0
Wednesday 20 Aug 2014 09:10

حماس سے داعش کی دشمنی کیوں؟

حماس سے داعش کی دشمنی کیوں؟
تحریر: سرباز روح الله رضوی
Roohulla@gmail.com

’’ہم اسلامی نظام کی اس عمارت کو اپنی لاشوں پر تعمیر کریں گے اور اس میں حدود الهی جاری کرکے شریعت اسلامی کے احکام نافذ کریں گے، تاکہ ایک بار پهر اس زندگی اور اسلام کا مزه چکھ لیں، ہم اپنے پروردگار سے عهد و پیمان کرتے ہیں کہ اس کے اوامر کی اطاعت کریں گے اور جس چیز سے ہمیں پرہیز کرنے کو کہا گیا ہے، اس سے دوری اختیار کریں گے۔‘‘ یہ "عبداللطیف موسٰی" کے خطبہ کا ایک اقتباس تها جو اس نے جمعہ 14 اگست 2009ء کو غزه پٹی کے جنوب میں واقع شہر رفح کی "مسجد ابن تیمیہ" میں بیان کیا ہے، عبداللطیف موسٰی جو "ابوالنور المقدسی" کے نام سے مشہور تها، نے ایک ایسی حالت میں "الاماره الاسلامیه فی اکناف بیت المقدس" کی موجودگی کا اعلان کیا اور خود کو اس کے پہلے امیر کے عنوان سے پیش کیا جبکہ "جند انصار الله" نامی انتہا پسند مسلح اور سیاه پوش جنگجو اس کے منبر کے دونوں طرف کهڑے تھے۔

"جند انصار الله" ایک انتہا پسند تکفیری جہادی تحریک تهی، جس کی موجودگی کا اعلان 2008ء میں غزه پٹی کے شهر رفح میں کیا گیا، اس تحریک نے اسرائیل کے ساتھ غزه پٹی کی 22 روزه جنگ کے دوران اعلان کیا کہ جس طرح صہیونی کافر ہیں، اسی طرح حرکت مقاومت اسلامی (حماس) بهی کافر ہے اور اس لحاظ سے ان دو کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے! "جند انصار الله" کا حماس کی تحریک کے ساتھ دشمنی کا بہانہ ان کا شریعت اسلامی کو نافذ کرنے کا دعویٰ تها اور "جند انصار الله" نے حماس پر اس سلسلہ میں سہل انگاری اور آرام طلبی کا الزام لگایا اور کہا کہ حماس سیکولر حکومتوں کے مشابہ بن گئی ہے، ان اختلافات کی وجہ سے ان کے درمیان مسلح لڑائی بهی چهڑ گئی اور جولائی 2009ء میں پہلی بار حماس کی پولیس اور "جند انصار الله" کے چند اراکین کے درمیان مڈبهیڑ ہوئی، اگرچہ جند انصار الله نے اسرائیل کے خلاف محدود پیمانے پر چند کارروائیاں بهی کیں اور انہوں نے ان کارروائیوں میں شکست کهائی، لیکن دوسری جانب انهوں نے فحشا کو روکنے کے بہانے کافی نیٹ جیسے بعض عمومی اماکن میں بم کے دهماکے کئے۔

اس گروه کی طرف سے "عبداللطیف موسٰی" کی قیادت میں اسلامی نظام کی تشکیل کے اعلان کے ضمن میں، ان کے حامیوں نے شہر رفح کی "مسجد ابن تیمیہ" کو اپنی مسلح سرگرمیوں کے مرکز میں تبدیل کیا اور بارودی سرنگوں اور دوسرے اسلحوں سے لیس ہو کر مسجد کے اندر مورچے سنبهالے، حماس نے ردعمل کے طور پر "مسجد ابن تیمیہ" کا محاصره کرکے "جند انصار الله" کے ارکان کو ہتهیار ڈال کر اپنے آپ کو حماس کے حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن انهوں نے اس سے انکار کیا، حماس نے عزالدین قسام بریگیڈ کی ایک نامور شخصیت محمد جبریل الشمالی کی ثالثی کے ذریعہ مذکوره مسلح گروه کو سمجھانے کی کوشش کی، محمد جبریل مذاکره کرنے کی غرض سے مسجد میں داخل ہوئے، لیکن اس انتہا پسند گروه نے انہیں گولی مار کر قتل کر دیا، سات گهنٹے کی دوطرفہ شدید گولہ باری کے نتیجہ میں مسجد مسمار ہوگئی اور مسجد کے اندر مورچہ سنبهالے ہوئے "جند انصار الله" کے تمام اراکین قتل ہوگئے، اس لڑایی میں عبداللطیف موسٰی بهی اسی گروه کے ایک رکن کے خودکش حمله کے نتیجہ میں مارا گیا، یہ واقعہ حماس کے انتہا پسند تکفیری جہادی گروه کے ساتھ اختلافات کے عروج کا سبب بنا، انتہا پسند تکفیری جہادی تنظیمیں اس واقعہ کو "مجاہدین کے قتل عام" کے عنوان سے یاد کرتی ہیں، جن کے ساتهی اس وقت عراق، صومالیہ اور افغانستان میں برسر پیکار تهے، برسوں کے بعد شام کے بحران میں داعش کی مداخلت کے نتیجہ میں غیر ملکی جنگجووں کی ایک بڑی تعداد ان سے جا ملی، جو محدودے چند انتہا پسند تکفیری فلسطین سے داعش کے ساتھ ملے، انہوں نے اپنے لئے "ابوالنور المقدسی بریگیڈ" کا نام منتخب کیا۔

حماس اور انتہا پسند تکفیری جہادی تحریکوں کے درمیان اختلاف کی وجہ ان دو تحریکوں کی فکری مبانی کا سرچشمہ ہے، حماس فلسطین میں اخوان المسلمین تحریک کی شاخ شمار ہوتی ہے، اور اگرچہ سلفی رجحانات اور مسلح جہاد کا اعتقاد رکهنے کے لحاظ سے تکفیری تحریکوں کے مشابہ ہے، لیکن اس تحریک کے اسلحہ کا نشانہ صہیونی دشمن ہیں، ستم ظریفی کا مقام ہے کہ آج انتہا پسند تکفیری جہادی تحریک کا اصلی حصہ، کفار سے مبارزه اور جہاد کرنے کا قائل ہونے کے بجائے اپنے زعم کے مطابق شرک و فساد سے امت اسلامیہ کو پاک کرنا واجب جانتا ہے، اسی لیے یہ لوگ اس وقت تک اسرائیل سے جہاد کرنے کے سلسلہ میں ترجیح کے قائل نہیں ہیں، جب تک ان کے بقول امت اسلامیہ میں گمراه فرقے اور فاسد حکام موجود ہوں، جبکہ وه اس حقیقت سے غافل ہیں کہ جس چیز کو وه دین خدا میں شرک و گمراہی جانتے ہیں، وه دین خدا کے بارے میں ان کی کج فهمی اور تنگ نظری کا نتیجہ ہے اور امت اسلامیہ میں فاسد اور کٹھ پتلی حکام کا سرچشمہ امریکہ اور اسرائیل ہے، اس قسم کا طرز تفکر حالیہ جنگ غزه کے دوران، داعش کی موجودیت کے اعلان کے ابتدائی مہینوں میں، طشت از بام ہوا، جب حماس، صہیونی دشمن کے خلاف جہاد و مبارزه کے عروج پر تها، "داعش" نے غزه کے واقعات کے بارے میں نہ صرف کسی ردعمل کا مظاہره نہیں کیا، بلکہ فلسطینیوں کے مذکوره جہاد کو ناجائز قرار دیا۔

اس کے علاوه یہ انتہا پسند تکفیری جہادی گروه اپنے اسلاف کی پیروی کرنے کے دعوے کے ضمن میں اس امر کے قائل ہیں کہ جہاد امیر کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے اور چونکہ فلسطین اور غزه امیر سے عاری ہیں، اس لئے وہاں پر صہیونی دشمن سے جہاد کرنا بهی جائز نہیں ہے، یہی طرز تفکر اس امر کا سبب بنا کہ اس گروه نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اسلامی حکومت کی تشکیل کے ضمن میں، امیر و خلیفہ کا بهی اعلان کیا، اس قسم کے طرز تفکر کا دعویٰ کرنے والے ایک مصری رہبر "طلعت زهران" نے اس بنا پر حماس کے اسرائیل سے جہاد و مبارزه کے بارے میں کئے گئے ایک سوال کے جواب میں اس جہاد کو بے بنیاد اور بے فائده قرار دیا ہے، حالانکہ ان افراد کی انتہا پسندانہ سلفیت، جس کے وه قائل ہیں، آج کی دنیا میں سلف کے قالبوں میں متحقق ہونی چاہیئے تهی، جبکہ بہت سے مواقع پر ان کی بظاہر اسلامی صورتیں اسلامی روح و حقیقت سے خالی ہیں۔

اس کے مقابلے میں حماس کی تحریک نے انتہا پسند تکفیری جہادی تحریکوں کے ساتھ اپنے اختلافات کی وجوہات کا اعلان کیا ہے، حماس کے سیاسی دفتر کے بین الاقوامی تعلقات کے مسئول "اسامہ حمدان" نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ: "وحدت اسلامی کی ضرورت کے بارے میں حماس کا موقف مکمل طور پر اظهر من الشمس ہے، ہم امت واحده ہیں اور اس امت کو اپنے دشمنوں کے مقابلے میں متحد ہونا چاہئے، جو فرقہ پرستی کی آگ کو بھڑکاتا ہے، وه حقیقت میں اپنے ہی گهر کو نذر آتش کرتا ہے، اسلامی امت کے خرمن میں آگ لگاتا ہے، ہم حماس میں اس کے قائل ہیں کہ ہماری اصلی جنگ اسرائیل کے ساتھ ہے، جن کی امریکہ حمایت کرتا ہے اور ہمارا حقیقی مبارزه و جہاد اسی غاصب حکومت سے ہے، جو شخص اسلامی ملت اور مسلمانوں کا ہمدرد ہے اور ان کا مدافع اور اس امت کی مصلحتوں اور منافع کو متحقق کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسے صہیونی دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے کے لئے عملی میدان میں قدم رکهنا چاہیئے، کیونکہ بنیادی جنگ بالکل یہیں پر ہے۔"

اسی طرح ایران میں حماس کے نماینده ڈاکٹر خالد قدومی نے اپنے ایک بیان میں انتہا پسند اسلامی گروہوں اور حماس کے بعض افراد کے داعش سے رابطہ کے بارے میں حماس کی تحریک کے موقف کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ: "ممکن ہے کہ ماضی میں گروه داعش کے کچھ افراد حماس میں تهے کہ وه اس تحریک سے الگ ہوئے ہوں، لیکن حماس میں کبهی انتہا پسند طرز تفکر موجود نہیں تها، ہماری دلی تمنا ہے کہ داعش کو مسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹهانے کے بجائے صہیونیوں کو نشانہ بنانا چاہیئے۔"

حماس اور انتہا پسند تکفیری جہادی تحریکوں کے درمیان اعتقادی اختلافات سے صرف نظر کرتے ہوئے، حماس کے حزب الله اور ایران پر مشتمل محور مقاومت کے ساتھ شام کے حالیہ بحران کے بارے میں نظریاتی اختلاف کے باوجود قریب ہونا، ایک ایسا امر تها، جس پر ہمیشہ انتہا پسند تکفیری جہادی تحریکیں شدید طور پر تنقید کرتی تهیں، اسلامی جمهوریہ ایران، مغربی ایشیا کے ایک طاقتور ترین ملک اور عالم تشیع کے محور کے عنوان سے تنها حکومت تهی، جس نے باقاعده طور پر حماس کی مسلح مقاومت کا کهل کر دفاع کیا اور گذشتہ سے بہتر صورت میں کسی خوف و ہراس کے بغیر فلسطینیوں کو مسلح کرنے کا منصوبہ پیش کیا، اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر آیت الله سید علی خامنہ ای نے اس سال عیدالفطر کے خطبوں میں بیان فرمایا کہ: "امریکہ کے صدر جمہوریہ نے فتویٰ صادر کیا ہے کہ مقاومت کو غیر مسلح کیا جانا چاہیئے! جی ہاں، معلوم ہے کہ آپ انہیں غیر مسلح کرنا چاہتے ہیں، تاکہ تمام ظلم و بربریت کے مقابلے میں جو وه ضرب لگاتے ہیں، نہ لگا سکیں، ہم عرض کرتے ہیں کہ اس کے برعکس تمام دنیا، خاص طور پر عالم اسلام کا فرض ہے کہ جس قدر ممکن ہوسکے ملت فلسطین کو مسلح کرنے میں مدد کریں

حماس بهی اس حقیقت سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ تنها محور مقاومت جس میں سرفہرست ایران ہے، جو طبی اور غذائی امداد کے علاوه مقاومت کو اسلحہ کے لحاظ سے بهی تقویت بخشتا ہے، اخوان المسلمین کی تقریبی (اتحاد مسلمین) پالیسی پر مبنی طرز تفکر، جس کی بنیاد امام حسن البنا اور دوسری شخصیتوں نے ڈالی ہے اور وہ اس کی تاکید فرماتے تھے، جس کے پیش نظر اصلی دشمنوں یعنی امریکہ اور اسرائیل کے مقابلے میں امت اسلامیہ میں اتحاد و یکجہتی ضروری ہے۔ غزه کی جنگ اور فلسطین کے مسئلہ نے حق و باطل کو واضح اور روشن کر دیا اور ثابت کیا کہ صرف قیام، جہاد، ترک دنیا اور سرحدوں سے عاری وطن پرستی قابل قدر نہیں ہے، جو قیام اور جہاد امت اسلامیہ کی کمر توڑ کر اسلام کے دشمنوں کو تقویت بخشنے والا ہو، نہ صرف کوئی قدر و منزلت نہیں رکهتا ہے بلکہ ملامت کا مستحق ہے، ایران کے نامور شاعر حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے کہ
"نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند"
ہر سر منڈوانے والا قلندر نہیں ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 405182
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش