QR CodeQR Code

تنظیم کی حیثیت پر ایک نگاہ (2)

30 Apr 2014 00:25

اسلام ٹائمز: نظریاتی حوالے سے دیکھا جائے تو ہم ایک مسلمان امت ہیں۔ ہمارے لیے آئین اور قانون خداوند متعال نے تعیین کیا ہے جو امامت و ولایت کا نظام فراہم کرتا ہے اور نظام ِالہی کی موجودگی بشر کی تخلیق شدہ تنظیم کی کیا ضرورت و حیثیت بچتی ہے۔ تمام الٰہی نمائندے خواہ وہ انبیاء کرام ہوں یا آئمہ اطہار علیہم السلام یا ان کے عام و خاص نائبین سب کے سب کا قول و عمل اس پر مضبوط دلیل ہے اور تجرباتی حوالے سے دیکھا جائے تو اولا آئمہ اور ان کے نائب علماء و فقہاء کو عوام کے اندر جو تقدس، نفوذ اور تاثیر حاصل ہے وہ تنظیم و پارٹی کو ہر گز نہیں حتی موجودہ زمانے میں بھی کہ جس میں بہت سی اسلامی تنظیمیں قائم ہو چکی ہیں۔ ثانیاً آج تک ہم نے کوئی ایسی تنظیم نہیں دیکھی جو حقیقی اسلامی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئی ہو جبکہ امام و امت کے مقدس الٰہی نظام کی کامیابی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔


تحریر: حسن عسکری

نظام و تنظیم میں کوئی لفظی و لغوی نزاع نہیں ہے بلکہ ان میں حقیقی و واقعی  فرق ہے۔ اسلامی معارف کی دو قسمیں ہیں۔ پہلے وہ ہیں جن کا مفاد و مضمون قرآن مجید و روایات میں موجود ہے لیکن کوئی خاص اصطلاح موجود نہیں ہے بلکہ علماء و فقہاء نے ان معارف کے لیے اصطلاحات وضع کی ہیں جیسے ولایت تکوینی ہے کہ ولایت تکوینی نام کی چیز کسی آیت و روایت میں موجود نہیں یعنی لفظ ولایت تکوینی قرآن و حدیث میں نہیں پایا جاتا اگرچہ قرآن و روایات کی روشنی میں ایک واضح اور بدیہی مسئلہ ہے اور علماء نے اس پر استدلال کیا ہے اور اس کے لیے اصطلاح ولایت تکوینی مختص کی ہے لیکن کئی ایسے معارف ہیں کہ نہ صرف قرآن و حدیث میں ان کا مضمون و مفاد موجود ہے بلکہ قرآن و اہلبیت نے ان کے لیے باقاعدہ اصطلاح استعمال کی ہے۔ ان معارف کو "توقیفی معارف" کہتے ہیں اور نظام امامت انہی معارف میں سے ہے اور اس کو اسلام کا ایک اہم ستونوں میں سے قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ جتنی اہمیت نظام ولایت کی ہے اتنی کسی کی نہیں۔ پس جب اسلامی منابع میں ہمارے پاس یہ نظام موجود ہے تو کیوں مغربی افکار کو اسلام کے ساتھ ضمیمہ کریں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ولائی نظام تک رسائی کے لیے تنظیم و حزب پل کا کام دیتی ہے اور ہم حزب و پارٹی کے ذریعے سے نظام امامت و ولایت تک پہنچیں گے۔ یہ بات بین دشمنان اسلام کی طرف سے مسلمانوں کے ذہنوں میں  القاء کی گئی ہے۔ اسلام و قرآن صرف یہ نہیں کہتا کہ صرف اہداف پاک رکھو اور وسائل و ذرائع جیسے بھی بد ہوں بلکہ انبیاء و آئمہ کی سیرت کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہدف کے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ وسیلہ بھی پاک ہونا چاہیئے۔ کیا حجت خدا، مہدی دوراں، امام برحق، حضرت صاحب الزمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف جب پردہ غیبت سے تشریف لائیں گے تو سب سے پہلا کام ان کا یہی تنظیم اور  پارٹی بنانا ہوگا؟ یا وہ انبیاء و آئمہ کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے الٰہی روش  تبلیغ  اختیار کریں گے؟
 
پس امامت کے رشتے کو حاصل  کرنے کے لیے بھی جدوجہد کرنی ہے تو اس کے لیے وہی اقدام کریں جو انبیاء عظام، رسل کرام، آئمہ اطہار (ع) اور ان کے نائبین مجتہدین نے اختیار کیا ہے انہوں  نے تحریکیں، نہضتیں اور موومنٹس چلائیں اور اسی کو بعثت کہتے ہیں۔
ہر اجتماع و معاشرے کے لیے دو مرحلے ہوتے ہیں، ايک مرحلہ امت بننے سے پہلے تفرد و تشطط یعنی تفرقہ اور اختلاف کا ہے۔ دوسرا مرحلہ اتحاد و انسجام جو امت بننے کا لازمہ ہے۔ انہی دو مراحل کی طرف قرآن مجید بھی اشارہ کرتا ہے۔ کان الناس امۃ واحدۃ  فاختلفوا فبعث اللہ۔ لوگ امت واحدہ تھے کہ ان میں  اختلاف پڑ گیا تو خدا  نے انبیاء کو مبعوث فرمایا۔
 
تفرقے اور انتشار سے دوری اور انبیاء کی تعلیمات کی بناء پر امت  واحدہ کی  تشکیل کے ليے دو طريقے ہيں، پہلا طريقہ انبياء و آئمہ اور ان کے نائبين کا طريقہ کہ افراد و اجزاء اجتماع کو دائرہ ولايت و امامت ميں لے آئيں۔ دوسرا طريقہ حزب و پارٹی کے ذريعے لوگوں کو منظم و متحد کيے جانے کا ہے۔ مغرب میں اس طریقے کی بنیاد ڈالی گئی اور وہیں سے اس کو بہت نشوونما، ترقی اور پیشرفت ملی۔ مغربی معاشرے میں حزبی و  تنظیمی سوچ کی پیدائش اور اس کی ترقی  کے دو سبب ہو سکتے ہیں:
 
آراء و نظریات میں کثرت اختلاف اور اس کے حل کے لیے کسی نظام کا فقدان۔
 
آزادی رائے اور مختلف قسم کے ذوق اور کسی قسم کی محدودیت نہ ہونے کی وجہ سے تنظیموں کا ماحول  فراہم ہونا۔
 
کیا ہمارے یعنی اسلامی ممالک میں اسلام کی حفاظت، تبلیغ، ترویج اور اسلامی حکومت کے قیام اور انعقاد کے لیے تنظیمی تجربہ  سے استفادہ ممکن ہے؟
 
اس سوال کا جواب نظریاتی اور تجرباتی پہلوؤں سے دیا جا سکتا ہے۔ نظریاتی حوالے سے دیکھا جائے تو ہم ایک مسلمان امت ہیں۔ ہمارے لیے آئین اور قانون خداوند متعال نے تعیین کیا ہے جو امامت و ولایت کا نظام فراہم کرتا ہے اور نظام ِالہی کی موجودگی بشر کی تخلیق شدہ تنظیم کی کیا ضرورت و حیثیت  بچتی ہے۔ تمام الٰہی نمائندے خواہ وہ انبیاء کرام ہوں یا آئمہ اطہار علیہم السلام یا ان کے عام و خاص نائبین سب کے سب کا قول و عمل  اس پر مضبوط  دلیل ہے اور تجرباتی حوالے سے دیکھا جائے تو اولا  آئمہ اور ان کے نائب علماء و فقہاء کو عوام کے اندر جو تقدس، نفوذ  اور تاثیر  حاصل ہے وہ تنظیم و پارٹی کو ہر گز نہیں حتی موجودہ زمانے میں بھی کہ جس میں بہت سی اسلامی تنظیمیں قائم ہو چکی ہیں۔ ثانیاً آج تک ہم نے کوئی ایسی تنظیم نہیں دیکھی جو حقیقی اسلامی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئی ہو جبکہ امام و امت کے مقدس الٰہی نظام کی کامیابی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اور ثالثاً عالمی استکبار، استعمار اور استحمار کی خطرناک سازشوں میں سے ایک  ہتھکنڈا یہی تنظیم بدون نظام  الٰہی ہے جو وہ  الٰہی نظام سے دور رکھنے اور قوموں میں تفرقہ پیدا کرنے  کے لیے استعمال کرتا ہے۔ عراق ميں عوام کی بيداری و شعور کے ليے شہيد باقر الصدر نے بھی شروع شروع ميں يہی تنظیمی طريقہ اپنايا اور “حزب الدعوۃ”  تشکیل دی ليکن کچھ عرصے کے بعد انہوں نے اس کی آفات کا مشاہدہ کيا اور اس سے اپنے آپ کو جدا کرليا۔
 
تنظیم اور امامت میں فرق:
تنظیم اور امامت میں ایک فرق یہ ہے کہ تنظیمی لیڈر کو اول تو عوام انتخاب کرتی نہیں ہے اور اگر منتخب کرے بھی تو وہ اپنی طرف سے مختلف امور میں وکیل اور نائب بناتی ہے یعنی اصلی حق عوام الناس کا ہوتا ہے عوام اجتماعی و حسبی ضرورت کے تحت اپنے امور کی باگ ڈور ایک فرد کو دے دیتے ہیں کہ جو ان کی طرف سے وکیل بن کر مختلف فعالیتیں انجام دیتا ہے۔ جس طرح نکاح خواں والدین سے وکالت و اجازت لے کر نکاح پڑھتا ہے اصلی حق والدین کا ہوتا ہے لیکن وہ اس حق میں وکیل و نائب بناتے ہیں۔ حزبی و تنظیمی ڈھانچے میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے لیکن نظام امامت  و ولایت میں عوام کو فقط حقِ مقبولیت حاصل ہے اور رہبر و حاکم عوام کے وکیل نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ولی و سرپرست ہوتے ہیں اور ان کو یہ ولایت ذات حق کی طرف سے مہیا ہے نہ عوام کی طرف سے، البتہ عوام پر واجب ہوتا ہے کہ اس کی ولایت و رہبریت کو تسلیم کریں اور اس کے اوامر پر عمل کرنا شرعی فریضہ سمجھیں۔
 
تحریک اور تنظيم ميں فرق:
موجودہ انسانی معاشروں کو اسلام کے نقشہ پر تبدیل کر دینے کا عمل واقعتاً عظیم الشان تحریک کا متقاضی ہے البتہ "تحریک" کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ کوئی تنظیم، پارٹی، آرگنائزيشن يا حزب کا ہم معنی و مترادف لفظ ہے پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ان معاشروں کو آسمانی ہدایت کے نقشہ پر تبدیل کرنا اس وقت ایک بہت بڑی تحریک کا کام ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ ہم تنظیم کے قائل ہو گئے، یا پہلے سے موجود کسی “تنظیم”  میں شمولیت کی دعوت دینے لگ جائیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں “تحریک ” کسی ایسی جماعت کے ہم معنی نہیں جسے سنتے ہی آپ کے ذہن میں ایک صدر و سیکرٹری جنرل یا امیر و نائب امیر وغیرہ کا تاثر ابھرنے لگے، لفظ تحریک سے دراصل جو مراد لی جاتی ہے جس كا لغوی معنی بھی تحریک و تنظیم کے فرق پر واضح طور پر دلالت کرتا ہے۔ تحریک کو انگلش میں “موومنٹ”  اور فارسی میں نہضت اور جنبش كہتے  ہیں۔ پس تحریک سے  مراد یہ ہے کہ کچھ نظریات، عقائد اور اصولوں کو انسانی زندگی کے فکری اور عملی میدانوں میں قائم کرنے کی پیہم کوشش اور مسلسل انتھک جدوجہد جو ان اصولوں کے حامل انسان باہم ملکر شعوری اور رضاکارانہ طور پر کریں ایسے انسان کوئی ایک منظم مجموعہ ہوں یا ایسے متعدد مجموعات۔ ایک طبقہ ہوں یا مختلف طبقوں کے لوگ۔ ايک سن اور عمر كے لوگ ہوں یا مختلف سنوں کے افراد۔ ایک علاقے یا خطے سے ہوں یا مختلف خطوں میں بستے ہوں۔ کوئی ایک لقب رکھتے ہوں یا متعدد القابِ، آپس میں چاہے متعارف نہ ہوں البتہ مانوس و ہم آہنگ ضرور ہوں اور مختلف نسبتوں کے باوجود ایک دوسرے كے دست و بازو ہوں اس ”جماعت“ یا  “تحریک” کے افراد اور گروہ اپنا نہیں بلکہ اپنے نظریات اور عقائد کا تعارف کرائیں۔ لوگوں کو اپنی طرف نہیں بلکہ اپنے اصولوں کی طرف دعوت دیں اور اپنے نام کی بجائے اپنے عقائد اور اصول پیش کریں ”تحریک“ کا یہ تصور ایک شرعی حقیقت بھی ہے اور تاریخی و عمرانی واقعیت بھی۔ قرآن میں  “تحریک”  کا یہ مفہوم تلاش کریں تو ہمیں لفظ “ امت ” اور“ بعثت” کی صورت میں ملتا ہے۔ جب كہ سياسی پارٹیوں اور تنظیموں کی تاریخ دو صدیوں سے دنیا میں موجود ہے۔  اس سوچ کا منبع و مصدر یورپی ممالک رہے اور وہیں  اس نے نشوونما اور ترقی کی  اور آج پوری دنیا میں نفوذ کرچکی ہے۔ ان پارٹیوں کی مشترکہ خصوصیت  اقتدار کا حصول اور پھر اس کی بقا کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ آج جہاں جہاں یہ حزبی سسٹم نافذ ہے وہاں عوام و خواص کے درمیان رشتہ و رابطہ اسی تنظیم کے ذریعے ہوتا ہے۔
 
سبب و منشاء انحراف:
امتِ مسلمہ کے اندر تنظيمی سوچ کا نفوذ کچھ اس طرح سے ہوا کہ جب کوئی مسلمان طالب علم مغرب يا مغربی ماحول کی فضا ميں تعليم حاصل کرتا ہے تو وہاں چونکہ نصاب مکمل طور پر مغربی و غير اسلامی افکار پر مشتمل ہے تو اس کا مقابلہ کرنا اور اس سے متاثر نه ہونا ہر ايک کے بس کي بات نہيں ہوتی۔ وہ علامہ اقبال ہی تھے جنہوں نے مغرب ميں رہ کر مغرب کو ضدِ اسلام اور ضدِ انسانیت  پہچانا اور اس کو سخت تنقيد کا نشانہ بنايا اور فرمایا:
 خیره نه کر سکا مجھے جلوه دانش فرنگ
 سرمه ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینه و نجف


یعنی ہمارے پاس نبوی و علوی گرانبها میراث موجود ہے تو پھر کیوں ہم مغرب و امریکه کے زرق برق سے متاثر ہوں ليکن کچھ لوگ چونکہ  علامہ کے اس کمال سے عاری ہوتے ہیں تو ان کو مغرب کی جو باتيں پسند آتی ہيں ان کو اسلام و مسلمانوں کے ليے منتخب کرلیتے ہیں اور اس طرح کتنی چيزيں اسلامائيز ہو کر اسلامی ممالک ميں رسوخ کرگئيں اور کئی لوگوں نے ان پر یقین کر لیا۔ شہید مطہری ؒ فرماتے ہیں "سر سید احمد خان کا شمار مسلم لیڈروں میں ہوتا تھا اور برطانوی استعمار کے خلاف تحریک میں پیش پیش تھے لیکن جب انہوں نے برطانیہ کا سفر کیا تو اس سفر نے ان پر گہرے اثرات چھوڑے اور برطانیہ کے سیاسی، اقتصادی، فوجی، ثقافتی، اجتماعی طاقت اور تمدن نے استعمار کے مقابلے کی فکر کو سرسید کے دماغ سے نکال دیا"۔ (جاری ہے)


خبر کا کوڈ: 376905

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/376905/تنظیم-کی-حیثیت-پر-ایک-نگاہ-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org