0
Saturday 8 Feb 2014 21:36

شام میں سرگرم مسلح دہشتگرد گروہوں کا مختصر تعارف

شام میں سرگرم مسلح دہشتگرد گروہوں کا مختصر تعارف
شام میں موجودہ سیاسی بحران 2011ء کو شروع ہوا۔ ملک کے بعض حصوں میں پرامن مظاہرے کئے گئے۔ لیکن ساتھ ہی بعض عرب اور مغربی ممالک کی جانب سے بڑے پیمانے پر مسلح دہشت گرد شام میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ ان دہشت گرد عناصر کو عرب اور مغربی ممالک کے علاوہ ترکی کی حمایت بھی حاصل تھی۔ ان دہشت گرد عناصر نے شام کے عوام پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی اور بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع ہو گئے۔ اس تحریر میں شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد گروہوں کا مختصر تعارف پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

1. داعش:
عرب تکفیری دہشت گردوں پر مشتمل یہ گروہ "دولہ الاسلامیہ فی العراق و الشام" یا "داعش" کے نام سے معروف ہے۔ اس دہشت گروہ نے شام اور عراق میں خلافت کے نظام پر مبنی اسلامی حکومت تشکیل دینے کو اپنا مشن بیان کر رکھا ہے۔ اس گروہ کی زیادہ تر سرگرمیاں انہیں دو اسلامی ممالک یعنی عراق اور شام میں مرکوز ہیں۔ داعش کا سربراہ ابوبکر البغدادی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

داعش کیسے تشکیل پائی؟
۱۵ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو عراق میں سرگرم بعض تکفیری دہشت گرد گروہوں نے آپس میں اتحاد قائم کیا جس کا نام "دولہ الاسلامیہ فی العراق" رکھا گیا اور ابو عمر البغدادی کو اس کے سربراہ کے طور پر متعین کیا گیا۔ یہ دہشت گرد گروہ ۲۰۰۶ء میں اپنی تشکیل سے لے کر آج تک بے شمار دہشت گردانہ اقدامات کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ ۱۹ اپریل ۲۰۱۰ء کو ابو عمر البغدادی کی ہلاکت کے بعد ابوبکر البغدادی کو اس گروہ کے نئے سربراہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ ابوبکر البغدادی کے سربراہ بننے کے بعد اس گروہ کی جانب سے عراق میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں انتہائی تیزی آ گئی اور جب ۲۰۱۱ء میں شام میں سیاسی بحران رونما ہوا تو اس گروہ سے وابستہ تکفیری دہشت گرد بڑی تعداد میں شام پہنچنا شروع ہو گئے اور اس طرح شام میں بھی اس گروہ کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا۔

داعش کی تشکیل کا مقصد:
۲۰۰۴ء میں ابومصعب الزرقاوی نے عراق میں "توحید و جہاد" نامی دہشت گرد گروہ تشکیل دیا اور ساتھ ہی اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ اس طرح یہ گروہ ابومصعب الزرقاوی کی قیادت میں عراق میں القاعدہ کی ذیلی شاخ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ یہ گروہ بڑے پیمانے پر شدت پسندانہ کاروائیوں کی بدولت عراق میں ایک انتہائی خطرناک دہشت گروہ کی صورت اختیار کر گیا۔ ۲۰۰۶ء میں ابومصعب الزرقاوی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے "شورای مجاہدین" کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے عبداللہ رشید البغدادی کو اس کے سربراہ کے طور پر معین کر دیا۔

۲۰۰۶ء میں ہی ابومصعب الزرقاوی کی ہلاکت کے بعد ابوحمزہ المہاجر اس گروہ کے نئے سربراہ کے طور پر سامنے آیا۔ اس سال کے آخر میں ابوعمر البغدادی کی سربراہی میں کئی دہشت گرد گروہوں کے اتحاد سے "دولت الاسلامیہ فی العراق" کی بنیاد رکھی گئی۔ ۱۹ اپریل ۲۰۱۰ء کو عراقی سیکورٹی فورسز اور امریکی فوجیوں نے ایک مشترکہ کاروائی کے دوران "الثرثار" نامی علاقے میں موجود ایک گھر پر حملہ کیا جہاں توقع کی جا رہی تھی کہ ابوعمر البغدادی اور ابوحمزہ المہاجر موجود ہیں۔ شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد اس گھر پر ہوائی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں یہ دونوں دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ ان دونوں کی لاشیں عام لوگوں کو دکھائی گئیں۔ تقریبا ایک ہفتے بعد اس دہشت گرد گروہ نے انٹرنیٹ پر اپنے ایک بیانئے کے ذریعے ان دونوں دہشت گردوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے ابوبکر البغدادی کو اپنے نئے سربراہ کے طور پر اعلان کیا۔ اس کے علاوہ الناصر لدین اللہ سلیمان کو وزیر جنگ کے طور پر معین کیا گیا۔

داعش کے زیر اثر علاقے:
عراق میں دہشت گرد گروہ داعش زیادہ تر سعودی عرب کی سرحد پر واقع صوبہ الانبار میں سرگرم ہے۔ اس دہشت گرد گروہ نے اس علاقے میں اپنے اڈے بنا رکھے ہیں جہاں سے وہ پورے عراق میں دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دیتے ہیں۔ عراقی حکومت می جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق داعش نے ۲۰۱۳ء کے وسط تک تقریبا ۱۴۰۰ گھر تباہ کئے تھے جن میں ۱۹۹۶ کے لگ بھگ عام شہری جاں بحق ہوئے تھے اور تقریبا ۳۰۲۱ افراد زخمی ہوئے۔ اس سال کے شروع میں عراق آرمی نے صوبہ الانبار میں بڑے پیمانے پر داعش کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے اس گروہ سے وابستہ اکثر دہشت گرد وہاں سے نکل کر فلوجہ چلے گئے ہیں۔ اسی طرح شام میں بھی یہ گروہ دہشت گردانہ کاروائیوں میں مصروف ہے۔ شام کے صوبے رقہ، حلب، لاذقیہ، ریف دمشق، دیر الزور، حمص، حماہ، حسکہ اور ادلب وہ علاقے ہیں جو اس دہشت گرد گروہ کی کاروائیوں سے متاثر ہیں۔ ان میں سے بعض علاقے ایسے بھی ہیں جو مکمل طور پر داعش کے کنٹرول میں ہیں۔

داعش کے حامی کون ہیں:
داعش اور النصرہ فرنٹ سے وابستہ تکفیری دہشت گرد شام میں سب سے زیادہ سفاک اور بے رحم دہشت گردوں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس گروہ کی جانب سے اپنی سفاکانہ اور غیرانسانی اقدامات پر مبنی ویڈیوز جاری کئے جانے کے بعد شام کے حکومت مخالف دھڑے ان سے متنفر ہونا شروع ہو گئے اور ان سے اعلان لاتعلقی کرنے لگے۔ حتی بعض مسلح گروہ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر مالی امداد حاصل کرنے اور خود کو اچھا ظاہر کرنے کیلئے داعش کے خلاف محاذ آرائی بھی شروع کر دی ہے۔ شام میں بحران کے آغاز سے ہی بعض عرب اور مغربی ممالک کی جانب سے بڑے پیمانے پر مالی اور فوجی امداد مہیا کئے جانے کی وجہ سے شام میں سرگرم مسلح گروہوں میں ایک طرح کی رقابت معرض وجود میں آ گئی تھی اور ہر گروہ کی کوشش تھی کہ وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مالی اور فوجی امداد حاصل کر سکے۔ اسی وجہ سے مختلف حکومت مخالف مسلح گروہوں کے درمیان جھڑپیں بھی دیکھنے کو ملی ہیں۔ اس وقت داعش کی حمایت کرنے والے ممالک میں سعودی عرب، قطر اور ترکی کا نام سرفہرست ہے۔ یہ ممالک ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کو مالی امداد، فوجی امداد، لاجسٹک سپورٹ اور انٹیلی جنس سپورٹ فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ چند مغربی ممالک بھی شام میں دہشت گرد عناصر کی حمایت میں لگے ہوئے ہیں۔

2. النصرہ فرنٹ:
النصرہ فرنٹ یا "جبھہ النصرہ لاھل الشام" سلفی جہادی سوچ رکھنے والی دہشت گرد تنظیم ہے جو ۲۰۱۱ء کے آخر میں معرض وجود میں آئی۔ اس وقت اس گروہ کی سربراہی ابو محمد الجولانی کے ہاتھ میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس گروہ میں سرگرم دہشت گردوں کی تعداد پانچ سے چھ ہزار تک ہے۔ یہ گروہ شام کے صوبوں ادلب، حلب، دیر الزور اور غوطہ میں سرگرم ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ابو محمد الجولانی ۲۰۰۸ء میں عراق میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا لیکن بعد میں امریکیوں نے اسے آزاد کر دیا۔ النصرہ فرنٹ بہت جلد ہی شام کے ایک اہم دہشت گرد مسلح گروہ کی حیثیت اختیار کر گیا جس کی بنیادی وجہ اس گروہ میں سرگرم دہشت گرد عناصر کی بہتر فوجی ٹریننگ بتائی جاتی ہے۔ اس گروہ نے اب تک دمشق اور حلب میں انجام پانے والے کئی خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ امریکی انٹیلی جنس رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ النصرہ فرنٹ کے القاعدہ عراق سے بہت قریبی تعلقات ہیں۔

النصرہ فرنٹ نے ۲۴ جنوری ۲۰۱۲ء کو جاری ہونے والے اپنے پہلے بیانئے میں شامی عوام کو جہاد کی دعوت دیتے ہوئے انہیں شام حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کی ترغیب دلائی۔ اس گروہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیانئے اکثرا نامعلوم افراد کی جانب سے ٹویٹر پر شائع کئے جاتے ہیں۔ البتہ یہ بیانئے "المنارہ البیضاء" نامی چینل کے نام سے جاری ہوتے ہیں۔ اس گروہ کی تشکیل میں بانی کا کردار ادا کرنے والے وہ شامی جنگجو تھے جو القاعدہ کی جانب سے عراق، افغانستان اور چچنیا میں فوجی کاروائیاں کرتے رہے تھے۔ اسی طرح النصرہ فرنٹ کے مارے جانے والے دہشت گردوں کی شناخت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس گروہ میں ترکی، عرب ممالک، ازبکستان، چچنیا، تاجکستان اور حتی یورپی ممالک سے بھی دہشت گرد جنگجو سرگرم عمل ہیں۔ دسمبر ۲۰۱۲ء میں امریکہ نے النصرہ فرنٹ کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا جسے شام میں حکومت مخالف اتحاد اور سیرین فری آرمی کے کمانڈرز نے مسترد کر دیا۔ اسی طرح ۳۰ جنوری ۲۰۱۳ء کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے النصرہ فرنٹ کو القاعدہ کی ذیلی شاخ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندیوں کا اعلان کر دیا۔

مغربی ممالک سے وابستہ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق النصرہ فرنٹ کو سعودی عرب کی جانب سے مالی مدد اور حمایت حاصل ہے۔ یہ تکفیری دہشت گرد گروہ شام میں سفاکانہ اور غیرانسانی اقدامات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس گروہ نے شام کے مختلف شہروں میں شرعی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں جہاں ہر روز عام بیگناہ شامی شہریوں کو سزائے موت سنائی جاتی ہے اور پھر سرعام تکفیری دہشت گردوں کی جانب سے یا تو ان کو حیوانوں کی طرح ذبح کر دیا جاتا ہے اور یا پھر سر پر گولیاں مار دی جاتی ہیں۔ ان بیگناہ شہریوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ النصرہ فرنٹ ہی وہ تکفیری دہشت گرد ٹولہ ہے جس سے وابستہ دہشت گردوں نے مارے جانے والے شامی فوجی کا سینہ چاک کر کے اس کے دل کو چبا کر دنیا والوں کو حیران اور انگشت بدھان کر دیا ہے۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اکیسویں صدی کے جدید دور میں کوئی ابوسفیان کا پیروکار جنگ احد میں ہندہ کی جانب سے حضرت حمزہ کا جگر نکال کر کچا چبانے کی یاد کو ایک بار پھر تازہ کر سکتا ہے۔

اس تکفیری دہشت گروہ نے صرف سفاکانہ اقدامات میں ہی سب کو پیچھے نہیں چھوڑ دیا بلکہ بے حیائی اور بے غیرتی کی بھی نئی مثالیں قائم کر دی ہیں۔ اس بے حیائی کا ایک نمونہ "جہاد النکاح" جیسا فتوا تھا جس کے تحت خود کو مسلمان اور اسلامی شریعت کے نفاذ کا ٹھیکہ دار کہنے والے ان تکفیری مجرموں نے جنسی بے راہروی اور زنا کو اسلامی فعل قرار دیتے ہوئے دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے چہرے پر بدنما داغ چھوڑ دیا ہے۔ سعودی وہابی مفتیوں کی جانب سے صادر ہونے والا یہ فتوا شام میں النصرہ فرنٹ کے درندوں کو کھلی چھوٹ دینے کیلئے کافی تھا۔ اس فتوے نے عرب ممالک کی کتنی ہی نوجوان مسلمان دوشیزاوں کو منحرف کیا اور انہیں بے غیرتی اور بے حیائی کے راستے پر لگایا۔ یہ خواتین ان شیطان صفت مفتیوں کے غلط فتووں کے نتیجے میں اپنے گمان میں مسلمان مجاہدوں کی خدمت کے جذبے سے شام پہنچیں اور ان تکفیری غنڈوں کی ہوس کا نشانہ بنتی رہیں۔ یہ تکفیری دہشت گرد اپنی ہوس پوری ہونے کے بعد ان مسلمان خواتین کو قتل کر دیتے تھے۔ مختلف علاقوں سے ملنے والی ان لاشوں میں بڑی تعداد شام کی خواتین کی تھی جبکہ چچنیا کی خواتین کی لاشیں بھی ملی ہیں۔

مختلف انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق اردن کی سرزمین پر ترکی کی سرحد کے قریب بڑے پیمانے پر ٹریننگ سنٹرز قائم کئے گئے ہیں جہاں النصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کو امریکی، سعودی اور ترک فوجی افسر ٹریننگ دے کر شام بھیجتے ہیں۔

النصرہ فرنٹ اور داعش کے درمیان جاری اختلافات:
شام میں النصرہ فرنٹ اور داعش کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ انہیں اختلافات کے تناظر میں القاعدہ کے راہنما ایمن الظواہری نے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو حکم دیا کہ وہ شام سے نکل جائے اور اپنے گروہ کی سرگرمیوں کو صرف عراق تک ہی محدود کر دے اور النصرہ فرنٹ کو اپنے اندر ضم کرنے کی کوششیں ترک کر دے۔ ایمن الظواہری نے تاکید کی کہ ابوبکر البغدادی اپنے گروہ کا سابقہ نام یعنی "دولہ الاسلامیہ فی العراق" بحال کرتے ہوئے اپنی کاروائیوں کو صرف عراق کے اندر ہی محدود کر دے۔ لیکن دوسری طرف داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے ایمن الظواہری کے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ابوبکر البغدادی نے اپنے ایک آڈیو پیغام میں اعلان کیا کہ اسے ایمن الظوایری کا یہ فیصلہ قبول نہیں۔ اس پیغام میں

ابوبکر البغدادی کے الفاظ یہ تھے:
"جب تک ہماری نبض چل رہی ہے اور ہماری رگوں میں خون دوڑ رہا ہے دولت اسلامی فی العراق و الشام باقی ہے اور اس کی سرگرمیاں جاری ہیں اور ہم کسی صورت بھی اپنے اس فیصلے سے پیچھے ہٹنے یا اس پر سودا بازی کرنے پر حاضر نہیں ہو سکتے"۔

3. سیرین اسلامک فرنٹ:
۲۱ دسمبر ۲۰۱۳ء کو "احرار الشام بریگیڈز" نے مل کر ایک نیا جنگی اتحاد تشکیل دیا جسے "الجبھہ الاسلامیہ السوریہ" یا سیرین اسلامک فرنٹ کا نام دیا گیا۔ اس فرنٹ کی قیادت کئی کمانڈرز پر مشتمل ایک مرکزی شورا کے ہاتھ میں ہے جس کی سربراہی احمد عیسی الشیخ ابو عیسی نامی شخص کر رہا ہے۔ یاد رہے احمد عیسی الشیخ ابو عیسی اس سے پہلے دہشت گرد گروہ صقور الشام کا کمانڈر رہا ہے۔ سیرین اسلامک فرنٹ دو ونگز یعنی سیاسی اور فوجی ونگ پر مشتمل ہے۔ فوجی ونگ کا سربراہ جیش الاسلام کا سربراہ زھران علوش ہے جبکہ سیاسی ونگ کی سربراہی احرار الشام کے کمانڈر حسان عبود کے ہاتھ میں ہے۔ اس گروہ نے اعلان کیا ہے کہ اس کا مقصد شام کے موجودہ سیاسی نظام کا خاتمہ ہے۔

بعض باخبر ذرائع کی جانب سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق سیرین اسلامک فرنٹ ۵۰ ہزار جنگجووں پر مشتمل ہے۔ حال ہی میں اس دہشت گرد گروہ نے شام کے مختلف علاقوں میں فری سیرین آرمی کے اڈوں پر قبضہ کرتے ہوئے اس کے فوجی ذخائر بھی اپنے قبضے میں لے لئے ہیں۔ اس اقدام نے سیرین اسلامک فرنٹ کو ایک معروف مسلح گروہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ سیرین اسلامک فرنٹ نے اپنی تشکیل کے اعلان کے ساتھ ہی اپنا منشور بھی جاری کیا ہے جس میں اس دہشت گرد گروہ کے اہداف اور پالیسیاں بیان کی گئی ہیں۔ اس گروہ کے منشور میں دہشت گرد گروہ داعش سے بیزاری کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ داعش کی جانب سے انتہائی ظالمانہ اور انسانیت سے گرے ہوئے اقدامات کے باعث شامی عوام میں اس کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو جانے کے بعد سیرین اسلامک فرنٹ کے نام سے ابھرنے والا یہ نیا مسلح دہشت گروہ اپنے اس منشور کے ذریعے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ لہذا اس گروہ کی جانب سے بظاہر نئے اور عوام پسندانہ اہداف و مقاصد کا اعلان کیا گیا ہے۔

عوام کے اندر اپنا مسخ شدہ چہرہ بہتر بنانے کی غرض سے ان حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں نے اپنے زیرکنٹرول علاقوں میں سڑکوں کی صفائی اور عام شہریوں کے درمیان مفت روٹی تقسیم کرنے کا کام بھی شروع کر دیا۔ اسی طرح اپنی تحریک کو مذہبی رنگ دینے کی خاطر بچوں کے درمیان قرآنی مقابلوں کا انعقاد بھی کروایا جا رہا ہے۔ سیرین اسلامک فرنٹ کی جانب سے اعلان کردہ منشور میں کہا گیا ہے کہ اپنے شرعی وظایف کی تکمیل کیلئے ۱۱ مختلف مسلح گروہوں نے مل کر "الجبھہ الاسلامیہ السوریہ" نامی اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیرین اسلامک فرنٹ کے نعروں اور اقدامات سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ یہ گروہ حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کے درمیان پائے جانے والے انتشار اور بدنظمی پر قابو پانے کیلئے معرض وجود میں آیا ہے۔

اس سلسلے میں سیرین اسلامک فرنٹ کے منشور میں آیا ہے:
"یہ گروہ اسلامی گروہوں میں سے ایک ہے لہذا ہم اپنے اتحاد اور اتفاق کی حفاظت اور تفرقہ سے بچنے کیلئے بھرپور کوشش کریں گے اور تمام ایسے گروہوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے جن کے ساتھ تعاون اور ھمکاری ممکن ہو گی اور جہاں تک ممکن ہو گا ان سے دشمنی نہیں کریں گے۔ ہم ماضی میں اپنائے جانے والی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے اور ان کی اصلاح کرنے پر پورا ایمان رکھتے ہیں تاکہ ماضی میں انجام پانے والی غلطیوں سے بچ سکیں اور فوجی اور سیاست کے میدان میں عظیم کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکیں"۔
شام میں سیاسی بحران کے آغاز سے آج تک تقریبا تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس تمام مدت میں حکومت مخالف تکفیری دہشت گرد گروہوں کی سب سے بڑی اور واضح خصوصیت شدت پسندی رہی ہے جس کا مشاہدہ ساری دنیا والے کر چکے ہیں۔ شام کے عوام ان دہشت گرد گروہوں کا نام سن کر ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ لہذا سیرین اسلامک فرنٹ کی جانب سے جاری کردہ اس منشور میں اپنے ماضی کو دھونے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مسلح دہشت گرد گروہ اپنی ماضی کی سفاکانہ اور بہیمانہ کاروائیوں سے پشیمان ہیں۔ اسی طرح اس اتحاد کے منشور میں میانہ روی اور معتدل مزاجی پر تاکید بھی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کا احترام واجب ہے اور کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو کافر قرار دے۔

سیرین اسلامک فرنٹ میں مندرجہ ذیل مسلح دہشت گرد گروہ شامل ہیں:
۱۔ کتائب احرار الشام [شام کے تمام صوبوں میں]۔
۲۔ کتائب الایمان المقاتلہ [صوبہ دمشق اور اس کے گردونواح میں]۔
۳۔ کتیبہ الحمزہ بن عبدالمطلب [صوبہ دمشق اور اس کے گردونواح میں]۔
۴۔ کتیبہ صقور الاسلام [صوبہ دمشق اور اس کے گردونواح میں]۔
۵۔ سرایا المھام الخاصہ [صوبہ دمشق اور اس کے گردونواح میں]۔
۶۔ لواء الحق [صوبہ حمص اور اس کے گردونواح میں]۔
۷۔ حرکہ الفجر الاسلامیہ [صوبہ حلب اور اس کے گردونواح میں]۔
۸۔ کتیبہ مصعب بن عمیر [صوبہ حلب کے گردونواح میں]۔
۹۔ جماعہ الطلیعہ الاسلامیہ [صوبہ ادلب کے گردونواح میں]۔
۱۰۔ کتائب انصار الشام [صوبہ لاذقیہ اور اس کے گردونواح میں]۔
۱۱۔ جیش التوحید [صوبہ دیرالزور اور اس کے گردونواح میں]۔

4. جیش المجاہدین:
جیش المجاہدین کا شمار شام میں حال ہی میں تشکیل پانے والے مسلح گروہوں میں ہوتا ہے۔ یہ گروہ 3 جنوری ۲۰۱۴ء کو معرض وجود میں آیا ہے۔ شام کے صوبہ حلب میں کئی مسلح دہشت گرد گروہوں نے مل کر "جیش المجاہدین" نامی اتحاد کو تشکیل دیا ہے جس کی سربراہی توفیق شہاب الدین کر رہا ہے جو ماضی میں نورالدین الزنکی بریگیڈ کا کمانڈر رہ چکا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق اس اتحاد میں شامل ہونے والے بعض اہم مسلح دہشت گرد گروہ کچھ یوں ہیں:
۱۔ نور اسلامی تحریک۔
۲۔ استقم کما امرت گروپ۔
۳۔ نورالدین الزنکی بریگیڈ۔
۴۔ لواء الحریہ الاسلامیہ۔
۵۔ انصار الخلافہ بریگیڈ۔
۶۔ امجاد الاسلام بریگیڈ۔
۷۔ الانصار بریگیڈ۔
۸۔ جند الحرمین بریگیڈ۔

جیش المجاہدین نامی اتحاد ایک ایسے وقت میں تشکیل پایا ہے جب شام میں سرگرم حکومت مخالف مسلح دہشت گروہ اور ان کے بیرون ملک حامیوں کی پوری کوشش ہے کہ وہ حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کے درمیان پائے جانے والے انتشار اور اختلافات کو ممکن حد تک کم کر سکیں۔

جیش المجاہدین اور داعش کے درمیان اختلافات:
جیش المجاہدین کے ترجمان محمد ادیب کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد صرف حلب کے اندر محدود نہیں بلکہ اس کی سرگرمیاں پورے شام میں پھیلی ہوئی ہیں۔ محمد ادیب نے کہا کہ جیش المجاہدین حلب، ادلب اور ان کے گردونواح میں داعش کی جانب سے اپنے چھینے گئے اڈوں اور علاقوں کو واپس لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ترجمان جیش المجاہدین کا کہنا تھا کہ ہمارے اتحاد نے پورے شام میں داعش کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے اور داعش کو ختم کرنے کیلئے تمام مسلح گروہوں کے درمیان اتفاق حاصل ہو چکا ہے۔ جیش المجاہدین کی قیادت تمام مسلح گروہوں کو داعش کے خلاف متحد ہونے کی دعوت دیتی ہے۔ محمد ادیب نے داعش کے ساتھ اپنے اختلافات اور دشمنی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ کچھ عرصے میں داعش کی جانب سے غیرانسانی اقدامات اور ظالمانہ حرکتیں ہمارے لئے قابل قبول نہیں لہذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ داعش کی جانب سے شامی عوام کی توہین، مذہبی مقامات کی بے حرمتی، فری سیرین آرمی کے خلاف اعلان جنگ اور شامی عوام کو کافر قرار دینے جیسے اقدامات کا مقابلہ کریں گے۔ محمد ادیب نے کہا کہ جیش المجاہدین کے دروازے تمام مسلح گروہوں کیلئے کھلے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 349733
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش