1
0
Friday 7 Feb 2014 00:06

یوم اللہ اور اسلامی انقلاب (1)

یوم اللہ اور اسلامی انقلاب (1)
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com


11 فروری کو ملّت ایران "یوم اللہ" کے نام سے مناتی ہے اور اس روز ایران بھر میں اسلامی انقلاب کی ترقّی اور ارتقاء کے لئے دعائیں نیز  اسلامی انقلاب کے دشمنوں، بے دین طاقتوں سے اظہارِ بیزاری اور اپنی دینی قیادت سے اظہارِ محبّت کیا جاتا ہے۔ 11 فروری کو پورے ایران میں بڑے پیمانے پر جلسے، جلوس اور ریلیاں نکلتی ہیں، جن میں شاید ہی کوئی ایرانی حصّہ نہ لیتا ہو۔ چنانچہ ہر سال فرزندانِ توحید کی یہ عظیم الشّان ریلیاں ایک طرف تو استعماری طاقتوں کی کمر توڑ دیتی ہیں اور دوسری طرف اسلامی حکومت کے حق میں ریفرنڈم ثابت ہوتی ہیں۔ یوں تو اسلامی انقلاب کے بعد ملتِ ایران کا ہر اجتماع باطل قوتوں پر خوف و ہراس طاری کر دیتا ہے۔ لیکن طاغوتی طاقوتوں پر جو ہیبت "یوم اللہ" کی طاری ہوتی ہے، وہ واقعتاً قابلِ دید اور قابلِ مشاہدہ ہے۔
 
اس یوم کی ہیبت سے خوفزدہ میڈیا اس روز کو اس لئے اصلاً کوریج نہیں دیتا کہ کہیں ایران میں طلوع کرنے والا اسلامی انقلاب دیگر ممالک میں "صادر" نہ ہوجائے۔ چنانچہ "صدورِ انقلاب" کے حوالے سے غیر اسلامی طاقتوں اور ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ گروپوں کی اطلاع کے لئے اسلامی انقلاب کے رہنما سید علی خامنہ ای حفظہ تعالٰی اپنے ایک خطاب میں فرما چکے ہیں کہ ہمیں دشمن کہتے ہیں کہ انقلاب کو صادر مت کرو۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا انقلاب کوئی صادر کرنے والی شئے ہے؟ انقلاب تو پھولوں کی خوشبو کی مانند ہے، جو خود بخود پھیل جاتی ہے۔ انقلاب تو موسم بہار میں چلنے والی بادِ نسیم کی مانند ہے کہ جو خود بخود بدبودار اور گھٹن ماحول کو خوشبودار اور معطر کر دیتی ہے۔ انقلاب کو صادر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی لہر خود بخود پھیل جاتی ہے۔ [1]

جی ہاں! انقلاب کو صادر کرنے کی ضرورت نہیں، انقلاب تو موسم بہار میں چلنے والی بادِنسیم کی مانند ہے کہ جو خود بخود بدبودار اور گھٹن ماحول کو خوشبودار اور معطر کر دیتی ہے۔ کیا آج ہم نہیں دیکھ رہے کہ استعماری طاقتوں کے پروپیگنڈے کے باوجود، امریکی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے مفتیوں اور مولویوں کے فتووں کے باوجود گذشتہ 34 برس سے یہ انقلاب مسلسل ترقی، استقلال، سربلندی اور عظمت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ آج علم و اجتہاد سے لے کر سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان تک ہر طرف دور دور تک اس انقلاب کا کوئی حریف نہیں، کوئی ثانی نہیں اور کوئی مدّمقابل نہیں۔ آج عراق، تیونس، مصر، لیبیا، فلسطین، کشمیر، افغانستان، یمن، بحرین اور سعودی عرب میں اسلامی انقلاب کی موجیں عالمِ بشریّت کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اب تو اپنی آنکھوں سے تعصّب کے پردے ہٹا دو اور اس حقیقت کو تسلیم کر لو کہ حقیقی فتح صرف اور صرف حق کی ہوتی ہے۔

ان 34 سالوں میں حضرت امام خمینی ؒ کے خلاف دیئے گئے فتوے "آسمان پر تھوکا" کے مصداق ثابت ہوئے، اسلامی انقلاب کو شیعہ انقلاب کہنے کی مذموم سازشیں بے نقاب ہوگئیں۔ نیز صدام اور قذافی سمیت ظالموں، بادشاہوں، ڈکٹیٹروں اور آمروں کی پشت پناہی کرنے والے "ناصبی و امریکی"، "صہیونی و خارجی" دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہوئے۔ یہ اسلامی انقلاب کی بادِ نسیم کا ہی ثمر ہے کہ یمن کی محکوم عوام نے اپنے وجود سے بادشاہت کے خوف کا چوغہ اتار پھینکا، تیونس کی مظلوم ملت نے ظالم آمریت کی آنکھیں نکال دیں، بحرین کے تہی دست لوگ اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر لئے گلی کوچوں میں نکل آئے، مصر کے مظلوموں نے یزیدِ وقت کا جنازہ نکال دیا، لیبیا کے بہادروں نے آمریت کا بھرکس بنا دیا، حماس نے ناصبیت کے منہ پر طمانچے مارے، حزب اللہ نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے، عراقیوں نے امریکیوں کے نجس وجود کو اپنی مقدس سرزمین سے باہر دھکیلا اور ایرانیوں نے امریکی جاسوس ٹیکنالوجی کا توڑ پیش کرکے وائٹ ہاوس کی چولیں ہلا دیں۔

یہ سب کچھ ایسے ہی ہوا جیسے آج سے چودہ سو سال پہلے دنیا کے بڑے بڑے دانشمندوں، کاہنوں اور نجومیوں کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ مکّے کی سنگلاخ چٹانوں کے درمیان انگڑائیاں لینے والا دین اسلام اپنے سینے میں ایسی آتش انقلاب کو دبائے ہوئے ہے کہ جس کے بھڑکتے ہی ذات پات جیسی زنجیریں، قیصر و کسری جیسی بادشاہتیں، روم و ایران جیسی سلطنتیں، عربی اور عجمی جیسی دیواریں خاکستر ہوجائیں گی۔ وہ اسی انتظار میں تھے کہ جیسے ہی پیغمر اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوگا، اسی وقت اسلام بھی ختم ہوجائیگا، لیکن ان کے دیکھتے ہی دیکھتے دین اسلام مکّے کے افق سے ابھرا اور مدینے کی وادی پر چمکتا ہوا آفاق عالم میں بادِ نسیم کی طرح گھل مِل گیا۔ 

مکّے میں بعثت پیغمبرِ اسلام کے بعد آج تلک ہر چشم بینا اور ہر مرد دانا کے لئے ہر صبح، انقلاب کی بادِ نسیم لے کر طلوع ہوتی ہے۔ ایک ایسے انقلاب کی خوشبو جو وقت کے سینے میں گلاب کی طرح مہک رہا ہے۔ جو نادان بھی اس انقلاب کے سامنے سینہ سپر ہونے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں یہ انقلاب خوشبو کے جھونکوں طرح خاطر میں نہ لاتے ہوئے نسل در نسل اور صدی بہ صدی آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دین اسلام نام ہے ایک ایسی خوشبو کا کہ جس نے اقوام عالم کے درمیان حائل ذات پات اور ملک و نسب کی خلیج کو پاٹ دیا، جس نے عربی اور عجمی کے درمیان مشرق و مغرب کی طرح پھیلے ہوئے فاصلے کو مٹا دیا، جس نے عزّت کی میزان، برتری کے معیار اور فضیلت کے ترازو کو تبدیل کر دیا۔ بعثت رسول اکرم (ص) سے لے کر آج تک اس دین کی آفاقی و انقلابی تعلیمات نے اطراف عالم میں اقوام عالم کے مفکرین، ادیان، تحریکوں اور معاشروں پر اثرانداز ہوکر کئی مرتبہ مظلوم و محکوم انسانوں کو جبر و استبداد اور ظلم و بربریّت کی زنجیروں سے نجات دلائی ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 349079
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

قبلہ ابھی صحت کیسی ہے؟ اللہ آپ کو صحیح و سالم رکھے۔ آمین
ہماری پیشکش