0
Sunday 9 Mar 2014 23:21

شام و عراق میں القاعدہ اور پاکستانی خارجہ پالیسی (1)

شام و عراق میں القاعدہ اور پاکستانی خارجہ پالیسی (1)
تحریر: سلمان رضا
salmanrazapk@gmail.com


سرزمین شام کی حکومت اور فوج 2011ء سے تکفیری دہشت گردوں کے ساتھ برسرپیکار ہے۔ اب تک دہشت گردوں کی بیسیوں کارروائیوں میں ہزاروں نہتے شہری اپنی جانوں کی بازی ہار چکے اور شامی فوج کی جوابی کارروائیوں میں ہزاروں دہشت گرد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک شام میں حالیہ بحران کے نتیجے میں 120،000 سے زائد جانیں لقمہ اجل بن چکی ہیں اور 78 لاکھ افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔ بعض دیگر ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ نقل مکانی کرنے والوں میں سے 22 لاکھ سے زیادہ افراد ہمسایہ ممالک یعنی ترکی، لبنان اور اُردن میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ دیگر ممالک میں لگ بھگ 2 ملین افراد اور اس کے علاوہ کئی ملین افراد ملک میں موجود خیمہ بستیوں، کیمپوں، سکولوں اور مسجدوں میں زندگی تو بسر کر رہے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچا گیا کہ ان کا روزگارِ زندگی، بچوں کی تعلیم، صحتِ عامہ اور دیگر ضروریات کا بھی کوئی پرسانِ حال ہے یا نہیں۔

 ترکی اور اُردن میں کیمپوں میں پناہ گزین عورتوں کی آبرو ریزی کی داستانیں اور ان بچوں کے اغوا سے لے کر جنسی استحصال کی خبریں عالمی ذرائع ابلاغ میں آئے روز چھپتی رہتی ہیں۔ ان مظلوم شہریوں کے گھروں پر قبضہ کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف جب شامی فوج کارروائی کرتی ہے تو ان گھروں کے انفراسٹکچر پر جو تباہی عارض ہوتی ہے، اس نقصان کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔ اب یہ افراد ان دہشت گردوں کے انخلاء کے بعد جب اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے تو انہیں کس کس محاذ پر زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔ دو تین سال سے بچوں کا تعلیم سے دور رہنے کے بعد دوبارہ تعلیمی میدان میں over age حالت میں ایڈجسٹ ہونا، تباہ حال گھروں کی دوبارہ تعمیر، تجارتی مراکز میں اپنا سامان تباہ ہونے کے بعد دوبارہ سرمایے کا حصول اور نئے سرے سے کاروبار شروع کرنا، نکاسی آب سے لے کر بجلی کی تباہ حال ٹرانسمشن کی بحالی، ہسپتالوں کی تعمیر نو اور ڈاکٹرز، نرسوں اور ادویات کی فراہمی سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں ازسر نو بحالی شامی حکومت سے سرمایہ، افرادی قوت اور بہت سے دوسرے عوامل طلب کرے گی۔

لیکن گذشتہ تین سال سے جاری دہشت گردی کے نتیجے میں شامی حکومت اپنا کثیر سرمایہ، سول ملازمین کی جانیں، انڈسٹری، ذرائع نقل حمل، شاہراہیں، بجلی کی تنصیبات اور غرض یہ کہ بہت کچھ اس جنگ کی نذر کرچکی ہے اور جب یہ لوگ واپس آکر بسیں گے تو ان کی توقعات بھی حکومت سے بہت زیادہ ہونگیں۔ ایسے میں جب امن عامہ کی بحالی ہوگی اور یہ لوگ جہاں حکومت سے اپنا کھویا ہوا سکون، جانی و مالی سرمایہ اور بہت کچھ طلب کریں گے، وہیں اُمت مسلمہ کے "لیڈر" یعنی سعودی عرب کے خائن حکمرانوں سے اپنے بچوں کے خون کی دیت، اپنے ناموس کی آبروریزی کا حساب اور اپنے جوانوں کے خون کا قصاص بھی طلب کریں گے۔ تباہ حال ملک کا انفراسٹکچر تو شاید بحال ہو ہی جائے، خواہ اس میں کئی سال لگ جائیں، لیکن وہ بیٹے جو اس جنگ کی وجہ سے اپنی ماؤں سے بچھڑ گئے یا وہ مائیں جن کا سایہ اپنے بچوں کے سروں سے اُٹھ گیا، ان کا حساب یہ خائن حکمران کیسے دے پائیں گے۔ امریکہ و اسرائیل و "خادمین حرمین شریفین" کے ساتھ ساتھ قطر کا خبیث خلیفہ، اُردن، متحدہ عرب امارات، کویت اور ترکی کے سیکولر حکمران بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔

تخم دہشت سے امن کی کونپلیں نہیں پھوٹتیں، تتلیاں بونے سے پھول نہیں اُگتے اور ہم عنقریب دیکھیں گے کہ یہ خیانت کار اپنے جرائم کی سزا پائیں گے اور ان کے اپنے ملک بھی اسی آگ میں جلیں گے جو آگ ان مجرموں نے سرزمین شام میں لگائی ہے۔ سرزمین شام کے باسیوں کو ابھی صبر کی کئی منزلیں اور طے کرنی ہیں، ان دہشت گردوں کی شکست کے بعد ملکی انفراسٹکچر کی بحالی تک صبر کا دامن تھامنا ہوگا اور اپنے وطن میں جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد استعماری طاقتوں اور خائن عرب حکمرانوں کے سامنے اسی طرح استقامت دکھانا ہوگی جیسے انہوں نے گذشتہ تین سالوں میں دکھائی ہے۔

جہاں شام کے حالات میں مایوسی اور دکھ کا پہلو شامل ہے، وہیں بعض روشن پہلو بھی عیاں ہوتے ہیں۔ تین سال قبل تیونس سے اُٹھنے والی تحریک بیداری اپنے قدموں تلے مصری حکومت کو روندتی ہوئی بحرین، اردن، سعودی عرب اور یمن تک پہنچی تو عین اسی وقت امریکہ و یورپ نے فیصلہ کیا کہ اس تحریک کو داغدار کرنے کے لیے اس میں تشدد کا عنصر ڈالا جائے، کیونکہ سعودی، اماراتی، یمنی، کویتی، قطری اور اردنی حکمران انگشت بہ دندان امریکہ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ اگر اس تحریک بیداری کے سامنے کوئی پل نہ باندھا گیا تو ان کی غاصب حکومتیں ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہوئے ڈھیر ہوجائیں گی۔ لہٰذا اس منحوس اتحاد نے لیبیا اور شام میں اپنے کرائے کے دہشت گرد داخل کئے۔ ان دو ممالک کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا گیا کیونکہ معمر قذافی اپنی کمزوریوں کے باوجود امریکہ اور عرب حکمرانوں کیلئے قابل قبول نہ تھا، لہٰذا ان دہشت گردوں کے مقابل چھ ماہ میں گھٹنے ٹیک گیا اور نتیجتاً لیبیا میں اس منحوس اتحاد کو کامیابی حاصل ہوگئی۔ پھر شام وہ کانٹا تھا جو امریکہ و اسرائیل کے ساتھ ساتھ ان تمام عرب حکمرانوں کو بھی چبھتا تھا اور فلسطین کے محاذ پر اس کا موقف اسلامی جمہوریہ ایران اور حماس والا تھا، اسی لیے امریکی اور عرب تکفیری حکمرانوں نے اپنی پوری قوت کے ساتھ شامی حکومت اور شامی افواج کے خلاف نام نہاد جہاد شروع کروایا۔ لیکن جو بات میرے لیے روشن پہلو رکھتی ہے، وہ اب تک اس کی حکومت اور مضبوط فوج کی استقامت ہے، اسی لیے اب تک گذشتہ تین سالوں سے یہ حکومت بھی قائم ہے اور اس کی فوج کا مورال بھی بلند ہے، جبکہ تکفیری دہشت گرد مایوس ہوچکے ہیں۔ ان دہشت گرد گروہوں کے درمیان ہونے والی لڑائیاں آئے دن عالمی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں بنتی رہتی ہیں۔

کبھی جبھۃ النصرہ کی فری سرین آرمی کے ساتھ لڑائی اور کبھی ISIS کی النصرہ فرنٹ کے ساتھ لڑائی کی خبریں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایک دوسرے کی لیڈرشپ کو قتل کرنا معمول کی بات بن گئی ہے۔ پچھلے چند ماہ میں ان کی آپس کی لڑائیوں میں کم از کم 3000 دہشت گرد ایک دوسرے کے ہاتھوں سے ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس شامی عوام اور فوج کے درمیان دہشت گردوں کے ساتھ لڑنے کا ولولہ ہر آنے والے دن کے ساتھ جلی تر ہوتا جا رہا ہے۔ شامی فوج نے شام کے اکثر علاقے ان دہشت گردوں سے خالی کروا لئے ہیں اور اب ان کا قبضہ محدود ہوتا جا رہا ہے اور یہ دہشت گرد سرحدی علاقوں کی طرف محدود ہوگئے ہیں۔ تکفیری دہشت گردوں کی نام نہاد "اسلام پرستی" اور "شریعت کی پاسداری" کے چاند جیسے چہرے پر "جہاد النکاح" کا گرہن مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ مایوسی کے بادلوں میں گرفتار یہ تکفیری ٹولہ اپنے آبائی ملکوں میں واپس جانا چاہتا ہے لیکن وہاں ان کے آقا ان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا ان کی جنسی حرص کو پورا کرنے کے لیے کبھی انہیں جہاد النکاح کے مذہبی فتوے دلوائے جاتے ہیں تو کبھی ان کے گھر والوں کو ڈالروں اور ریالوں کی کھیپیں بھجوائی جاتی ہیں، تاکہ کسی طرح زر اور زن کے بدلے انہیں وہاں رہنے پر مجبور کیا جاسکے۔

وہ ممالک جو اس تکفیری دہشت گرد گروہ کے پشت پناہ تھے، آج خود اختلافات کا شکار ہوچکے ہیں۔ ترکی میں اس کی اپنی پالیسی بیک فائر کرنا شروع ہوگئی ہے۔ کبھی اردغان حکومت کا تختہ گول ہونے چلتا ہے تو کبھی یہ دہشت گرد ترک سرحدی علاقوں میں ہی دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے لگتے ہیں۔ اسی لیے ترکی نے گذشتہ چند ماہ میں اپنے سرحدی علاقوں میں اپنے ہی قائم کردہ کیمپوں میں ان دہشت گردوں کے خلاف تین آپریشن کئے ہیں اور ترک وزارت خارجہ کا لب و لہجہ بدلا ہوا ہے۔ وہ ترکی جو شامی حکومت کے خاتمے کے بغیر کسی بات پر راضی نہیں تھا، وہ اب اس مسئلے کے حل کے لیے سفارت کاری پر زور دے رہا ہے۔ امریکی پالیسی بھی تذبذب کا شکار ہے۔ چند ماہ پہلے تک ہر آنے والے دن کے ساتھ شام پر حملے کی دھمکیاں دینے والا اور اپنے جنگی بحری بیڑے شام کی طرف روانہ کرنے والا امریکہ آج کبھی جنیوا II کانفرنس کی ڈفلی بجاتا ہے تو کبھی دہشت گردوں کی کمک کے لیے بجٹ مختص کرتا ہے، لیکن بے سود۔ شاید امریکہ کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ اس کا پلان، جسے اس نے اسرائیل او ر عرب حکمرانوں کے ساتھ مل کر بنایا تھا، ناکامی اس کا مقدر بن چکی ہے۔ اس لیے اس کے لہجے میں بھی تبدیلی آرہی ہے، لیکن اس حقیقت کو ابھی تک سعودی عرب قبول کرنے کو تیار نہیں، اسی لیے سعودی حکمران اپنی ناکامی سے منہ چھپانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور اس ضمن میں اس کا حالیہ پلان کیا ہے، اس کا تذکرہ ہم آخر میں کریں گے۔ پہلے شام کے بحران میں القاعدہ فیکٹر کا تجزیہ کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 359823
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش