0
Thursday 6 Mar 2014 12:40

وحدت اسلامی میں حائل رکاوٹیں اور انکا سدباب (2)

وحدت اسلامی میں حائل رکاوٹیں اور انکا سدباب (2)
تحریر: ثاقب اکبر

قبل ازیں ہم ’’وحدت اسلامی میں حائل رکاوٹیں اور ان کا سدباب‘‘ کے زیر عنوان چند مطالب اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرچکے ہیں۔ پیش نظر سطور میں چند مزید مطالب عرض کئے جا رہے ہیں۔

5۔ اگرچہ مسلمانوں میں بہت سے گروہ مسلمانوں کی عالمی حکومت قائم کرنے کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور ایسا نعرہ بلند کرنے والوں میں انتہائی دہشت پسند فرقہ پرست تکفیری عناصر بھی شامل ہیں لیکن انھیں اس امر کا ادراک نہیں کہ جن قوموں نے ترقی کی، انھوں نے کن ترجیحات کو اپنے سامنے رکھا اور جو قومیں مسلمانوں سمیت زوال سے ہمکنار ہوئیں، انھوں نے کیا طرز عمل اختیار کیا کہ جو ان کے زوال کا باعث بنا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر یہی طرز عمل جاری رہے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مسلمان ذلت و زوال اور زبوں حالی کی موجودہ صورت حال سے باہر نکل سکیں۔

6۔ عالم اسلام میں مسلمانوں کے دینی مدارس تین بنیادی مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ مشکلات و نواقص جب تک برطرف نہ ہوں مسلمانوں کی نہ فقط پسماندگی کا ازالہ نہیں ہوسکے گا بلکہ فرقہ واریت مزید بڑھتی چلی جائے گی اور مسلمان نتیجے کے طور پر مزید تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ تین مشکلات کچھ یوں ہیں۔

الف: عام طور پر مذہبی مدارس عصری علوم کی پیش رفت اور نتیجے میں اجتماعی تبدیلیوں سے یا بے خبر ہیں یا لاتعلق۔ عصری علوم نے خاص طرح کے معاشرے اور اذہان تشکیل دیئے ہیں نیز انسانی معاشروں کو ان کی وجہ سے کئی نئے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ اہل دین اگر ان کے بارے میں گہری بصیرت کا مظاہرہ کریں تو بعید نہیں ہے کہ عصری علوم کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کا بھی ازالہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

ب: مذہبی مدارس عام طور پر فرقوں اور مسلکوں کی بنیاد پر معرض وجود میں آتے ہیں۔ ان مدارس کے وابستگان کی شناخت، روزگار اور حیثیت فرقہ وارانہ تقسیم سے وابستہ ہے۔ لہٰذا وہ شعوری یا لاشعوری طور پر فرقہ واریت کی خلیج کو گہرا کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہی مدارس سے فارغ التحصیلان فرقہ وارانہ تقسیم کی بنیاد پر مساجد بھی قائم کرتے ہیں اور پھر مساجد بھی کسی نہ کسی حد تک تقسیم در تقسیم ہی کا کردار ادا کرتے ہیں۔

ج: علم کی دینی اور دنیاوی بنیاد پر تقسیم بھی دینی مدارس کے ذریعے جاری و برقرار ہے۔ علم کا نافع اور غیر نافع میں تقسیم ہونا ممکن ہے کوئی حقیقی معنی رکھتا ہو، لیکن اس کا دینی اور دنیاوی کی بنیاد پر تقسیم ہونا کوئی حقیقی معنی نہیں رکھتا۔ ہر وہ علم جو انسان اور اس کے معاشرے کے لیے حقیقی طور پر سود مند ہے، اس پر دنیاوی کا ٹھپہ لگانا کسی لحاظ سے درست معلوم نہیں ہوتا۔

7۔ فرقہ واریت کی مخالفت کا معنی اختلاف رائے کی مخالفت نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فرقہ واریت کی ایک وجہ اختلاف رائے کا احترام نہ کرنا بھی ہے۔ کسی آزاد انسانی معاشرے میں ممکن نہیں کہ ہر مسئلے پر تمام افراد ہم رائے ہوں۔ جہاں تک دین کا معاملہ ہے قرآن و سنت پر بحیثیت کل اتفاق رائے کے باوجود اس کے فہم میں اختلاف ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔ کسی ایک مسلک کے ماننے والے علماء بھی ہر مسئلے میں متفق الرائے نہیں ہیں۔ اگر ہم کسی دوسرے شخص سے اختلاف رائے رکھتے ہیں اور اسے ہم اپنا حق سمجھتے ہیں تو یہی حق ہمیں دوسرے کو بھی دینا چاہیے۔ وہ بھی ہم سے اختلاف رائے رکھ سکتا ہے اور یہ اس کا بھی حق ہے۔ جب تک ہم اس مسئلے کو گہرائی سے نہیں سمجھیں گے فرقہ واریت کا دیو اپنی بوتل میں بند نہیں ہوسکے گا۔

تاہم یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اختلاف رائے رکھنے کے بھی آداب ہوتے ہیں اور اس کے اظہار کے بھی آداب ہوتے ہیں۔ اول تو ضروری نہیں ہر اختلاف رائے کا اظہار بھی کیا جائے یا پھر ہر کسی کے سامنے کیا جائے، ثانیاً دوسرے کی توہین یا دوسرے کے مقدسات کی توہین کو اختلاف رائے قرار نہیں دیا جاسکتا اور ثالثاً اختلاف رائے کا ایسا اظہار بھی جس سے معاشرے کی ہموار رفتار اور پیشرفت منفی طور پر متاثر ہو، اسے تبدیل کیا جانا ہی ضروری ہے اور ایسے ہی منفی پہلو کو روکنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت پڑتی ہے۔

8۔ کسی کا کوئی طرز عمل یا نظریہ اگر ہمارے نزدیک نہایت ناپسندیدہ ہو اور کسی حد و تعزیر کی زد میں آتا ہو اور ہماری یہ رائے درست بھی ہو تب بھی حد و تعزیر کے نفاذ کے لیے کسی قانون اور قاعدے کی ضرورت ہے۔ خود سے اس کے لیے اقدام کرنا اور دوسرے کو روکنے یا اس کے خاتمے کے لیے گروہ سازی کرنا اور مخالف عقیدہ یا نظریہ رکھنے والے پر حملے کرنا کسی صورت بھی قابل قبول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فرقہ وارانہ ذہنیت نے ہمارے ہاں جو بدترین اور خوفناک شکل اختیار کرلی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ مخالف نقطۂ نظر یا عقیدہ رکھنے والوں کو ایک گروہ کسی صورت جینے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔

جس نبئ رحمت کو ہم مانتے ہیں، وہ اپنے معاشرے میں مخالف عقیدہ رکھنے والے کو جینے کا پورا حق دیتے تھے۔ وہ ہمیشہ حملہ آوروں کے خلاف دفاع کے لیے کھڑے ہوئے۔ آنحضرتؐ نے میثاق مدینہ میں یہودیوں اور اوس و خزرج قبائل کے باقی ماندہ بت پرستوں کو اپنا حلیف بنا لیا تھا، تاکہ مدینے پر کسی بیرونی حملے کی صورت میں سب مل کر بلکہ ایک ’’امت‘‘ بن کر دفاع کرسکیں۔ کیا اپنے سے مختلف عقیدہ رکھنے والوں کو کافر قرار دے کر، انھیں قتل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والے اسی نبی رحمتؐ کے ماننے والے ہیں؟

9۔ دین اسلام جو تمام انسانوں کے لیے کمال و ارتقاء کا راستہ ہے اور انسانوں کو بحیثیت مجموعی و انفرادی عروج و سربلندی سے ہمکنار کرنے کی ضمانت دیتا ہے، اس کے ماننے والے جب تک متحد ہوکر اپنی عالمی انسانی ذمے داریوں کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے، نہ صرف خود زوال و نکبت میں ڈوبے رہیں گے بلکہ باقی ماندہ انسانیت بھی دین اسلام کے حقیقی فوائد سے محروم رہے گی۔ امت مسلمہ کو اپنی آفاقی اور الٰہی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا ہوگا۔ خاتم النبیینؐ پر ایمان رکھنے والی امت کو اپنے نبی کی تعلیمات ساری انسانیت تک پہنچانا ہیں۔ مادہ پرستی کی بنیاد پر وجود میں آنے والی تہذیب کو کامل کرنے کے لیے روحانیت اور کائنات کے باطن و غیب پر ایمان رکھنے والی امت کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ امت اگر خود کہیں وطن کی بنیاد پر، کہیں فروعی اختلافات کی بنیاد پر، کہیں مادی مفادات کے لیے، کہیں خاندانی تسلط کے لیے اور کہیں زبان و رنگ و نسل کی بنیاد پر انتشار و تفریق کا شکار رہے تو پھر اپنی عالمی الٰہی ذمہ داریوں کو کیسے پورا کرسکے گی۔ بڑے ارمان اور بڑی آرزوئیں ہی بڑے انسان اور بڑی قومیں پیدا کرتی ہیں۔ آفاقی ارمان اور عالمی آرزؤں کو نئے سرے سے پروان چڑھا کر اور نور الٰہی سے اپنی روح کو منور کرکے ہم پسماندگی اور تاریکی سے نکل سکتے ہیں۔
اے ہمارے اللہ، اے رب العالمین! ہمیں اس کا شعور دے اور اس کی توفیق دے اور ہمیں اس کے لیے منتخب کرلے۔ (آمین)
خبر کا کوڈ : 358572
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش