1
0
Saturday 19 Jul 2014 19:15

غزہ کے بے بس مسلمان

یا جیوش الباکستان۔۔۔۔۔۔۔حیالحکم القرآن
غزہ کے بے بس مسلمان
تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی

’’اے افواج پاکستان، قرآن کی حکمرانی کے لیے ہماری مدد کو آو‘‘ یہ پکار تھی ان ہزاروں فلسطینیوں کی جن کو اسرائیلی جنگی جہازوں اور میزائیلوں نے بمباری کرکے اپنے گھروں سے محروم کر دیا ہے، انکے بچوں کو ان سے جدا کر دیا ہے اور وہ بے بسی کی تصویر بنے اپنے مسلمان بھائیوں کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں، مگر ان کی مدد کے لیے کوئی مسلمان ملک تیار نہیں ہے، بلکہ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ان کی حمایت میں کسی مسلمان حکمران کا کوئی قابل ذکر بیان تک نہیں آیا۔ ہمارے وزیراعظم نے فرمایا ’’غزۂ پر اسرائیلیوں کا تشدد ناقابل قبول ہے‘‘ البتہ وزیراعلٰی پنجاب نے قدرے سخت بیان دیا جو قابل تعریف ہے۔ وزیراعلٰی شہباز شریف نے فرمایا ’’اسرائیلی جارحیت قابل مذمت اور ناقابل برداشت ہے۔‘‘ عرب دنیا کو تو سانپ سونگ گیا ہے، غیر یقینی صورت حال کے بادل ان کی بادشاہتوں پر منڈلا رہے ہیں۔ وہ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ نجانے کب انہیں صدام اور قذافی جیسے انجام سے دوچار ہونا پڑ جائے۔ انکی بادشاہتیں متزلزل ہیں۔ اس لیے وہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں کچھ کہنے سے قاصر ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل جو کچھ غزہ میں کر رہا ہے، وہ دو عرب ممالک کی مدد سے کر رہا ہے۔ 

مصر اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کرسکتا ہے، مگر وہ درپردہ اسرائیل کو سپورٹ کر رہا ہے۔ مرسی کو قید میں ڈال کر سیسی کو اقتدار پر براجمان کرنا اس مقصد کے حصول کے لیے تھا۔ سعودی عرب بھی خوش ہے کہ حماس پٹ رہی ہے کہ اس سے ایران مشکل میں پڑے گا کیونکہ عرب دنیا اور عموماً مغربی دنیا بھی حماس کو ایران کی پراپرٹی سمجھتی ہے۔ یہ امت کی نہایت بدقسمتی ہے کہ وہ اپنے باہمی اختلاف کو اس موڑ پر لے گئے ہیں کہ جہاں سے انکی واپسی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوچکی ہے۔ وہ استعمار کے ہاتھوں ایک دوسرے کا نقصان کرا کے بہت مطمئن ہیں۔ یہ کتنی بدقسمتی ہے کہ سعودی عرب، قطر، مصر اور ترکی اپنے آپ کو سنی کہتے ہیں اور حماس بھی سنی تنظیم ہے، مگر وہ اسرائیل کے مظالم کو حماس کے کھاتے میں ڈال کر مسلم خون کو رائیگاں بہانے دے رہے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عرب عوام اپنے حکمرانوں کی طرح نہیں سوچ رہے، انکی تمام تر ہمدردیاں اپنے فلسطینی مظلوم بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ وہ اپنے بھائیوں کی ہر سطح پر مدد کرنا چاہتے ہیں، مگر ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ انکے ضمیر فروش حکمران ہیں، جو اپنی بادشاہتوں کو بچانے کی غرض سے اسلام اور اہل اسلام کو استعمار کے خون خوار بھیڑیوں کے آگے اپنے ہاتھوں سے خود ڈال رہے ہیں۔ یااسفا۔

دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ حماس نے جوابی کارروائی کے طور پر اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب پر 150 راکٹ داغے ہیں تو اس سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بہت تکلیف ہوگئی ہے، اس نے حماس کو وارننگ دی ہے کہ مزید کوئی راکٹ حماس کے مجاہدین کی طرف سے نہیں چلنا چاہیے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اقوام متحدہ یہ چاہتا ہے کہ فلسطینی خاموشی سے یہ ظلم سہتے رہیں اور بغیر کسی جوابی کارروائی کے لقمہ اجل بنتے رہیں۔ شاید اقوام متحدہ کا یہی مقصد ہے کہ مسلمانوں کو جتنا ممکن ہو کمزور کیا جائے، تاکہ وہ امریکہ اور یورپ کے سامنے سر نہ اٹھا سکیں۔ فلسطینیوں کے راکٹوں نے UNO کے سیکرٹری جنرل کو پریشان کر دیا ہے لیکن اسرائیلی مظالم کی وجہ سے عرب لیگ یا OIC کے مزاج پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ کوئی وارننگ کوئی مذمت؟ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ حتی کہ نئے ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ ابو بکر بغدادی صاحب کو بھی اپنے پڑوس میں اسرائیلی بربریت اور ظلم و ستم نہیں دِکھ رہا۔ یہ حضرت جب بھی نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو اسلام کے لیے انہیں سب سے بڑا خطرہ انبیاء و صالحین کے مزارات ہی نظر آتے ہیں اور وہ انہیں مسمار کرنے کے لیے چڑھ دوڑتے ہیں۔ کیا یہی حق خلافت ہے؟ کیا یہی خالد بن ولیدؓ اور محمد بن قاسم ؒ کی سنت ہے؟
 
شامی باغیو! کیا تمہیں میرے فلسطینی بچوں کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی۔ غزہ تمہارے پڑوس میں ہی تو ہے۔ کبھی ان مظلوم بچوں کے پیاسے حلقوں میں اسرائیلی درندوں کی پیوست گولیوں کو ہی دیکھ لو۔ مجھے یقین ہے کہ تم ان مظلوموں کی مدد نہیں کرو گے۔ تمہاری سنیّت کہاں گئی ہے؟ کیا فلسطینی سنی نہیں ہیں؟ ہمیں پتہ ہے تمہارے ذہنوں میں سنیت کا ایک خاص مفہوم ہے۔ یعنی جو امریکہ اور استعمار کا وفادار ہے وہ سنی ہے۔ داعش والوں سے جب پوچھا گیا کہ تمہاری تنظیم نے اسرائیل کے خلاف قیام کیوں نہیں کیا؟ اہل عراق و شام کے قتال کو کیوں ترجیح دی ہے؟ تو جواب فرمایا ’’قرآن نے پہلے منافقین جو عدو قریب ہے اسکا قلع قمع کرنے کا حکم دیا ہے، کیونکہ یہ اصلی کافروں سے بڑا خطرہ ہے۔‘‘ عجیب منطق ہے، یہ خود ساختہ فلسفہ جہاد ہے، قرآن کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ اور ہے۔ سنت مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو یہ ہے کہ منافقین آپ کے ساتھ ہر جنگ میں شریک رہے تھے اور قدم قدم پر نقصان بھی پہنچاتے تھے اور کئی دفعہ ان کے خلاف کارروائی کا مشورہ بھی دیا گیا، مگر کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کفر یہ کہے گا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنوں کو مارنا شروع ہو گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے۔
 
تم نے یہ فلسفہ کہاں سے گھڑ لیا ہے کہ پہلے اپنوں کو مارو اور پھر اسرائیل کی طرف متوجہ ہو؟ اصل بات یہ ہے کہ تمہارا اور اسرائیل کا پرورد (financer) ایک ہی ہے۔ تم ایک ہی مقصد کے حصول کے لیے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہو۔ تم ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچاؤ گے۔ کیا تمہیں اس فلسطینی بچے کی آہ و بکا اسکی مدد پر مجبور نہیں کرتی کہ جس کے باپ کو پولیس تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے اور اسکا بیٹا یابابا، یابابا کی بے بس صدائیں دے رہا ہے۔ مگر یہودی بدمعاش اس کے بابا کو اس کی آنکھوں سے غائب کر دیتے ہیں اور وہ نہایت کسمپرسی کی حالت میں بے یار و مددگار کھڑا ہے۔ اسکی آنکھیں اپنے بابا کا تعاقب کر رہی ہیں او وہ اس صدمے سے زمین پر گر پڑتا ہے کہ اب اسے اپنے بابا کی گود میں اٹھکیلیاں لینا کبھی نصیب نہ ہوگا۔ یہ بچہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اسرائیلی ظالموں سے اپنے بابا کو واپس مانگ رہا تھا جو اسے گاڑی میں بٹھا کر اسکی آنکھوں سے دور لے گئے، کیا اس بچے کی بے بسی نے تمہیں کچھ سوچنے پر مجبور نہیں کیا۔؟

عربوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ عرب بھائی انکی آنکھوں کے سامنے درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں اور وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا اور اس بے حسی کا مظاہرہ عرب پہلے بھی کرچکے ہیں۔ 1982ء میں صابرہ اور شتیلا کے مہاجر کیمپوں کے پناہ گزینوں پر اسرائیل نے مسلسل 48 گھنٹے بارود کی بارش جاری رکھی، جس کے نتیجے میں آٹھ ہزار فلسطینی مسلمان شہید ہوئے۔ 2008ء میں اسرائیلیوں نے 1400 فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ 2010ء میں محصورین کی امداد کے لیے جانے والے بحری جہاز freedom flotilla پر حملہ کرکے اسرائیل نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی اور اس جہاز سے خوراک اور ادویات کو چھین لیا۔ اس جہاز کے سب مسافروں کو قید کر لیا، جن میں پاکستان کے ایک مشہور اینکر پرسن طلعت حسین بھی شامل تھے۔ ان سب مواقع پر عرب حکمرانوں نے ذرا بھی غیرت ملی اور غیرت ایمانی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

آج فلسطینی مسلمانوں کو غزہ میں اسرائیل بحری جہازوں سے سمندر کی طرف سے نشانہ بنا رہا ہے۔ فضائی حملوں سے ایف سولہ اور دیگر جیٹ طیاروں اور میزائیلوں سے نہتے مسلمانوں پر آگ بر سا رہا ہے اور اب ہزاروں ٹینک اس نے غزۂ میں لا کھڑے کئے ہیں اور یہ ٹینک اور توپیں مہیب آگ کے گولے بر سا رہے ہیں۔ اسرائیل ہر طرف سے فلسطینی مسلمانوں کو گھیرے ہوئے ہے اور ان مظلوموں کو کسی طرف سے امداد اور داد رسی کی توقع نہیں ہے۔ جرمنی اور دیگر یورپی ممالک صرف اشک شوئی کر رہے ہیں۔ کیا محض وزرائے خارجہ کی میٹنگ سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا؟ جارحیت مسلسل جاری ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہے اور شہیدوں کی تعداد 300 سے تجاوز کرچکی ہے۔ اقوام متحدہ خاموش، عرب لیگ خاموش اور OIC کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔ کیا ان مظلوموں کی آہ بکا کوئی نہیں سنے گا؟؟ یا وہ یونہی صیہونی قوتوں کی جلائی آگ میں راکھ بنتے رہیں گے؟ اے مسلم حکمرانو! یہ خون بھی تمہاری گردنوں پر ہے۔ تمہیں اس خون ناحق کا جواب دینا ہوگا۔ اس دنیا میں یا پھر قیامت کو۔

اے فلسطینی بھائیو! ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم تم پر ڈھائے جانے والے مظالم پر لرزہ بر اندام ہیں۔ ہمیں بھی یہود وہنود کی ایک خطرناک آگ کا سامنا ہے۔ ہم آپکی چیخ پکار سن رہے ہیں۔ ہماری فوج دہشت گردوں سے نمٹ رہی ہے۔ حوصلہ رکھو! تم نے افواج پاکستان کو مدد کے لیے پکارا ہے، یقیناً وہ صبح ضرور طلوع ہوگی جب جیوش پاکستان تمہاری مدد کو آئیں گی اور تمہیں جبر و استبداد کے پنجوں سے نکالیں گی۔ وقت قریب ہے تم بھی آزادی کا سویرا دیکھو گے اور اے بیت المقدس کے وارثو! تمہاری جدوجہد ضرور رنگ لائے گی اور اسرائیل کے بارود کی خون آشام آندھیوں کے اندر سے بیت المقدس کی آزادی کا سورج طلوع ہوگا، انشاءاللہ۔
خبر کا کوڈ : 400370
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

مفتی صاحب خدا آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، ماشاءاللہ بہت خوبصورت انداز میں تجزیہ کیا ہے، یقیناً "صبح ضرور طلوع ہوگی"
ہماری پیشکش