0
Sunday 20 Apr 2014 18:41

غزہ کے بعد مغربی کنارہ اور امریکی سازشوں کا جال

غزہ کے بعد مغربی کنارہ اور امریکی سازشوں کا جال
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


سرزمین فلسطین کہ جسے پہلے ہی غاصب اسرائیلی دشمن نے دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ایک حصے کو ہم غزہ کے نام سے جانتے ہیں جو مصر کے ساتھ رفح کراسنگ پر واقع ہے جبکہ دوسرا حصہ مغربی کنارہ جسے west bank کہا جاتا ہے۔ جہاں تک غزہ کی بات ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ پانچ برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے غزہ کی پٹی اسرائیلی محاصرے میں ہے اور غزہ میں موجود پندرہ لاکھ سے زائد فلسطینی عوام کی زندگیاں خطرے کی سر خ لکیر پر ہیں، غزہ میں پورا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد کر دیا گیا ہے، بچوں کے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو برباد کر دیا گیا ہے، اسپتالوں میں ڈاکٹر اگر موجود ہوں بھی تو ادویات اور ٹیکنالوجی کے فقدان کے باعث کسی کو فائدہ نہیں، اسی طرح پیٹرول، گیس، خوراک و ادویات سمیت زندگی سے متعلق ہر شے انمول ہو چکی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ غزہ محاصرے میں ہے، غزہ کے عوام خود کو زندہ رکھنے کے لئے سرنگوں کی مدد سے زیرزمین جا کر مختلف مقامات سے غذائی اشیائے اور دیگر اشیائے خورد ونوش فراہم کر تے ہیں تاہم حال ہی میں مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے کے بعد اب یہ راستہ بھی بند ہو چکا ہے اور رفح کراسنگ کو بھی باقاعدہ بند کر دیا گیا ہے جس کے بعد غزہ کی حالت انتہائی سنجیدہ ہو چکی ہے۔

امریکہ جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ، امریکی ایماء پر نہ صرف اسرائیل نے غزہ کا پانچ سال سے زائد عرصے کا محاصرہ کر رکھا ہے بلکہ آئے روز غزہ کے مظلوم عوام پر ظلم و بربریت کے پہاڑ بھی توڑے جا رہے ہیں، دوسری جانب یورپ اور یورپی یونین کبھی کبھار تو غزہ کی حمایت میں صرف ایک آدھ بیان دے کر اپنی ذمہ داری انجام دے ہی رہی ہے لیکن امریکہ اور یورپ کو اس بات کا بالکل احساس نہیں ہے کہ غزہ میں پندرہ لاکھ سے زائد انسانوں کو موت کی طرف دھکیل دیا گیا ہے، در اصل امریکہ ہی غزہ کے محاصرے اور اسرائیل مظالم کا ذمہ دار ہے کیونکہ ہر دور میں یہ امریکہ ہی ہے کہ جس نے غاصب اسرائیل کو نہ صرف سفارتی حمایت فراہم کی ہے بلکہ اقوام متحد ہ کی سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی ہر اس قرارداد کو کہ جو غاصب اسرئیل کے مظالم کے خلاف ہو کو ویٹو بھی کیا ہے اور امریکی مدد کا باب صرف یہاں پر بند نہیں ہو جاتا ہے بلکہ امریکہ دنیا کی واحد ایسی حکومت ہے کہ جو غاصب اسرائیل کو کروڑوں ڈالر کا اسلحہ فراہم کرتی ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کی مزاحمت کو کچلنا اور مظلوم فلسطینی عوام پر مظالم کا سلسلہ جاری رکھنا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ غزہ محاصرے میں ہے، اور اس محاصرے کی مکمل منصوبہ بندی ماضی میں عین اس وقت امریکہ نے انجام دی تھی جب 2006ء میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس انتخابات میں کامیاب ہو کر حکومت بنانے کا عزم رکھتی تھی تاہم امریکہ نے حماس حکومت کو ناکام بنانے اور اس کا خاتمہ کرنے کے لئے اسرائیل کے ذریعے غزہ کا محاصرہ کیا اور اب فلسطین کے دوسرے حصے مغربی کنارے کو بھی غزہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ حال ہی میں امریکہ اور یورپ کی جانب سے فلسطین سے متعلق کافی حرکات دیکھنے کو آئی ہیں کہ جس میں سب سے اہم یورپی ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے فلسطین اور اسرائیل محاذ پر منصوبہ بندیاں شامل ہیں، کیونکہ مستقبل قریب میں ''آزاد فلسطینی ریاست '' کے عنوان سے پیش ہونے والی قرارداد کو امریکہ ہر حال میں مسترد کرنے والا ہے اور اس حوالے سے امریکہ نے ایک نئی منصوبہ بندی تیار کی ہے جو ماضی میں غزہ کے لئے اس وقت تیار کی تھی جب حماس کو انتخابات میں واضح برتری حاصل ہوئی تھی۔

امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے حال ہی میں ایک ایسے معاہدے کو ترتیب دیا ہے جس کی بنیاد اسرائیل کی سلامتی سے مشروط ہے، گذشتہ ماہ جان کیری نے واشنگٹن میں سابان فورم سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر بتایا کہ امریکی صدر باراک اوبامہ کی اولین ترجیح میں اسرائیل کی سلامتی ہے، بعدازاں جان کیری نے اسرائیلی سلامتی سے متعلق ایک منصوبہ بھی پیش کیا۔ دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے جان کیری کے اس رویے پر شدید غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ فلسطین کا امن عمل متاثر کرنے میں جان کیری کا براہ راست کردار ہے۔ اسرائیلی سلامتی سے متعلق منصوبہ John Allen کی جانب سے تیار کیا گیا ہے جو افغانستان میں امریکی اسپیشل فورسز کا کمانڈ آفیسر رہا ہے، اور حال ہی میں اسرائیلی اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ کئی روز تک اس منصوبے کی تیاری میں مصروف عمل بھی رہا ہے، اس منصوبے کا اہم ترین نقطہ وادیٔ اردن ہے کہ جس کے بارے میں John Allen کا کہنا ہے کہ اسرائیلی سلامتی کے منصوبے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ وادیٔ اردن میں مزید دس سال تک اسرائیلی افواج کا قیام رہنا بہت ضروری ہے۔ دوسری جانب محمود عباس کہتے ہیں کہ امریکی منصوبے کے مطابق امریکہ فلسطین کے اندر مزید محاصروں کا خواہاں ہے جس کے بعد یقینا صورتحال کے بہتر ہونے کی امید باقی نہیں ہے کیونکہ منصوبے کے مطابق اسرائیل کو وادیٔ اردن سے نہیں نکالا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ 2007ء میں بھی ایک امریکی منصوبے کے تحت اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ غاصب اسرائیل مغربی کنارے میں اپنی افواج کو نہیں رکھے گا لیکن حقیقت اس کے برعکس رہی۔ وادیٔ اردن فلسطین کے مغربی کنارے کے لئے آکسیجن کے مترادف ہے اور اگر امریکی منصوبے کے تحت اس وادی میں اسرائیلی افواج کا غاصبانہ تسلط قائم ہو جاتا ہے تو پھر فلسطین کا مغربی کنارہ بھی غزہ کی صورت پیش کرے گا۔ وادیٔ اردن صرف اور صرف فلسطینی سرحد سے متعلق ہونی چاہئیے جو کہ فلسطین کے کنٹرول میں ہوتا کہ ہزاروں پناہ گزین فلسطینیوں کو واپس وطن لایا جا سکے تاہم عالمی استعمار امریکہ اور یورپی یونین چاہتے ہیں کہ غاصب اسرائیل کی مدد سے اس وادی پر تسلط قائم کر لیا جائے تا کہ فلسطین کے مغربی کنارے کو ایک اور غزہ بنا دیا جائے جبکہ مستقبل قریب میں اگر وہ پناہ گزین فلسطینی جن کو اسرائیلیوں نے بےدخل کیا تھا و ہ اپنے وطن لوٹ کر آئیں تو ان کو اس وادی سے راستہ نہ دیا جائے۔

امریکی عہدیدار Allen’s plan کے منصوبے کے مطابق فلسطینی سکیورٹی فورسز کو جدید اسلحے سے لیس نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ فلسطینی سکیورٹی فورسز کا کمزور ہونا اسرائیل کے لئے فائدے مند ہے اور اسرائیل کو چاہئیے کہ وہ اپنی فضائیہ اور بحریہ کے ذریعے تمام سرحدوں پر مکمل کنٹرول رکھے۔ اس کے منصوبے کے تحت امریکہ کو چاہئیے کہ وہ اسرائیل کو جدید آلات سے لیس کرے اور جاسوسی کے جدید ترین آلات اسرائیل کو فراہم کئے جائیں۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ کے اس منصوبے کو یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزہ کی موجودہ صورتحال اور محاصرہ امریکی منصوبے کا ماڈل ہے جسے امریکہ اب غزہ کے بعد فلسطینی علاقے مغربی کنارے میں مسلط کرنا چاہتا ہے۔ 2001ء میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے یہودی آباد کاروں کے ایک اجلاس میں امریکہ سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کی پالیسی کو آسانی سے منتقل کیا جا سکتا ہے اور جو ہم نے کر دیا ہے، اس اجلاس کی خفیہ طریقے سے ویڈیو ٹیپ جاری کر دی گئی تھی تاہم حال ہی میں امریکہ کی جانب سے پیش کئے جانے والے اس منصوبے کا مقصد واضح طور پر مغربی کنارے کو غزہ کی طرح اسرائیل محاصرے کا شکار کرنا ہے تاکہ مستقبل میں اگر اسرائیل کو فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کرنا ہو تو وہ محدود پیمانے پر بچے ہوئے فلسطین کو تسلیم کر لے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ فلسطین کہ جو نہر سے بحر تک ہے پورا فلسطین ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم ہونا چاہیئے نہ کہ عالمی استعمار امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے ناپاک منصوبوں پر۔ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت بھی فلسطینیوں سے نہیں چھین سکتی، امریکہ کا مکروہ چہرہ پوری دنیا پر عیاں ہو چکا ہے اب عالمی برادری اور آزاد ضمیر ریاستوں کے حکمرانوں کو چاہیئے کہ امریکہ اور اسرائیل کی بدمعاشیوں کا منہ توڑ جواب دیں۔
خبر کا کوڈ : 373411
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش