0
Tuesday 11 Mar 2014 00:53

سعودی عرب عوامی جمہوریہ نجد و حجاز بنتے ہوئے

سعودی عرب عوامی جمہوریہ نجد و حجاز بنتے ہوئے
تحریر: کے آئی خان
 
پاکستان، ایران اور سعودی عرب اسلامی دنیا کے اہم ترین ملک ہیں اور کئی حوالوں سے دیگر ملکوں کی نسبت ایک خاص مقام اہمیت و حیثیت کے مالک ہیں۔ تینوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے اثرات خطے میں موجود ممالک پر بالخصوص اور باقی دنیا پر بالعموم مرتب ہوتے ہیں۔ جہاں ایران اور سعودی عرب اپنے مقامات مقدسہ اور اسلامی نقطہ نظر کی وجہ سے ممتاز مقام رکھتے ہیں وہاں ان دونوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے والا پاکستان مسلمہ حقیقت ہے۔ اسلامی دنیا کے تینوں اہم ترین ملک امریکی اثر سے متاثر ہیں۔ ماضی کے ایران پر مغرب اور امریکہ کا اثر اس قدر زیادہ تھا کہ سعودی عرب کو شہنشاہ ایران کے خط کے جواب میں یاد دلانا پڑا کہ ایران ایک مسلمان ملک ہے۔ ایران کے دنیا کے ساتھ اور سعودی عرب و پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ دو ادوار میں دیکھا گیا ہے۔ انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد۔ انقلاب کے بعد کے ایران اور سعودی عرب میں ٹکراؤ کی بنیادی وجہ بھی امریکہ ہے۔ خطے میں ایران قدم قدم پر امریکہ کی راہ میں مزاحم اور سعودی عرب کا کردار امریکہ کے ایجنٹ کا ہے۔ پاکستان پر امریکہ کے غالب اثر کی وجہ سے ہی انقلاب سے پہلے ایران کے ساتھ تعلقات بہترین اور آج سرکاری سطح پر تعلقات ناخوشگوار ہیں جبکہ سعودی عرب اور پاکستان دونوں نے امریکی خدمت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی لہذا دونوں کے درمیان تعلقات اپنے بام عروج پر ہیں۔

نجد اور حجاز کی سرزمین جو کہ آج سعودی عرب کہلاتی ہے آل سعود خاندان کے زیرحکومت ہے۔ آل سعود کی حکومت کوئی عوامی یا جمہوری حکومت نہیں ہے بلکہ شاہی حکومت ہے، لہذٰا سعودی عرب کے کسی بھی ملک کے ساتھ اچھے یا برے تعلقات کو نجد اور حجاز کے باسیوں کی ترجیحات سمجھنا غلط ہوگا۔ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ آل سعود کی خارجی پالیسیاں امریکی دباؤ کے زیر اثر ہیں نہ کہ سعودی عرب کے عوام کی خواہشات پر مبنی ہیں۔ سعودی عرب میں جو عوامی تحریکیں اٹھ رہی ہیں ایک طرف وہ سعودی عرب پر آل سعود کے مستقبل کا بھی فیصلہ کریں گی اور دوسری جانب بطور مملکت اس کی حقیقی خارجہ پالیسی کی داغ بیل بھی نئے سرے سے ڈالیں گی۔ ایران اور آل سعود کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں لیکن ایرانی عوام اور عربوں کے درمیان حالات اس نہج پر نہیں کہ یہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ کے لیے کسی تیسرے ملک سے فوجی امداد طلب کریں۔ جس طرح ایران میں رضا شاہ پہلوی کے فرار کے بعد ایران کی خارجہ و داخلہ پالیسیوں میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئیں اسی طرح آل سعود کی شاہی حکومت کے خاتمے کے بعد سعودی عرب کے دوستوں اور دشمنوں میں بھی بڑی تبدیلیاں واقع ہونگی۔ 

افغانستان سے سوویت یونین کو نکال باہر کرنے کے لیے امریکی اشارے پر جہاد کی پالیسی ضیاء دور میں شروع ہوئی۔ اس وقت پاکستان نے افغانستان کے اندر امریکہ کے دوست کا کردار ادا نہیں کیا بلکہ آلہ کار کا کردار ادا کیا۔ مشرف دور میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تمام تیاریاں ہو چکی تھیں مگر شدید عوامی ردعمل کے پیش نظر بانی پاکستان کی پالیسی کا تسلسل قائم رہا۔ کشمیر بنے گا پاکستان اور کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اس بنیادی موقف کو بھی نظر انداز کیا گیا اور وہ تمام تر جہادی تنظیمیں جن کو ضیاء دور میں تیار ہی کشمیر کی آزادی کے مقصد کے لیے کیا گیا تھا سب کی سب کالعدم قرار پائیں۔ اس وقت ان تنظیموں کے بنانے کی خواہش بھی امریکہ نے ظاہرکی تھی اور مشرف دور میں انہیں کالعدم قرار دینے کی بھی خواہش امریکہ کی تھی جبکہ آج پاکستان کے حالات دُھائی دے رہے ہیں کہ امریکی خواہشات کے زیراثر ہمارے فیصلے حکمت سے عاری تھے۔ القصہ مختصر کہ آزادی اور جمہوری نظام کی خواہش جو سعودی عرب کے عوام میں مسلسل پنپ رہی اور گاہے بگاہے آل سعود کو دباؤ میں رکھنے کے لئے مغرب کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے آج نہیں تو کل کامیابی سے روبرو ضرور ہونگی۔ اس وقت شائد نجد اور حجاز کے جمہوری حکمرانوں کا پاکستان کے ساتھ لب ولہجہ حاکمانہ بھی نہ ہو اور نہ ہی ایران سے ان کے حالات کشیدہ ہوں اور شائد وہ عوامی حمایت کے بل بوتے پر امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کرنے سے بھی معذوری اختیار کر لیں۔ 

تینوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا مختصر جائزہ لیں تو حقیقت بھی واضح ہو جائے گی کہ انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کتنا اتراؤ چڑھاؤ رہا۔ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان گرچہ تعلقات خوشگوار نہیں تھے، مگر حد درجہ کشیدہ بھی نہیں تھے۔ 1929ء میں ایران سعودی عرب نے دوستی کے معاہدے پر دستخط کیے۔ 1960ء میں خلیج فارس سے برطانیہ نے اپنی فوجیں نکالی تو سعودی عرب اور ایران نے مشترکہ طور پر خیلج فارس کی ذمہ داری قبول کی۔ 1960ء میں ہی رضا شاہ پہلوی نے شاہ فیصل کو خطوط کی ایک سیریز لکھی، جس میں مختلف حوالہ جات سے سعودی عرب کو مغربی تہذیب کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک خط میں رضا شاہ پہلوی نے لکھا کہ اپنی سرحدیں دوسرے ملکوں کے لیے کھول دو، ایسے تعلیمی ادارے بناؤ جس میں لڑکے اور لڑکیاں اکھٹے تعلیم حاصل کریں۔ ان اداروں میں پڑھانے کے لیے اساتذہ بھی مرد و خواتین پر مشتمل ہوں، خواتین کو منی سکرٹ پہننے کی اجازت دو، ورنہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ تم پتھر کے دور میں پہنچ جاؤ گے۔ شاہ فیصل نے اس خط کے جواب میں شاہی القابات کے ساتھ لکھا کہ آپ کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ آپ فرانس کے بادشاہ نہیں ہو بلکہ آپ ایران میں ہو جہاں کی نوے فیصد آبادی مسلمان ہے اور اس بات کو آپ نظر انداز مت کریں۔ ’’میرے خیال میں دونوں بادشاہوں کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی، شاہ ایران کو ایران کے اسلام پسند عوام نے اپنی تحریک سے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا اور آل سعود کی پالیسیوں کے باعث افغانستان پتھر کے دور میں ہے جبکہ شام کو اس دور میں دھکیلنے کے لیے آل سعود ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں‘‘
 
1966ء شاہ فیصل نے ایران کا دورہ کیا یہ اتنا کامیاب دورہ تھا کہ اس میں عالمی سطح پر اسلامی ملکوں کے اشتراک سے مختلف نئے اداروں کی بنیاد رکھنے کی تجاویز پر غور ہوا اور دونوں جانب سے آمادگی کا اظہار کیا گیا۔ اسی دورے میں ورلڈ مسلم لیگ اور آرگنائزیشن فار اسلامک کانفرنس کے قیام کی بھی منظوری ہوئی۔ 1968ء سے 1979ء تک سعودی عرب ایران تعلقات اتنے بہتر نہیں رہے لیکن 1976-77ء میں سعودی عرب میں مغرب پرستی کے حوالے سے آنیوالی تبدیلیاں پہلوی شاہ کی خواہش سے کچھ بڑھ کر ہی تھیں۔ 1979ء میں ایران میں امام خمینی کی رہبریت میں اسلامی انقلاب برپا ہوا۔ اس انقلاب کا پوری دنیا کے مسلمانوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا، لیکن انقلاب کے رونما ہونیوالے اثرات کو سامراج نے اپنے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے سابق سربراہ کہتے ہیں کہ ’’خطے میں پالیسیوں کی تبدیلیوں کی بنیاد سوویت یونین کی شکست و ریخت نہیں بلکہ انقلاب اسلامی ایران بنا ہے‘‘۔ ایران، عراق جنگ کے دوران سعودی عرب کی جانب سے 25 بلین امریکی ڈالر کی امداد عراق کو دی گئی، جبکہ بحرین، کویت اور عرب امارات سے عراق کو ملنے والی امداد اس کے علاوہ تھی۔ تمامتر حمایت اور امداد حاصل کرنے کے باوجود بھی ایران کے خلاف صدام کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ 1987ء میں حج کے موقع پر سعودی عرب میں فورسز کے ہاتھوں 400 سے زائد حاجیوں کو قتل کیا گیا، جس میں دو تہائی سے زائد تعداد ایرانیوں کی تھی۔ جواب میں ایران میں قائم سعودی سفارتخانے پر عوام نے حملہ کرکے ایک سعودی سفارتکار کو ہلاک کر ڈالا۔ جس سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہو گئے۔ 1990ء میں کویت پر عراق کا حملہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں معاون ثابت ہوا۔
 
1997ء میں شاہ عبداللہ اور سعود الفیصل نے ایران کا دورہ کرکے اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی۔ واضح رہے کہ 1997ء کی کانفرنس کا انعقاد ایران میں ہونا تھا تو سعودی عرب نے اس وقت پاکستان سے درخواست کی کہ وہ فلسطین کے مسئلہ پر ایک خصوصی کانفرنس بلائے، پاکستان نے ایک خصوصی میٹنگ کا اہتمام کیا۔ اس میٹنگ کے بعد سعودی عرب کی جانب سے کوشش کی گئی کہ چونکہ او آئی سی کی خصوصی میٹنگ ہو چکی ہے لہذٰا ایران میں ہونے والی کانفرنس ملتوی کر دی جائے۔ اس وقت پاکستان نے سعودی خواہش کو رد کرتے ہوئے اصولی موقف اختیار کیا کہ باقاعدہ کانفرنس کا انعقاد ضروری ہے، جس کے بعد ایران میں او آئی سی کانفرنس ہوئی، بعد میں 1998ء میں ایرانی صدر خاتمی نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ انقلاب کے بعد یہ کسی بھی ایرانی رہنماء کا پہلا سعودی دورہ تھا۔ دونوں ملکوں نے دوطرفہ تعاون کے معاہدے پر بھی دستخط کئے جبکہ 1999ء میں صدر خاتمی نے سعودی عرب کا پانچ روزہ دورہ کیا۔ جس کے بعد شاہ فہد نے خلیجی ممالک کی شوریٰ کونسل میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خطے کے وسیع تر مفاد کے لیے ضروری ہے کہ خلیجی ممالک ایران کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیں۔
 
2007ء میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو شاہ عبداللہ ائیرپورٹ پر استقبال کرنے کے لیے آئے اور احمدی نثراد کا ہاتھ پکڑ کر چلتے رہے۔ اسی دورے کے دوران صدر احمدی نثراد نے جی سی سی کے سالانہ اجلاس میں بھی شرکت کی۔ احمدی نژاد کے دورے کے اثرات اس وقت مکمل طور پر زائل ہوگئے جب 2009ء میں پرنس فیصل نے ہیلری کلنٹن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ایران کیجانب سے درپیش خطرات پابندیوں سے زیادہ فوری حل طلب کاروائی کی ضرورت ہے، اس بیان کی ایران کی جانب سے مذمت کی گئی۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان یہ روابط اور تعلقات اس امر کے غماز ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان مسلک کی بنیاد پر جس دوری کا ذکر کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ دریا کے دو کنارے ہیں، جو کبھی مل نہیں سکتے درست نہیں۔ شام، افغانستان، فلسطین، حماس، لبنان کے معاملات اور یو اے ای کے ساتھ ایرانی جزائر کا تنازعہ ایسے مسائل ہیں جنہوں نے سعودی عرب اور ایران کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کیا ہے۔ ایران، سعودی عرب کے خلاف اس آخری مقام تک نہیں گیا جس کا مظاہرہ سعودی عرب نے امریکی سرپرستی میں شام میں باغیوں کو کیمیائی ہتھیاروں کی سپلائی کی صورت میں یا بحرین میں غیر ملکی کرائے کی فوجوں کے ذریعے عوامی تحریک کو کچل کر کیا ہے۔ 

افغانستان میں طالبان کو وجود میں لانے سے لیکر اقتدار میں بٹھانے تک سعودی کوششیں ہی کارفرما تھیں۔ اس وقت پاکستان میں سپاہ صحابہ جیسی تنظیم معرض وجود میں آ چکی تھیں، جو بلا روک ٹوک شیعہ کافر کے نعرے بلند کرتی تھی اور 1990ء میں اس تنظیم نے خانہ فرہنگ جمہوری اسلام ایران لاہور کو نذرِآتش کیا اور اسکے ڈائریکٹر صادق گنجی کو قتل کیا۔ 1996ء میں اسی گروہ نے ملتان کے خانہ فرہنگ پر حملہ کیا اور یہاں متعدد لوگوں کو شہید کیا۔ 1996ء ہی میں طالبان نے افغانستان کے شہر مزار شریف میں ایرانی قونصل خانہ پر حملہ کر کے تقریبا دس سفارت کاروں اور ایک صحافی کو شہید کردیا۔ پاکستان میں امریکہ اور سعودی عرب کی سازشوں کے نتیجے میں جند اللہ نامی گروہ وجود میں آیا۔ جس نے پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے ایران کے اندر ایرانی فوجیوں پر حملے کیے۔ اس کے علاوہ ایران کے اندر متعدد امام بارگاہوں اور مساجد میں دھماکے کروائے جس کے نتیجے میں ایرانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد لقمہ اجل بن گئی۔ آل سعود نے انقلاب اسلامی ایران کی دشمنی میں امریکی مدد سے جن ملکوں کے اندر مدارس و مساجد کے ذریعے دہشت گردی کے مراکز قائم کئے وہ آج داخلی سطح پر انتہائی غیر محفوظ ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عراق، شام، لبنان، پاکستان، افغانستان میں عوامی بغاوت، یا نفاذ شریعت کے نام پر جو دہشت گردی جاری ہے اس میں سعودی عرب اور امریکہ کا ہی عمل دخل ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پہلے دن سے ہی بہتر اور خوشگوار تھے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی قائد ملت لیاقت علی خان کا اپنے دورے کے لیے روس کے بجائے امریکہ کا انتخاب تھا۔ اگر 23 مارچ 1940ء کی قرادادوں کی بات کی جائے تو اس دن صرف ایک قراداد پاکستان کے متعلق منظور نہیں ہوئی تھی بلکہ اسی دن فلسطین کی آزادی کی ایک قراداد بھی پاس ہوئی تھی۔ چنانچہ پاکستان بننے کے بعد اگر فلسطین کی قرارداد کو مدنظر رکھا جاتا تو قائد ملت لیاقت علی خان کا دورہ امریکہ کے بجائے روس کی جانب ہونا چاہیئے تھا۔ چونکہ اس وقت امریکہ اسرائیل کی محافظت کی ذمہ داری سرانجام دے رہا تھا۔ بیوروکریسی کی وہ اعلٰی شخصیات جنہوں نے پاکستان اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا ان کے مطابق چونکہ برطانیہ پر امریکہ نے برصغیر کی تقسیم کے لیے دباؤ ڈالا تھا اور یہاں کے مسلمانوں کا مطالبہ بھی الگ مملکت کا تھا لہذا ان دونوں چیزوں کے اشتراک سے ہی پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ تو یہ کیونکر ممکن تھا کہ پاکستان امریکہ کے بجائے اس ملک سے اپنے راہ و رسم بڑھاتا جو کہ خود گرم پانیوں سے بھی محروم تھا اور وہاں کے سرد موسم کی پراسرار کہانیاں عام و خواص کے لب پر تھیں۔ جب ان سے یہ سوال پوچھا جائے کہ امریکہ برصغیر کی تقسیم کیوں چاہتا تھا تو وہ جوابا کہتے ہیں کہ ’’دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا پر کوئی بڑی طاقت ایسی موجود نہیں تھی کہ جو عالمی طاقت ہونے کی دعویدار ہوتی، امریکہ کو مڈل ایسٹ، گلف کی صورت میں اپنی تھانیداری کے قیام کے لیے ایک خلاء تو نظر آ رہا تھا لیکن بذات خود امریکہ اس وقت اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ ان علاقوں میں قیام کرے، دوسری جانب دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والے سارے ملک خود کو سمیٹ رہے تھے جبکہ امریکہ کو برٹش انڈیا آرمی واحد ایسی قوت نظر آ رہی تھی جو اس کے سامنے مزاحم ہو سکتی تھی۔ چنانچہ امریکہ نے اپنی اس مخالف ممکنہ قوت کو تقسیم کرنے کے لیے برطانیہ کو ہندوستان کی تقسیم پر رضامند کیا۔ لہذا قائد ملت لیاقت علی خان نے اگر روس کے بجائے اپنے دورے کے لیے امریکہ کا انتخاب کیا تو وہ کوئی حیران کن بات نہیں تھی اور نہ ہی یہ دورہ صرف امریکہ سے تعلقات تک محدود تھا بلکہ اس دورے نے پاکستان کی آئندہ کے لیے خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی تھی۔ 

عرب ملکوں کو جب پاکستان نے مختلف شعبوں میں تکنیکی امداد فراہم کی تو اس میں بھی کسی حد تک امریکی خوشنودی شامل تھی۔ 1968ء میں پاکستان نے سعودی عرب کی فوجی مدد شروع کی، حالانکہ 1965ء کی جنگ میں چین اور ایران نے پاکستان کی بھرپور مدد کی تھی یہاں تک کہ ایران نے اپنے ائیر بیس پاکستان کو استعمال کرنے کی اجاز ت دی بھی دی تھی۔ گرچہ اس وقت ایران شہنشاہ کے زیر تسلط تھا لیکن پاکستان کے ایک قابل بھروسہ دوست کا کردار ادا کر رہا تھا۔ وہ بھروسے کا رشتہ زبان، مذہب، محل وقوع کی بنیاد پر بھی قائم تھا لیکن اس بھروسے کے رشتے کی مضبوطی کی ایک وجہ امریکی دوستی تھی۔ پاکستان نے روز اول سے ہی سعودی عرب کی دفاعی مدد شروع کر دی تھی۔ 1969ء میں سعودی ائیر فورس کی یمن قبائل کے خلاف معاونت کی۔ 1970-80 تک پاکستان کی 15000 فوج سعودیہ میں تھی اور سعودی عرب کو بیلسٹک میزائل وغیرہ کے منصوبوں پر بات چیت ہو رہی تھی۔ پاکستان سے ایٹم بم خریدنے کی شرط پر سعودی عرب نے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں مدد بھی فراہم کی۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو ایران طالبان کی مخالفت میں جبکہ عرب امارات، سعودی عرب اور پاکستان عالمی نقشے پر فقط یہی وہ ملک تھے، جنہوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا۔ وہی امریکہ جس نے طالبان کو بنانے کے لیے ہر قسم کی مدد کی اس نے طالبان کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ 

سعودی دوستی کا دم بھرتے ہوئے ہم نے لائل پور کا نام بھی فیصل آباد رکھا، سعودی امداد سے ملک میں مساجد اور مدارس کی صنعت کو فروغ دیکر دہشت گردی کو ایسی نفع بخش پیداوار کے طور پر دنیا میں متعارف کرایا۔ امریکہ اور سعودی عرب کو جب ہماری فوج کی ضرورت پڑی ہم نے وہ فراہم کی اور ان کو جب ہمارے دہشت گردوں کی ضرورت پڑی ہم نے وہ بیچے۔ پاکستان کے وہ اثاثے جن پر قوم کے خون پسینے کی کمائی صرف ہوئی ہے چند ہاتھوں میں مرکوز رہے مگر محفوظ نہیں رہے۔ صدام کے کویت پر حملے سے قبل پاکستان نے سعودی عرب کے دو مقدس شہروں یعنی مکہ اور مدینے کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کی تھی مگر بعدازاں پاک فوج نے وسیع تر مفاد میں صدام کی حمایت میں جانا زیادہ پسند کیا۔ سعودی عرب میں عوامی تحریکوں کے خلاف بھی پاک فوج کو استعمال کیا گیا۔ بحرین کے بےگناہ نہتے عوام کے خلاف انسانیت سوز کاروائیاں سرانجام دینے کے لیے زبردستی پاکستانی فوج کی خدمات حاصل کی گئیں، جبکہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لیے یہاں سے دہشت گردوں کی بھرتی کی گئی۔ یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکیوں نے ہمیں استعمال کرتے کرتے سعودی عرب کو بخشش کے طور پر دیا ہے۔ جس کا نقصان فقط عوام کی حد تک یا خطے میں کمزور پوزیشن کی حد تک ہی برآمد نہیں ہوا بلکہ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے اداروں کو اپنی سرزمین پر وہ میدان جنگ فراہم کردیا تھا جہاں وہ اپنے اپنے مفادات کی جنگیں لڑیں۔ 

انقلاب کے بعد ایران کے ساتھ تعلقات بہت اچھے نہیں رہے اور اس کی وجہ بھی ہمارے اداروں پر امریکی اور سعودی اثر تھا جبکہ پاکستان کے عوام جہاں آل سعود کی خونی پالیسیوں سے نالاں ہیں، وہیں ایران کے امریکہ کے خلاف قیام، مسئلہ فلسطین کے موقف پر ثابت قدمی اور سب سے بڑھ کر اسلامی دنیا کے حقوق سے متعلق آواز اٹھانے کے باعث انقلاب کے بعد والے اسلامی جمہوریہ ایران سے قلبی لگاؤ رکھتے ہیں۔ جہاں تک سعودی عرب اور ایران کے درمیان مسلکی اختلاف کا مسئلہ ہے تو مخصوص مقاصد کیلئے آل سعود نے اس کو ہوا دی ہوئی ہے۔ ضیاءالحق جس نے ان طالبان کی پرورش کی جو اہل تشیع کے مسلکی اختلافات کے باعث گلے کاٹتے ہیں اسی ضیاءالحق کو امام خمینی کی امامت میں نماز پڑھتے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور حج کے موقع پر بلاتفریق رنگ، نسل، مسلک مسلمانوں کو حج کی ادائیگی بھی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ماضی کے ان حالات واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر موجودہ حالات واقعات پر غور کیا جائے تو پاکستان کے دو منصوبوں کو روکنے کیلئے دوست اور دشمن ملکر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ اور گواردر پورٹ سے کاشغر تک تقریباً تین ہزار کلومیٹر روڈ، فنکشنل گوادر پورٹ۔ یہ منصوبے پاکستان کی ترقی کے لیے ناگزیر ہیں، لیکن پاکستان کے نام نہاد دوست ان منصوبوں کے آگے دیوار بن کر ملک کو ایک نئی جنگ میں دھکیلنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ سعودی وزیر دفاع سلمان بن عبدالعزیز 15 فروری کو پاکستان کے تین روزہ دورے پر آئے۔ دورے کے دوران انہوں نے پاکستان کی اعلٰی قیادت سے ملاقاتیں کی اور اپنی خواہشات ظاہر کیں۔ ملکی قیادت کو مطالبات کی جو فہرست انہوں نے تھمائی ہے اس میں یہ مطالبہ بھی ہے کہ پاکستان چالیس ہزار فوج سعودی عرب کو دے۔ معلوم نہیں اس فوج کو بحرین کی طرح کسی اور اسلامی ملک میں جھونکنا ہے یا براہ راست شام میں استعمال کرنا ہے۔ ان چالیس ہزار میں پانچ سو وہ آفیشل بھی ہونے چاہیئیں جو ٹریننگ دے سکیں۔ ان پانچ سو ٹرینر سے سعودی فوج کی ٹریننگ کرانا مقصود نہیں ہے بلکہ شام میں لڑنے والے دہشت گردوں کو ٹریننگ دینا مقصود ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کو شام میں دہشت گردوں کو دینے کے لیے پاکستان سے ٹینک شکن اور طیارہ شکن میزائل بھی چاہیئے۔ عربوں کو شکار اور پیداوار کے لیے پاکستان سے ایک لاکھ ایکڑ زمین بھی درکار ہے، بعد ازاں وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ کانفرنس کرتے ہوئے دونوں نے شام میں بشار الاسد حکومت کے بجائے عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ جس سے یہ شبہات بھی دور ہو گئے کہ شام کے مسئلہ پر پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے بجائے خود شام میں ایران کا مخالف فریق بننے جا رہا ہے۔
 
اسی دوران ایران کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ ایران اپنے مغوی اہلکاروں کو بازیاب کرانے کیلئے اپنی فورسز پاکستان میں داخل کرے گا۔ یہ بیان ہمسائیہ ملک کی جانب سے واضح پیغام تھا کہ شام کے معاملات سے دور رہیں اور سعودی عرب و اسرائیل کے مفادات کی خاطر ایک نئی جنگ کا شکار نہ ہوں۔ ایران کے اس سخت ترین ردعمل کے نتیجے میں ملک کی بیوروکریسی کچھ شش و پنج کا شکار ہوئی۔ وزارت خارجہ نے اپنے پہلے بیان میں ایران کے مغویوں شہریوں کی پاکستان میں موجودگی سے انکار کرتے ہوئے کہا فورسز نے بلوچستان کا چپہ چپہ چھان مارا ہے لیکن ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ مغوی اہلکار پاکستان میں موجود نہیں۔ وزارت خارجہ کے اس بیان سے عوامی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، کیونکہ پاکستانی عوام کو تو میڈیا کے ذریعے اکثر اوقات یہ باور کرایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں کئی علاقے نوگو ایریا میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ 

وزارت خارجہ کے اس بیان سے ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پورے بلوچستان میں حکومتی رٹ پوری طرح قائم ہے۔ نہ ہی وہاں وطن عزیز کے جھنڈے نذرآتش کئے جاتے ہیں اور نہ ہی وہاں لشکر جھنگوی کے کوئی کیمپ وغیرہ موجود ہیں، کیونکہ اگر وہاں کوئی ایسے دہشت گرد عناصر موجود ہوتے، تو لازماً ان کی چپہ چپہ چھاننے والے سکیورٹی فورسز اہلکاروں سے مڈبھیڑ بھی ہوتی۔ وزارت خارجہ کے بیان پر یقین کرنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں زائرین کو، ہزارہ قبیلے کو، پنجابیوں کو پھر نشانہ کون بنا رہا ہے۔ اس سوال کا جواب وہی بہتر دے سکتے ہیں جنہوں نے اس صوبے کا چپہ چپہ چھان مارا ہے۔ اس کے بعد وزارت خارجہ کی جانب سے یہ تردید سامنے آئی کہ سعودی عرب کی جانب سے ایک لاکھ فوج کے مطالبے میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ البتہ وزارت نے اس بات کی تردید نہیں کی کہ پاکستان اپنی فوج سعودی عرب کو دے رہا ہے یا نہیں۔
 
مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ شام میں استعمال کرنے کے لیے سعودی عرب کو اسلحہ بیچنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے، لیکن اس دوران پشاور میں ایرانی قونصلیٹ پر خودکش حملہ بھی ہوا اور کراچی میں ایرانی قونصل خانے کے پروفیسر سلمان علی کو شہید کیا گیا۔ پشاور میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے کی ذمہ داری ایک ایسی جماعت نے قبول کی جس نے اس سے قبل پاکستان میں کسی فرقہ ورانہ یا دہشت گردی کی کاروائی کی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔ خالصتاً آزادی کشمیر کی جنگ لڑنے والی ایسی تنظیم جسے جماعت اسلامی کا ایک حصہ خیال کیا جاتا ہے۔ جو مکمل طور پر پرو پاکستان تنظیم سمجھی جاتی ہے اس کی جانب سے یہ کاروائی ایک بہت بڑا سوال ہے، جبکہ جماعت اسلامی انقلاب اسلامی ایران کی فکری ساتھی بھی سمجھی جاتی رہی ہے۔ واضح رہے کہ حزب المجاہدین پاکستان میں کالعدم تنظیم نہیں ہے۔ دہشت گردی کا یہ واقعہ صرف پاک ایران تعلقات کے لیے ایک دھچکا ہی نہیں بلکہ آزادی کشمیر کی جدوجہد پر بھی کاری ضرب ہے جبکہ سعودی ولی عہد نے وزیراعظم کے ساتھ پریس کانفرنس میں کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت بھی کی ہے۔

ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سکیورٹی فورسز کی دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں کا دائرہ بھی وسیع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کا فوکس تحریک طالبان تک محدود نہ رہے اور ایرانی قونصلیٹ اور کراچی میں قونصلیٹ سے منسلک پروفیسر کا قتل اس امر کا غماز ہے کہ سامراجی قوتیں شام کی جنگ حیلے بہانوں سے پاکستان پر مسلط کرنے کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ تاحال طالبان کی انسانیت سوز کاروائیوں کے باعث پاکستانی عوام اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، اور اس فتنے کا قلع قمع چاہتے ہیں۔ شام کو کیمیائی ہتھیاروں سے محروم کرنیوالی قوتیں اسلامی دنیا کی اس واحد ایٹمی طاقت کو نہتا بھی دیکھنا چاہتی ہیں۔ اب دہشت گردوں کے خلاف لڑی جانیوالی جنگ کو مسالک اور فرقوں کی جنگ میں تبدیل کرنے کے لیے دہشت گردی کی ایسی کاروائیاں جاری ہیں جو کہ ملک کے لیے ایک طرف بدنامی اور دوسری جانب خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی مذموم کوشش ہے۔ شام پر سعودی موقف کی کمزوری کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب بشار الاسد حکومت کے خلاف دنیا بھر کے جہادیوں کو اکھٹا کرکے شام میں جمع کیا گیا تو اس وقت سعودی عرب کے ساتھ امریکہ اور ترکی سمیت کئی ممالک موجود تھے۔ آج بشارالاسد حکومت کے خلاف سعودی عرب دہشت گردوں کی حمایت میں تنہا کھڑا ہے۔ جس طرح طالبان حکومت کو صرف پاکستان اور سعودی عرب نے تسلیم کیا تھا اس طرح اس تنہائی کو دور کرنے کے لیے اس جنگ میں پاکستان کو اپنے ساتھ لیجانے کی کوشش کر رہا ہے۔

حقیقت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ دہشت گردی کے بل بوتے پر کسی بھی خطے کی قوم کو نہ محکوم رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی طاقت کے بل بوتے پر پائیدارانہ حکومتیں وجود میں لائی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا سعودی عرب کو طالبان اور القاعدہ سمیت عالمی دہشت گردوں کے بل بوتے پر اسلامی دنیا پہ حکمرانی کے خواب کو چھوڑ کر اپنے ملک میں اٹھنے والی عوامی تحریکوں پر توجہ دینی چاہیئے جو کہ شائد نجد و حجاز کی سرزمین کی آل سعود سے نجات پر منتج ہوں، ویسے بھی آل سعود کا سب بڑا محافظ امریکہ اپنا ہاتھ دھیرے دھیرے واپس کھینچ رہا ہے۔ پاکستان کو غیر ضروری عسکری تعلقات بڑھانے میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ خارجہ پالیسی کے ماہرین ایران اور پاکستان کا مستقبل روشن اور ترقی یافتہ جبکہ آل سعود سے نجات پر مشتمل نجد اور حجاز کی تقسیم کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اپنے دونوں ضروری منصوبوں پر بہرحال عمل کرنا چاہیئے، ملک میں امن کے قیام کی کوششیں کرنی چاہیئے نہ کہ کسی اور جنگ میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک ہونے کی تیاریاں۔ امن کے قیام کے لیے ہونیوالی کوششوں کو مزید موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے مختصر عرصہ میں کوئٹہ اور پشاور میں آنیوالی چونتیس ارب کی رقوم کے آگے بھی بند باندھنا ہو گا۔ جس کا اشارہ حال ہی میں کثیر القومی اخبار کی جانب سے کیا گیا ہے۔ جمہوری تناظر میں ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ عوامی جمہوریہ نجد اور عوامی جمہوریہ حجاز کا کون دوست ہے اور کون دشمن، لیکن یہ طے ہے کہ جس طرح آل سعود اسلامی دنیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا وطیرہ اپنائے ہوئے ہیں، مستقبل قریب میں خود کو عوامی تحریکوں سے محفوظ نہیں کر پائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 360038
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش