0
Thursday 5 Jun 2014 22:19

مسلمان اب کیا کریں؟

مسلمان اب کیا کریں؟
تحریر: ڈاکٹر راشد شاز
نئی دہلی


ڈاکٹر راشد شاز بھارت کے روشن فکر اور قد آور جدید ذہن کے حامل دانشور شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی آواز اور فکر نے دنیا کے مختلف خطوں میں جدید مسلم ذہن کو متاثر کیا ہے۔ ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حالیہ کامیابی کے پس منظر میں ان کا ایک مختصر مقالہ پاکستان کے مسلمانوں کی بھی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہیئے۔ ہم آزاد مملکت حاصل کرنے کے بعد آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو چکے ہیں جبکہ ہندوستان کے مسلمان اپنے پسماندہ آج اور تاریک مستقبل کا ماتم کر رہے ہیں۔ کاش ڈاکٹر راشد شاز کا یہ بصیرت افروز مضمون ہمیں امت وسط کے کردار کی جانب متوجہ کرسکے اور ہم بھارت میں رہ جانے والے اپنے مسلمان بھائیوں کے درد و کرب کی گہرائی کا احساس کر سکیں۔ ڈاکٹر راشد شاز کا مضمون ملاحظہ فرمائیے جسے "بصیرت فیچر سروس بھارت" نے شائع کیا ہے۔
(البصیرہ اسلام آباد)

ہندوستانی مسلمان اپنی تاریخ کے انتہائی مشکل اور نازک مرحلے میں ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ یہ وقت بہر طور ایک نئی ابتداء کا طالب ہے، پرانی ترکیبوں سے اب کام نہیں چل سکتا۔ مسئلہ کا ایک خوشگوار پہلو یہ ہے کہ1947ء میں ہی ہمیں صورتحال کی سنگینی کا جو ادراک ہوجانا چاہیئے تھا اور جس پر کانگریس کی سیاسی منافقت اور مکروہ سیکولر ازم نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ دل گرفتہ حقیقت اب پوری طرح مبرہن ہو گئی ہے۔ ہمیں اب پوری طرح یہ حقیقت واشگاف نظر آرہی ہے کہ ہم واقعتا کھڑے کہاں ہیں؟ کن لوگوں کی مخاصمت اور عداوت کا ہمیں کس طرح سامنا ہے؟ اگر حقائق اپنی اصل شکل میں نظر آنے لگیں اور احساس زیاں کی شدت ہمیں خود احتسابی اور نئے اقدامات پر آمادہ کرسکے تو بس یہ سمجھئے کہ بہت جلد اس گھٹا ٹوپ اندھیرے سے ایک نئی صبح طلوع ہونے والی ہے لیکن جو لوگ اب تک کانگریس کی سیکولر منافقت کے اسیر رہے ہیں اور جنہوں نے گذشتہ 65 برسوں تک صبح کاذب کی اسیری میں زندگی بسر کی ہے ان کے لیے ایک نئے سیاسی رویئے کی تشکیل کچھ آسان نہ ہوگی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے حالیہ اجلاس میں دستور ہند کے تحفظ کے لیے ملک گیر تحریک چھیڑنے کی جو بات کہی گئی ہے اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کانگریس کی مقدس یادوں کو اور موہوم دستوری سہاروں کو ترک کرنے کے لیے ہر گز آمادہ نہیں۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جس امت کے پاس خدا کی آخری کتاب جیسا دستور اور منشور موجود ہو اسے یہ کب زیب دیتا ہے کہ وہ کسی سیکولر دستورکی بالادستی کے لیے اپنی ملی توانائیوں کو ضائع کرے۔

1947ء سے لے کر اب تک من حیث القوم ہم نے اپنا وقت ان کاموں میں گنوایا ہے جن کے لیے ہم برپا ہی نہیں کیے گئے تھے۔ سیکولر منافقوں کی قیادت میں ہم نے اپنی مجموعی توانائی کو اس کام پہ لگائے رکھا کہ ملک میں سیکولر ازم اور جمہوریت کی فضا برقرار رہے اور اب جو جمہوریت کے پٹارے سے فرقہ پرستی کا عفریت نکل آیا ہے تو ہمیں اس بات پر غصہ ہے کہ صرف ایک تہائی ووٹ پانے والے لوگوں کو دو تہائی مخالفین پر حکمرانی کا حق مل جانا جمہوریت کے نام پر فراڈ ہے۔ یہ تمام قیل و قال اپنی جگہ، ہمارے لیے ان باتوں سے صورتحال کی سنگینی میں کمی واقع نہیں ہو سکتی۔ 65 سال سے کانگریس مسلمانوں کی محافظ بنی رہی۔ مسلمان اس خوف سے کہ کہیں ہندو احیا پرست اقتدار میں نہ آجائیں ایک منفی طرز سیاست کے اسیر رہے۔ انھوں نے اپنی سیاسی اور قومی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی بجائے یہ کافی سمجھا کہ بی جے پی کے عروج کو روکنے کے لیے اپنی تمام تر ملی توانائی کانگریس کی حمایت میں جھونک دی جائے اور اس طرح وہ من حیث القوم کانگریس اور اس کی حلیف پارٹیوں کے ووٹ بینک بن کر رہ گئے۔ مسلمانوں کی سرتوڑ جدوجہد اور قومی توانائی کے سبب جن لوگوں کو اقتدار ملتا رہا انہوں نے اس بات کی ضرورت بھی نہ سمجھی کہ ان کے چھوٹے موٹے علامتی نوعیت کے مطالبوں پر بھی کان دھرا جائے۔ ہمارے تمام تر احتجاج کے باوجود بٹلہ ہاؤس کا سانحہ عدالتی تحقیقات کا طلبگار رہا۔ مسلم نوجوانوں کی علمی انجمن ایس آئی ایم پر جرم بےگناہی ثابت ہو جانے کے باوجود اس پرکالعدمی کے سائے دراز تر ہوتے گئے۔ مسلم نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ اور ان پر دہشت گردی کے الزامات کے سلسلے نے ایک باقاعدہ ریاستی حکمتِ عملی کی شکل اختیار کرلی۔ حتی کہ جن صوبوں میں مسلمانوں کی کھلم کھلا نصرت و حمایت کے بل بوتے پر حکومتیں تشکیل پائیں اور جن کے کلیدی مناصب پر مسلم چہرے سجائے گئے وہاں بھی انھیں جان و مال کی امان نہ مل سکی۔ یقیناً نیلی، مرادآباد، ملیانہ، بھاگلپور، مظفر نگر اور ان جیسے ہزاروں فسادات کے بیان سے گجرات کی شدت کم نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ مطلوب ہے البتہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اول الذکر قاتل کو ہم قاتل کیوں نہیں تصور کر پاتے۔ یہ کیسا سیکولر فریب ہے جس نے 65 سالوں سے ہماری آنکھوں پہ پردہ ڈال رکھا ہے۔ اللٰھم ارنا الاشیاء کما ھی۔ بار الٰہا ہمیں چیزوں کو اس طرح دکھا جیسی کہ وہ ہیں۔

مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ گذشتہ65 برسوں سے ہم جن ذہنی رویوں کے اسیر رہے ہیں اس نے ہمارے بڑے بڑوں کی بصارت صلب کر رکھی ہے۔ میں نے بعض اہل دانش کی وہ تحریریں دیکھی ہیں جس میں انھوں نے برملا اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ قوموں کی زندگی میں پانچ دس سال کا عرصہ کوئی زیادہ وقت نہیں ہوتا، ہم نے بڑے بڑے طوفان بلا خیز دیکھے ہیں یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ لیکن میرے خیال میں یہ طرزِ فکر کوئی واضح لائحہ عمل فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اگر کوئی مسلم سیاسی قوت اگلے پانچ سالوں بعد ملک کے سیاسی منظر نامے پر طلوع ہوا چاہتی ہے اور ہم اس کے لیے کو شاں بھی ہیں تو اس سے اچھی کیا بات ہو سکتی ہے لیکن اگر ہمارے ذہن میں اسی کانگریس کو دوبارہ اقتدار سونپنے کی بات آتی ہے تو یہ وہ سحر نہیں جس کے طلوع ہونے کا انتظار کیا جائے۔ سید علی گیلانی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ نئی حکومت سے صورتِ حال میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی جو کام اب تک منموہن سنگھ اپنی نرم گفتاری سے انجام دے رہے تھے وہی کچھ مودی اپنی شعلہ بیانی سے انجام دیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں نئے حکمرانوں کو اس بات احساس دلانا چاہئے کہ اگر ہماری منفی طرز سیاست 56 برسوں تک تمہارے اقتدار کا راستہ روک سکتی تو ہم یقیناً ایک ایسی قوت ہیں جسے نظر انداز کرنا خود تمہارے سیاسی استحکام کے لئے مفید نہیں۔ البتہ ایک باوقار اور منفعت بخش ڈائیلاگ کے لئے ضروری ہے ہم ایک آزادانہ ملت کی حیثیت سے سامنے آئیں کانگریس اور اس کی حلیف پارٹیوں کے بغل بچے کی حیثیت سے نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کھلی آنکھوں سے حقائق کا ادراک کریں اور موجودہ صورتحال کی خطرناکیوں کو نئے امکانات سے بدلنے کے لئے ایک ٹھوس اور مشترکہ حکمت عملی تیار کریں۔ اگر ہم کل تاتاری حملہ آوروں کو اپنی نظری اور فکری قوت سے مسخر کرسکتے تھے تو کوئی وجہ نہیں کہ آج کے تاتاریوں پر ہمارے نصح و خیر خواہی کی تیغ بے نیام کارگر نہ ہو۔
خبر کا کوڈ : 389380
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش