1
0
Saturday 26 Jul 2014 23:25

غزہ حملہ اور گریٹر گیم

غزہ حملہ اور گریٹر گیم
تحریر: سلمان رضا
salmanrazapk@gmail.com


سرزمین شام میں جب آج سے تقریباً تین سال قبل دہشت گردانہ کارروائیوں کا آغاز ہوا تو رائے عامہ منقسم تھی۔ ایک حلقہ اسے عرب بہار (جو کہ درحقیقت اسلامی بیداری تھی) کا تسلسل قرار دے رہا تھا جبکہ دوسرا طبقہ بشمول ہم اسے فلسطین کے لیے موجود دفاعی قوت پر کاری ضرب قرار دے رہے تھے۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ اسلامی بیداری سے خوفزدہ ہوکر امریکہ، اسرائیل اور خائن عرب حکمرانوں نے ایک گریٹر پلان بنایا ہے اور اس پلان کے تحت شام و عراق میں دہشت گردی درحقیقت اسرائیل کے تحفظ کے لیے شروع کی گئی ہے اور جب شام داخلی انتشار کا شکار ہوگا تو اُس کی بغل میں بیٹھا اسرائیل جو پوری اُمت مسلمہ کا دشمن ہے، سکھ کا سانس لے سکے گا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں جب کبھی میں اپنے دوستوں (جن کا تعلق مختلف مکاتب فکر سے تھا) سے شام کے مسئلے پر بحث مباحثہ کرتا اور اس پہلو کی طرف توجہ دلاتا کہ شام میں جاری مسلح کارروائیاں یا دہشت گردی درحقیقت فلسطینی دفاعی بلاک کو توڑنے کے لیے کی جارہی ہیں تو ان میں سے اکثر میرے موقف کو ٹھٹھہ مذاق میں اُڑا دیتے۔ ان کا موقف یہ ہوتا کہ تم فکر نہ کرو، جب خطے میں موجود "جہادی" افراد ان علاقوں کو فتح کرلیں گے تو اسرائیل کی جرأت ہی نہیں ہوگی کہ کسی فلسطینی پر ایک پتھر بھی پھینک سکے اور دوسرا یہ کہ ان "جہادیوں" کا نہائی ہدف فلسطین کی آزادی ہی ہوگا۔ میرے اصرار پر وہ کہتے کہ اگر یہ "مجاہدین" اپنی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب نہ بھی ہوسکے تو ان افراد کی اسرائیل کے گرد موجودگی بھی کسی نعمت سے کم نہیں، کیونکہ خطے میں ان کی موجودگی کے دوران اگر اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کبھی جنگ شروع کی تو یہ افراد سب کچھ چھوڑ کر اسرائیلیوں کو نابود کرنے مصر کے صحرائے سینا اور اردن کی سرحد پر پہنچ جائیں گے اور اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ 

آج میں پچھلے دو ہفتوں سے ان دوستوں کی طرف درد بھری آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ آخر وہ "مجاہدین" کہاں ہیں، جن کو آپ فلسطین کا فطری دفاع تعیبر کرتے تھے۔ کیا ان "مجاہدین" کی نظر میں شام و عراق میں بسنے والے شہری اور فوجی، اسرائیلی صیہونی فوجیوں سے بڑے دشمن ہیں کہ وہ اس چھوٹے دشمن سے اعتناء برت رہے ہیں یا ان کی نظر میں غزہ میں بہنے والا خون جو کبھی کسی نہتے شیر خوار بچے کی شہ رگ سے بہتا ہے تو کبھی کسی غیرت مند باپردہ خاتون کے جسم سے بہتا ہے، اتنا بے ارزش ہے کہ یہ ان کی مدد کے لیے مصنوعی بیان تک نہیں دیتے۔ کیا ان مظلوم فلسطینیوں کی پکار ان کے کانوں تک نہیں پہنچتی کہ یہ عین ان ایام میں کہ جب بے بس نہتے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا چکا ہے، یہی "مجاہدین" پوری شدت کے ساتھ عراق و شام کے نہتے عوام اور یہاں کی محب وطن فوج کا قتل عام کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ یا یہ ماننا پڑے گا کہ یہ "جہادی" یا "مجاہدین" اسی اسرائیل و امریکہ کے دیہاڑی دار مزدور ہیں، یا ان عرب کاسہ لیس حکمرانوں کے وفادار ہیں، جو اسرائیل کے ساتھ اسرائیلی دفاع کے کھلے عام یا درپردہ معاہدے کیے بیٹھے ہیں۔ نہیں معلوم کہ میرے ان دوستوں کی نگاہوں کے سامنے سے پردہ اُٹھا کہ نہیں، لیکن میرے اور اسلامی دنیا میں بسنے والے بے شمار لوگوں کے لیے یہ بات وہم و گمان سے ایقان کا درجہ حاصل کرگئی کہ 2011ء میں اُٹھنے والی بیداری اسلامی کی تحریک کو کچلنے کے لیے ہی اس شوم مثلث (امریکہ، اسرائیل اور عرب حکمران) نے شام و عراق میں ان "جہادیوں" کو لاکر بسایا تھا، تاکہ ان کے مشترکہ مفادات اور خطرات کا مداوا کیا جاسکے۔

جب شام میں شروع ہونے والی مسلح دہشت گردانہ کارروائیوں کا آغاز ہوا تو رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے اپنے خطابات میں اسے فلسطین کے دفاع کے لیے موجود مزاحمتی بلاک کے خلاف ایک سازش قرار دیا تھا۔ اس وقت یہ مؤقف کسی خاکے کا ایک ٹکڑا دکھائی دیتا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس خاکے میں بقیہ رنگ بھی بھرتے گئے اور آج اس گریٹر گیم کا نقشہ اظہر من الشمس ہے اور غزہ پر ہونے والا تازہ حملہ (اپنی ٹائمنگ کے اعتبار سے) اس خاکے کو مکمل کر دیتا ہے۔ ذہنوں کو قریب کرنے کے لیے ماضی قریب کی ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ جب 14 فروری 2005ء میں لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق الحریری کو قتل کیا گیا تو اس اسرائیلی سازش کا الزام شامی حکومت پر دھر کر رائے عامہ کو ہموار کیا گیا کہ شام لبنان کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے اور یہاں پر موجود شامی فوجیں جو اسرائیل کے خلاف لبنانی دفاع کے نام پر موجود ہیں، انہیں یہاں سے نکل جانا چاہیے، پھر بین الاقوامی دبائو کے نتیجے میں بشار الاسد کو اپنی فوج کو جو درحقیقت خود لبنانی عوام کے دفاع کے لیے لبنان میں موجود تھی، اسے لبنان سے نکالنا پڑا۔
 
لیکن اگلے ہی سال اسرائیل نے غزہ پر ایک بہانے سے حملہ کر دیا کیونکہ اسرائیل جانتا تھا کہ لبنان سے شامی فوجیں نکل گئی ہیں اور لبنانی بارڈر سے خطرہ اب کمزور ہوگیا، لیکن جب حزب اللہ نے غزہ میں بسنے والے مظلوم فلسطینیوں کی صدا کو سنا تو انہوں نے ان کے دفاع کے لیے اپنا سینہ پیش کیا اور اپنے باڈر پر جنگ کا نیا محاذ کھول دیا، اس پر جب اسرائیل نے جنگ کا رُخ پوری شدت کے ساتھ لبنان کی موڑ دیا تو مجھے یاد ہے کہ ایک معروف پاکستانی صحافی حامد میر جو اِن دنوں لبنان میں رپورٹنگ کر رہا تھا، اس نے اہلسنت کے ایک علاقے میں انٹرویوز کئے تو وہاں موجود جوانوں نے کہا کہ آج سے ایک سال قبل جب رفیق الحریری کو قتل کیا گیا تو ہم سب نے شامی فوجوں کو لبنان سے نکالنے کے لئے مظاہرے کئے اور ہم بشار الاسد کو اس قتل کا ذمہ دار سمجھ رہے تھے، لیکن آج ہمارے لیے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہم غلطی پر تھے اور درحقیقت یہ اسرائیل کی گریٹر گیم تھی، جس میں ہم ٹریپ ہوگئے کہ پہلے لبنان سے شامی فوجوں کو نکالا، تاکہ اس کا دفاع کمزور ہو اور پھر بعد میں ایک ایک کرکے پہلے حماس اور پھر حزب اللہ کا خاتمہ کرسکے۔
 
البتہ یہ الگ بات ہے کہ حزب اللہ کے حسینی جوانوں نے اپنے خون سے ایک نئی تاریخ رقم کی اور اسرائیل کے دانت کھٹے کر دیئے، لیکن ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے اور نتیجہ بھی پھر وہی ہوتا ہے، جو آج ہمیں نظر آرہا ہے۔ اگر ہم لبنان کی اس مثال کا آج کے حالات کے ساتھ تقابل کریں تو اس گریٹر گیم کی گتھیاں سلجھتی نظر آتی ہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور عرب حکمران یہ جانتے تھے کہ اسرائیل کو خطے میں اگر کسی سے خطرہ ہے تو ایران، حزب اللہ اور شام سے ہے اور جب کبھی اسرائیل نے مظلوم و نہتے فلسطینیوں پر حملہ کرنا چاہا تو اسی متذکرہ مثلث نے اس کا دفاع کیا، کبھی وہ دفاع خود جنگ کا رُخ اپنے سینے کی طرف کرکے، کبھی حماس و جہاد اسلامی کی دفاعی، مالی، اخلاقی و سفارتی امداد کرکے تو کبھی اس دفاعی و حریت والی فکر کو افریقہ سے لے کر لاطینی امریکہ تک پھیلا کر فلسطینی کاز کی حمایت اور اسرائیل و امریکہ کے خلاف نفرت کے شعلے کو جَلا بخش کر۔ 

لہٰذا اب کی بار اول الذکر شوم مثلث یعنی امریکہ، اسرائیل و عرب حکمرانوں نے ان تینوں ممالک کے لیے مشکلات کھڑی کرنا شروع کیں، شام میں دنیا بھر سے لا کر دہشت گرد بسائے گئے اور ان کو اسلحہ، پیسہ حتٰی جنسی ہوس کے لیے جہاد النکاح کی امداد تک بہم پہنچائی گئی اور یہ سب اسلام کے نام پر کیا گیا۔ پھر جب شام اس الجھن میں گرفتار ہوگیا تو اگلا مورچہ لبنان کو قرار دیا گیا اور یہ دہشت گرد اپنی مکروہ سازشیں لیے قصیر کے محاذ پر حزب اللہ کے ساتھ برسرپیکار ہوگئے۔ اس کے بعد مزاحمتی مثلث کے اصل مرکز ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے عراق میں واپس آئے اور ایران کے بارڈر کو آخری مورچہ بنانے کی تیاری کرنے لگے۔ عراق میں دو شہروں پر قبضہ کرنا درحقیقت ایران کو عراق میں الجھانے کی غرض سے تھا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات اور کثیر شیعہ آبادی کی وجہ سے عراق فطری طور پر ایران کے لیے انتہائی اہم ہے، دیگر عراق میں سازشوں کے جال پھیلانا درحقیقت یہاں بسنے والی شیعہ آبادی کو مزاحمتی مثلث سے دور رکھنے کے لیے بھی ضروری تھا، کیونکہ عراق میں بسنے والی حکومت تمام تر مشکلات کے باوجود مزاحمتی مثلث یعنی ایران، حزب اللہ اور شام سے انتہائی قریب تھی اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اگر عراق میں شوم مثلث کی دہشت گردانہ کارروائیاں تھم گئیں اور عراق کو سنبھلنے کو موقع مل گیا تو فطری طور پر عراق مزاحمتی مثلث کو مزاحمتی مربع میں تبدیل کردے گا یعنی اس مربع کے آئندہ چار ارکان ہونگے، ایران، حزب اللہ، شام اور عراق۔ 

اسی لیے ان چاروں کو داخلی انتشار میں الجھا کر ٹائمنگ کا بھرپور احساس کرتے ہوئے 12 جون کو تین یہودی اسرائیلی لڑکوں کو خود اغوا کرکے یہ خبر نشر کی گئی کہ ان لڑکوں کو حماس نے اغوا کیا ہے اور پھر چند دنوں بعد ان کی تشدد زدہ لاشیں سرحدی علاقے میں پھینک کر قتل کا الزام حماس پر دھر دیا گیا، جیسے لبنان میں رفیق الحریری کے قتل کا الزام شام پر دھر دیا گیا تھا اور اس دن سے آج تک غزہ کے باسیوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ اگر خطے میں بسنے والے مسلمان گریٹر گیم کا ادراک پہلے کر لیتے تو شاید آج یہ نوبت نہ آتی۔

یہاں اشارةً دو باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلی تو یہ کہ شوم مثلث یعنی امریکہ، اسرائیل و عرب حکمران بھی پچھلے تین سالوں میں مثلث سے تقریباً مربع میں تبدیل ہوچکے ہیں اور ان کا چوتھا رکن ترکی ہے اور شام کی جنگ میں ترکی کا کردار انتہائی قابل مذمت ہے۔ دوسری یہ کہ حماس نے شام کی جنگ کے دوران خود کو مزاحمتی بلاک سے علیحدہ کرتے ہوئے عرب حکمرانوں کی طرف توقعات وابستہ کرلیں تھیں اور اپنے تمام دفاتر اپنے حقیقی حلیف و دوست ملک شام سے قطر منتقل کرلئے تھے۔ آج حماس کو کھلی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ کرنا چاہیے کہ وہ عرب حکمران آج کہاں کھڑے ہیں اور آئندہ ہمیں عطار کے لونڈوں سے دوا نہیں لینی چاہیے، جن کے سبب اُمت مسلمہ بیمار ہوئی ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح کر دوں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ خطے میں اس شوم مثلث کے خطرات بھی مشترک ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ عرب حکمرانوں کے اقتدار کو بھی اسلامی بیداری سے خطرہ ہے اور مزاحمتی بلاک سے نکلنے والی شعور کی شعاعیں ہی درحقیقت اسلامی بیداری کے نور کو جَلا بخش رہی ہیں، اور اگر خدانخواستہ مزاحمتی بلاک کمزور ہوتا ہے تو امریکہ، اسرائیل اور خائن عرب حکمران تبھی مزید سانسیں لے سکتے ہیں۔

اگر آج بھی امت مسلمہ ہوش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے حقیقی دوستوں اور دردمندوں کو پہچانے اور اپنے جلی و حفی دشمنوں کی شناخت کرتے ہوئے خود کو ان سے الگ کرلے، ہر تعصب کی عینک خواہ وہ علاقائی ہو، نسلی ہو یا مسلکی، اتار کر اسلامی اقدار پر کاربند قوتوں کے بلاک میں شامل ہوجائے اور پھر اس مزاحمتی بلاک کی ساری توانائیاں امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف ہو جائیں تو ہم اپنی آنکھوں سے اسرائیل کو نابود اور امریکی و مغربی مفادات کو بحیرہ احمر میں غرق ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ اگر اسرائیل حزب اللہ 2006ء کی جنگ میں چند ہزار حزب الٰہی جوانوں نے 33دن میں اسرائیل کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا تھا تو آج اگر امت مسلمہ وحدت و اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کی جانب جہاد کا عَلم بڑھائیں تو امام خمینی کے اس جملے کی عملی تفسیر ہوجائے گی کہ "اگر تمام مسلمان ایک ایک بالٹی پانی بھی اسرائیل کی طرف بڑھائیں تو اسرائیل اس میں بہہ جائے گا۔" یا دوسرے لفظوں میں سید حسن نصراللہ کے اس جملے کی حقانیت ثابت ہوجائے گی کہ "خدا کی قسم اسرائیل کا وجود ایک مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔"
خبر کا کوڈ : 401684
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

wonderful analysis mashallah
ہماری پیشکش