0
Saturday 15 Mar 2014 23:33

شام و عراق میں القاعدہ اور پاکستانی خارجہ پالیسی (3)

شام و عراق میں القاعدہ اور پاکستانی خارجہ پالیسی (3)
تحریر: سلمان رضا
salmanrazapk@gmail.com


پس ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ القاعدہ یا اس قبیل تمام گروہ خواہ وہ طالبان ہوں، امریکہ، اسرائیل اور خائن عرب حکمرانوں کی تخلیق ہیں، ان سے امریکہ یا ان عرب حکمرانوں کو کوئی خطرہ نہیں اور ماضی میں روس کے خلاف استعمال کرنے کے بعد ان کی نئی ڈیوٹی شیعہ ممالک کے خلاف ہے۔ اسی لیے شام اور عراق اس ضمن میں سرفہرست ہیں، جبکہ پاکستان چونکہ واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے اور یہاں بسنے والے شیعہ افراد دنیا کے ممالک میں آبادی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہیں، یعنی ایران کے بعد دنیا میں اگر کہیں دوسری بڑی شیعہ آبادی بستی ہے تو وہ پاکستان ہے اور جب تک پاکستان سے اس کے ایٹمی اثاثے چھین نہیں لیے جاتے، تب تک اس کے خلاف "اسلامی جہاد" جاری رہے گا۔ ہمیں یاد رہے کہ پاکستانی فوج نے طالبان کی تخلیق میں بنیادی کردار ادا کیا تھا اور اس گناہ کا کفارہ بھی آج عوام کے ساتھ ساتھ اس فوج کو بھی ادا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن اس وقت فوج کا مؤقف طالبان کے خلاف اُصولی ہے اور پاکستانی فوج کو چاہیے کہ وہ ماضی میں اپنی غلطیوں سے عبرت حاصل کرتے ہوئے آئندہ کسی لالچ میں آکر ایسی غلطی نہ کرے، جس کی سزا فوج کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کو بھی بھگتنی پڑے۔ حاشیے میں اتنا کہتا چلوں کہ امریکہ القاعدہ/طالبان کو زندہ رکھنا چاہتا ہے، لیکن ان کو اتنا طاقتور نہیں ہونے دینا چاہتا کہ یہ خود اس کے گلے کی ہڈی بن جائیں، جیسا کہ ماضی میں بھی ہوا، البتہ اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو آئندہ کے کسی مضمون میں کریں گے۔

آخر میں وہ بات جس کا ذکر ہم نے اوپر مؤخر کر دیا تھا، وہ کچھ اس طرح ہے کہ جنیوا II کانفرنس کی ناکامی کے بعد سعودی عرب جو شام و عراق کے محاذ پر فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہا ہے، مایوس ہوکر بد حواسی کے عالم میں پاکستان کی طرف آرہا ہے، کیونکہ ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ اس کا شام مخالف پالیسی پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا اور پاکستان نے شام کی بابت دہشت گردوں کی مذمت کی تھی، لیکن جونہی پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت معرض وجود میں آئی تو میاں محمد نواز شریف جن کی مشرف کے عتاب سے خلاصی بھی سعودی حکمرانوں کے سبب ہوئی تھی، کے ساتھ سعودی عرب نے پینگیں بڑھانا شروع کر دیں۔ میاں نواز شریف جو طالبان کی بابت نرم گوشہ رکھتے ہیں اور نظریاتی طور پر بھی سعودی حکمرانوں سے ہم آہنگ تصور کئے جاتے ہیں، اپنی جان بخشی کے احسان تلے دبے ہوئے سعودی عرب کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آرہے ہیں۔ میاں صاحب کی حکومت کی تشکیل کے بعد سے اب تک کبھی ہمارے سینیئر وزراء سعودی یاترا کیلئے جا رہے ہیں تو کبھی آرمی چیف سعودی عرب میں پیشی بھگت کر آرہے ہیں۔
 
بات یہیں تک محدود نہیں، سعودی آقا بھی اپنے کمیوں کو شرف زیارت بخشنے کیلئے پاکستان آتے جاتے ہیں، کبھی وزیر خارجہ سعود الفیصل تو کبھی محمد بن نائف اور تو اور ولی عہد سلمان بن عبد العزیز کا حالیہ دورہ تو پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اَن منٹ نقوش چھوڑتا نظر آرہا ہے۔ جن کے استقبال کے لیے عزت مآب میاں صاحب اپنے سینیئر وزراء کے ساتھ خود ائیرپورٹ پر تشریف لے گئے۔ سعودی ولی عہد جن معاہدوں پر حتمی بات چیت کے لیے تشریف لائے، ان کی بابت مختلف ذرائع ابلاغ میں ملی جلی خبریں آرہی تھیں۔ ان معاہدوں میں سعودی حکومت کے دفاع کے لیے یا کسی بغاوت کو کچلنے کے لیے دو ڈویژن آرمی کی ہمہ وقت دستیابی، پاکستان میں ایک لاکھ ایکٹر قابل کاشت زمین کی فراہمی اور شامی دہشت گردوں کے لیے اسلحہ اور شامی دہشت گردوں کی ٹریننگ کے لیے فوجی انسٹرکٹرز کی فراہمی شامل ہیں۔ اس کے عوض سعودی عرب پاکستانی اسلحہ خریدنے کے لیے تیار ہے اور پاکستان کو یومیہ اڑھائی لاکھ بیرل تیل کی فراہمی کی خبریں بھی اخبارات میں گونجتی رہی ہیں۔ 

پھر ایران کے ساتھ پاکستانی گیس پائپ لائن معاہدہ کی تنسیخ بھی حتمی ہوگئی اور چند روز پہلے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے باقاعدہ اعلان کر دیا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ عالمی (امریکہ و سعودی عرب) دباؤ کی وجہ سے قابل عمل نہیں رہا۔ سعودی ولی عہد کے ساتھ مشترکہ اعلامیہ میں اعلان کیا گیا کہ شام میں جاری بحران کے حل کے لیے ضروری ہے کہ بشارالاسد اقتدار سے الگ ہوجائیں، فوری طور پر مکمل بااختیار عبوری حکومت بنائی جائے، قصبوں اور دیہاتوں (جہاں دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ہیں) کا محاصرہ ختم کیا جائے، شہروں سے فوجیوں کا انخلاء کیا جائے (تاکہ یہاں دہشتگردوں کا راج ہو) فضائی اور توپخانوں سے بمباری بند کی جائے وغیرہ۔ یہ وہ حساس مقام ہے جہاں پر پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں گھاٹے کا سودا کیا، یعنی چند ملین ریال کے عوض یا میاں صاحب نے اپنی جان خلاصی کے احسان کے عوض ملک و قوم کو ایک خائن ملک کے آگے فروخت کر دیا۔
قوم فروختند و چیقدر ارزاں فروختند

ہمارا میاں صاحب سے یہ سوال ہے کہ اگر کل کو شام و عراق کی طرف سے یہ مشترکہ اعلامیہ آجاتا ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں جاری طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے جاری فوجی کارروائی فوری طور پر بند کر دے اور وزیرستان سے اپنی فوج واپس بلا لے تو پاکستانی حکومت اور فوج اسے کیسا محسوس کرے گی۔ اگر القاعدہ و طالبان کے ہمدرد ممالک نے پاکستان سے مطالبہ کرلیا کہ چونکہ طالبان پاکستانی حکومت کو اسلامی حکومت نہیں مانتے، لہٰذا آپ اقتدار سے الگ ہوکر عبوری حکومت بنائیں تو ہمارا جواب کیا ہوگا۔ پھر اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے شامی دہشت گردوں کو تربیت دینے کے لیے فوجی انسٹرکٹر بھی طلب کیے ہیں۔ ایک امریکی جریدے کے مطابق سعودی ولی عہد شامی دہشت گردوں کے لیے طیارہ شکن اور ٹینک شکن میزائل خریدنے کا معاہدہ کرنے آئے تھے تو ہمارا سوال یہ ہے کہ جب افغان حکومت پاکستانی طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں دیتی ہے اور افغانستان انٹیلی جنس اہلکار پاکستانی طالبان کو جنگی ٹریننگ دیتے ہیں یا بھارت ان کو اسلحہ مہیا کرتا ہے تو ہم پر کیا بیتتی ہے، لیکن اگر ہم نے گندم کاشت کی تو گندم کی فصل ہی کاٹنی پڑے گی۔ 

ہم پہلے سے اپنی کاشت کی گئی طالبان کی فصل کاٹ رہے ہیں، جس کے سبب ملک کا گوشہ گوشہ لہو لہو ہے۔ شام کی خون آلود سرزمین پر پہلے ہی ہمارے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں، پاکستان سے جیلوں کو توڑ کر قیدی وہاں بھیجنے کی خبریں پہلے ہی اخبارات کی زینت بن چکی ہیں اور اقوام متحدہ کی صحت کی ٹیم کے مطابق شام میں دریافت ہونے والے پولیو کے وائرس پاکستان سے آئے ہیں۔ گویا آج سے پہلے جو خیانت ڈھکے چھپے ہو رہی تھی، وہ اب ڈنکے کی چوٹ پر ہوگی اور پھر اگر یہ پالیسی بیک فائر کرگئی تو پہلے سے متزلزل پاکستان اپنا دفاع کیسے کر پائے گا۔ پھر ہمیں یاد رہے کہ شام کے محاذ پر ہمارے دو ہمسایہ ممالک چین اور ایران ہمسو نظر آتے ہیں۔ چین اپنے صوبے سنکیانگ میں جاری دہشت گردی کے ڈانڈے پاکستان سے ملنے کی وجہ سے پہلے ہی پاکستان سے ناراض ہے، جبکہ سعودی عشق میں گرفتار میاں صاحب کی حکومت ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ترک کرکے ایران کو بھی ناراض کرچکی ہے، خواہ اس کی تنسیخ سے پاکستانی انڈسٹری کا پہیہ رک جائے یا سڑکوں پر گاڑیوں کی نقل و حرکت بند ہوجائے یا گھروں میں جلنے والے چولہے ہی کیوں نہ ٹھنڈے پڑجائیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں، لیکن ہمسائے نہیں بدلے جاسکتے۔ پاکستان کی بھارت سے کشیدگی معرض وجود میں آنے کے بعد سے چلی آرہی ہے جبکہ افغانستان میں تزویراتی گہرائی کے خواب نے آج ہماری حالت یہاں تک پہنچا دی ہے کہ پاکستانی ریاست سے برسر پیکار تحریک طالبان کا سربراہ ملا فضل اللہ بھی افغان حکومت کی پناہ میں ہے اور اب پاکستانی حکومت اپنے پرامن بارڈر فرینڈز یعنی ایران اور چین کو بھی ناراض کرنے چلی ہے، گویا پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی اچھے تعلقات برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ درحقیقت شامی پالیسی میں یوٹرن پاکستانی ریاست کی اُصولوں کی سیاست (جو پہلے ہی مخدوش ہے) کا جنازہ ہی نکال دے گی اور پوری دنیا جو دہشت گردی کی بابت خائف ہے، اس کے سامنے عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کرے گی۔ 

پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس پالیسی پر جس طرح کھل کر تنقید کی گئی ہے، وہ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کے لیے کافی ہے اور پھر پاکستانی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی تنقید نے بھی حکومت کے حواس ٹھکانے لگا دیئے ہونگے، کیونکہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو پارلیمنٹ کے سامنے دفاعی پوزیشن میں جاکر ان تمام معاملات سے انکار کرنا پڑا اور انہوں نے پارلیمنٹ کے سامنے کہا کہ شام پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ خدا کرے کہ یہ Wake Up کال حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہو۔ ہمارے خیال میں پاکستان کو سعودی عرب سمیت تمام اسلامی ممالک کے ساتھ تجارت کرنی چاہیے، لیکن اس تجارت کے عوض اُصولی پالیسیوں کو پامال نہیں کرنا چاہیے۔ دوسرا تجارتی مفادات کے ساتھ ساتھ علاقائی مفادات اور بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو ملحوظ خاطر بھی رکھنا چاہیے اور اُن ممالک سے ہوشیار رہنا چاہیے، جنہوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان میں طالبانی فصل کاشت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان میں جاری خونریزی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی انہی ممالک کی دوستی کا نتیجہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 356594
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش