0
Wednesday 23 Jul 2014 02:00

یوم القدس، مسلم حکمرانوں کیلئے دعوت فکر

یوم القدس، مسلم حکمرانوں کیلئے دعوت فکر
تحریر: منیر چوہدری

دین اسلام نے ظلم کی مذمت اور مظلوم کی حمایت کا عظیم درس نہایت واضح الفاظ میں دیا۔ حتٰی کہ ایمان کے درجات کا تعین بھی ظالم کے خلاف عملی جدوجہد سے کیا ہے۔ یعنی ظلم کو بزور طاقت روکنا ایمان کا پہلا درجہ، اس کے خلاف آواز بلند کرنا ایمان کا دوسرا درجہ اور ظلم کے خلاف کوئی عملی جدوجہد کئے بغیر اسے فقط دل سے برا سمجھنا ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ اسلام کا یہ عظیم درس نہ صرف ملت اسلامیہ کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے بلکہ دنیا بھر کے مظلوم و بے بس انسانوں کے لیے امید کی روشن کرن بھی ہے، لیکن دنیائے اسلام کی موجودہ حالت زار، یہود و نصاریٰ کے مظالم میں پستی اسلام کی بیٹیاں، سامراج کے گولہ بارود کا نشانہ بننے والے نونہال اور ریزہ ریزہ اعضاء پر مشتمل مسلمانوں کے لاشے اس امر کی دلیل ہیں کہ ملت اسلامیہ کے موجودہ حکمران شائد ایمان کے کمزور ترین درجہ سے بھی عاری ہیں۔ جو اتنے ظلم و بربریت کے باوجود لمبی تان کے سو رہے ہیں۔

رمضان المبارک ہر مسلمان کے لیے نہ صرف باعث رحمت و برکت بلکہ جسم و روح اور ایمان کو تروتازہ کرنے و رکھنے کا اہم ذریعہ بھی ہے۔ اسی ماہ مقدس میں بندے کو اپنے رب کا جو قرب حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور ماہ میں ممکن نہیں، چنانچہ ماہ مقدس میں ایمان کی تازگی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دنیا بھر کے مظلومین کی حمایت اور ظالم و ظلم کی نفی اور مذمت کے لیے دامے درمے سخنے ہر مسلمان اپنا عملی کردار ادا کرے۔ فلسطین و کشمیر کے دیرینہ مسائل حل ہونے کے بجائے عراق، افغانستان بھی غاصب قوتوں کے تسلط میں آچکے ہیں۔ لیبیا، بحرین، شام، عراق، سوڈان سمیت دیگر اسلامی ملکوں میں بھی سامراجی طاقتوں نے اپنے مذموم عزائم حاصل کرنے کے لیے آتش و آہن اور ڈالروں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ وطن عزیز پاکستان کی افواج اپنے ہی ملک میں دہشت گردوں سے برسر پیکار ہیں اور دوسری جانب فرقہ واریت کے نام مختلف جماعتوں کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہے۔ اسلامی دنیا کے ان مسائل کے ذمہ دار (امریکہ، اسرائیل اور انکے حواری) ہیں۔ یقیناً اسلامی دنیا کے حکمران اگر ایمان کے کسی بھی درجہ سے منسلک ہوتے تو اسلامی دنیا کو آج ان اذیت ناک مسائل کا سامنا نہ ہوتا کیونکہ کرہ ارض کے وسط میں مشرق وسطٰی کے سینے پر جب اسرائیل جیسی ناجائز اور غیر قانونی ریاست کا وجود عمل میں لایا جارہا تھا تو اس وقت اسلامی حکمران متحد ہوکر فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے اس ظلم کے خلاف بزور شمشیر، زبان و عمل کارروائی کرتے تو آج کرہ ارض کا نقشہ یقیناً تبدیل ہوتا۔

فلسطین کی آزادی کرہ ارض کا وہ واحد مسئلہ ہے، جس نے دنیا کی تین چوتھائی آبادی کو بالواسطہ یا بلا واسطہ اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اسرائیل کرہ ارض کی وہ ناجائز ریاست ہے جس نے نہ صرف فلسطینی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہے بلکہ غیر قانونی ایٹمی و حیاتیاتی ہتھیاروں کا وسیع ذخیرہ جمع کرکے دنیا کے امن کیلئے ایک مستقل خطرہ کا روپ دھار چکا ہے۔ اب تک مغربی ممالک بھی اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ اسرائیلی پالیسیاں صرف اسلامی دنیا کے لیے خطرہ ہیں اور باقی دنیا کو اس سے کوئی خطرہ نہیں، لیکن اسرائیل کی غیر انسانی پالیسیوں کے سبب اب اسلامی دنیا کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا میں بھی خاصی بے چینی پائی جا رہی ہے۔ اسرائیلی جارحیت غزہ میں کئی روز سے موت بن کر برس رہی ہے۔ چھ سو سے زائد بے گناہ مرد و خواتین و بچے اسرئیلی گولہ بارود کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف اسرائیل میں ایک امریکی نثراد نوجوان نے احتجاج کرنے کی کوشش کی تو اسے بھی اسرائیلی فوجیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جاری فضائی اور زمینی حملوں میں جہاں بے گناہ فلسطینی روزہ دار نشانہ بن رہے ہیں، وہاں غزہ کے بیرونی کونے پر واقع اسرائیلی باشندوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور اس مقام کو پکنک پوائنٹ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جب اسرائیلی فوج نہتوں پر اپنا گولہ بارود برساتی ہے تو یہ اذیت پسند ان مناظر کو انجوائے کرتے ہیں، شرابیں پیتے ہیں اور موسیقی کی دھن پر رقص کرکے اپنی فوج کو شاباس دیتے ہیں۔

کیا دنیا بھر کے مسلمانوں کا لہو اتنا سفید ہوچکا ہے کہ اسرائیل کی اس کھلی جارحیت اور وحشیانہ بمباری پر نہیں کھولتا۔ غزہ میں بے گناہ چھ سو سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں بچوں کی تعداد سو سے بھی تجاوز کر گئی ہے، مگر شیطان بزرگ امریکہ کا صدر کہتا ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں، اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے۔ تف ہے مسلم حکمرانوں پر اور موقع پر موجود مسلم سفیروں پر جنہوں نے اوبامہ کو کوئی جواب نہیں دیا۔ اوبامہ کے اس بیان کے بعد کیا اسلامی دنیا میں اتنی بھی غیرت و حمیت نہیں تھی کہ امریکہ کو شارٹ نوٹس جاری کرتے کہ اپنے فوجی اڈے اور ساز و سامان ایک ہفتے کے اندر یہاں سے نکالو۔ مگر سعودی عرب پہلے شام میں حکومت کی تبدیلی کی خواہش کو تو پورا کرلے۔ قطر امریکہ کی مدد سے اپنا دفاع مضبوط کرنے کے لیے امریکہ کو اڈے اور کثیر مالیت سے ڈیفنس سسٹم تو خرید لے۔ داعش اور دیگر جماعتیں پہلے مسلمانوں کی گردنیں کاٹ کر نام نہاد جہاد کا شوق تو پورا کرلیں، حزب اللہ شام کا دفاع تو کرلے۔ امریکہ کے پالتو جنرل سیسی نے پہلے اخوان کی جمہوری حکومت کو گرایا اور اب غزہ کی سرحد بھی مکمل طور پر بند کر رکھی ہے، جبکہ ان حالات میں بھی سعودی عرب اس پر مہربان ہے۔ پتہ نہیں کیوں اسلامی دنیا کے حکمران استعماری ہاتھوں میں چابی کے کھلونے بنے ہوئے ہیں۔

اسرائیل اور امریکہ ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں، اسرائیل نے غزہ کے لاکھوں باسیوں کو محاصرہ میں لے رکھا ہے تو حال ہی میں امریکہ نے ’’یو ایس ایڈ‘‘ کے تحت متاثرین غزہ کو ملنے والی ادویات اور غذا کی محدود امداد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ اسی طرح سلامتی کونسل میں اب تک اسرائیل کے خلاف سب سے زیادہ قراردادیں منظور ہوچکیں ہیں لیکن اسرائیل ان کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ اسرائیل نے بارہا ایسے معاہدات پر بھی دستخط کئے، جن کے تحت وہ فلسطینی علاقوں میں نئی بستیوں کی تعمیر نہیں کرے گا مگر ان معاہدات کے برعکس وہ مسلسل فلسطینی علاقوں کو مسمار کرکے اپنی نئی بستیاں بھی تعمیر کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ رواں ماہ میں اسرائیل نے فلسطینی علاقے میں مزید 200 بستیوں کی تعمیر کے منصوبے پر کام شروع کیا ہے۔

اگر مظالم، جبر و استبداد کے تناظر میں اسرائیلی کردار کو پرکھا جائے تو اس ریاست نے فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کے ایسے پہاڑ ڈھائے ہیں جو ناقابل بیان ہیں۔ لاکھوں فلسطینی بچے، خواتین اور جوان اسرائیل کے مہلک ہتھیاروں کا نشانہ بن چکے ہیں، عالمی برادری اسرائیل کے اس جابرانہ کردار کی صرف اسی لیے پردہ پوشی کرتی ہے کیونکہ اسرائیل کو عالمی دہشت گرد امریکہ کا تحفظ حاصل ہے۔ جو اسرائیل کے تحفظ کی خاطر دنیا بھر میں اپنے شہریوں کی زندگیوں کو خطرات میں ڈال چکا ہے۔ اگر آج دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی بھی امریکی محفوظ نہیں ہے تو اس کی بڑی وجہ اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کی حمایت اور ان کا تحفظ ہے۔

کرہ ارض کی ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام سے قبل بیت المقدس آزاد فلسطین کا مرکز تھا۔ جو تمام عالم کے مسلمانوں کے لیے یکساں متبرک و مقدس ہے، مگر برطانیہ نے 1917ء میں فوج کشی کے ذریعے فلسطین پر قبضہ کیا اور اپنی نگرانی میں قوم یہود کو یہاں آباد کیا۔ رفتہ رفتہ ان کو مضبوط کرکے 1947ء میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا۔ جس کے بعد بیت المقدس اسرائیلی قبضہ میں چلا گیا۔ جو کہ تاحال اسرائیل کے ناجائز و غیر قانونی قبضہ میں ہے۔ آزادی فلسطین کی تحریک تو 1917ء میں ہی جنم لے چکی تھی مگر حضرت امام خمینی نے اس تحریک کی حمایت اور بیت المقدس کی آزادی کو امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیکر اس تحریک کو ایسی جلا بخشی جو کہ عصر حاضر میں ایک الاؤ کا روپ دھار چکی ہے۔

امام خمینی انبیاء و اولیاء کی تعلیمات کا ترجمان بن کر ابھرے، انھوں نے ظلم و جبر کے خلاف بے دھڑک کلمہ حق ادا کیا اور ہر مظلوم کی حمایت میں لب کشائی کی۔ انھوں نے اتحاد بین المسلمین کو تمام مسائل کا حل اور فرقہ واریت کو ساری مصیبتوں کی جڑ قرار دیا۔ انھوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ بیت المقدس کی صہیونی شکنجہ سے آزادی تک روئے زمین کا کوئی بھی مسلمان چین سے نہیں بیٹھے گا۔ انھوں نے اسرائیل کو سر زمین اسلام میں ناسور قرار دیا اور واضح کیا کہ مشرق وسطٰی میں قیام امن کے لیے اسرائیل کے وجود کا خاتمہ ضروری ہے۔ انھوں نے ہمیشہ اسرائیل کی ظلم و بربریت کی مذمت کی اور تمام تر اسرائیلی جرائم کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا۔ انھوں نے بیت المقدس کی آزادی کے لیے تمام مسلمانوں کو متحد ہونے کی دعوت دی اور رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیا۔

عالم اسلام میں جمعۃ الوداع کے تقدس اور احترام کی وجہ سے اسے بھرپور عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن سیاسی و دینی بصیرت کا آئینہ دار ہے۔ موجودہ دور میں ہر درد دل رکھنے والے مسلمان کے لیے یہ انتہائی اذیتناک ہے کہ سامراجی قوتیں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ فرقہ واریت اور نظریاتی اختلافات کا ناسور اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے جا رہا ہے۔ جو کہ یقیناً امام خمینی کی تعلیمات سے روگرانی اور امریکہ و مغربی ممالک سے وقتی مفادات کی خاطر ان کی پالیسیوں کی حمایت کی وجہ سے ہے۔ یوم القدس کے موقع پر جب تمام عالم کے مسلمان بلاامتیاز متحد ہوکر بیت المقدس کی آزادی کا مطالبہ اور اسرائیل کے ناجائز و غیر قانونی وجود کے خاتمہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور عظیم الشان مظاہر ے برپا کرتے ہیں تو اس وقت عالمی سامراج کو اپنی اور اپنی پالیسیوں کی واضح شکست دکھائی دیتی ہے۔ یوم القدس آزادی فلسطین کے ساتھ تجدید عہد کا دن ہے۔

مظلوم کی حمایت کا عظیم درس جو اسلام نے دیا ہے، جمعۃ الوداع (یوم القدس) اس درس کے حقیقی عمل کا دن ہے۔ چنانچہ ہر مسلمان کا یہ شرعی فریضہ ہے کہ رمضان المبارک کے آخری نماز جمعہ کے بعد امریکہ و اسرائیل کے خلاف ہونیوالے اجتماعات، مظاہروں اور ریلیوں میں بھرپور شرکت کرے، تاکہ وہ قوتیں جو مسلمانوں کو منتشر کرکے اسلام کو کمزور کرنے کی ناپاک سازشوں میں مصروف ہیں، ان پر بھی واضح ہوجائے کہ مسلمان آج بھی القدس کی آزادی کے لیے یکجان ہیں۔ فلسطین کی آزادی اور ناجائز و غیر قانونی ریاست اسرائیل کے خاتمہ تک ان کی یہ جدوجہد متفقہ طور پر جاری رہے گی۔ القدس کے پروگراموں میں شرکت سے ہی دنیا کو یہ پیغام دیا جاسکتا ہے کہ فلسطینی تنہا نہیں ہیں اور ان کی جدوجہد کے ساتھ پورا عالم اسلام کھڑا ہے۔ مظلوم کی حمایت کا اور ظلم کی مذمت کا یوم القدس کا یہ عملی درس نہایت عظیم ہے۔ جس پر عملدرآمد سے ہی ملت اسلامیہ اپنے مسائل پر قابو پاسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 400964
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش