاہیں پاکستانی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کی طرف ہوتی ہیں۔ پاکستانی لیڈر کنٹرول لائن پہنچنے کا اعلان کریں، تو وہ اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور ان کی ایک آواز پر لبیک کہہ کر اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے کھینچے چلے آتے ہیں۔ یوم پاکستان پر کشمیر کی گلیوں میں پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے اور پاک بھارت کرکٹ میچ ہو تو ان کی تمام تر محبت اور ہمدردیاں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہوتی ہیں کشمیری قوم کی پاکستان اور اہل پاکستان سے یہی وہ لازوال محبت ہے، جس کی وجہ سے بھارت نے کبھی کشمیریوں کو حق استصواب رائے استعمال کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔

پاکستانی عوام ہر سال 5 فروری کو کشمیری مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ملک بھر میں جہاں جماعۃالدعوۃ، جماعت اسلامی، آل پارٹیز حریت کانفرنس اور دیگر دینی، سیاسی و سماجی تنظیمیں کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے، جلسوں، ریلیوں اور مظاہروں کا انعقاد کرتی ہیں اور کشمیریوں کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ کشمیری اکیلے نہیں پوری پاکستانی قوم ان کی پشت پر کھڑی ہے وہاں پورے ملک میں عام تعطیل اور سرکاری سطح پر بھی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔  صدر، وزیراعظم سمیت سبھی حکومتی ذمہ داران کی جانب سے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اور ان کی اخلاقی مدد جاری رکھنے کے بیانات داغے جاتے ہیں لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر آپ ان کشمیریوں کی اخلاقی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں تو پھر یہ کوئی اخلاق نہیں کہ آپ کشمیری مسلمانوں کے حق میں دو چار بیانات دے کر خاموش ہو جائیں اور انھیں بھارت کے چنگل میں پھنسا ہوا چھوڑ دیں۔ 

امریکا کی اس خطہ میں آمد کے بعد بھارت نے بہت فائدے اٹھا لئے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کی خبروں کی وجہ سے انڈیا کی عسکری و سیاسی قیادت بہت زیادہ پریشان دکھائی دیتی ہے۔ بھارت کو امریکا کی سرپرستی میں اس خطہ کی سپر پاور بننے کے خواب بکھرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اس کی آٹھ لاکھ فوج خود بھارت کے لئے بہت بڑا بوجھ بنتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں کہ جب مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی ایک بار پھر اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکمران کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کشمیریوں کی محرومیوں کا ازالہ کریں اور مضبوط و مستحکم کشمیر پالیسی ترتیب دیں۔ 

کشمیری مسلمانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں اس خطہ میں زبردست تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ حکومت پاکستان کو امریکا و بھارت کے دبائو کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اس موقف پر ڈٹ جانا چاہیئے کہ جب تک کشمیریوں کو ان کا حق نہیں دیا جاتا بھارت سے کسی قسم کے کوئی معاہدات نہیں ہوں گے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریائوں پر ڈیم تعمیر کر کے اور دریائوں کا رخ موڑ کر دنیا کی سب سے بڑی پانی چوری کا ارتکاب کر رہا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ 18 کروڑ آبادی میں سے اس کا بیشتر حصہ زراعت کے پیشہ سے وابستہ ہے ۔دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بھی اللہ نے پاکستان کو ہی عطا کر رکھا ہے، مگر اس کے باوجود دریائوں میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہو چکی ہے۔ 

افسوسناک بات یہ ہے کہ اس صورتحال میں بھی پاکستانی حکمران وہ جرأت مندانہ کردار ادا نہیں کر رہے جو انہیں ادا کرنا چاہیئے۔ انڈیا پاکستانی دریائوں پر ڈیم تعمیر کر کے بغیر جنگ لڑے پاکستان کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ارباب حل و عقد پاکستان کے لئے زندگی اور موت کی حیثیت رکھنے والے اس انتہائی اہم مسئلہ پر بھارت کی ناراضی کے ڈر سے خاموشی اختیار کر کے ملکی سلامتی و خودمختاری کو دائو پر لگا رہے ہیں۔ آزادی کشمیر سے ہی پاکستان کے پانی، بجلی و دیگر مسائل حل ہوں گے حکمرانوں کو بانی پاکستان کا یہ فرمان کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے یاد رکھنا چاہیئے اور دل و دماغ میں یہ بات بٹھا لینی چاہیئے کہ اپنی شہہ رگ کو ازلی دشمن ہندو سے چھڑائے بغیر پاکستان کا دفاع ممکن نہیں۔
خبر کا کوڈ : 348531
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش