QR CodeQR Code

امریکی بین الاقوامی حکمت عملی…اہم نکات

15 Oct 2010 21:29

اسلام ٹائمز:ہمارے خیال میں تو امریکہ کی تاریخ بہت ساری غلطیوں سے بھری پڑی ہے۔جاپان پر ایٹم بم داغنے کی غلطی،ویت نام پر حملے کی غلطی،عراق پر یلغار کی غلطی اور افغانستان پر حملے کی غلطی! انہوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا


تحریر:لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم
1988-89ء میں Yuli Vorontsov افغانستان میں سوویت یونین کے سفیر تھے۔انہوں نے کہا ہے کہ 1979ء میں سوویت یونین کا افغانستان پر حملہ ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ہمارا مقصد افغانیوں کی مدد کرنا نہیں بلکہ امریکیوں کو افغانستان میں گھسنے سے روکنا تھا اور یہ مقصد بہترین سفارتکاری سے حاصل ہو سکتا تھا۔سفیر یولی نے کہا:
"It was decided to go for the surgical method of dealing. with the situation and in doing so we ended up inflicting a surgical wound on ourselves."
یعنی ہم صورتحال کا مقابلہ ایک چھوٹے آپریشن سے کرنا چاہتے تھے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ہم خود زخمی ہو گئے۔1979ء میں جب سوویت یونین افغانستان پر حملہ آور ہوا،اس وقت Yuliہندوستان میں سفیر تھا۔وہ کہتا ہے کہ افغانستان پر سوویت یونین کی چڑھائی کے سلسلے میں اس نے بہت تحقیق کی ہے اور اس کے خیال میں اس غلط فیصلے کی تین وجوہات تھیں۔
(1) سوویت انٹیلی جنس کی یہ غلط خبر کہ امریکن افغانستان میں ایک فوجی اڈہ بنانا چاہتے ہیں اور انکے کچھ لوگ پہلے ہی جلال آباد میں موجود ہیں۔بعد میں پتہ چلا کہ جلال آباد میں موجود کچھ امریکن انجینئرز تھے جو زراعت اور آبپاشی سے متعلق افغانستان کی مدد کرنا چاہتے تھے،فوجی اڈہ بنانے کا ان کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
(2) افغانی صدر کی امریکی سفیر سے لگاتار ملاقاتوں نے بھی سوویت سیاسی قیادت کے شکوک میں اضافہ کر دیا۔سوویت افواج افغانستان پر حملہ کرنے کے حق میں نہ تھی،لیکن سیاسی قیادت امریکہ سے خائف تھی۔
(3) سوویت کمیونسٹ قیادت کو یہ بھی ڈر تھا کہ امریکہ سوویت یونین کے اردگرد گھیرا تنگ کرتا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں اس کو پاکستان کی مدد بھی حاصل ہے۔سفیر کے خیال میں یہ دونوں باتیں غلط تھیں اور اگر ہم سفارتی سطح پر شور مچاتے تو یہ شکوک دور ہو جاتے اور جنگ کی ضرورت پیش نہ آتی۔
دوسری طرف امریکہ کے موجودہ سیکرٹری ڈیفنس رابرٹ گیٹس جو اس وقت بریزنسکی کیساتھ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کونسل میں تھے،کہتے ہیں کہ ہم افغانستان میں مجاہدین کو صرف لاجسٹک سپلائی اور ہتھیاروں کی ترسیل میں مدد دے رہے تھے،زمینی جنگ اور مختلف حملوں کا افغانستان کے مجاہدین اور پاکستان کو زیادہ پتہ تھا۔رابرٹ گیٹس کہتے ہیں کہ امریکہ کو یہ بالکل امید نہ تھی کہ سوویت یونین افغانستان میں فوجیں اتار دیگی۔سوویت یونین کے اس عمل نے ہمیں حیران کر دیا۔چونکہ سوویت یونین کی معاشی بدحالی، افغانستان کی مشکل ترین سرزمین،مسلمان ممالک کی افغانستان کیلئے متوقع حمایت اور مجاہدین کی بہترین لڑاکا صلاحیتیں،ایسے عناصر تھے کہ سوویت یونین افغانستان میں لڑائی کے بغیر صرف حکومتی تبدیلی تک کے مقاصد حاصل کر سکتی تھی۔رابرٹ گیٹس کے خیال میں سوویت افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد افغانیوں کی مدد نہ کر کے امریکہ نے بہت بڑی غلطی کی تھی۔
قارئین! ہمارے خیال میں تو امریکہ کی تاریخ بہت ساری غلطیوں سے بھری پڑی ہے۔جاپان پر ایٹم بم داغنے کی غلطی،ویت نام پر حملے کی غلطی،عراق پر یلغار کی غلطی اور افغانستان پر حملے کی غلطی! انہوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔سرد جنگ کے بعد امریکہ مندرجہ ذیل چھ اسٹریٹجک مقاصد کی روشنی میں اپنی خارجہ پالیسی کو چلا رہا ہے۔
(1) اسرائیل کی سکیورٹی اور اس کا دفاع۔
(2) اسلام کے پرچار کو روکنا اور کسی بھی مسلمان ملک کو ایک مضبوط معاشی و ایٹمی طاقت بن کر دنیا کے نقشے پر نہ ابھرنے دینا۔ (3) دنیا کی توانائی کے ذخائر پر مکمل کنٹرول۔
(4) بین الاقوامی تجارتی راستوں کو اپنی گرفت میں رکھنا۔
(5) معاشی اور عسکری لحاظ سے مضبوط،چوٹی کے بین الاقوامی حریف روس کیخلاف گھیرا تنگ کرنا۔
(6) چین کی بہترین معاشی صورتحال کے باوجود،فوجی لحاظ سے اس کو بین الاقوامی کھلاڑی نہ بننے دینا۔
قارئین! ان مقاصد کی تکمیل کی خاطر امریکہ عراق،کویت،بحرین، خلیج فارس اور افغانستان میں موجود ہے۔یہی وجہ ہے وہ گوادر کو چین کے حوالے کرنے کا مخالف ہے۔یہی وجہ ہے اس کو ایٹمی پاکستان سوٹ نہیں کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایران میں حکومتی تبدیلی چاہتا ہے۔ان ہی مقاصد کی خاطر وہ ہندوستان کو چین کے مقابلے میں مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ان ہی وجوہات کی بدولت فلسطین، عراق،افغانستان اور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی سے امریکہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔
بین الاقوامی سطح کے ان معاملات کے صحیح ادراک کے بعد ہی ہماری سیاسی قیادت اپنی خارجہ پالیسی کی صحیح سمت کا تعین کر سکتی ہے،لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم ایک بے مقصد اندرونی جنگ میں بہت بری طرح ملوث ہو چکے ہیں۔اس اندوہناک صورتحال سے جان چھڑانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے قانون کی حکمرانی!،اعلیٰ عدالتیں بے خوف انصاف پر مبنی صحیح فیصلے کریں۔ ہر وہ شخص جو قانون کی نگاہ میں مجرم ہے اس کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے،خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت یا طبقۂ فکر سے کیوں نہ ہو! عدالتوں کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کیلئے پوری قوم اور افواج پاکستان کی سو فیصدی مدد میسر رہے۔ اس طرح فوراً گندی مچھلیاں قانون کے جال میں پھنس کر پاکستان کے پاکیزہ تالاب سے باہر ہو جائیں گی اور پھر نئی سیاسی قیادت ابھرے گی اور سسٹم بھی چلتا رہے گا۔دیانت دار اور محب وطن قائدین امریکہ کے آگے لیٹنے کی بجائے ملکی مفادات کی خاطر ہر قربانی دینگے۔انکے دل میں امریکہ کا نہیں،بلکہ صرف رب کریم کا خوف ہو گا اور وہ مال و زر کی ہوس سے پاک ہونگے۔اللہ کے بندوں کی ہمیشہ یہ دعا ہوتی ہے۔
مجھے مال و زر کی ہوس نہ ہو
مجھے بس رزق حلال دے
میرے ذہن میں تیرا فکر ہو
میری سانس میں تیرا ذکر ہو
تیرا خوف میری نجات ہو
سبھی خوف دل سے نکال دے
"روزنامہ نوائے وقت"


خبر کا کوڈ: 40405

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/40405/امریکی-بین-الاقوامی-حکمت-عملی-اہم-نکات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org