QR CodeQR Code

اردن، غاصب صیہونی رژیم کا امین محافظ

26 Aug 2014 18:05

اسلام ٹائمز: اردن کے سابق بادشاہ ملک حسین اپنی ملکی اور علاقائی پالیسیوں کے اجرا کیلئے اخوان المسلمین کو استعمال کرتے تھے۔ وہ جب بھی یہ احساس کرتے تھے کہ سیاسی میدان میں گوشہ نشینی کا شکار ہو گئے ہیں تو اخوان المسلمین کو آگے لے کر آتے اور جب بھی یہ دیکھتے کہ اب انہیں اس تنظیم کی کوئی خاص ضرورت نہیں تو اسے دیوار سے لگا دیتے۔ اس وقت بھی اخوان المسلمین اردن میں ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر پہچانی جاتی ہے لیکن حکومت کی طرف سے شدید دباو کا شکار ہونے کے ناطے کسی قسم کی مزاحمت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ عصر حاضر میں اخوان المسلمین اردن کو حماس کی ذیلی شاخ سمجھا جاتا ہے جس کا بنیادی ہدف حماس کی مدد اور معاونت کرنا ہے۔ اردن کے موجودہ بادشاہ ملک عبداللہ دوم نے اخوان المسلمین پر کڑی نگرانی لگا رکھی ہے جس کا مقصد اسے حماس کے ساتھ مل کر اسرائیل کی صہیونی رژیم کیلئے کسی خطرے کے طور پر ابھر کر سامنے آنے سے روکنا ہے۔


تحریر: ڈاکٹر ہانی زادہ

اردن کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر امریکہ، اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے اس نے اب تک صہیونیستی رژیم کے سچے محافظ کے طور پر کردار ادا کیا ہے اور فلسطینی مجاہدین کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی ہے۔ خطے سے متعلق اردن کی پالیسیاں ہمیشہ سیاسی ماہرین کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ حال ہی میں اردن کی حکومت نے عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی بیٹی کو اپنے ملک میں ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں سے پرہیز کرنے کی وارننگ جاری کی ہے اور اس طرح ملک میں بعث پارٹی سے وابستہ مرکزی عناصر کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے۔ اردن ایک ایسا ملک ہے جو امریکہ اور سعودی عرب کی دی ہوئی مالی امداد کے بل بوتے پر چل رہا ہے لہذٰا خطے میں ان کی پالیسیوں کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ اس تحریر میں خطے سے متعلق اردن کی پالیسیوں اور مستقبل کی خارجہ پالیسی کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 
 
اردن کی خارجہ پالیسی کا تاریخی پس منظر:

ملک حسین نے اپنی زندگی کے دوران 30 بار اسرائیل کا دورہ کیا اور بن گورین، اسحاق رابن، شیمون پرز، موشے دایان، الون اور گولڈ مائر جیسے اسرائیلی رہنماوں سے ملاقات کرتے ہوئے خفیہ مذاکرات انجام دیئے۔ یہ مذاکرات صرف اور صرف اسرائیل کی قومی سلامتی کے تحفظ میں اردن کے کردار کے بارے میں تھے۔ اس وقت اردن اقتصادی میدان میں بہت کمزور تھا اور ملکی امور چلانے کیلئے امریکہ، مغربی ممالک اور اسرائیل سے مالی امداد حاصل کیا کرتا تھا اور اس مالی مدد کے عوض فلسطینی مجاہدین کو اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی سرگرمی سے باز رکھتا تھا۔ ستمبر 1970ء کو فلسطینی تاریخ میں بلیک ستمبر کا نام دیا جاتا ہے چونکہ اس مہینے میں اردن کے بادشاہ ملک حسین نے یاسر عرفات کی سربراہی میں اردن میں مقیم فلسطینی مجاہدین کے خلاف ایک بڑا آپریشن انجام دیا۔ اردن کی سلطنتی فوج نے اس آپریشن میں تقریبا 15 ہزار فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسی وقت ملک حسین فلسطینی رہنماوں کو قتل کروانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے ملک حسین اور یاسر عرفات کے درمیان اختلافات کو کم کر دیا اور اس طرح مصر اور سوڈان کے صدور مملکت اور کویت کے نمائندے کی موجودگی میں دونوں فریقین میں صلح کا معاہدہ طے ہو گیا۔ اس کے بعد ملک حسین نے فلسطینی مجاہدین کو اسرائیل کے خلاف ہر قسم کی سرگرمی سے روک دیا۔ ملک حسین کی وفات کے بعد ان کا بیٹا ملک عبداللہ دوم نے اردن میں اقتدار سنبھالا اور اپنے باپ کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ لہذٰا اردن اپنی خارجہ پالیسیوں میں مکمل طور پر امریکہ، اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے زیر اثر ہے اور اسرائیل کا امین محافظ سمجھا جاتا ہے جو فلسطینی مجاہدین کو اسرائیل کے خلاف اپنی سرزمین استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ 
 
اردن کی خارجہ پالیسی میں فلسطینیوں کا کردار:
اردن کی آبادی کا بڑا حصہ فلسطینی مہاجرین پر مشتمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اردن کی آبادی کا 60 فیصد حصہ فلسطینی نژاد شہری تشکیل دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سے دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ملک میں لاکھوں فلسطینی شہریوں کی موجودگی کے باعث اردن کی حکومت فلسطینییوں کے ساتھ متضاد پالیسیاں اختیار کرنے سے گریز کرتی ہے اور انہیں اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ 
 
اردن کی سلطنتی حکومت کے خلاف سب سے بڑی اپوزیشن جماعت اخوان المسلمین کو سمجھا جاتا ہے۔ اردن میں سرگرم اخوان المسلمین کو مصر میں موجود اخوان المسلمین کی شاخ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اخوان المسلمین کی تحریک ایک ایسی تحریک ہے جس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور اردن میں اس کی اکثر سرگرمیاں مخفیانہ طور پر انجام پاتی ہیں۔ اردن میں اخوان المسلمین زیادہ تر معاشرتی سرگرمیوں میں شریک ہے اور اسی طرح پارلیمنٹ کے الیکشن میں بھی حصہ لیتی ہے۔ اردن کے سابق بادشاہ ملک حسین اپنی ملکی اور علاقائی پالیسیوں کے اجرا کیلئے اخوان المسلمین کو استعمال کرتے تھے۔ وہ جب بھی یہ احساس کرتے تھے کہ سیاسی میدان میں گوشہ نشینی کا شکار ہو گئے ہیں تو اخوان المسلمین کو آگے لے کر آتے اور جب بھی یہ دیکھتے کہ اب انہیں اس تنظیم کی کوئی خاص ضرورت نہیں تو اسے دیوار سے لگا دیتے۔ اس وقت بھی اخوان المسلمین اردن میں ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر پہچانی جاتی ہے لیکن حکومت کی طرف سے شدید دباو کا شکار ہونے کے ناطے کسی قسم کی مزاحمت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ عصر حاضر میں اخوان المسلمین اردن کو حماس کی ذیلی شاخ سمجھا جاتا ہے جس کا بنیادی ہدف حماس کی مدد اور معاونت کرنا ہے۔ اردن کے موجودہ بادشاہ ملک عبداللہ دوم نے اخوان المسلمین پر کڑی نگرانی لگا رکھی ہے جس کا مقصد اسے حماس کے ساتھ مل کر اسرائیل کی صہیونی رژیم کیلئے کسی خطرے کے طور پر ابھر کر سامنے آنے سے روکنا ہے۔ 
 
گذشتہ 3 سال کے دوران اردن کی خارجہ پالیسی پر ایک نظر:
گذشتہ چند سالوں سے عرب دنیا میں اسلامی بیداری کی تحریک نے جنم لیا ہے۔ اردنی حکومت کی جانب سے عرب ممالک میں اسلامی بیداری کی تحریک کو انتہائی منفی انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔ اردن نے 25 جنوری 2011ء میں مصر میں سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے خلاف کامیاب ہونے والی انقلابی تحریک کو ہر گز قبول نہ کیا اور اخوان المسلمین کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا رہا۔ مصر میں جنرل عبدالفتاح السیسی کی جانب سے صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد اردن اور مصر میں تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہو گئے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اردن اسلام پسند عناصر کے بارے میں زیادہ مثبت نگاہ کا حامل نہیں اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کرے۔ لہذٰا ملک عبداللہ دوم بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام پسند عناصر کو اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے ایک پتے کے طور پر استعمال کرتا آیا ہے۔ 
 
شام کے بحران سے متعلق اردن کی خارجہ پالیسی:
گذشتہ چند عشروں خاص طور پر 1970ء سے جب شام میں مرحوم حافظ اسد برسراقتدار آئے، شام اور اردن کے درمیان ہمیشہ سے سیاسی تنازعات موجود رہے ہیں۔ 1967ء میں اسرائیل کے خلاف عرب ممالک کی پہلی جنگ کے دوران ہی اردن کے بادشاہ ملک حسین نے شام اور شامی قوم کے خلاف غداری کا ثبوت دیتے ہوئے مصر اور شام سے متعلق تمام جنگی معلومات اور نقشے اسرائیل کو فراہم کر دیئے۔ اردن کی یہ غداری 1967ء کی 8 روزہ جنگ کے دوران جاری رہی۔ اردن کے اس اقدام نے شام کی قوم اور سیاسی رہنماوں میں اس کے خلاف شدید غم و غصہ پیدا کر دیا۔ اس وقت حافظ اسد شام کے وزیر دفاع تھے اور شام کے خلاف ملک حسین کے تمام اقدامات کا نزدیک سے مشاہدہ کر رہے تھے۔ لہذٰا جب 1970ء میں حافظ اسد ملک کے صدر بنے تو اردن اور شام میں موجود کشیدگی بھی اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ اسی وجہ سے اگلے چند سالوں کے دوران ملک حسین کی یہ کوشش رہی کہ وہ اخوان المسلمین کو شام حکومت کے خلاف استعمال کرے لہذا اس تنظیم کے ذریعے شام میں بدامنی اور بحران پھیلانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس طرح 1999ء میں ملک حسین کی وفات تک شام اور اردن کے تعلقات شدید تناو کا شکار رہے۔ 
 
گذشتہ چند سالوں کے دوران شام سے متعلق اردن کی پالیسیاں شدید دوغلے پن کا شکار رہی ہیں۔ جب بھی اردن نے یہ محسوس کیا کہ شام میں صدر بشار اسد کی حکومت تکفیری دہشت گرد عناصر کو شکست دینے اور ان کا قلع قمع کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں تو اس نے شام حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے لیکن جب اردنی حکومت نے یہ احساس کیا کہ تکفیری دہشت گرد عناصر کا پلڑا بھاری ہو رہا ہے تو فورا ان کی حمایت شروع کر دی۔ شام سے متعلق عمان کی سیاست انتہائی منافقانہ اور مبہم رہی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اردن نے مختلف دہشت گرد گروہوں جیسے داعش اور النصرہ فرنٹ کے ساتھ انتہائی گہرے تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ اردن کی حکومت ان دہشت گرد گروہوں کی بھرپور حمایت اور مدد کرنے میں بھی مصروف ہے۔ اردن کی پالیسی درحقیقت امریکہ اور مغربی قوتوں کے تابع ہے۔ یعنی جب وہ چاہیں اردن ان دہشت گرد گروہوں کی بھرپور مدد کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اصل میں اردن کی خارجہ پالیسی کا تمامتر دارومدار امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے مفادات پر ہے اور خطے کے دوسرے ممالک میں موجود مسائل اور مشکلات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ 
 
عراق سے متعلق اردن کی خارجہ پالیسی:
جب اردن کے سابق بادشاہ ملک حسین نے اپنے اہم ترین مالی سپورٹر یعنی شاہ ایران کو کھو دیا تو متبادل کے طور پر اس کا جھکاو عراق کے ڈکٹیٹر صدام حسین کی طرف پیدا ہو گیا۔ صدام حسین نے بھی اردن کی دل کھول کر مدد کی جس کے مقابلے میں اردن نے ایران کے خلاف جنگ میں عراق کو بھرپور فوجی اور انٹیلی جنس مدد فراہم کی۔ جب عراق نے ایران پر فوجی حملہ کیا تو ملک حسین وہ پہلے صدر اور بادشاہ تھے جنہوں نے ایران کی جانب پہلا گولہ فائر کیا۔ ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدام حسین اور ملک حسین بذات خود ایران کے سرحدی علاقوں کو توپوں کے ذریعے گولہ باری کا نشانہ بناتے تھے۔ عراق اور اردن کے درمیان یہ قریبی تعلقات صدر صدام حسین کی سرنگونی تک جاری رہے۔ 
 
اس وقت چونکہ عراق پر ایک شیعہ حکومت برسراقتدار ہے جس کے ایران سے دوستانہ تعلقات استوار ہیں لہذٰا اردن کے موجودہ بادشاہ ملک عبداللہ دوم کے عراقی حکومت کے ساتھ تعلقات تناو کا شکار ہیں۔ موصولہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران اردن میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اور سابق بعث پارٹی سے وابستہ عناصر اور اردن کے انٹیلی جنس حکام کے درمیان مسلسل میٹنگز کا سلسلہ جاری ہے اور اردن کی حکومت عراق کے خلاف ان دہشت گرد گروہوں کی مدد میں مصروف ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران اردن اور بغداد کے تعلقات میں بعض اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ عراق میں صدر صدام حسین کی سرنگونی کے بعد شیعہ اور کرد برسراقتدار آ گئے جس کے نتیجے میں عراق اور اردن کے تعلقات بھی خراب ہو گئے۔ اس وقت عراق سے فرار ہونے والے سابق بعث پارٹی سے وابستہ عناصر کی اکثریت اردن میں مقیم ہے جو وہاں بیٹھ کر عراق کے خلاف سیاسی سرگرمیاں اور دہشت گردانہ اقدامات انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح اردن کی حکومت نے گذشتہ کئی ماہ سے عراقی حکومت کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔
 
سعودی عرب سے اردن کے تعلقات:
سعودی عرب اور اردن کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے شکوک و شبہات اور ابہامات کا شکار رہے ہیں اور دونوں ممالک یعنی اردن اور سعودی عرب ایکدوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان آج تک کوئی باقاعدہ مشترکہ ہالیسیاں تشکیل نہیں پا سکیں۔ اس عدم اعتماد کی بنیادی وجہ عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدر صدام حسین کی جانب سے کویت پر فوجی حملے اور قبضے سے مربوط ہے۔ 1990ء میں جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا تو سعودی عرب نے اردن کے سابق بادشاہ ملک حسین اور صدر صدام حسین کے درمیان دشمنی اور فاصلہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن ملک حسین نے ان کوششوں کے برخلاف کویت پر عراقی قبضے کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اس وقت سے اردن اور سعودی عرب کے تعلقات شدید کشیدگی اور تناو کا شکار ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان اختلافات کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ لیکن خطے کی صورتحال کے پیش نظر سعودی عرب بعض اوقات اردن سے قریب ہو جاتا ہے اور پھر دوبارہ اس سے دوری اختیار کر لیتا ہے۔ 
 
خلیج تعاون کونسل اور اردن کے درمیان تعلقات:

ماضی میں اردن کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ رسمی طور پر خلیج تعاون کونسل کا رکن بن جائے لیکن اسے اس تنظیم کے بعض عرب رکن ممالک کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ اس مخالفت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اردن میں بےتحاشا افرادی قوت موجود ہے جس کی وجہ سے خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر اردن اس تنظیم کا رکن بن جاتا ہے تو بڑے پیمانے پر اس کے شہری خلیج عرب ریاستوں میں کام کی تلاش کیلئے داخل ہو جائیں گے جو مقامی افراد کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لہذا بعض عرب ریاستیں اردن کو اس تنظیم کی رکنیت عطا کئے جانے کی شدید مخالف ہیں۔ دوسری طرف انہیں یہ خوف بھی لاحق ہے کہ اگر اردن میں سلطنتی نظام سرنگونی کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں اخوان المسلمین کے برسراقتدار آنے کا امکان ہے۔ لہذا وہ اردن کو رسمی طور پر خلیج تعاون کونسل کا رکن بننے کی اجازت نہیں دیتے۔ 
 
ترکی کے ساتھ اردن کے تعلقات:
شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی حمایت پر مبنی پالیسیوں نے اردن اور ترکی کو ایک مورچے میں لا کھڑا کیا ہے۔ لہذٰا شام میں سیاسی بحران کے آغاز سے ہی اردن اور ترکی کے تعلقات میں تیزی سے بہتری آئی ہے۔ دونوں ممالک شام میں مشترکہ اہداف رکھتے ہیں جن میں سے ایک بنیادی ہدف صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ترکی میں رجب طیب اردگان کی حکومت کے دوران اردن اور ترکی کے تعلقات تاریخ کی بلندترین سطح پر آن پہنچے ہیں۔ دونوں ممالک شام میں سرگرم حکومت مخالف مسلح عناصر کی بھرپور حمایت اور مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ 
 
ایران اور اردن کے تعلقات:
ایران میں امام خمینی (رہ) کی سربراہی میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل اردن کا بادشاہ ملک حسین بہت زیادہ ایران کے دورے کرتا تھا اور شاہ ایران کے ساتھ اس کے گہرے مراسم تھے۔ اسی طرح ایران کا بادشاہ رضا شاہ بھی اردن کی دل کھول کر مالی مدد کیا کرتا تھا لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران کی طرف سے اردن کو دی جانے والی مالی مدد ختم ہو گئی۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اردن بھی ایران سے دور ہو گیا۔ سابق بادشاہ ملک حسین کے دور میں وہ جب بھی یہ احساس کرتا تھا کہ اردن سیاسی میدان میں گوشہ نشینی کا شکار ہو رہا ہے تو فورا ایران سے قربتیں بڑھانا شروع کر دیتا۔ ملک عبداللہ دوم نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک بار ایران کا دورہ بھی کیا جو او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کیلئے انجام پایا۔ 
 
نیٹو سے متعلق اردن کی خارجہ پالیسیاں:

حقیقت یہ ہے کہ جب بھی نیٹو نے لاجسٹک حوالے سے اردن کے بادشاہ ملک عبداللہ دوم سے تعاون کی اپیل کی ہے اردن نے اپنے تمام وسائل نیٹو کے اختیار میں دے دیئے ہیں۔ لہذٰا گذشتہ تین سال اور چار ماہ سے شام میں جاری بدامنی اور سیاسی بحران کے دوران اردن نے مسلسل شام میں سرگرم دہشت گرد عناصر کو نیٹو کی جانب سے فوجی ٹریننگ دی ہے۔ اسی طرح اردن کی فوج میں امریکی اور برطانوی فوجی افسروں کی بھرمار ہے جو گذشتہ تین برس سے تکفیری دہشت گرد گروہ "داعش" سے وابستہ عناصر کو فوجی ٹریننگ مہیا کر رہے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اگرچہ اردن رسمی طور پر نیٹو کا رکن ملک نہیں لیکن غیررسمی طور پر نیٹو کی مدد کرنے والا سب سے بڑا ملک شمار ہوتا ہے۔ 
 
اردن کی آئندہ خارجہ پالیسیاں:
اردن کی خارجہ پالیسیاں تقریبا مستقل اور غیر متغیر ہیں۔ ہر قسم کی اسلامی تحریک کی مخالفت اور ہر ایسے اقدام کی مخالفت جو کسی طرح اسرائیل کی صیہونی رژیم، امریکہ یا مغربی طاقتوں کے مفادات کیلئے خطرہ تصور کیا جائے، اردن کی پالیسیوں کا مستقل حصہ ہے۔ اسی طرح ہر ایسے گروہ یا جماعت کی مخالفت جو اسرائیل کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ ثابت ہو بھی اردن کی بنیادی پالیسیوں میں شمار کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردن امریکی ریاستوں میں سے ایک ریاست ہے۔ مسئلہ فلسطین سے متعلق اردن اور امریکہ کی خارجہ پالیسیوں میں ذرہ بھر فرق موجود نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اردن اپنی عوام کے رجحانات اور ملک میں موجود فلسطینی مہاجرین اور اخوان المسلمین کے حامیوں سے خوفزدہ ہونے کی بنا پر کھلم کھلا اپنی پالیسیوں کا اظہار نہیں کر پاتا۔ اردن کی حکومت انہیں وجوہات کی بنا پر بعض اوقات انتہائی دھیمے لہجے سے مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل مظالم کی مذمت کرنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔ 


خبر کا کوڈ: 406768

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/406768/اردن-غاصب-صیہونی-رژیم-کا-امین-محافظ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org