0
Thursday 3 Jul 2014 20:25

رمضان المبارک میں مہنگائی

رمضان المبارک میں مہنگائی
تحریر: ثاقب اکبر

 اگر پاکستان کی آبادی 20 کروڑ فرض کر لی جائے اور اس آبادی میں سے روزے داروں کی تعداد 10 کروڑ فرض کرلی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ 10 کروڑ انسان جو پہلے 3 وقت کھانا کھاتے تھے، وہ رمضان المبارک میں روزے کی وجہ سے ان دنوں فقط 2 وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔ اس طرح 10 کروڑ آدمی ایک وقت کا کھانا نہیں کھاتے۔ اگرچہ یہ عامیانہ جمع تفریق ہے لیکن بات سمجھانے کے لیے اسے فرض کیا گیا ہے۔ اسے سامنے رکھا جائے تو کیا رمضان المبارک میں کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں مارکیٹ اصولوں کے مطابق کم ہونی چاہئیں یا زیادہ؟ ایک سادہ سا قاری بھی کہے گا کہ اس طرح تو قیمتیں کم ہوجانی چاہئیں پھر کس طرح سے 50 فیصد سے لے کر 100 فیصد تک قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ آئیے اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں۔

ہمارے ایک دوست تھے جنھوں نے ایک مرتبہ بہت فکر انگیز کیفیت میں کہا کہ بھائی صاحب! یہ تراویح بھی کتنی مفید چیز ہے اور اس میں کتنی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ ہم پوری طرح متوجہ ہوگئے کہ کون سی گہری بات کہی جانے والی ہے۔ کہنے لگے کہ روزوں کا دن بہت بڑا ہوتا ہے، اس لیے جب آدمی روزہ کھولتا ہے تو شدید بھوک اور پیاس کی وجہ سے کچھ زیادہ کھا لیتا ہے اور اسی طرح کیونکہ بہت طویل دن کے لیے روزہ رکھنا ہوتا ہے، اس لیے سحری کو بھی زیادہ کھانا پڑتا ہے۔ بھائی صاحب! اگر یہ بیچ میں تراویح نہ ہوتی تو کتنا مشکل ہوجاتا۔

ہم سمجھ گئے کہ روزے کے خوف سے ہمارے دوست کثرت سے کھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک فرد کا قصہ نہیں ہمارے سارے معاشرے کا قصہ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے روزہ رکھ کر ہم نے اللہ تعالٰی پر بڑا احسان کیا ہے۔ ہماری نفسیاتی کیفیت بھی کچھ عجیب ہوجاتی ہے اور روزہ کھولتے ہوئے خاص طور پر جس طرح سے کھانے پینے کا اہتمام کیا جاتا ہے وہ بھی حیران کن ہوتا ہے۔ اگر روزہ دار روزوں سے پہلے اپنا وزن کروا لیں اور پھر بعد میں بھی چند روپے خرچ کرکے اپنا وزن کروا لیں تو انھیں اندازہ ہوجائے گا کہ انھوں نے کس طرح سے رمضان المبارک میں اپنے پیٹ کے اندر ذخیرہ اندوزی کی ہے، جن کی حالت اس سے مختلف ہو، ہم انھیں روزے رکھنے کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

اگر انواع و اقسام کی چیزیں کھانے کا شوق اور اہتمام بڑھ نہ جائے تو کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں اعتدال پر رہنے کا امکان بڑھ جائے گا۔ ہم کثرت خوری کرتے ہوئے ماہ مبارک میں یہ بھول جاتے ہیں کہ روزے کا ایک بڑا مقصد ہمیں بھوک اور پیاس کی شدت کا احساس دلانا ہے۔ بھوک اور پیاس لگے تو یہ روزے کا ہی ایک منشاء ہے۔ اللہ تعالٰی چاہتا ہے کہ امراء کو اور جن کے پاس وسائل ہیں انھیں معاشرے کے محروم طبقوں کا احساس دلایا جائے، انھیں ان لوگوں کی بھوک اور پیاس کی طرف متوجہ کیا جائے جو فقر و افلاس کی وجہ سے دو وقت کے کھانے سے بھی محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو افراد طاقت نہ ہونے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکیں تو ان سے کہا گیا ہے کہ وہ اس کے بدلے کسی مسکین اور فقیر کو کھانا کھلائیں۔ اسی طرح سے روزہ توڑنے کے کفارے کی ایک صورت بھی غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا رکھی گئی ہے۔

البتہ مہنگائی کی وجہ فقط یہی نہیں جس کی طرف ہم نے سطور بالا میں اشارہ کیا ہے۔ دنیا کی مختلف قومیں اپنے مذہبی تہواروں کے موقع پر عوام دوست اقدامات کرتی ہیں۔ حکومتیں عوام کو ریلیف دیتی ہیں، مختلف کمپنیاں عوام دوستی اور احترام مذہب کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود سے قیمتوں میں کمی کر دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں تفصیلات جاننا ہوں تو کرسمس کے موقع پر عالم مسیحیت میں کیے جانے والے اقدامات کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ اس موقع پر ہوائی کمپنیاں تک مذہبی مقاصد کے لیے سفر کرنے والوں کے لیے کرایوں میں کمی کر دیتی ہیں۔ اب اگر ہم اپنے ملک کے سرمایہ داروں، تاجروں اور خورد فروشوں کا حال دیکھیں تو شرم سے آنکھیں جھک جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مسلمان نما لوگ رمضان المبارک میں بے رحم اور وحشی ہوگئے ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ کھانے کی چیزیں تیار کرنے والی کمپنیاں طرح طرح سے عوام کو اپنی مصنوعات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اشتہار بازی کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ عمرہ کا ایک یا چند ٹکٹ دینے کا اعلان کرکے اپنی مصنوعات کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی طرف لوگوں کو راغب کرتی ہیں۔ وہ مہینہ جس میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی منشاء یہ ہے کہ کم کھانے کی طرف رغبت پیدا کی جائے اس میں یہ خدا بے خبر سرمایہ دار زیادہ کھانے اور پینے کی طرف دعوت دینے پر کمر بستہ ہوتے ہیں۔

آج کل ٹی وی چینلوں کے افطاری یا سحری کے پروگراموں میں طرح طرح کے کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس طرح ناظرین کو مختلف کمپنیوں کی بنائی ہوئی چیزوں کے استعمال کی ترغیب دی جاتی ہے۔ مذہبی پروگرام سرمایہ داروں کی مصنوعات کی فروخت بڑھانے کے لیے بنائے جا رہے ہیں۔ ان پروگراموں نے رمضان شریف اور روزے کی روح کو پامال کردیا ہے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں غربت و افلاس کی حد سے نیچے رہنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے، جو یقینی طور پر اپنے دستر خوان کو سحری و افطاری کے موقع پر اس طرح سے بھرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی جیسے ٹی وی کی سکرینوں پر یا بہت سے گھروں میں دکھائی دیتا ہے۔ جب اس اہتمام میں نمائش بھی شامل ہوجائے تو الامان والحفیظ کہ اس طرح سے غریبوں اور محروموں کے جذبات مزید پامال ہوجاتے ہیں اور وہ ضرور عرش الٰہی کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوں گے۔ رسول اللہؐ کے روزہ دار گھرانے کی تصویر قرآن حکیم میں یوں پیش کی ہے:
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا O اِِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلاَ شُکُوْرًاO
اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے تو فقط اللہ کی رضا کے لیے تمھیں کھانا کھلایا ہے، ہم تم سے کسی بدلے اور شکریے کی بھی تمنا نہیں رکھتے۔ (دھر:۸و۹)
اس ساری صورت حال میں حکومت کے چند ظاہری اور نمائشی اقدامات کسی ہمہ گیر مثبت نتیجے کا پتہ نہیں دیتے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ عوام کے لیے اس طرح سے سوچیں جیسے ماں باپ اپنی اولاد کے لیے سوچتے ہیں لیکن
 ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
خبر کا کوڈ : 397148
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش