0
Tuesday 11 Mar 2014 00:53

شام و عراق میں القاعدہ اور پاکستانی خارجہ پالیسی (2)

شام و عراق میں القاعدہ اور پاکستانی خارجہ پالیسی (2)
تحریر: سلمان رضا
salmanrazapk@gmail.com


شام میں فوج سے برسرپیکار گروہوں میں سب سے بھیانک کردار القاعدہ کا ہے۔ یہاں شام میں القاعدہ مختلف ناموں سے دہشت گردانہ کاروائیوں میں مصروف عمل ہے۔ جن میں دو نام النصرہ فرنٹ اور ISIS یعنی "الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و شام" قابل ذکر ہیں۔ القاعدہ کے ان دہشت گردوں میں جہاں عرب ممالک سے آئے ہوئے جنگجو شامل ہیں وہیں پاکستان، افغانستان کے ساتھ ساتھ امریکہ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ سے آئے ہوئے متشدد نظریات کے حامل افراد بھی شامل ہیں۔ گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرب ممالک اور یورپی ممالک نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن نوجوانوں میں اپنی حکومتی پالیسیوں کے خلاف نفرت کے باعث متشدد نظریات جنم لے لیں، انہیں فوری طور پر ایکسپورٹ کر دیا جائے اور اس مقصد کے لیے ماضی میں پاکستان و افغانستان کی بجائے شام و عراق کا مقام متعین کیا گیا ہے اور القاعدہ کے ماسٹر مائنڈ اب اسی "جہادی تنظیم" میں تکفیری فکر کو زیادہ عیاں کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ خطے میں اپنے فرقہ واریت کے منصوبے کو بڑھاوا دے سکیں۔

طالبان اور القاعدہ پر اتھارٹی سمجھے جانے والے ایک تجزیہ نگار کے بقول القاعدہ میں تغیر کا عمل عیاں ہے اور اب نئی القاعدہ اپنے اہداف کے اعتبار سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ان کے بقول ماضی میں القاعدہ اسامہ بن لادن کی سربراہی میں روس اور پھر بعد میں امریکہ کے خلاف برسرپیکار تھی، لیکن آج کی القاعدہ اس امریکہ کو چھوڑ کر فرقہ واریت کا ایجنڈا لئے اپنی حکومت یعنی نظام خلافت رائج کرنے چلی ہے۔ اسی مقصد کے لیے وہ امارات اسلامیہ کی اصطلاح استعمال کر رہی ہے۔ طالبان کے ذریعے افغانستان میں بھی یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے لیکن جس جگہ پر یہ اصطلاح پوری شدت کے ساتھ استعمال کی جا رہی ہے وہ شام اور عراق ہیں۔ خاص طور پر ان دو ممالک کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ ان دونوں ممالک میں شیعہ حکومتیں قائم ہیں اور ان دونوں کا تمائل اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف ہے۔ اس تجزیہ نگار کے بقول وادی فرات نئی پاک افغان سرحد بننے جا رہی ہے، جہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بنیں گی۔ شام کے ساتھ ساتھ القاعدہ کے دہشت گرد جو بجلیاں آئے دن سرزمین عراق کے باسیوں پر گرا رہے ہیں اس سے ہم سب باخبر ہیں، ہر روز بم دھماکے، خودکش حملے اور فائرنگ کے واقعات عراقی عوام کی زندگی کا جزو بن چکے ہیں۔

امریکہ عراق سے جاچکا، لیکن اپنی پرچھائی القاعدہ وہاں چھوڑ گیا۔ عراق میں القاعدہ آئی تو امریکہ کا پیچھا کرتی ہوئی البتہ امریکی فوج عراق سے کویت چلی گئی لیکن القاعدہ عراق میں ہی اپنے اصل ہدف یعنی شیعہ مسلک کے درپے ہی رہی۔ صرف 2013ء میں عراق میں 9700 کے لگ بھگ افراد ان درندوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بنے اور ہزاروں افراد اپاہج ہوکر زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنی زندگی میں ابو مصعب الزقاوی نے کہا تھا کہ ہمارے دو دشمن امریکہ و شیعہ ہیں، لیکن اگر ہمیں ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو ہم شیعہ کا انتخاب کریں گے۔ یہی وہ تلخ حقیقت ہے جس کو دیکھ کر آج عالم اسلام منہ چھپا رہا ہے، لیکن میرے خیال میں القاعدہ کو اسلام کے ساتھ نتھی کرنا خود اسلام کی بے حرمتی ہے، کیونکہ ان دہشت گردوں کا نام نہاد مذہب تو اسلام ہے لیکن ان کا اصل مذہب درندگی اور انسان سوزی ہے۔ ایک لمحے کے لیے ہم یقین کر بھی لیں کہ یہ درندے اسلام کے گمراہ پیروکار ہیں اور اسلامی ممالک میں اپنی تعبیر کردہ "شریعت" کا نفاذ چاہتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ یہ تمام تکفیری دہشت گرد اپنے ملکوں سے اس تحریک کا آغاز کیوں نہ کرتے۔ مثلاً اسامہ بن لادن سعودی عرب کا شہری تھا، ایمن الظواہری مصر کا رہنے والا ہے اور ابو مصعب الزقاوی اردنی باشندہ تھا، اگر ان کا ہدف امارات الاسلامیہ قائم کرنا ہے تو خود اپنے ممالک سے آغاز کیوں نہیں کرتے۔

عراق میں تو پھر ایک جمہوری حکومت ہے، جس میں شیعہ سنی دونوں کی نمائندگی ہے اور شام میں جیسے تیسے ہی سہی آخر انتخابات تو ہوتے ہیں لیکن سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، اردن، بحرین میں تو غیر منتخب آمروں کی حکومت ہے اور ان ممالک میں سے اکثریت میں فحاشی و عریانی سے لے کر تمام اخلاقی مفاسد پائے جاتے ہیں، وہاں کیوں شریعت کے نفاذ کی کوشش نہیں کی جاتی، اور پھر اگر مان لیا جائے کہ اپنے گھونسلے چھوڑ کر یہ "مجاہدین اسلام" یہاں آ بسے ہیں اور یہیں سے آغاز کار ہوگا تو پھر ان کا ہدف صرف شام و عراق ہی کیوں۔ ISIS یعنی "الدولۃ الاسلامیہ عراق و شام" تک محدود کیوں، یہ امارات اسلامیہ ان دو ممالک کے ہمسایہ ممالک ترکی، اردن، کویت، سعودی عرب اور بحرین تک کیوں نہیں پھیلائی جاتی۔ وہاں ایسی کارروائیاں تو درکنار بلکہ ان کا نام تک "امارات الاسلامیہ" کے اصطلاحی نام سے ہی خارج کیوں، جبکہ اگر ان دو ممالک کے بعد اگر کسی تیسرے ملک کی طرف بدامنی رُخ کر رہی ہے تو وہ بھی انہیں سے متصل لبنان ہے۔ شاید اس لیے کہ وہاں کی حکومت پر شیعہ اثر و رسوخ عیاں ہے۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ القاعدہ کی نئی شکل صرف فرقہ وارانہ اور شیعہ کش ہوچکی ہے اور حالات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ ان عرب ممالک کا مشترکہ ایجنڈا شیعہ آبادی والے ممالک کو بے امن کرنا ہے اور اس طرح وہ امریکی و اسرائیلی ایجنڈے کے تحت مسلمانوں میں تفریق اور انتشار کی پالیسی پر گامزن ہیں، تاکہ اس کے بدلے انہیں اپنی ناجائز حکومتوں کی ڈوبتی کشتیوں کو شاید کچھ دیر اور سہارا میسر آسکے۔

یہاں ہمارے ذہنوں میں یہ بات بھی روشن رہے کہ اگر القاعدہ (جو درحقیقت امریکہ و عرب حکمرانوں کی لونڈی ہے) کا ایجنڈا رتی برابر بھی امریکہ و اسرائیل مخالف ہوتا تو جس کے پیٹ میں سب سے پہلے مروڑ اُٹھتا وہ اسرائیل ہوتا یعنی اگر عراق و شام میں "امارات الاسلامیہ" بننے جا رہی ہے تو یہ اسلام کے "مجاہدین" قبلہ اول کی آزادی کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے اور نتیجتاً اسرائیل کی نیندیں سب سے پہلے اُڑتیں کیونکہ شام اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد ملتی ہے، لیکن اس کے برعکس اسرائیل، امریکہ و عرب حکمرانوں کے ساتھ مل کر ان اسرائیل دوست مجاہدین کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔ ہمیں یاد رہے اسرائیل وہ ناجائز ملک ہے جو اپنی طرف بڑھنے والے خطرے کو سر اُٹھانے سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے۔ 80ء کی دہائی میں عراق کی ایٹمی تنصیبات کو اس نے منٹوں میں راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا تو آج اگر اسے النصرہ فرنٹ یا "ISIS" سے خطرہ ہوتا تو وہ اپنے طیارے بھیج کر ان کے مراکز پر بمباری کروا دیتا، لیکن اس کے برعکس وہ سعودی عرب کی طرح اعلان کرتا پھرتا ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت جلد از جلد گرنی چاہیے۔

ان سعودی حکمرانوں کے دہرے معیارات تو ملاحظہ فرمایئے کہ مصر میں تحریک بیداری کے آگے پل باندھنے کے لیے سعودی عرب نے مصری فوج کا ساتھ دیا اور کئی ارب ڈالر کی امداد دی، جبکہ شام میں تکفیری دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے والی فوج کے مقابلہ میں انہیں دہشت گردوں کو اربوں ڈالر کا اسلحہ اور نقد رقوم کی ادائیگی کی۔ مصر میں اخوان المسلمون جو غیر مسلح تحریک چلا رہی تھی، کو زیر کرنے کے لیے مصری فوج کا ساتھ دیا جبکہ شام میں خونریزی کرنے والے مسلح گروہوں کی پشت پر کمر ٹھونک کر کھڑا ہے اور شامی حکومت اور فوج کو زیر کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ یہی سعودی عرب اپنی مشرقی نہتی آبادی پر فوج کشی کو ملک کا دفاع قرار دیتا ہے جبکہ شام میں مسلح درندوں کے مقابل ریاست کا دفاع کرنے والی فوج کے خلاف دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ بحرین کے نہتے عوام کی تحریک بیداری کو بحرین کی مسلم حکومت کے خلاف سازش قرار دیتا ہے جبکہ شام میں بشار الاسد کو دفاع فلسطین کا مورچہ بننے کے جرم کی پاداش میں تہہ و تیغ کرنا چاہتا ہے۔ ان کے نزدیک بشار الاسد کا سب سے بڑا جرم بھی اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمت کا ساتھ دینا ہے اور اس کی سزا یہ خیانت کار اسے دے رہے ہیں جبکہ ہمارے نزدیک بشار الاسد کا سب سے بڑا کارنامہ ہی یہی ہے اور اسی لیے ہم اس کے دفاع میں کھڑے ہیں۔

القاعدہ کے "امریکہ مخالف مجاہدین" پوری دنیا چھوڑ کر ان دو اسلامی ممالک میں آ بسے ہیں، جہاں آج کوئی امریکی فوجی موجود نہیں جبکہ بحرین جہاں امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ، قطر جہاں خطے کا سب سے بڑا امریکی فضائی اڈہ، کویت جہاں لگ بھگ 15000 امریکی فوجی موجود، سعودی عرب جس کی حکومت کی سلامتی کا امریکہ ضامن اور متحدہ عرب امارات سے لے کر اردن و مصر تک کسی ملک میں آج ان "امریکہ مخالف مجاہدین" کی کوئی کارروائی نظر نہیں آتی البتہ ہمارا پیارا وطن پاکستان ان درندوں کے حلیفوں سے محفوظ نہیں اور پاکستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان جو نظریاتی طور پر اسی تنظیم کی حلیف ہے، آئے روز پاکستانی شہریوں اور فوجیوں پر حملے کرتی نظر آتی ہے۔ TTPعوام کے سامنے یہ دلیل پیش کرتی ہے کہ اس کا جہاد امریکہ کے خلاف ہے، لیکن پچھلی پوری دہائی کے دوران اس تحریک طالبان نے کوئی ایک حملہ بھی کسی امریکی فوجی یا کسی امریکی مفاد پر نہیں کیا جبکہ پاکستان میں امریکہ کے تین اڈے موجود ہیں اور تو اور امریکی و یورپی نوجوان بھی اپنے ملکوں میں ایسی کارروائیاں نہیں کرتے بلکہ بلاد کفر کو چھوڑ کر بلاد اسلام میں آکر ناحق مسلمانوں کے گلے کاٹنے کا درندہ صفت کام کرتے نظر آتے ہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 360200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش