2
0
Saturday 19 Apr 2014 11:28

نہج البلاغہ، شدت پسندی اور متعصب حکومت

نہج البلاغہ، شدت پسندی اور متعصب حکومت
تحریر: ارشاد حسین ناصر

گذشتہ ماہ کی 14 تاریخ کو پاکستان میں اسلامی کتب کی فروخت کے معروف شیعہ نام مکتبہ الرضا کے مدیر سید محمد رضا کو امیر المومنین، مولائے کائنات حضرت علی ابن علی طالب ؑ کے خطبات، خطوط اور کلمات قصار پر مشتمل قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ معتبر ترین کتاب نہج البلاغہ فروخت کرنے کے جرم میں ایف آئی آر کاٹ کر گرفتار کیا گیا تو بہت سے لوگوں نے اسے بہت معمولی واقعہ قرار دیا کہ ملک میں اس وقت دہشت گردی کا جو فیز چل رہا ہے, اس میں بھی اس پر کان کھڑے ہوتے ہیں, جس میں مرنے والوں کی تعداد کم از کم پندرہ بیس ہو, ظاہر ہے ایسے ماحول میں اس طرح کا ایک پرچہ کٹ جانا کہاں اہمیت رکھتا ہے اور کسے فرصت کہ اس بارے غور کرے، یہاں کئی ایک بم دھماکوں اور قتلوں کے کیس توجہ حاصل نہیں کر پاتے, یہ معمولی ایف آئی آر کسے ہلا جلا سکتی تھی۔

تھانہ نیو انار کلی میں درج ایف آئی آر کے مطابق سرگودھا کے کسی گاؤں کے رہائشی شوکت حیات نے کتاب نہج البلاغہ مکتبہ الرضا سے خریدی اور جب اس نے مطالعہ کیا تو (بقول اسکے) اس میں ام المومنین عائشہ، صحابہ کرام عشرہ مبشرہ بالخصوص حضرت عثمان، طلحہ، زبیر، عمر و بن عاص اور معاویہ کی توہین کی گئی تھی، اسے اشتعال انگیز قرار دیا گیا اور اس پر سید محمد رضا جو فروخت کنندہ ہیں، پر 295-a/298-a کا پرچہ کاٹ کر گرفتار کر لیا گیا۔ سید محمد رضا کو جوڈیشل پر جیل بھجوا دیا گیا، جو تین دن کے بعد ضمانت پر رہا ہوگئے۔ بہ ظاہر اس کیس میں تھانہ نیو انار کلی کے ایس ایچ او نعمان بشیر اور ڈی ایس پی علاقہ عبدالحق درانی نے اپنی شیعہ دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے بالکل ناجائز پرچہ کاٹا اور شیعہ کتب خانہ پر چھاپہ مارا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اور صوبہ پنجاب میں تعینات انتظامیہ کے لوگ مسلسل ملت تشیع کو نشانہ بنمائے ہوئے ہیں، یہ لوگ دہشت گردوں کیساتھ واقعاً مل چکے ہیں اور ان کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں، وگرنہ پنجاب میں ہی، پنجاب علماء بورڈ قائم ہے، جس میں نہج ابلاغہ اور دیگر کئی شیعہ و سنی قدیم کتب بارے پالیسی طے شدہ ہے کہ ان کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ اس طے شدہ امر کے باوجود دیوبندی ملاؤں اور شرارتی تکفیری لوگوں کے ہاتھوں یرغمال پولیس نے ایک شرانگیز و اشتعال انگیز پرچہ کاٹا، جس میں ناجائز طور پر گرفتاری بھی ہوئی۔

چند دن پہلے ایک عالمی غیر ملکی میڈیا ویب سائٹ پر یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ ملتان میں ایک شخص جس پر توہین مذہب کا مقدہ قائم کیا گیا ہے، کے وکیل کو جج کے سامنے اس کی کورٹ میں جان سے مار دینے کی دھکیاں دی گئیں اور جج صاحب بالکل ایسے ہی چپ سادھے رہے، جیسے افتخار محمد چوہدری اپنے دور میں شیعہ کلنگ پر چپ سادھے رہے تھے، اس واقعہ پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا تھا کہ کسی بھی ملزم سے دفاع کا حق چھیننا بنیادی انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے اور وہ بھی وکیل صفائی کو یہ کہنا کہ یہ تمہاری آخری پیشی ہے، یہ ایک مثال ہے کہ اس صوبے میں اب شدت پسند حکمران ہیں، جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور وہ جج کی عدالت میں بھی قتل کی دھکیاں دینے سے نہیں گھبراتے۔

پاکستان کی موجودہ نون لیگی حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے مکتب تشیع اور اہل سنت برادران کیساتھ مخاصمت اور متعصبانہ روش میں ہر گذرتے دن کیساتھ اضافہ دیکھا جا رہا ہے، کسی کو ذرا سا بھی شک نہیں کہ پچھلے دور حکومت سے پنجاب میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ تکفیری و کالعدم گروہ کیساتھ مل کر فرقہ واریت کو فروغ دینے اور شیعہ دشمن اقدامات میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے، رانا ثناء اللہ کو بھکر میں بے گناہ شیعہ افراد کی کئی ماہ بعد ضمانت پر رہائی کا تو بہت دکھ محسوس ہوا، مگر تکفیری دہشت گرد گروہ کے سرغنہ جس نے برملا سینکڑوں افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا، اس کو رہائی دلانے اور اسے پروٹو کول کیساتھ اس کے آبائی علاقہ میں استقبالی پروگرام، نیز اسلحہ کی نمائش پر کسی قسم کی تشویش نہ ہوئی۔ ابھی حالیہ دنوں میں اسی وزیر موصوف کی طرف سے کالعدم گروہ کے سربراہ احمد لدھیانوی کے حق میں آنے والے الیکشن کمیشن کے نرالے فیصلے کے بعد اپنی جماعت کے رکن کی شکست کے بجائے مخالف کی جیت پر مبارکبا دی۔ پیغام کی بازگشت سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح پنجاب کے حکمران خود کو بچانے کیلئے اس ملک کو داؤ پر لگا رہے ہیں اور ملک دشمن دہشت گرد گروہ سے ساز باز کرکے اس کے حصے بخرے کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان باتوں اور مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد دراصل یہ ہے کہ ان کا اصل چہرہ دکھایا جائے اور ان خطرات سے چوکنا کیا جائے، جو مستقبل قریب میں پیش آسکتے ہیں، تاکہ ان کے سامنے ممکنہ بند باندھا جائے۔

نہج البلاغہ جیسی بے نظیر و بے مثال کتاب پر پرچہ کاٹنا، ان خدشات و خطرات کی نشاندہی کرتا ہے، جو اس حکومت نے تکفیری گروہ کیساتھ ملکر بنا رکھے ہیں، اس حوالے سے اگرچہ قومی جماعت مجلس وحدت مسلمین نے بھرپور انداز میں اپنا کردار ادا کیا اور جامعۃ المنتظر سے بھی حرکت ہوئی، مگر اس کے باوجود ابھی تک ایف آئی آر ختم نہیں ہوئی، جبکہ اس حوالے سے سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا کہ شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لاہور کے محدودے چند کتب خانے اس عظیم کتاب کو فروخت کرنے سے کترانے لگے ہیں، جس سے ملت میں پائی جانے والی ہراس کی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے تمام جماعتوں اور گروہوں کو ایک پیج پر ہونا پڑے گا، تب جا کر کوئی پالیسی کارگر ہوگی، وگرنہ ایسے ہی ملی نقصان ہوتا رہیگا۔ آج نہج البلاغہ تو کل  نماز کی کسی کتاب پر بھی پرچہ کاٹ سکتا ہے اور موجودہ حکمرانوں سے بعید نہیں کہ اذان میں شہادت ولایت امیرالمومنین ؑ پر بھی پرچے کٹوا دے، وزیر قانون جو تکفیری ٹھہرا!

نہج البلاغہ پر پابندی لگوانے کے خواہش مند جہلاء کل یہ موقف بھی اختیار کرسکتے ہیں کہ کرسچیئن بائبل میں توہین رسالت کا ارتکاب کرتے ہیں اور ہندو گیتا میں ہمارے مذہب کی توہین کرتے ہیں، ان پر بھی پابندی لگا دی جائے۔ نہج البلاغہ کے حوالے سے کیس اگرچہ تفتیشی مراحل طے کرتا ہوا ڈی آئی جی لیگل کی رائے طلب کرنے پر پہنچ چکا ہے اور اس کا حتمی فیصلہ اصولی طور پر پنجاب علماء بورڈ میں ہونا چاہیئے، مگر اس کیساتھ ساتھ کچھ اقدامات ہماری ملت کی طرف سے بھی سامنے آنے چاہیئے۔ دونوں ممکنہ صورتحال یعنی اگر حکومت تکفیری گروہ کے زیر اثر آکر اس پر پابندی لگاتی ہے، یا ایسے ہی تلوار لٹکا کر رکھتی ہے اور ہراساں کرتی ہے تو بھی چند اقدامات بے حد ضروری ہیں، امید ہے سنجیدہ فکر افراد قوم ان کی تائید کریں گے۔

موجودہ حالات میں چند اقدامات:

1) نہج البلاغہ کی عظمت، اس کے کلام کی بے نظیری اور اس کی تاریخی حیثیت کو اجاگر کرنے کیلئے ملک گیر سطح پر اس کے مختلف عنوانات طے کرکے کانفرنسز، سیمینارز اور جلسات کئے جائیں، تاکہ اس کلامِ وارث نبوت کی صداقت ہر کھوٹے و کھرے کے سامنے آسکے۔ ان پروگراموں کی بھرپور پبلسٹی کی جائے، تاکہ دیواروں اور بازاروں میں اس نام سے ہر ایک آگاہ ہوجائے۔

2) دیگر مکاتیب فکر کے مدارس دینیہ میں جس طرح سالانہ ختم بخاری شریف کے تحت جلسے منعقد کئے جاتے ہیں، اسی طرح شیعہ مدارس دینیہ میں بھی نہج البلاغہ کے حفاظ اور اس کی تکمیل کے پروگرام منعقد کئے جائیں۔ ہم نے شائدخود ہی اس کلام امیر المومنین کو وہ اہمیت نہیں دی جو اس کا حق بنتا ہے، اب اس غلطی و کوتاہی کا خمیازہ اسی صورت میں ادا کیا جاسکتا ہے۔

3) اگر نہج البلاغہ پر پابندی لگائی جاتی ہے یا موجودہ ایف آئی آر ختم نہیں کی جاتی اور شیعہ کتب خانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ ترک نہیں کیا جاتا تو قومی تنظیمیں اہم مقامات پر احتجاجی جلسے منعقد کرکے اس موقعہ پر اعلانیہ طور پر اپنے ڈونرز کے ذریعے بہت ہی رعایتی نرخوں پر نہج البلاغہ کو لوگوں میں بانٹیں، تاکہ یہ پریشر حکمرانوں تک جائے اور انہیں علم ہوجائے کہ ہم کسی بھی صورت میں اس پابندی اور زیادتی کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس حوالے سے وہ حضرات جو اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کیلئے اکثر کتب جن میں دعائیں وغیرہ ہوتی ہیں، تقسیم کرتے ہیں انہیں اس طرف متوجہ کیا جائے۔

4) حکومتی پالیسی کے تحت اس وقت شیعہ کتب خانوں کو مسلسل پریشرائز کیا جا رہا ہے، انہیں کبھی نہج البلاغہ اور کبھی مولانا غلام حسین نجفی شہید، مولانا عبدالکریم مشتاق شہید کی کتب کی فروخت کے حوالے سے تنگ کیا جا رہا ہے، جو کہیں بھی فروخت نہیں کی جاتیں، اس حوالے سے بھرپور مھم چلانے کی ضرورت ہے، ایک بار حکومت پر واضح کیا جائے اور اگر اس روش کو ترک نہ جائے، تو اس مسئلہ کو بھی احتجاجی تحریک میں لایا جائے، لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔

5) شیعہ جرائد و رسائل بھی متوجہ ہوں اور نہج البلاغہ کے حوالے سے خصوصی مضامین اپنی آئندہ اشاعتوں میں لازمی شامل کریں، تاکہ اس ذریعہ سے بھی اس کلام امیرالمومنین ؑ کو سامنے لانے کا سلسلہ جاری رہے، نیز نہج البلاغہ کی اہمیت اجاگر ہوسکے۔

6) پنجاب علماء بورڈ کے اجلاس میں متنازعہ و فرقہ وارانہ مواد پر مبنی لٹریچر و کتب پر پابندی کا فیصلہ کیا جاتا ہے، اس میں اہل تشیع کی نمائندگی اس وقت چار افراد کرتے ہیں، جن میں علامہ آفتاب حیدر جوادی، علامہ قاضی غلام مرتضٰی، علامہ محمد حسین اکبر اور جناب حیدر علی مرزا صاحب۔ ان چاروں محترم شخصیات میں ہم آہنگی اور روابط کو مستحکم ہونا چاہیئے اور سب کو مشترکہ موقف اختیار کرنا چاہیئے، جبکہ اجلاس سے قبل انہیں بھرپور تیاری کی بھی ضرورت ہوتی ہے، دشمن اس حوالے بہت زیادہ متحرک ہے اور مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے اور اسے حکمرانوں کی بھی بھرپور مدد حاصل ہے۔ پورے پاکستان میں معمولی باتوں جن میں فیس بک پر شیئرنگ، موبائل میسیجنگ پر ہونے والے پرچے اور گرفتاریوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس حوالے سے ملت پر کتنا پریشر اور دباؤ موجود ہے۔ آج اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسے ایشوز پر بھی نمبر ٹانکنے کی کوششیں کی جاتیں ہیں، حالانکہ ایسے ماحول میں اجتماعیت دکھانے کی ضرورت ہے۔

7) آخری گذارش: وہ احباب جو موبائل فون پر میسیج کے ذریعے، فیس بک یا دیگر سماجی روابط کی سائٹس پر ایسی پوسٹیں وصول کریں، جن پر نام لیکر تبریٰ کیا گیا ہو اور ان میں تاکید نھی کی گئی ہو کہ اس کو لازمی آگے بھی شیئر کریں، اسے دشمن کی چال سمجھیں اور اگر کوئی جاننے والا بھی یہ حرکت کر رہا ہو تو اس پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے کے بجائے اسے فون کرکے فوری اسے ہٹانے کی تاکید کریں، آج کل اس طرح کا کام دشمن کر رہا ہے اور اس پر پرچے بھی کٹوا رہا ہے، اس قسم کی پوسٹیں باتصویر بھی پھیلائی جا رہی ہیں، اگر آپ نے تبریٰ کرنا ہی ہے تو امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ جیسے تین شیاطین پر کریں، جو ہمارے سامنے ہمارے مکتب کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو نواز رہے ہیں، انہیں اسلحہ و وسائل دے رہے ہیں اور وہ ہمارے بیگناہ و معصوم لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ آپ بھولے تو نہیں ہونگے کہ ملک اسحاق کو جب پہلی بار گرفتار کیا گیا تھا تو اس کے قبضہ سے امریکی ایکسپریس کے لمٹ لیس کارڈز برآمد ہوئے تھے، انکے پاس امریکی ویزے لگے ہوئے تھے، اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے، امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے طالبان اور دیوبندی مدارس سے روابط تو ابھی تازہ مثال ہے، جس سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔
خبر کا کوڈ : 374329
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

g haan ab lahore mein khushab k kutub khane pr TOFAT UL AWAAM Rakhne r frokht krne ke khilf darkhaast naya mahkima tcd mein di gaee hay r yeh agenseaan ankhen band kr k tfteesh r karwaee k liye khushab application ko reffer kr dea gaya hay
مولا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔
ماشاءاللہ
ہماری پیشکش