0
Thursday 20 Feb 2014 13:00

امریکہ، القاعدہ کے ساتھ دشمنی سے تکفیریوں کی حمایت تک

امریکہ، القاعدہ کے ساتھ دشمنی سے تکفیریوں کی حمایت تک
تحریر: امین حطیط

اسلام ٹائمز- امریکہ نے ایک عرصے سے تکفیری سوچ کے حامل مسلح گروہوں کو اپنے اہداف کے عملی اجرا میں اصلی آلہ کار کے طور پر اپنی اسٹریٹجک پالیسیوں کا حصہ بنا رکھا ہے۔ امریکہ نے افغانستان سے سابق سوویت یونین کی آرمی کو نکال باہر کرنے کیلئے بھی انہیں مسلح گروہوں کا سہارا لیا تھا۔ اسرائیل کے خلاف خطے میں موجود عوامی مزاحمتی گروہوں کی مسلسل کامیابیوں اور غاصب صہیونیستی رژیم کے ساتھ جنگ میں حزب اللہ لبنان کی اہم کامیابی کے بعد جس نے حزب اللہ لبنان کو دنیا کی اہم فوجی طاقتوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے، امریکہ کی اسٹریٹجک پالیسیوں میں تکفیری مسلح گروہوں کا کردار مزید اہم ہو گیا ہے۔

امریکہ سمجھتا ہے کہ مسلح تکفیری گروہ اس کے سیاسی اہداف کے تحقق اور چوتھی نسل کی جنگوں (روایتی فوجوں کی غیرروایتی دشمن کے خلاف جنگ جس میں دشمن کاری ضرب لگانے کی بھرپور صلاحیت کا حامل ہوتا ہے) میں بے سابقہ فوجی حمایت پر اس ملک کی ڈکٹیشن میں بہت زیادہ موثر واقع ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ کو اپنی حدود سے باہر فوجی آپریشنز انجام دینے کیلئے مناسب بہانے کی بھی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اس تجربے کے بعد جو امریکہ عراق میں حاصل کر چکا ہے جب اس نے صدام حسین کو کویت پر حملہ ور ہونے کی ترغیب دلائی تاکہ اس طرح عراق پر فوجی حملہ کرنے اور ایران کے مقابلے میں خلیج فارس اور عرب ممالک میں اپنی فورسز پھیلانے کا اچھا بہانہ ہاتھ میں لا سکے۔

دوسری طرف امریکی حکام کی نظر میں مسلح تکفیری عناصر بہت تیزی سے میدان میں حاضر ہو کر بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور نابودی پھیلانے کی بھی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہذا انہیں ہر ایسی قوم یا ملک کے فکری، تاریخی اور دینی اثاثے کو نیست و نابود کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے جو امریکہ کو نہیں مانتا یا اس کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتا۔ امریکہ کی نظر میں کسی بھی ملک میں بدامنی اور تخریب کاری پھیلانے کا سب سے بہترین اور فوری راستہ مسلح تکفیری عناصر کا استعمال ہے۔ یاد رہے کہ بدامنی اور انارکی، جدید ورلڈ آرڈر کے تحقق کیلئے وضع کی گئی امریکی اسٹریٹجی کے بنیادی ارکان میں شمار ہوتی ہے۔

انہیں مطالعات کی روشنی میں امریکہ کی جانب سے خطے میں دہشت گردی کی ماں اور اصلی شاخ کے طور پر القاعدہ تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ اس دہشت گرد تنظیم کی تشکیل وسیع پیمانے پر انجام پانے والی تحقیقات اور دراز مدت تجربات کی روشنی میں انجام پائی اور اس پراجیکٹ پر انتہائی سنجیدگی اور دقت کے ساتھ عمل کیا گیا اور اس کی کامیابی کیلئے تمام ضروری شرائط مہیا کی گئیں۔ اس مقصد کی خاطر ایک پوری پراپیگنڈہ ٹیم بھی تشکیل دی گئی تاکہ اس افسانوی وجود سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے من پسند نظریات اور تھیوریز دنیا والوں کے ذہن میں ٹھونسی جا سکیں۔ گذشتہ چار عشروں کے دوران امریکہ نے جہاں بھی ضرورت محسوس کی ان مسلح تکفیری گروہوں سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ پہلے افغانستان میں سابق سوویت یونین کی فورسز کے ساتھ مقابلے میں ان گروہوں کو استعمال کیا گیا، اس کے بعد ان تکفیری دہشت گردوں کو بعض عرب اسلامی ممالک میں دھکیل دیا گیا تاکہ وہاں امریکہ کیلئے دہشت گردی سے مقابلے اور "عرب افغانیوں" کو کنٹرول کرنے کے نام پر فوجی موجودگی کا مناسب بہانہ فراہم ہو سکے۔ انہیں بہانوں کو بروئے کار لاتے ہوئے امریکہ نے بعد میں عراق پر چڑھائی کر دی تاکہ عراق پر فوجی قبضہ کر کے خطے میں قومی اور مذہبی فرقہ واریت کی آگ بھڑکا سکے اور اس طرح عراق میں قومی وحدت کے تحقق اور اس کے نتیجے میں ایک طاقتور عراق کی تشکیل کی تمام آرزووں پر پانی پھیر سکے۔

تکفیری مسلح دہشت گروہوں کی نسبت امریکی استعماری منصوبے کا ایک اور اہم حصہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے خلاف برسرپیکار اسلامی مزاحمتی گروہوں کو ان تکفیری گروہوں کا حصہ قرار دے کر دہشت گرد ظاہر کرنے پر مشتمل ہے تاکہ دنیا والوں پر یہ ظاہر کر سکے کہ امریکہ مخالف اسلامی مزاحمتی گروہ انسانی معاشروں کی تباہی و بربادی کے خواہاں ہیں۔ امریکہ ان تمام گروہوں کو دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے تاکہ بین الاقوامی سطح پر ان کو کمزور کیا جا سکے۔ لہذا امریکہ کا اصلی مقصد اسرائیل مخالف اسلامی مزاحمتی گروہوں کا خاتمہ ہے اور وہ اپنے اس مقصد کو چھپا رہا ہے اور مخفیانہ طور پر مسلح تکفیری گروہوں کی حمایت میں مصروف ہے تاکہ انہیں اس قدر مضبوط بنا دے کہ وہ اسلامی مزاحمتی گروہوں کے مقابلے میں آ سکیں۔ امریکہ کی نظر میں یہ تکفیری مسلح گروہ درحقیقت اس کی خفیہ آرمی کا کردار ادا کر رہے ہیں جو ارادی یا غیرارادی طور پر امریکہ کے سیاسی اہداف کے تحقق کی کوشش میں مصروف ہیں، وہ بھی ایسے انداز میں کہ امریکہ کو اس مد میں کسی قسم کے اخراجات برداشت کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہو رہی۔

امریکہ ان دہشت گرد تکفیری گروہوں کے مالی اخراجات پورے کرنے کیلئے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر خلیج عرب ریاستوں کی تیل سے حاصل دولت، مذہبی عنوانات کے تحت عوام سے اکٹھی کی گئی بظاہر خیراتی امداد اور عرب حکومتوں سے وابستہ درباری ملاوں کے فتوے اسی ضمن میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔ امریکہ
نے ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پرچم بلند کر رکھا ہے لیکن اندر ہی اندر تکفیری مسلح گروہوں کی حمایت کو اپنی اسٹریٹجک پالیسی کا حصہ بنا رکھا ہے جبکہ بظاہر انہی گروہوں کو دہشت گرد بھی قرار دیتا ہے۔ امریکہ نے اپنی اس منصوبہ بندی کو انتہائی کامیابی سے جامہ عمل پہنایا ہے جس کے نتیجے میں تکفیری دہشت گروہوں کی جانب سے بھی اس امریکی پالیسی کی حمایت کی جا رہی ہے۔

شام میں بدامنی اور خانہ جنگی کی آگ روشن ہونے کے بعد امریکہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہو گیا کہ وہ "شام کا عوامی انقلاب" جیسا جھوٹا نعرہ لگا کر شام میں اپنے سیاسی اہداف کو حاصل نہیں کر سکتا۔ لہذا اس نے خفیہ فوج کا سہارا لینے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے تمام پٹھو ممالک کو حکم دیا کہ وہ جہاں تک ہو سکے شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی مدد کریں اور انہیں اسلحہ اور افرادی قوت فراہم کریں۔ اس ضمن میں ترکی نے جسے نیٹو کی رکنیت بھی حاصل ہے انتہائی حیرت انگیز تیزی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی دنیا بھر سے دہشت گردوں کو بھرتی کرنے، انہیں مسلح کرنے اور منظم کرنے کے بعد شام بھیجنے کے اصلی مرکز میں تبدیل ہو گیا۔ اسی طرح قطر، سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں نے بھی بھرپور انداز میں امریکہ کی اس خفیہ آرمی کو ہر قسم کی مدد دینا شروع کر دی۔ ان سب ممالک نے اس امید پر یہ اقدامات انجام دیئے کہ شائد یہ مسلح دہشت گرد تکفیری گروہ شام کے صدر بشار اسد کی حکومت کو ختم کرنے کے ذریعے امریکی مفادات کے تحت خطے میں شام کی جیوپولیٹیکل حیثیت کو نابود کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں گے۔

اس طرح سے تاریخ میں پہلی بار ایک ایسا مسلح گروہ جس میں شامل دہشت گرد کسی ایک مخصوص ملک کے شہری نہ تھے مغربی اور عرب ممالک کی حمایت سے برخوردار ہو گیا اور دنیا کے ۱۳۳ ممالک نے "فرینڈز آف سیریا" کے نام پر ان دہشت گردوں کی سرپرستی اور حمایت کا کام شروع کر دیا۔ البتہ تھوڑی ہی مدت میں یہ تعداد کم ہو کر صرف ۱۰ رہ گئی۔ ان میں سے ۸۳ ممالک نے اپنے ملک میں موجود دہشت گردوں کو شام کی جانب روانہ کر دیا اور اسلحہ کی عالمی منڈیوں نے اپنے دروازے ان دہشت گردوں کیلئے کھول دیئے اور پوری آزادی سے انہیں ہر قسم کے اسلحہ سے لیس کرنا شروع کر دیا۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے شائع ہونے والی بعض رپورٹس کے مطابق اس وقت شام میں موجود غیرملکی دہشت گردوں کی تعداد تقریبا ۱ لاکھ ۷۰ ہزار کے لگ بھگ ہے جو تقریبا ۷۰۰ مسلح دہشت گرد گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ دہشت گرد ۹ بڑے سیاسی گروپس کی شکل میں موجود ہیں۔ ان میں سے ۵ گروپس براہ راست القاعدہ سے وابستہ ہیں جبکہ ۲ گروپ اخوان المسلمین سے مرتبط ہیں اور باقی ۲ گروپس سیکولر نظریات کے حامل ہیں۔

ان بڑے گروہوں کے علاوہ بے شمار چھوٹے چھوٹے سیاسی گروہ بھی موجود ہیں جو بڑے سیاسی اہداف کے حامل نہیں اور انفرادی طور پر سرگرم عمل ہیں۔ القاعدہ سے وابستہ ۵ بڑے مسلح دہشت گرد گروہ شام میں موجود تمام دہشت گردوں کا ۶۵ فیصد حصہ تشکیل دیتے ہیں۔ یہ درحقیقت وہی دہشت گرد تکفیری گروہ ہیں جن پر امریکہ نے مصر میں اخوان المسلمین کے زوال کے بعد شام میں اپنے سیاسی اہداف کے حصول کی خاطر تکیہ کر رکھا ہے۔ امریکہ شام میں ان وہابی تکفیری دہشت گروہوں کے ذریعے دو بڑے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایک تو خطے میں اسرائیل کے ایک بڑے دشمن یعنی صدر بشار اسد کو اقتدار سے محروم کرنا چاہتا ہے اور دوسرا شام میں بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی ایجاد کر کے اس بدامنی اور افراتفری کے ذریعے نیو ورلڈ آرڈر کو دنیا پر حکمفرما کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

آج شام میں مغربی طاقتوں اور ان کے پٹھو عرب حکمرانوں کی جانب سے شروع کی گئی تاریخ کی بدترین دہشت گردی کو تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن انہیں اپنی اس منحوس سازش میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ امریکہ اور اس کی کٹھ پتلی حکومتیں شام میں اپنے سیاسی اہداف کے حصول میں مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہوئے ہیں۔ شام کی حکومت اپنے مخلص دوست ممالک اور عوام کی مدد سے ان عالمی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں سے مقابلہ کرنے اور اپنے ملک کا دفاع کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس استقامت اور پائداری کی برکت سے اس وقت شام میں سرگرم مسلح دہشت گرد گروہ دو بڑے حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔

۱۔ پہلا حصہ ان دہشت گرد گروہوں پر مشتمل ہے جو اب تک بیگناہ عوام کی وحشیانہ قتل و غارت کی پالیسی پر گامزن ہیں لیکن ان اقدامات کے بے نتیجہ ہونے اور جدید کامیابیوں کے حصول میں مایوسی کا شکار ہونے کی وجہ سے عقب نشینی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف شام کی آرمی اور عوامی فورسز کی جانب سے شدید حملات کی وجہ سے گوشہ نشینی اور انزوا کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

۲۔ شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کا دوسرا بڑا حصہ آپس کی لڑائیوں اور جھڑپوں میں الجھا ہوا ہے۔ اس حصے کا منصوبہ یہ ہے کہ پہلے اپنے تمام رقباء پر غلبہ پا کر ایک واحد اتحاد قائم کیا جائے اور اس کے بعد متحد ہو کر شام حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا جائے۔ اس حصے میں شامل مسلح دہشت گرد گروہ درحقیقت وہی کام کرنا چاہ رہے ہیں جو ایک زمانے میں لبنان میں
بشیر الجمیل نے انجام دیا تھا۔ وہ لبنان میں اسرائیل کے خلاف برسرپیکار تمام چھوٹے چھوٹے مسلح گروہوں کو اپنا مطیع اور زیر اثر بنانے میں کامیاب ہو گیا اور اس طرح سے پورے لبنان خاص طور پر عیسائی اکثریتی علاقوں میں ایک واحد سیاسی جماعت کو تشکیل دے دیا۔ اس کی ان کامیابیوں کے نتیجے میں جب اسرائیل نے پورے لبنان کو اپنے فوجی قبضے میں لے لیا تو وہ لبنان کا صدر بن گیا۔

اسٹریٹجک ذرائع کے بقول امریکہ اچھی طرح جانتا ہے بلکہ اسے پورا یقین ہے کہ وہ شام میں اپنے مطلوبہ سیاسی اھداف وہاں پر سرگرم مسلح دہشت گرد گروہوں کے ذریعے ہر گز حاصل نہیں کر سکتا، لہذا اس نے اسرائیل اور بعض عرب ممالک کی جانب سے بھرپور ترغیب کے باوجود شام پر فوجی کاروائی کرنے سے گریز کیا ہے۔ شام میں سرگرم مسلح دہشت گروہ بھی اس حقیقت کو بھانپ چکے ہیں لہذا انہوں نے بھی مجبورا ایسا راستہ اختیار کیا ہے جو امریکی پالیسیوں کیلئے بالکل مفید نہیں جانا جاتا۔ مسلح دہشت گرد گروہوں کے اس اقدام نے امریکہ، تمام مغربی دنیا اور نیٹو کے اندر ان کی نسبت پریشانی ایجاد کر دی ہے۔ اس پریشانی کی بعض بڑی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ اس وقت شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گردوں میں تقریبا ۵ ہزار مغربی ممالک کے شہری بھی شامل ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو شام میں مجرمانہ اقدامات کی تربیت حاصل کرنے اور اس ضمن میں تجربہ کار ہونے کے بعد اپنے مالک واپس جا کر دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دینے کا قصد رکھتے ہیں۔ یہ مسئلہ مغربی ممالک کی قومی سلامتی کیلئے ایک بڑے خطرے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

۲۔ عراق میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اس ملک میں خود امریکی مفادات کیلئے بھی ایک بڑا خطرہ تصور کی جاتی ہے۔ کیونکہ جس قدر عراق سیاسی اعتبار سے عدم استحکام کا شکار ہو گا شام سے اس ملک میں دہشت گردوں کی آمدورفت کا سلسلہ بھی اسی قدر آسانی اور تیزی سے صورت پائے گا۔

۳۔ امریکہ کو اس وقت جو سب سے بڑی پریشانی لاحق ہے وہ یہ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شام میں سرگرم مسلح دہشت گرد گروہ کل اس کے اختیار سے باہر نکل جائیں اور خودمختار ہو کر اپنے فیصلے خود کرنا شروع کر دیں۔ اس صورت میں یہ دہشت گرد گروہ خود امریکہ کیلئے بھی مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔ اس کی مثال اس وقت سعودی عرب کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جس نے ابتدا میں شام میں مسلح دہشت گرد گروہوں کی خوب حمایت کی لیکن اب کئی ایسے گروہ ہیں جو اس کی بات ماننے تک تیار نہیں۔

مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر امریکہ شام سے متعلق اپنی پالیسی اور وہاں پر سرگرم حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ امریکہ شرق وسطی سے متعلق نئی اسٹریٹجی وضع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کی بنیاد مندرجہ ذیل امور پر استوار نظر آتی ہے:

۱۔ ان دہشت گرد تکفیری گروہوں کی حفاظت کرتے ہوئے ان کی ایک حد تک بقاء کو یقینی بنانا اور انہیں اپنے مکمل کنٹرول میں لیتے ہوئے ان پر اپنی ہمیشگی سرپرستی اور اثرورسوخ قائم کرنا۔

۲۔ ان دہشت گرد گروہوں کو اپنے کنٹرول میں لیتے ہوئے انہیں ایسے اقدامات سے روکنا جو دنیا اور مشرق وسطی میں امریکی مفادات کو خطرے میں پڑنے کا باعث بنتے ہوں۔

۳۔ مسلح تکفیری دہشت گروہوں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو غیرمغربی معاشروں تک محدود کرتے ہوئے مغربی ممالک میں ان کی واپسی کو روکنا۔

۴۔ ان مسلح تکفیری دہشت گرد گروہوں کو ایسے ممالک اور قوتوں کی گود میں جانے سے روکنا جو امریکی مرضی کے خلاف ان گروہوں کو مالی امداد فراہم کرتے ہوئے ان پر اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

لہذا ان تمام عرائض کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے جدید اسٹریٹجک پالیسیوں میں بھی ان دہشت گرد گروہوں کا مقام ماضی کی مانند محفوظ رہے گا البتہ امریکہ کی کوشش ہو گی کہ ان گروہوں کو مکمل طور پر اپنے زیر اثر رکھتے ہوئے ان کی سرگرمیوں کو اپنی مشخص کردہ حدود و قیود اور ریڈ لائنز سے تجاوز نہ ہونے دے۔ امریکہ ماضی کی مانند جب اور جہاں مناسب سمجھے گا اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے ان دہشت گرد تکفیری گروہوں سے استفادہ کرے گا اور ضرورت پڑنے پر اپنی اندرونی مشکلات اور بحرانوں کے دوران امریکی عوام کی توجہ تقسیم کرنے یا دنیا کے کسی کونے میں سیاسی اقدام کرنے کیلئے بھی ان دہشت گرد گروہوں کو بروئے کار لا سکتا ہے۔

لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ عراق کے صوبہ الانبار میں دہشت گرد تکفیری گروہ "داعش" یا اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا کے دہشت گردوں کو کچلنے میں عراقی حکومت کی مدد کرنے میں مصروف ہے جبکہ دوسری طرف شام میں صدر بشار اسد کے خلاف برسرپیکار دہشت گرد تکفیری گروہوں جو کسی نہ کسی طرح عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے جڑے ہوئے ہیں، کی مدد اور حمایت کر رہا ہے۔ لہذا ان دہشت گروہوں کے خلاف امریکہ کی ہر جنگ اس کے اپنے تعیین کردہ معیاروں اور اصولوں پر ہی مبنی ہوتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ ہمیشہ کی طرح خطے میں اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے خلاف برسرپیکار اسلامی مزاحمتی گروہوں کو دہشت گرد گروہ قرار دیتا رہے گا اور ان کے خاتمے کو اپنی اسٹریٹجک پالیسی میں شامل رکھے گا۔
خبر کا کوڈ : 352685
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش